• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پروفیسر شاداب احمد صدیقی

 ’’پالتو جانوریا پیٹ اینیمل‘‘ گھر کے ایک فرد کی سی اہمیت رکھتے ہیں۔ جانوروں کو پالنے کے لئے صاحب حیثیت افراد مختلف قسم کے کیٹل فارم، پنجرے اور پیٹ ہائوس بنواتے ہیں ۔ جنگلی حیات ہماری بھرپور توجہ کی متقاضی اور ماحول کی خوب صورتی کی ضامن ہے۔ جانوروں کی معدوم ہوتی ہوئی نسلوں کی حفاظت اور ان کی مناسب دیکھ بھال کرنا ہمارا فرض ہے۔ویسے تو ہر دور کے نوجوان اور بچوں کو جانوروں سے رغبت ہوتی ہے، لیکن دور حاضر میںیہ رجحان بہت تیزی سے فروغ پا رہا ہے۔ نوجوانوں کی پالتو جانوروں میں تیزی سے بڑھتی ہوئی دل چسپی اچھی بات ہے، اس سے ان میں احساس ذمے داری پیدا ہوتی ہے، جانداروں کی فکر ان کا خیال رکھنے کا جذبہ پروان چڑھتا ہے۔کہتے ہیں شوق کا کوئی مول نہیں ، نسل نو کی اکثریت جانور و پرندے پالنے کی اتنی شوقین ہوتی ہے کہ جیب خرچ میں سے پیسے بچا کر اور کبھی کبھی تو پورا جیب خرچ ہی اپناشوق پورے کرنے میں صرف کر دیتی ہے۔ 

پچھلے دنوں ہمارا اپنے ایک شاگردکے گھر جاناہوا، اس کا گھر تو زیادہ بڑا نہیں تھا، لیکن ہم یہ دیکھ کر حیران رہ گئے کہ اس کے گھر میں دو، تین بلیاں، توتوں کی ایک جوڑی اور وسیع جگہ میں کبوتروں کا بڑا سا پنجرہ بنا ہوا تھا۔ ہم نے پوچھا کہ یہ صرف آپ کا شوق ہے یا باقی بہن بھائیوں کا بھی ہے؟اتنے مہنگے پرندے اور بلیاں پالنے کا کیا مقصد ہے، تو اس نے کہا’’سر شوق کا کوئی مول نہیں ہوتا، یہ جانور اور پرندے میں نے پالے ہیں،ان کے کھانے کے پیسے بھی میں ابّو سے نہیں لیتا، بلکہ ٹیوشن پڑھا کرجو پیسے ملتے ہیں، وہ اور کچھ پیسے جیب خرچ سے بچا کر ان کا خرچہ پورا کرتا ہوں۔

میں صرف اپنے پالتو جانوروں کا ہی نہیں بلکہ گلی کی بلیوں کا بھی خیال رکھتا ہوں، کیوں کہ یہ بے زبان جانور اپنی تکلیف یا بھوک کے بارے میںکسی سے کچھ نہیں کہہ سکتے، اس لیے ہمارا فرض ہے کہ ان کا خیال رکھیں۔بدلے میںیہ جانور ہم سے بھی اتنی محبت کرتے ہیں جتنی ہم ان سے۔ کہتے ہیں کہ محبت اور پیار سے دشمن کو بھی دوست بنایا جا سکتا ہے بالکل یہی مثال جانوروں پر لاگو ہوتی ہے۔ کچھ نوجوانوں کو بچپن سے ہی جانور اور پرندے پالنے کا شوق ہوتا ہے،وہ انٹرنیٹ ، موبائل فون یا دوستوں کے ساتھ باہر گھومنے کے بہ جائے اپنے پالتو جانوروں کے ساتھ ہی وقت گزارنا پسند کرتے ہیں، وہ اپنے ان’’ خاص دوستوں‘‘ کی دیکھ بھال میں کوئی کسر نہیں چھوڑتے۔ 

ایک تحقیق کے مطابق بیمار بچے یا نوجوان اپنے گھر والوں سے زیادہ پالتو جانوروں کے ساتھ وقت گزارنا پسند کرتے ہیں، اس سے وہ خود کو ترو تازہ محسوس کرتے ہیں۔ماہر نفسیات کا کہنا ہے کہ ذہنی مسائل کےشکار نوجوانوں کے والدین کو چاہیے کہ گھر میں کوئی جانور یا پرندہ پال لیں، اس سے نوجوانوں کی ذہنی صحت پر مثبت اثرات پڑتے ہیں۔کہا جا رہا ہے کہ ہمارے ملک میں نسل نوکی اکثریت بے روزگاری اور تعلیم کے مسائل کی وجہ سے ذہنی تناؤ کا شکار ہو رہی ہے، حالیہ طبی تحقیق میں پتا چلا ہےکہ جانور پالنے سے ذہنی تناؤ میں کمی واقع ہوتی ہے۔اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ دن بھر کے تھکے ہارے جب شام کو آپ واپس گھر پہنچتے ہیں تو گھر والوں سے زیادہ پرجوش استقبال پالتو جانور یا پرندے کرتے ہیں،جو یکدم ذہنی تنائو کو کم ترین سطح پر لے آتا ہے۔ 

وہ بول تو نہیں سکتے، لیکن ہماری ہر بات ، اشارہ ، ناراضی، خوشی ،بہ خوبی سمجھتے ہیں،بالکل ایک دوست کی طرح۔ نوجوان دوستو!اپنے مشغلے سے پیسے بھی کماسکتے ہیں، ابتدا میں چند پرندے لے کر روزانہ ان کی دیکھ بھال کریں۔ اس کے بعد اپنے کاروبار کو بڑھائیں۔ پرندے پالنے کا رواج پوری دنیا میں ہے۔ صدیوں سے یہ سلسلہ جاری ہے۔ پرندوں کے بازار میں کبوتر، مرغیاں، آسٹریلین طوطوں جیسے عام پرندوں کے علاوہ اعلیٰ اور نایاب نسل کے قیمتی پرندے بھی فروخت کئے جاتے ہیں۔ ان بازاروں میں مکائو، گرے، کنٹھے دار سبز، کاکاٹو اور کئی توتےفروخت ہوتے ہیں۔ اس کے علاوہ دیگر پرندے بازار میں چکور، تیتر، بٹیر، ہدہد اور فاختائوں کی مختلف اقسام کو دیکھا جا سکتا ہے۔ 

پرندے اور جانور بھی نوجوانوں سےجلد مانوس ہو جاتے ہیں اور ان کے اندر کا خوف نکل جاتا ہے اس کی وجہ یہ مسلسل ان کی دیکھ بھال اور خوراک کے بندوبست میں لگے رہتے ہیں۔ بعض دفعہ تو بہت جذباتی لمحات دیکھنے کو ملتے ہیں اگر کوئی جانور یا پرندہ مر جاتا ہے،بچے بہت اداس ہوجاتے ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ گھر کا کوئی فرد بچھڑ گیا ہو۔ پرندوں کی چہچہاہٹ سے گھر میں بھی رونق ہوجاتی ہے اور ایک مستقل مصروفیت بھی بن جاتی ہے۔

پرندوں اور جانوروں کےحوالے سے دوسرا پہلو انتہائی توجہ طلب ہے، کچھ نوجوانوں کا رویہ جانوروں کے ساتھ انتہائی بے رحمانہ ہوتا ہے، راہ چلتے، کبھی وہ کتوں کو پتھر مارتے ہیں، تو کبھی بلیوں کو ستاتے ہیں، پرندے پال تو لیتے ہیں، لیکن ان کے دانے ، پانی کا خیال نہیں رکھتے، شوق میں آکر چوزے خرید لیتے ہیں، لیکن انہیں اتنی بے رحمی سے پکڑتے اور ان کے ساتھ اتنا برا سلوک کرتے ہیں کہ وہ دو دنوں میں ہی مر جاتے ہیں۔کسی بھی جاندار کو اذیت نہیں پہنچانی چاہیے۔ اس بات کابھی خیال رکھنا چاہیے کہ گھر میں کون ساجانوریا پرندہ پالا جائے، گھر میں جگہ اور جیب کی گنجائش کو دیکھتے ہوئے ہی اپنے شوق کی تکمیل کرنی چاہیے۔ضروری نہیں ہے کہ آپ اپنے پالتو پرندوں یا جانوروں کا ہی خیال رکھیں بلکہ دوسرے پرندوں کے لیے بھی گھر کی چھت یاگلی کے کونے پر پانی رکھنا چاہیے۔

تازہ ترین