• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پروفیسر منظر ایوبی

دنیا میں اُن قوموں کا وجود سدا قائم رہتا ہے، جو اپنے پُرکھوں اور آباء و اجداد کے کارہائے نمایاں اور ناقابلِ فراموش خدماتِ جلیلہ کے حوالےسے انہیں ہمیشہ یاد رکھتی ہیں۔ ہر قوم اپنی زندہ اور روشن تاریخ پر فخر کرتی ہے،بالخصوص نئی نسلوں کی آگہی میں اضافہ اور قومی و ملی شعور کی بیداری میں اہم کردار ادا کرتی ہیں۔ ’’تحریک ِپاکستان میں اہل ِقلم کا کردار‘‘ کے عنوان سےایک مختصرمضمون نذر قارِئین ہے۔

سرِد دست ہماری گفتگو ’’اہلِ قلم‘‘ سے ہے۔ کیا انہوں نے اپنی روایتی تاریخ سے انحراف کیا؟ اورورثے میں پانے والی ذمہ داریاں نہیں نبھائیں؟ اکابرین اور بزرگوں کی تقلید کے فرائض انجام نہیں دیے؟ نہیں ، ایسا کچھ نہیں ہے، لیکن اگر معاشرے کا نادان طبقہ ایسا کچھ سمجھتا ہے تو ہم اُسےقیام ِپاکستان 1947ء میں اردو اہلِ قلم کی ریاست اور قومی ذمہ داریوں کے حوالے سے ان کی خدمات انجام دینے کے پورے منظر نامہِ سے آپ کو آگاہ کرتے ہیں۔

اردو ادب کی تاریخ (بشمول عہدِ تذکرہ نگاری) اس امر کی مظہر ہے کہ امیر خسرو سے لے کر تادمِ تحریر 25.20 برس دورانیےکا، کوئی دور ایسا نہیں، جس میں اردو ادبا،و شعراء، نثر نگار اور عام قلم کاروں کی اکثریت نے اپنے عصری رجحانات ، اقتضائے اوقات، تحریکات ِرواں اور مطبوعاتِ زماں سے اغماض برتا ہو، خواہ ان کا عہد خالص آمرانہ، ِجاگیردارانہ، سرمایہ دارانہ ،ہو یا جمہوری نظامِ حکومت کا حامل! ہر قسم کے طرزِ حکمرانی میں اہلِ قلم نے نہایت عزم و حوصلے ، بے باکی اور جرات مندی کےساتھ نہ صرف اپنے ادیبانہ فرائض بطریق ِاحسن انجام دیے ،بلکہ معاشرے کے دیگر طبقوںکی طرح رفاہی و فلاحی کاموں میں اپنی ذہنی و فکری صلاحیتوں کا حصہ ڈالتے رہے۔ حیاتِ اجمتاعیہ کی اعلیٰ اخلاقی اقدار کی پاسداری، صداقت و نیکی اور حق کی سر بلند کی خاطر باطل قوتوں سےنبردآزمائی زمانی میں عوام و خواص کے قدم باقدم زندگی کا ارتقائی سفر طے کرتےرہے۔

قرن ہا قرن تک اہل قلم کی خامہ فرسائی کا جاریہ انداز ا،پنے ادبی کرشمے دکھاتا رہا۔ وقت کا پہیہ گھومتا رہا، بادشاہتیں تبدیلی ہوتی رہیں، مغلیہ خاندانوں کی حکمرانی انگریزوں کے ہاتھوں ختم ہوئی۔ برطانیہ نے ایک صدی تک ہند کو غلام بنائے رکھا ،جس کے نتیجے میں معاشرے میں فیوڈل کلچر اورسرمایہ دارانہ سوچ نے کیا کیا گل نہ کھلائے، فکر و نظر کی یہ روش پہلی جنگ ِآزادی کی ناکامی 1857تک جاری رہی،جسے انگریز حکمرانوں نےغدر کے نام سے منسوب کیا اور ظلم و ستم اور، قتل و غارت گری کاوہ بازار گرم کیا ،جس کی بھٹی میں لاکھوں مسلمان ،مردوں ، بوڑھوں، عورتوں اور بچوں کے ساتھ آگ کی نذر ہوئے۔ غداری کی پاداش میں مسلمانوں کو عبرت ناک سزائیں دی گئیں۔

اقبال نے ہمالہ’’نیا شوالہ اور ُان کےبعد ، خضرِراہ نظم لکھ کر پورے ہند میں اپنی بصیرت، قومی اور انقلابی شعور اور جذبۂ ملت کے مظاہرے سے انگریزوں کے خلاف مزاحمت و انقلاب کی لے تیزکر دی۔ ان سےوہ سوتے پھوٹے جو اکبر الہ آبادی ، حسرت موہانی ، جوش ملیح آبادی، ظفر علی خان، سرور جہاں آبادی ، نظم، شاد، عزیز اور ثاقب لکھنوی سے ہوتی ہوئی عہد ِجدید کے شعراء عظمت اللہ خان ،مجاز، سردار جعفری، ساحر لدھانوی،احمد ندیم قاسمی، مخدوم ،کیفی اعظمی ، جذبی ، فیض احمد فیض، اختر انصاری ،حفیظ جالندھری ا ور احسان دانش تک پہنچی ۔مثال کے طور پر جوش کی نظم ’’شکستِ زنداں کا خواب‘‘ کے دو اشعار ملاحظہ فرمائیں

کیا ہند کازنداں کانپ رہا ہے گونج رہی ہیں تکبیریں

اکتائے ہیں شاید کچھ قیدی اور توڑ رہے ہیں زنجیریں

سنبھلوکہ وہ زنداں گونج اٹھا، جھپٹو کہ وہ قیدی چھوٹ گئے

اٹھو کہ وہ بیٹھیں دیواریں دوڑو کہ وہ ٹوٹی زنجیریں

حسرت موہانی کا ایک شعرضیافتِ طبع کی خاطر حاضرہے

ہے مشقِ سخن جاری، چکی کی مشقت بھی

اک طرفہ تماشا ہے، حسرت کی طبقہ بھی

اب تک کی گفتگو سے قارئین کرام کو اندازہ ہو گیا ہو گا کہ اردو شعراء کاہر دور میں یہ طرہ امتیاز رہاکہ انہوں نے معاشرتی خرابیوں کی بیخ کنی کرنے اور زیست کی باطل قوتوں سے نبر د آزمائی کے دوران حکمران ِوقت سے بغاوت کی مگر ’’ریاست‘‘ کے ایک شہری کی حیثیت سے اپنی وفا داری اورہر جملہ فرائض کی ادائی سےکبھی اغماض نہیں برتا ،خواہ وہ میر تقی میر کا زمانہ تھا، یا اقبال اور غالب کے بعد جدیدت و مابعد جدیدیت کی نسل کا! گویا چراغ سے چراغ جلنے کی رسم تاحال جاری و ساری ہے

آئندہ بھی انشاء اللہ اہلِ قلم بزرگوں کے ورثے میں ملنے والی ہر روایت اور ہرطریقہ کار سے مطابق سفرِ زیست جاری رکھیں گے۔

کیا معاشرے سے تعلق رکھنے والے متذکرہ شاعروں کی فکری کاوشیں پاکستان کی تاریخِ تشکیل میں سنہرے باب کا حصہ بننے کا اعزاز حاصل نہیں کر سکتیں؟ یقیناً کر سکتی ہیں، مگر بعض حاسدینِ ادب و فن معاشرے کے دیگر طبقوں پر اہلِ قلم کی قومی ملی تخلیقات کو ترجیح دینے سے گزیر کرتے ہیں۔ ان کا یہ فعل حقیقت کے منافی ہے۔

سچی بات تو یہ ہے کہ دنیا کا ادب کوئی مقصد ضرور رکھتا ہے تحریک ِپاکستان کے حوالے سے اہلِ قلم کا تخلیق کیا ہوا لٹریچرکچھ کم قدر و قیمت کا حامل نہیں اس میں ہر لحاظ سے اہمیت ،مقصدیت اور افادیت کی روح کار فرما ہے۔ حصولِ پاکستان کی جدوجہد کے دوران قائد اعظم محمد علی جناح، خان لیاقت علی خان اور دیگر سیاسی شخصیتوں کے قدم ب قدم،اہلِ قلم کا طبقہ بھی سرگرمِ عمل رہا ہے۔ اس نے ایسے ایسے کارہائے نمایاں انجام دیےہیں ،جن کی نظیر تاریخ ِعالم میں خال خال نظر آتی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اگر لینن اور مارکس کا فلسفہ کی حیات اور ان کا نظریہ ارتقاء دنیا کے بیشتر عوام کی دلچسپی اور عمل کا باعث ہو سکتا ہے، اگر شیکسپیئر کے خیالات اور فرائڈ کے نظریات انسانیت کی بقا کے ضامن ہو سکتے ہیں،اگر مغرب کے بیشتر مفکرین اور دانشوروں کے افکار و خیالات کو عیسائیت اور دہریت کےپر چار کے باوجود، بلند درجہ عطا کیا جا سکتا ہے تو حصولِ آزادی کے دوران اور بعد پاکستان کی تشکیل کے بعد بھی اہلِ قلم کا ذہنی و فکری کنٹری بیوشن، معاشرے کے دوسرے طبقات کی سعی و کاوش، ایثار و قربانی، قومی و ملی جذبات کے مقابلے میں کسی لحاظ سے اگر زیادہ قدر و قیمت کا حامل نہیں تو یقیناً کم بھی نہیں ہے۔تحریک پاکستان کی حرف بہ حرف کہانی،قلم کاروں کی معرفت ہم تک پہنچی،اہلِ قلم کو استحکامِ پاکستان کے لیے بھی جدوجہد کرنی چاہیے

آخر میں بحیثیت ایک پاکستانی لکھاری کے راقم کو اتنا حق تو حاصل ہے کہ وہ اپنے اس اظہاریئے کو درج ذیل سطور پر اختتام کرے ۔ برصغیر کے مسلمانوںنے قائد اعظم محمد علی جناح اور ان کے رفقائے کار کی ناقابل فراموش خدمات کے صلے میں تشکیل پاکستان کا تاریخ ساز معرکہ سر کیا۔ ہر پاکستانی کا فرض تھا اور اب بھی ہے کہ وہ بھی ایک آزاد غیور قوم کے فرد کی حیثیت سے اس ارض خداداد کو عوامی حکمرانی، آئین کی بالا دستی، معاشی و سماجی اور عدالتی عدل و انصاف کا بے مثل گہوارہ بنانے میں ریاست کے محافظوں کے ساتھ صدق دل سے تعاون کرے۔

تازہ ترین