• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

’’ 35سالہ وَیل آف، ہینڈسَم، گلشن ِاقبال میں ذاتی بنگلہ اورگاڑی کے حامل سوِل انجینئرکے لیے24سالہ خُوب صُورت، پتلی، گوری، مذہبی، قد 5"3'، لڑکی کا رشتہ درکار ہے۔ صرف ڈاکٹر لڑکیوں ہی کے والدین رابطہ کریں۔ ‘‘

’’امریکا میں گزشتہ پانچ سال سے مقیم 30 سالہ بیٹے کے لیے گوری، لمبی، کم عمر ، تعلیم یافتہ ، مذہبی لڑکی کا رشتہ در کار ہے۔‘‘

 ’’ایم بی بی ایس ڈاکٹر،عمر 23سال جاذبِ نظر، اُمورِ خانہ داری میں ماہر، خُوش اخلاق اور ہنس مُکھ بیٹی کے لیے 30سال تک کےخُوش شکل، دراز قد انجینئر، ذاتی بنگلہ، گاڑی اور چھوٹی فیملی کے لڑکے کا رشتہ درکار ہے۔‘‘

’’لاہور کے ایک بزنس مین کی 23سالہ خُوب صُورت، کنواری،مگر دونوں کانوں میں پیدائشی نقص کی حامل لڑکی کے لیے شریف ،دیہاتی کنوارے لڑکے کا رشتہ در کار ہے۔بیٹی کے نام ایک کوٹھی ہے اور لڑکے کو کاروبار کے لیے دس لاکھ روپے نقد دئیے جائیں گے۔‘‘ 

’’ 25سالہ انڈر گریجویٹ بیٹے کے لیے امریکی، برطانوی یا کینیڈین شہریت کی حامل قبول صُورت لڑکی کے رشتے کی ضرورت ہے، جو شادی کے بعد لڑکے کو اپنے ساتھ بیرون ِمُلک لے جائے۔ عمر ، رنگت اور قد کاٹھ کی کوئی قید نہیں ۔ مطلقہ، بیوہ اور معذور خاتون بھی رابطہ کر سکتی ہے۔‘‘

مندرجہ بالا اشتہارات آپ پہلے بھی کئی بار پڑھ چکے ہوں گےکہ اخبارات کا مطالعہ کرنے والوں کی کثیر تعداد تفریحِ طبع کے لیے ہی سہی، مگر ’’ضرورتِ رشتہ ‘‘ کے کالم ضرور پڑھتی ہے۔ ہماری ایک پروفیسر کہا کرتی تھیں کہ ’’خبریں ، ادارئیے وغیرہ پڑھنے کے ساتھ ضرورتِ رشتہ کےکالم پڑھنا مت بھولا کریں کہ اس سے معاشرے کے اطوار، سوچ اور رویّوں کا اندازہ ہوتا ہے۔ ‘‘ اور اب احساس ہوتا ہے کہ واقعی وہ بالکل ٹھیک کہتی تھیں۔ اِن اشتہارا ت ہی کو دیکھ لیجیے، انہیں پڑھ کر کسی بھی ذی شعور انسان کے لیے اندازہ لگانا ہر گز مشکل نہ ہوگا کہ ہماری قوم غربت، جہالت اور مادّہ پرستی کی دَلدل میں کس حد تک دھنس چُکی ہے۔ کیسےایک 25 سالہ اَنڈر گریجویٹ نوجوان کے نزدیک تعلیم مکمّل کرکے مُلک میں نوکری ڈھونڈنے سے کہیں زیادہ اہم، غیر ملکی شہریت کی حامل لڑکی سے شادی کرنا ہے۔ اور آج کے دَور میں جب ماؤں کو چاند سی، اعلیٰ تعلیم یافتہ، کم عمر، ہر فن مولا قِسم کی بہو کی تلاش ہوتی ہے، وہاں یہ نوجوان ’’شارٹ کٹ‘‘ لے کرخود کو معاشی طور پر مستحکم کرنے کے لیے اپنے سے بڑی عُمر کی خاتون سے بھی شادی پر آمادہ ہے۔ افسوس ناک بات یہ ہے کہ یہ کسی ایک نہیں بلکہ ہمارے معاشرے کے سیکڑوں بے روزگار نوجوانوں کی کہانی ہے۔ مسئلے کا دوسرا رُخ یہ ہے کہ ہمارے ہاں ایسے والدین کی بھی کمی نہیں ، جو اپنی دولت یا بیٹی کی ڈگری، خُوب صُورتی اور خُوش اخلاقی کی بطور ’’ڈسپلے آئٹم‘‘ تشہیر سے بھی گریز نہیں کرتے۔ گویا تعلیمی اسناد یا قدرتی حُسن ، مشہور برانڈ کی مصنوعہ ہے ، جس کا پرچار کرکے متعلقہ افراد کو زیادہ سے زیادہ متوجّہ کیا جا سکے گا۔

گزشتہ ہفتے ہم نے کئی ماہ بعد اپنی ایک دیرینہ سہیلی کو فون کیا، تو اُس کے لہجے سےفوراً اندازہ لگا لیا کہ وہ سخت ذہنی تناؤ کا شکار ہے۔ چند اِدھر اُدھر کی باتوں کے بعد پوچھا کہ ’’اُداس کیوںہو؟تو چند لمحے توقّف کے بعد اُس نے روہانسی آواز میں کہنا شروع کیا ’’ سچ پوچھو تو مَیں اپنی ذات ، دنیا کی ہر شئے سے تنگ آچکی ہوں، ایک عجب سی اکتاہٹ ہر لحظہ اپنے حصار میں لیے رہتی ہے۔آئے روز لڑکے والوں کے سامنے بن سنور کے پیش ہونا، اُن کی تیکھی نظروں ، تلخ رویّوںکا سامنا کرنا، نہ چاہتے ہوئے بھی مسکرانا، خاطر مدارات کرنا، کسی انجان لڑکے کےسامنے بیٹھ جانا اور آخر میں ’’ریجیکٹ‘‘ ہوجانا… کسی کو میری گندمی رنگت نہیں بھاتی، تو کسی کو قد چھوٹا اور عُمر زیادہ لگتی ہے، جنہیں میری شخصیت میں کوئی عیب نظر نہیں آتا، وہ یہ کہہ کر منع کر دیتے ہیں کہ ہمارا لڑکا اعلیٰ تعلیم یافتہ ، جب کہ آپ کی بیٹی صرف گریجویٹ ہے۔ آخرلوگ کب سمجھیں گے کہ لڑکیاں بھی انسان ہی ہیں۔ کوئی شو پیس یا دُکان میں رکھی کوئی چیز نہیں۔وہ ایک ہی سانس میں اپنا سارا دُکھ بیان کرتی چلی گئی ۔ہمارے پاس اُس کی باتوں کا کوئی جواب نہ تھا۔ سو، دھیان بٹانے کے لیے موضوع بدلا ’’ارے! یہ تو بتاؤ بھائی کی شادی کب ہو رہی ہے؟‘‘(اُس نے پچھلے سال بتایا تھا کہ بھائی کے لیے لڑکی تلاش کررہے ہیں) جواب میںاس نے ایک لمبی آہ بھرتے ہوئے کہا ’’ ابھی تو شادی کا دُور دُور تک کوئی امکان نہیں ۔ بھائی کے جوڑ کی کوئی لڑکی ہی نہیں مل رہی۔ اب تمہیں تو پتا ہے کہ میرے بھائی کتنے خُوش شکل،اعلیٰ تعلیم یافتہ ہیں، کسی ہیرو سے کم تھوڑی ہیں۔ ہینڈسم، چارمنگ ، شہزادے جیسے بھائی کے لیے بیوی بھی توحُسن پری ہونی چاہیے ناں! ہمارا جہیز وغیرہ کا تو کوئی مطالبہ نہیں ۔ بس خُوب صُورت، دُبلی پتلی سی ڈاکٹر یا انجینئر بھابھی مل جائے اور کچھ نہیں چاہیے۔‘‘ مگر تمہارے خاندان میں تو لڑکیوں کی ملازمت کو اچھا نہیں سمجھا جاتا، ہم نےاُس کی بات کاٹتے ہوئے سوال کیا۔ ’’ہاںہاں،ہمارے خاندان میں بہو، بیٹیوں کو ملازمت کی قطعی اجازت نہیں۔ بڑی بھابھی بھی ڈاکٹر ہیںمگر وہ پریکٹس نہیں کرتیں، بس گھر اوربچّے سنبھالتی ہیں۔‘‘یہ فرسودہ مائنڈ سیٹ کسی ایک مخصوص گھرانے کا نہیں بلکہ ہمارے معاشرے کے مجموعی رویّے کی عکّاسی کرتا ہے۔ ایک طرف تو کنواری لڑکیاں اور اُن کی مائیں یہ شکایت کرتی نظر آتی ہیں کہ لڑکے والوں کے بہت نخرے ہیں، اُن کاانداز ایسا ہوتا ہے ، جیسے بہو پسند کرنے نہیں بلکہ قربانی کا جانور خریدنے آئے ہوں، مگر دوسری جانب وہی لڑکیاں اور مائیں جب اپنے بھائی/بیٹے کے لیے لڑکی پسند کرنے جاتی ہیں ، تو ان کی اپنی گردن میں سریا آجاتا ہے۔ جب تک ہم دوسرے کی بیٹی کو اپنی بیٹی نہیں سمجھیں گے، تب تک ہم اپنی بیٹیوں کے لیےبھی ایسے ہی پریشان رہیں گےکیوں کہ یہ دنیا تو مکافاتِ عمل ہے۔

ایک محتاط اندازے کے مطابق اس وقت پاکستان میں شادی کی عُمر تک پہنچنے والی تقریباًدوکروڑ کنواری لڑکیاں اور لڑکے موجود ہیں ،جن کے والدین اچھے اور مناسب رشتوں کی راہ تک رہے ہیں۔ یعنی ہمارے معاشرے میں پنپنے والے دیگر مسائل میں سےا یک بڑا مسئلہ وقت پر شادی نہ ہونا بھی ہے، مگر دیگر مسائل کے بر عکس یہ مسئلہ ہمارا اپنا ہی پیدا کردہ ہے۔گوکہ بیش تر جدید و ترقی یافتہ معاشروں میں اب لڑکیوں کی بڑھتی عُمریں پریشانی کا باعث نہیں رہیں، کیوں کہ ان معاشروں میں مرد و خواتین بالخصوص شادی جیسے بندھن میں بندھنے کےلیے کم عمری یا بچگانہ ذہن کے بہ جائے ذہنی پختگی پر زور دیتے ہیں تاکہ شادی شدہ زندگی دونوں جانب سے سنجیدگی اور ذمّے دارانہ طریقے سے گزاری جائے۔ لیکن ہمارے ہاں ابھی یہ رجحان اس قدر عام نہیں ۔ ہم ابھی بھی شادی کے لیے بڑی عُمرکی نسبت ،کم عمر لڑکی کو فوقیت دیتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اگر کسی گھر میں چار ، پانچ جوان بیٹیاں ہوں، تو والدین کی کوشش ہوتی ہے کہ پہلے بڑی بیٹی ہی بیاہی جائے، مگر لڑکے والوں کی خواہش ہوتی ہے کہ گھر والے چھوٹی بیٹیوں کو بھی سامنے لے آئیں اور پھر پسند بھی کم عمر ترین لڑکی کو کرلیا جاتا ہے، چاہے ان کے اپنے لڑکے کا سر ’’چاندی‘‘ سے کیوں نہ بھرا ہو۔ پھرصحیح عُمرمیں نکاح نہ ہونے کے باعث ایک جانب بے راہ روی (گرل فرینڈ، بوائے فرینڈ کلچر پروان چڑھ رہاہے )اور غیر اخلاقی سرگرمیوں میں اضافہ ہو رہا ہے،تو دوسری جانب غریب یا عام سی شکل و صُورت کی حامل لڑکیوں میں فرسٹریشن بڑھتی جا رہی ہے۔ ایسی لڑکیاں یا تو خود کو زندگی کی رنگینیوں سے دُور گھر کی چار دیواری میں قید کر لیتی ہیں یا اپنی زندگی کو مصروف رکھنے اوربوڑھے والدین کا سہارا بننے کا خیال لیے ساری زندگی ملازمت کی نذر کرد یتی ہیں۔

رشتہ ڈھونڈتے وقت لڑکے اور لڑکی والوں کی شرائط ، مانگ اور فرمایشوں وغیرہ کے حوالے سے ہم نے لگ بھگ 35 سال سے آسمان پر بننے والے جوڑوں کو زمین پر ملانے کا سبب بننے والی، ایک معروف میرج بیورو کی مالک، مسز ممتاز قریشی سے بات چیت کی، تو انہوں نےکہا، ’’ لڑکے والوں کو بہو کی صُورت میں در اصل ’’کمپلیٹ پیکج‘‘ کی تلاش ہوتی ہے۔ یعنی لڑکی خُوب صُورت، خُوش اخلاق، اعلیٰ تعلیم یافتہ اورگھریلو کاموں میں ماہرتو ہو ہی ، ساتھ پوش علاقے کی رہائشی بھی ہو۔ دوسری جانب اب لڑکی والوں کے دماغ بھی ساتویں آسمان پر ہیں، چوں کہ آج کل لڑکیاں اعلیٰ تعلیم یافتہ ہیں ، تو اُن کے والدین کی یہی خواہش ہوتی ہے کہ داماد خاندان، رُتبے، ملازمت اور شکل و صُورت کےاعتبار سے بہت اچھا ہو۔وہ گزرے وقت کی بات تھی، جب ساس غالب ہوتی اور بہو ڈرتی تھی، آج کل کی توساسیں ،بہوؤں سے ڈرتی ہیں۔ میرے خیال میں تو لڑکی والے ہوں یا لڑکے والے دونوں میں سے کوئی بھی کسی بات پر بھی کمپرومائز کرنے پر آمادہ نہیں ۔ ہر کوئی خُوب سے خُوب تر کی تلاش میں ہےاور بس اسی تلاش میں شادی کی صحیح عُمر نکل جاتی ہے۔ دَر اصل پہلے زمانے کی بیش ترلڑکیاں ملازمت پیشہ نہیں تھیں۔ تمام دن گھر میں والدین کی نظروں کے سامنےرہتیں، تو والدین کوبھی فکر لاحق ہوتی کہ انہیںجلد از جلد بیاہ دیا جائے، مگر آج کل لڑکیاں تعلیم سےفارغ ہوتےہی ملازمت کرلیتی ہیں۔ صبح نکل جاتی ہیں، شام گئے گھر آتی ہیںپھر اپنے زیادہ اخراجات بھی خود اُٹھاتی ہیں، تو والدین بھی اُن کی شادی کے حوالے سے زیادہ فکر مند نہیں رہتے۔‘‘

’’کُفوکیا ہے اور شادیوں میں تاخیر کےکیا نتائج بر آمد ہورہے ہیں؟‘‘ ہم نے معروف مذہبی اسکالر اورکئی دینی، تحقیقی کتابوں کے مصنّف ،مولانا محمّدولی رازی صاحب سےپوچھا، تو انہوں اپنے خیالات کا اظہار کچھ اس طرح کیا کہ ’’کُفو کے معنی ، ہم سَر ، ہم پلّہ اور ہم مرتبہ ہونے کے ہیں۔ نکاح کی بات ہو ، تواس سے مُراد یہ ہے کہ لڑکا، لڑکی ذات پات،حسب نسب، خاندان قبیلے، تعلیم، مقام و مرتبے اور سماجی و معاشرتی لحاظ سے برابرہوں۔اس کا مطلب یہ نہیں کہ دوسرے کو حقیر یا کم تر سمجھا جائےبلکہ اس کا مقصد ہم پلّہ لوگوں میں شادی کرنا ہے، تاکہ بعد میں معاشرتی مسائل پیدانہ ہوں۔جہاں تک بات ہے شادیوں میں تاخیر کی ، تو یہ دین سے دُوری کا نتیجہ ہے، جس کی وجہ سے معاشرے میں برائیاں، فتنے ، فحاشی اور عُریانی پھیل رہی ہے۔ بلوغت کے چند برس بعد (24،25 سال کی عُمر تک) ہر صُورت شادی کردینی چاہیے۔جن لڑکے، لڑکیوں کی بڑی عُمر میں شادی ہوتی ہےپھران کی اولادبھی ذہنی و جسمانی طورپر نسبتاً کم زور ہوتی ہے۔ ہمارے ہاں یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ والدین منگنی تو کردیتے ہیں، پھر کئی اسباب جیسے لڑکا بیرونِ مُلک ہے یا ابھی اپنے پَیروں پہ کھڑا نہیں ہوا وغیرہ کی بِنا پر نکاح و رخصتی لمبے عرصے کے لیے ٹال دی جاتی ہے، تو ایسا بھی نہیں کرنا چاہیے، یہاں مَیں ایک اور بات کی وضاحت کردوں کہ ’’منگنی‘‘ کوئی رسم یا تقریب نہیں بلکہ محض ایک ’’وعدہ‘‘ ہے، لہٰذا اس پر بے جا خرچ نہیں کرنا چاہیے۔ منگنی کے بعد نکاح میں تاخیر کی سختی سے ممانعت کی گئی ہے،کوشش کرنی چاہیے کہ یہ ’’وعدہ‘‘ جلد از جلد پورا ہوجائے ۔دین ِاسلام ایک بہت سادہ اور آسان مذہب ہے، جتنی آسانیاں ہمارے مذہب میں ہیں، کسی اورمذہب میں نہیں، لیکن ہم نے خود اپنے لیے مشکلات کھڑی کی ہوئی ہیں۔ شادی ،بیاہ وغیرہ پر اسراف سے منع کیا گیا ہے ، تاکہ لڑکی یا لڑکے والوں پر بوجھ نہ پڑے، مگر ہمارے ہاں بے جا نمو دو نمایش اور ہندوانہ رسم و رواج کی وجہ سے شادی میں اسراف برتاجاتا ہے۔ مغربی ممالک تک میں شادیاں بے حدسادگی سے ہوتی ہیں اورویسے تو ہم ہر معاملے میں اُن کی تقلید کرتے ہیں، تو اس معاملے میں کیوں نہیں۔ لیکن بہر حال، شادی بیاہ کے معاملے میںتاخیر اور غیر اسلامی رسوم و رواج کی ترویج نے معاشرے میں خاصا بگاڑ پیدا کر دیا ہےاور اس کی فوری اصلاحات بے حد ضروری ہے۔‘‘

شادی بیاہ میں تاخیر اور لڑکے/لڑکی والوں کی جانب سے بار بار مسترد ہونے کےسبب نوجوانوں پر مرتب ہونے والےاثرات کے حوالے سے ہم نےماہرِ نفسیات، ڈاکٹر عزیز فاطمہ کا مؤقف بھی جاننا چاہا، تو ان کا کہنا تھا کہ ’’ہمارے ہاں ایسی دقیانوسی ، فرسودہ سوچ کے حامل افراد کی کوئی کمی نہیں،جواپنے رویّوں اورباتوں سےغیر شادی شدہ افراد کا سکون برباد کرکے رکھ دیتے ہیں۔ حالاں کہ مغربی ممالک میں ’’سنگلز‘‘ کے لیے کوئی مشکلات نہیں ، اُن سے کوئی نہیں پوچھتا کہ شادی کیوں نہیں ہوئی یا شادی کب کر رہے ہو وغیرہ، لیکن ہمارے ہاںلوگ دوسروں کی زندگیوں میں مداخلت اپنا فرض سمجھتے ہیںاوریہی باتیں اُن افراد کی زندگیوں پر منفی اثرات مرتب کرتی ہیں۔اُن میں ’’احساسِ کم تری ‘‘ پیدا ہوجاتا ہے۔اور دِل چسپ امر یہ ہے کہ وہ اندرونی طور پر تو احساسِ کم تری کا شکار ہوتے ہیں، مگر ظاہری طور پر خود کو ’’سُپیریئر‘‘(برتر)ثابت کرنے کی کوشش کرتےرہتے ہیں۔ یعنی اگر کوئی ریجیکٹ کردے، تو وہ کہتے ہیں کہ در اصل وہ میرے لائق ہی نہیں تھا،تب ہی اُس نے مجھے مسترد کیا۔ اس حوالے سے مجھے سوسائٹی سے بھی بہت سی شکایات ہیں۔ ہمارے ہاں سنگلز کے حقوق کا خیال نہیں رکھا جاتا، اُن سے کام بھی زیادہ لیا جاتا ہے اور مراعات اور سہولتیں بھی نہیں دی جاتیں۔سرکاری یا غیر سرکاری اداروں میں بیوہ کے حقوق کا تو خیال رکھا جاتا ہے، جو دُرست بھی ہے، لیکن بیچلر خاتون کے کوئی حقوق نہیں۔جب تک ہم اپنے رویّے نہیں سُدھاریں گے، تب تک ایک صحت مند معاشرے کی تشکیل ممکن نہیں۔‘‘

رشتوں کی راہ میں حائل مشکلات کے حوالے سے ہم نے چند والدین سے بات کر کے یہ جاننے کی کوشش کی کہ اُنہیں کس قسم کے مسائل کا سامنا کرنا پڑا اورجب وہ رشتہ ڈھونڈنے نکلتے ہیں، تو ترجیحات کیا ہوتی ہیں؟سلمیٰ نسیم ایک گھریلو خاتون ہیں۔ تمام بچّوں کے شادی بیاہ کے فرائض سے سُبک دوش ہوچکی ہیں۔ اُنہوں نے کہا ’’ مَیں تمام لڑکوں کی ماؤ ں سے گزارش کرنا چاہوں گی کہ جب بہو کی تلاش میں نکلیں ، تو خدارا دوسرے کی بیٹی کو بھی انسان سمجھیں۔ کسی کے گھراپنی تمام بیٹیوں، بہوؤں سمیت مت پہنچ جائیں،کیوں کہ اس طرح لڑکی ، جو پہلے ہی سے کنفیوژن کا شکار ہوتی ہے مزید پریشان ہوجاتی ہے۔ میری تین بیٹیاں ہیں،تو ظاہر ہے بہت سے رشتے آتے تھے، اُن کی خاطر مدارات میں جتنا پیسا خرچ ہوا ، شاید اتنا خرچہ تو بیٹیوں کی شادی پر بھی نہیں ہوا ہوگا۔ کبھی کبھار تو ایسا محسوس ہوتا تھا کہ لڑکے والے لڑکی دیکھنے نہیں بلکہ بہو، بیٹیوں کے ساتھ شام کا ناشتا کرنے آئے ہیں کہ بعد میں معمولی سی بات کو جواز بنا کر انکار کردیا جاتا۔ چاہے لڑکی اپنی زبان سے شکایت کا ایک لفظ بھی نہ نکالے، لیکن ہر ’’انکار‘‘ اس کے لیے کسی نشتر سے کم نہیں ہوتا۔ مَیں نے اپنے بچّوں کی شادی کرتے وقت صرف دو باتوں کا خیال رکھا کہ جس گھر میں بیٹی بیاہ رہی ہوں اور جس گھر سے بہو لا رہی ہوں، وہ شریف اور تعلیم یافتہ ہو۔‘‘ اس ضمن میں سیّد قاسم کا کہنا ہے کہ ’’ مَیں نے اپنی بیگم سے پہلے ہی کہہ دیا تھا کہ میری بیٹیاں ’’شو پیس‘‘ نہیں ،جنہیں بنا سنوار کے لڑکے والوں کے سامنے پیش کردیا جائے۔ اس لیے جب بیٹیوں کا رشتہ آئے، تو اُن لوگوں سے کہہ دینا کہ گھر کی دو تین خواتین ہی آئیں اور ہماری بیٹی سے بے جا سوالات نہ پوچھیں۔ اللہ کا شکر ہے کہ ہماری بیٹیاں شریف اور تعلیم یافتہ ہیں، مَیں ہر گز برداشت نہیں کروں گا کہ اُن کے اعتماد کو ٹھیس پہنچے۔ مگر مَیں نے مشاہدہ کیا ہے کہ اب وہ دَور نہیں رہا، جب صرف لڑکے والے ہی نخرے کرتے تھے ۔ اب تو لڑکی والے بھی بہت ڈیمانڈنگ ہو گئے ہیں۔ مَیں نے تو ایسے لوگ بھی دیکھے ہیں، جو اعلیٰ تعلیم یافتہ اور ملازمت پیشہ لڑکے کا رشتہ صرف اس لیے ٹھکرا دیتے ہیں کہ اس کا اپنا گھر نہیں ہے یا وہ بڑی فیملی میں رہتا ہے۔ ہمیں تو اپنی بچّیوں کو خاندانی نظام کی اہمیت سمجھانی چاہیےنہ کہ معمولی باتوں کو جواز بنا کر اچھے رشتے گنوا دیں۔‘‘ ثریّا جعفری نے اپنے خیالات کا اظہار کچھ اس طرح کیا کہ ’’جب میری بیٹیاں چھوٹی تھیں تو مَیں اکثر سوچتی تھی کہ یہ معصوم ، بھولی بھالی سی بچّیاں زمانے کی تلخیوں اور سُسرال والوں کے روکھے پھیکے رویّوں کا سامنا کیسے کریں گی؟ مگر اللہ تعالیٰ کا لاکھ شکر ہے کہ میری بچّیوں کو ایسی کسی اذیت کا سامنا نہیں کرنا پڑا۔ الحمدُللہ ، اُن کے رشتے اور شادیاںکیسے ہو گئیں مجھے پتا بھی نہیں چلا، ہر مرحلہ بآسانی خود بہ خُود سر ہوتا چلا گیا۔ بیٹے ، بیٹیوں کے رشتے ڈھونڈتے وقت ہمارے ذہن میں بس یہی بات تھی کہ ایسے خاندان میں شادی کی جائے، جو رکھ رکھاؤ، تہذیب ،عقائد وغیرہ کے حوالے سے ہمارے جیسا ہو۔ بہت سے والدین کی یہ خواہش ہوتی ہے کہ اُن کے بچّوں کی شادی حیثیت اور مال و دولت کےاعتبار سے اُن سے کہیں زیادہ اونچے خاندان میںہو، لیکن میری سوچ اس کے بر عکس ہے۔ شادیاں ہمیشہ برابر کے خاندان میں کرنی چاہئیں ، تاکہ بیٹی کو سُسرال اور بہو کو ہمارے گھر کا ماحول اپنانے میں مشکل پیش نہ آئے۔‘‘

صرف نصف دَہائی پیچھے چلے جائیں ، تو زندگی کس قدر سادہ اورہر لحاظ سےپُرسکون تھی۔ نمود و نمایش ، اسٹیٹس، دولت کی نہیں، انسان کی اہمیت تھی۔ جیسے ہی لڑکا بر سرِ روزگار ہوتا، خاندان کی یا آس پڑوس کی کسی نیک سیرت لڑکی کے ساتھ رشتہ طے کرکے عید کے چاند شادی کر دی جاتی۔نہ لڑکے والے ڈاکٹر، انجینئر بہو کی ڈیمانڈ کرتے اور نہ ہی لڑکی والے لڑکے کی تَن خواہ ، گاڑی ، بنگلے سے متعلق کچھ پوچھتے ۔ رشتہ پکّا ہونے سے لے کر شادی ہونے تک خاندان کے بزرگوں ہی کا ہر فیصلہ حتمی قرار پاتا، جب کہ آج معاملہ اس کے بالکل برعکس ہے۔ یہی وجہ ہے کہ لا تعداد لڑکے لڑکیاں شادی کی عُمروں سے تجاوز کرکے بن بیاہے بڑھاپے کی دہلیز تک پہنچ چکے ہیں۔ کیا یہ ستم ظریفی نہیں کہ ایک انڈر گریجویٹ بڑی عُمر، عام سی شکل و صُورت والے مرد کے لیے تعلیم یافتہ کم سِن’’حور‘‘ کی تلاش صرف اس لیے کی جاتی ہے کہ وہ لاکھوں روپےکماتا ہے؟اسی طرح کیا اچھے پڑھے لکھے لڑکوں کے ساتھ زیادتی نہیں کہ ذاتی گھر ، گاڑی نہ ہونے کے سبب لڑکیوں کے والدین اُن کا رشتہ ٹھکرا دیتے ہیں؟ایک طرف تو والدین یہ شکایت کرتے نظر آتے ہیں کہ لڑکے والوں کے دماغ ساتویں آسمان پر ہیں، مگر جب اچھے رشتے اُن کی دہلیز پرآرہے ہوتے ہیں، تووہ خُوب سے خُوب تر کی تلاش میں انہیں منع کرتے رہتے ہیں۔سب کوخُوب رُو، تعلیم یافتہ، صاحبِ حیثیت ، ذاتی گھر، بڑی گاڑی والا داماد چاہیےاور اگر لڑکی اعلیٰ تعلیم یافتہ ہے ، تو پھر یہ شرط بھی ہوتی ہے کہ لڑکا اُس سے زیادہ تعلیم یافتہ ہو، لڑکے کے تمام بھائی بہنوں کی شادی ہوچکی ہویا کم از کم تمام نندیں اپنے اپنے گھر کی ہوں۔ اسی طرح لڑکے والوں کی خواہشات کی بھی کوئی حد نہیں۔ بہو اعلیٰ خاندان کی ،اعلیٰ تعلیم یافتہ تو ہو، ساتھ گوری چٹّی ، دُبلی پتلی، دراز قد، خُوش شکل اور کم عُمر بھی ہو ، پھراُمور خانہ داری میں بھی ماہر چاہیے۔ ڈاکٹر،انجینئر ہوتو سونے پہ سہاگا، چاہے بعد میں ملازمت کی اجازت نہ دے کر اس کی ڈاکٹری کی سند اور محنت کو زنگ ہی کیوں نہ لگادیا جائے۔اب بھلا کوئی لڑکے والوں سے سوال کرےایک کہ بیس اکیس سال کی لڑکی اعلیٰ تعلیم یافتہ کیسے ہو سکتی ہے؟ یا تو کم عمر لڑکی کو بہو بنالیں یا اعلیٰ تعلیم یافتہ کو،کیوں کہ بیک وقت دونوں خصوصیات ایک ہی لڑکی میں تو ملنے سے رہیں۔در اصل معاشرے پر مادّہ پرستی و ریاکاری کا عفریت اس حد تک حاوی ہو چکا ہے کہ نکا ح جیسا مقدّس اور سہل عمل بھی مشکل ترین کر دیا گیا ہے۔ لڑکے اور لڑکی والوں دونوںکی ترجیحات میںکہیں بھی ’’سیرت، اخلاق، تمیز، تہذیب اور مذہب ‘‘ دُور دُور تک شامل نہیں۔کسی کو اپنے بیٹے کی مالی معاونت کے لیےبرسرِ روزگارامریکی ، برطانوی یا کینیڈین نیشنل بہو کی تلاش ہے، تو کوئی بڑی گاڑی ، بنگلے اور بھاری بینک بیلنس والے داماد کا متلاشی ہے۔ مانا کہ اپنی اولاد کے لیے تعلیم یافتہ جیون ساتھی کی تلاش غلط نہیں ۔ ہر بیٹی کا باپ یہی چاہتا ہے کہ اس کی نازوں پلی بٹیا کو محلوں کا راجا ملے۔ اسی طرح بیٹوں کی ماؤں کے بھی ارمان ہوتے ہیں کہ اُن کی بہو لاکھوں میں ایک ہو کہ آگے چل کراُسی کو ان کی نسل کی تربیت کرنی ہے۔ تاہم، مسائل تب پیدا ہوتے ہیں جب خواہشات بے لگام ہوکر دوسروں کے جذبات کو ٹھیس پہنچانے لگیں۔ فقط ایک لمحے کے لیے سوچیں کہ انگریزی زبان کے ایک عام سے لفظ ’’ریجیکشن‘‘ کواپنے لیے سُننا کتنا درد ناک اور کٹھن ہے۔ دنیا کا کوئی شخص نہیں چاہتا کہ اسے کسی بھی حوالے سےناکامی یا انکار کا سامناکرنا پڑے، بالخصوص شخصیت، رنگ رُوپ، قد کاٹھ وغیرہ کے حوالے سے، تو جب کسی لڑکی یا لڑکے کو محض اس کے ’’ظاہر‘‘ کےسبب مسترد کیا جاتا ہوگا ، تو اس کے دل پر کیا گزرتی ہوگی۔ اس لیے اپنے گھرچاند سی بہو نہیں بلکہ ایسی بہو لائیں، جس کی سیرت کی روشنی سے پورا گھرجگمگا اُٹھے اور لکھ پتی نہیں بلکہ ایسے داماد کاانتخاب کریں، جو تعلیم، اخلاق اور خُوش مزاجی میں لاکھوں میں ایک ہو۔

تازہ ترین