• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ملک کی سب سے بڑی عدالت سے گزشتہ روز دو اہم مقدمات میں ایسے فیصلے صادر کیے گئے ہیں جو ہماری قومی سیاست پر دور رس نتائج مرتب کرنے کا سبب بنیں گے۔ تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان اور اسی پارٹی کے سیکریٹری جنرل جہانگیر ترین کے خلاف مسلم لیگ (ن) کے رہنما حنیف عباسی کی جانب سے دائر کی گئی پارلیمنٹ کی رکنیت کے لیے نااہل قرار دیے جانے کی درخواستوں پر سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کی سربراہی میں تین رکنی بنچ نے اپنے متفقہ فیصلے میں عمران خان پر لگائے گئے بددیانتی اور اثاثے چھپانے کے الزامات کو مسترد کردیا جبکہ جہانگیر ترین کو اثاثے چھپانے اور عدالت میں بھی غلط بیانی سے کام لینے کامرتکب قرار دے کر پارلیمنٹ کی رکنیت کے لیے تاحیات نااہل قرار دے دیا۔تاہم پارٹی فنڈنگ کے حوالے سے جسے سپریم کورٹ میں مقدمے کا حصہ بنایا گیا تھا عمران خان کے سر پر تلوار اب بھی لٹک رہی ہے کیونکہ سپریم کورٹ نے اس بارے میں مبینہ طور پر دو جھوٹے سرٹیفکیٹس کے الزام کو الیکشن کمیشن کے فیصلے سے مشروط کرتے ہوئے واضح کیا ہے کہ اگر الیکشن کمیشن نے غیر ملکی فنڈنگ کے الزام کے حق میں رائے دی تو پھر جھوٹے سرٹیفکیٹس کے معاملے کا فیصلہ مجاز عدالت کرے گی۔ جبکہ سابق وزیر اعظم نواز شریف، وزیر اعلیٰ پنجاب شہباز شریف، حمزہ شہبازاور خاندان کے بعض دیگر ارکان کے خلاف حدیبیہ پیپر ملز کیس دوبارہ کھولنے کے لیے قومی احتساب بیورو کی اپیل کو جسٹس مشیر عالم کی سربراہی میں قائم تین رکنی بنچ نے اپنے مختصر فیصلے میں مسترد کردیا کیونکہ فیصلے کی رو سے نیب کی جانب سے کوئی نیا ثبوت پیش نہیں کیا جاسکا جس کی بنیاد پر اس کیس میں ہائی کورٹ کے فیصلے کو معطل کرکے کیس از سرنو کھولا جاتا۔فیصلے کی تفصیلی وجوہات بعد میں جاری کی جائیں گی۔ شریف خاندان اور مسلم لیگ (ن) کی جانب سے حدیبیہ کیس نہ کھولے جانے اور جہانگیر ترین کو نااہل قرار دیے جانے پر اطمینان کا اظہار کیا جارہا ہے لیکن عمران خان کو نااہل قرار نہ دیے جانے پر نکتہ چینی ہورہی ہے ۔ دوسری طرف عمران خان جو نااہلی سے بچ جانے پر عدالتی فیصلے سے خوش ہیں، حدیبیہ پیپرملز کے فیصلے پر بے اطمینانی ظاہر کررہے ہیں اور جہانگیر ترین کے خلاف آنے والے فیصلے پر بھی مطمئن نہیں ۔ تاہم خود جہانگیر ترین نے پارٹی میں اپنے عہدے سے مستعفی ہونے کا فیصلہ کرلیا ہے اور سیاست ترک کرنے پر بھی اپنے احباب سے بات چیت شروع کردی ہے لیکن عمران خان نے انہیں عہدے پر کام جاری رکھنے کی ہدایت کی ہے اوران کی نااہلی کے فیصلے پر نظر ثانی کی اپیل کرنے کا اعلان کیا ہے۔ بلاشبہ عدالتی فیصلے صحیفہ آسمانی نہیں ہوتے اور آئین و قانون کی روشنی میں ان کا جائزہ لیا جانا اور جائز سوالات کا اٹھایا جانا معاشرے کے مکمل تعاون کے ساتھ قانون کی بالادستی کے لیے ماحول کو سازگار بنانے میں کلیدی کردار ادا کرتا ہے۔ ہماری اعلیٰ عدلیہ کے ماضی کے متعدد اہم فیصلے جن میں نظریہ ضرورت کو بنیاد بنایا گیا تھا، آج خود عدالتی اور قانونی حلقوں میں بالاتفاق درست نہیں سمجھے جاتے اور یہی عمل عدلیہ کی موجودہ خودمختاری، شفافیت ، غیرجانبداری اور بے لاگ انصاف کی بنیاد بنا ہے۔ اس کے باوجود متعلقہ فریقوں اور ان کے حامیوں کی جانب سے’’ میٹھا میٹھا ہپ اور کڑوا کڑوا تھو‘‘ کا طرز عمل ہرگز مثبت نہیں کہلاسکتا ۔ عدالتی فیصلوں کو محض اپنے مفادات کے ترازو میں نہیں تولا جانا چاہیے بلکہ ان کا جائزہ خالصتاً میرٹ کی بنیاد لیا جانا چاہیے۔ قومی سیاست پر ان فیصلوں کا یہ مثبت اثر تو بہرحال فوری طور پر رونما ہوگا کہ انتخابی امیدوار آمدنی اور اثاثوں کے گوشواروں میں ہیر پھیر سے کام لینے سے گریز کریں گے اور یوں سیاست میں دیانت داری کو فروغ ملے گا۔ تاہم احتساب کے اس دائرے کو محض سیاستدانوں تک محدود رکھے جانے کے بجائے دوسرے ریاستی اداروں اور قومی زندگی کے تمام شعبوں تک وسیع کیا جانا چاہیے تاکہ پورا معاشرہ لوٹ کھسوٹ اور دجل و فریب کی لعنتوں سے پاک ہوسکے جس کے بغیر ترقی کے ثمرات کبھی بھی عوام الناس تک نہیں پہنچ سکتے ۔

تازہ ترین