• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

دستر خوان کتنا ہی وسیع کیوں نہ ہو، اپنا ہاتھ ہولا رکھیں

حامد فیّاض، اسلام آباد

رمضان المبارک کے بعد جب عید الفطر آتی ہے، تو خُوب ہنستے کھلکھلاتے چہروں، چمکتی پیشانیوں کے ساتھ اس تہوار کا استقبال کیا جاتا ہے۔ ہر کوئی رب کے حضور شُکر کے جذبے سے سَرشاراس دِن کو بَھرپور خوشی اور میل جول کا ذریعہ بناتا ہے۔ اس موقعےپر کھانے پینے کا بھی خُوب اہتمام کیا جاتا ہے۔ رشتے دار، عزیز پیارے ایک دوسرے کے گھر جاتےاور ہر جگہ رب کی طرح طرح کی نعمتوں سے لطف اندوز ہوتے ہیں۔

تاریخ کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ تہوار ہمیشہ سے انسانی معاشرت کا حصّہ رہے ہیں۔ اسلام سے قبل یومِ السبع، یومِ السباسب اور بعض دوسرے تہواروں کا ذکر عربوں کی تاریخ میں ملتا ہے۔ بنی اسرائیل کی شریعت میں بھی عید کے ایّام مقرّر تھے، جن کا تعلق زیادہ تر ان کی تاریخ کے اہم واقعات سے تھا۔ نبی آخرالزماں حضورِ پاکﷺنے بھی مسلمانوں کے لیے عید الفطر اور عید الاضحی کے دِن مقرر فرمائے اور دونوں کو اسلام کے دو عظیم مظاہر سے متعلق کردیا۔ عیدالفطر روزوں کی عبادت ، ماہِ صیام کے پایۂ تکمیل تک پہنچنے کے بعد یکم شوال کو منائی جاتی ہے۔ یہ عید کا انعام اُن لوگوں کے لیے اللہ تعالیٰ نے مقرّر فرمایا ہے، جو خوفِ خدا رکھتے ہیں، اس کی خوش نودی اور معرفت حاصل کرنے کے لیے رات کو قیام کرتے ہیں اور دِن کو روزہ رکھتے ہیں۔ اس تہوار کو دین میں بہت قدر ومنزلت حاصل ہے۔ چوں کہ مسلمانوںکے یہ تہوار، ذکر، شُکر اور تفریحات کے لیے خاص ہیں، اسی لیے تمام مسلمان عید کے دِن صُبح سویرے نمازِعید کا اجتماعی اہتمام کرکے اللہ کی بندگی کرتے اور اس کا شُکر بجا لاتے ہیں، آپس میں ملتے ملاتے اور ناراضیاں دُور کرتے ہیں،جب کہ خوشی کے اس موقعے پر پُرتکلف کھانوں سے اہلِ خانہ اور دوست احباب کی ضیافت بھی کی جاتی ہے،جب کہ اپنی تہذیب و ثقافت کے مطابق چھوٹے ،بڑوں کی کچھ نہ کچھ تفریحِ طبع کابھی اہتمام کیا جاتا ہے۔ عیدین کے یہ تہوار نبی کریمﷺنے ہجرت کے بعد مدینہ منوّرہ میں مقرّر فرمائے۔ حضرت انس ؓ سے روایت ہے،’’نبیﷺ مدینہ تشریف لائے، تو وہاں لوگوں نے دو دِن مقرّر کر رکھے تھے، جن میں وہ کھیل کود سے دِل بہلاتے تھے۔ آپؐ نےفرمایا،’’یہ کیا دِن ہیں؟‘‘ لوگوں نے بتایا کہ جاہلیت میں یہ ہمارے کھیل تماشے کے دِن رہے ہیں۔حضورﷺنے اس پر فرمایا،’’اللہ تعالیٰ نے ان کی جگہ تمہارے لیے ان سے بہتر دو دِن ،عیدالفطر اور عید الاضحیٰ مقرّر کر دیے ہیں۔‘‘حضرت عائشہ ؓ کا بیان ہے کہ عید کا دِن تھا، کچھ بچّیاں بیٹھی وہ اشعار گارہی تھیں، جو جنگ بعاث سے متعلق انصار نے کہے تھے کہ اسی دوران حضرت ابوبکر صدیقؓ تشریف لائے اور بولے، ’’ نبی ﷺکے گھر میں گانا بجانا؟‘‘ نبی ﷺنے فرمایا،’’ابو بکر ؓرہنے دو، ہر قوم کے لیے تہوار کا ایک دِن ہے اور آج ہماری عید کا دِن ہے۔‘‘ اسی طرح ایک بار عید کے دِن کچھ حبشی بازی گر کرتب دکھا رہے تھے۔ آپ ؐ نے یہ کرتب نہ صرف خود دیکھے،بلکہ حضرت عائشہ ؓ کو بھی دکھائے۔

ہم جانتے ہیں کہ ہر رشتہ و تعلق جذبات کی باطنی کیفیات کے ساتھ ساتھ خارجی ظہور کا تقاضا بھی کرتا ہے،جس کا اظہار بالعموم عید کے دِن تمام رنجشیں بُھلا کر ملنے ملانے ، مل بیٹھ کر کھانے پینے سے کیا جاتا ہے ۔بے شک یہی وہ فطری طریقے ہیں،جن سے رشتے پروان چڑھتے ہیں۔ عیدالفطر کا یہ تہوار صدیوں سے اسلامی تعلیمات ہی کے مطابق منایا جاتا رہا ہے، مگر افسوس کہ وقت گزرنے کے ساتھ اب یہ تہوار مناتے ہوئے اسلامی تعلیمات نظر اندازکی جارہی ہیں،جس کی ایک وجہ ہماری غفلت اور دیگر تہذیبوں کا غلبہ ہے۔ عید کا یہ موقع اپنی تہذیب و ثقافت اور روایات کوزندہ کرنے کا بھی ہے۔ وہ تہذیب جس کا ارتقا اسلام کی آغوش میں ہوا، جو اسلام کے معاشرتی تصوّرات کے زیرِاثر وجود میں آئی، جو اللہ کی بندگی سے آزاد نہیں، جس کے بنیادی عناصر میں حفظِ حیا، حفظِ مراتب اور امربالمعروف اور نہی عن المنکر شامل ہیں۔بدقسمتی سے ہمارے معاشرے میں کئی افراد چاہے مَرد ہوں یا خواتین معاشرتی طور پر بالعموم ہندو ازم سے متاثر نظر آتے ہیں، جس کی ایک جھلک تو شادی بیاہ کی تقریبات میں دیکھی جاسکتی ہے، لیکن اب مغربی تہذیب کے غلبے نے جو محض ’’آزادی ‘‘ سے منتج ہے، اس حد تک متاثر کیا ہے کہ گویا ہمارا تہذیبی و ثقافتی سرمایہ بالکل آخری سانسیں لے رہا ہے۔یہ غلبہ بڑے شہروں میں زیادہ نمایاں ہے ،کیوں کہ مغربی میڈیا اور تہذیب تک ان کی رسائی زیادہ ہے۔ خدارااس موقعےپر اسلاف کی ہدایت کی روشنی میںاپنی تہذیبی روایات کو زندہ کرنےکی کوشش کریں،کیوں کہ اسلام کی یہ جنگ اگر تہذیب کے میدان میں ہم ہار گئے، تو پھر عقائد و نظریات کے میدان میں بھی جیتنا مشکل ہو جائے گا۔

بلاشبہ عید الفطر کا تہوار، مسلمانوں کے لیے سب سے بڑا تہوار ہے۔نبی کریمﷺکا ارشاد ہے،’’ یہ ایّام کھانے پینے، باہم خوشی کا لطف اُٹھانے اوراللہ کو یاد کرنے کے ہیں ۔‘‘ اسی لیےاس دِن ہم نہ صرف بہت جوش وخروش سے عزیز واقارب سے ملتے ہیں،بلکہ انہیں اپنے گھروں پر مدعوبھی کرتے ہیں۔ دستر خوان بھی عام دِنوں کے مقابلے میں خاصا وسیع ہوجاتا ہے،جس پر سجے مزے دار چٹ پٹے مسالے دار کھانے اشتہا بڑھاتے رہتے ہیں، مگر یہ خاطر مدارات اور دعوتیں اُس وقت مشکل میں مبتلا کر دیتی ہیں،جب کھانوں سے لُطف اندوز ہوتے ہوئے نہ صرف بیمار افراد اپناپرہیز بھول جاتے ہیں، بلکہ تن درست افراد بھی ایسی بسیار خوری کرتےہیں کہ بعض اوقات عید کی خوشی، پریشانی میں بدل جاتی ہے۔بالخصوص ایسے موقعے پر جب مسلسل29 یا30روز تک طلوعِ آفتاب سے غروبِ آفتاب تک کھانے پینے سے دُور رہنے کے باعث انسانی معدہ ایک خاص معمول کا عادی ہوچُکا ہو، ہمیں بے حد احتیاط کی ضرورت ہوتی ہے۔اللہ کی نعمتوں سے لطف اندوز ہونے میں کوئی حرج نہیں، مگر ماہِ رمضان کے بعد اچانک بہت زیادہ کھانا پینا جسمانی نظام کے لیے نقصان دہ بھی ہو سکتاہے۔ سورۃ الاعراف میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے،’’کھاؤ پیو ، مگر حد سے تجاوز نہ کرو ، حد سے تجاوز کرنے والوں کو اللہ پسند نہیں کرتا۔‘‘لہٰذا عید کے تینوںایّام میں کھانے پینے کے معاملے میں بالخصوص احتیاط برتی جائے۔چوں کہ عیدکےموقعے پر عام دِنوں کے مقابلے میں زیادہ کیلوریز استعمال کی جاتی ہیں،تو اس کے نتیجے میں زیادہ تر افراد کا پیٹ خراب ہوجاتا ہے اورپھر اس کا علاج بھی وہ کچھ نہ کچھ کھاکر ہی کرتے ہیں۔ معدے میں سوزش اور تیزابیت، سینے میں جلن، خوراک کا ہضم نہ ہونا، پیٹ میں درد اور دست وغیرہ جیسے طبّی مسائل ضرورت سے زائد مسالے دار اور مرغّن کھانوں ہی کی وجہ سے ہوتے ہیں۔طبّی ماہرین کے مطابق فاسٹ فوڈز،پیزا، چپس، مسالے دار اور زائد نمکیات والے کھانے معدے کے السر اور ذہنی تنائو کا باعث بنتے ہیں۔ یہ خون کے دبائو ، جگر کی کارکردگی ، خون کے خلیوں اور ان کی گردش پر براہِ راست اثر انداز ہوتے ہیں، جس کے نتیجے میں کئی ذہنی و جسمانی بیماریاں بھی جنم لے سکتی ہیں، لہٰذا جو بھی کھائیں، اعتدال سے کھائیں۔ ایسے افراد جنہیں قبض، بواسیر، ریاح اور بدہضمی کی شکایت ہو، بہت زیادہ مسالے دار، چٹ پٹے کھانوں سے احتیاط برتیں کہ معدہ جب خالی ہوتا ہے، تو تیزابیت کی مقدار بڑھ جاتی ہے اور اس صورت میں اگر زیادہ کھالیا جائے، تو ظاہر سی بات ہے، سینے میں جلن، تیزابیت اور گیس کی شکایت پیدا ہوجائے گی۔ عید، تہوار اور شادی بیاہ جیسے مواقع پر ذیابطیس کے مریضوں کو زیادہ احتیاط کی ضرورت ہوتی ہے، کیوں کہ زیادہ میٹھی اور چکنائی والی اشیاء کے استعمال سے شکر کی سطح بڑھنےکاخطرہ بڑھ جاتا ہے۔اس کے علاوہ دِل، بُلند فشارِ خون اور معدے کے امراض میں مبتلا مریض بھی کھانے پینے کے معاملے میں خاص احتیا ط برتیں۔

چوں کہ رمضان کریم میں کھانے پینے کے اوقات میں تبدیلی کی وجہ سے جسم اس روٹین کا عادی ہو جاتا ہے،لہٰذا چند عمومی امور ضرور پیش نظر رکھے جائیں، جو صرف اس روز تک محدود نہ رہیں، بلکہ صحت مند زندگی کے لیے ان اصولوں کو ہمیشہ کے لیے اپنے معمولات کا حصّہ بنالیا جائے۔ مثلاًکھانے سے قبل دو کپ یا پانچ سو ملی لیٹر پانی پینے سے انسانی جسم کو کم کیلوریز لینےمیں مددملتی ہے۔ یہ اپنی بڑھتی خوراک میں کمی لانے کا مؤثرترین طریقۂ کار ہے ۔ پانی کا زیادہ سے زیادہ استعمال کیا جائے، کیوں کہ روزوں کے دوران ہمارے جسم میں پانی کی کمی واقع ہوجاتی ہے اور چوں کہ جسم سے پانی پیشاب، پسینے اور سانس لینے کے عمل سے بھی مسلسل خارج ہو رہا ہوتا ہے، تو اس کی مقدار برقرار رکھنا ضروری ہوجاتاہے،جس کا واحد حل پانی کا زیادہ سے زیادہ استعمال ہے۔ واضح رہے کہ پانی کا زائد استعمال وزن کی کمی کے لیے بھی معاون ثابت ہوتاہے۔تاہم، پانی کی کتنی مقدار جسم کے لیے ضروری ہے، اس کا انحصار جسمانی سرگرمیوں اور وزن پر ہوتا ہے۔ عمومی طور پر ایک فرد رکو روزانہ آٹھ سے دس گلاس پانی پینا چاہیے۔ موسمِ گرما میں عید کے روایتی پکوان جیسے قورما، بریانی، کڑاہی وغیرہ میں مسالاجات اور تیل کی مقدار کم رکھی جائے،کیوں کہ غذا ہضم ہونے کی شروعات معدے سے نہیں، بلکہ منہ سے چبانے سے ہوتی ہے۔ ہمارے منہ میں موجود لعابِ دہن میں ایسے خامرےپائے جاتے ہیں، جو خوراک نگلنے سے پہلے ہی اسے قابلِ ہضم بنانا شروع کردیتے ہیں۔ ماہِ رمضان کے بعد خوراک میں پھلوں اور سبزیوں کا استعمال بھی بڑھادیا جائے، کیوں کہ ان اشیاء میں موجود پانی اور فائبر پیاس بُجھانے کے ساتھ پیٹ بَھرنے کا احساس بھی دلاتے ہیں۔ پھلوں میں موجود مٹھاس جسم میں چینی کے لیے پائی جانے والی طلب پوری کرتی ہے،جس کے نتیجے میںہم اس قدر میٹھا استعمال نہیں کرتے، جو وزن بڑھانے کا سبب بن جائے۔بدقسمتی سے اب ہمارے ہاں یہ وہم عام ہو گیا ہے کہ غذا کی کثرت سے توانائی ذخیرہ ہوتی ہے، جس کا عملی مظاہرہ عید کے دِن دیکھا جاسکتا ہے۔یہ بات ذہن نشین کرلیں کہ کھانے کا مقصد محض پیٹ بَھرنا نہیں ہے، اس لیے پیٹ آدھا بھی بَھرجائے، تو کھانے سے ہاتھ کھینچ لیا جائے،کیوں کہ یہ عادت کئی عوارض سے محفوظ رکھتی ہے۔عید پر میٹھے لوازمات کے علاوہ گوشت کی مختلف ڈشز بھی بنائی جاتی ہیں، جن میں ایک تلا ہوا گوشت بھی ہے،جس کے استعمال میں انتہائی احتیاط برتی جائے کہ یہ صحت کے لیے مضرثابت ہوسکتا ہے۔پھر عام دِنوں میں بھی گوشت کا زائداور مسلسل استعمال کولیسٹرول ، یورک ایسڈ ، ہائی بلڈ پریشر اور دِل کی بیماریوں کا سبب بن سکتا ہے۔ایک تحقیق کے مطابق ایک فرد کو ایک دِن میں تقریباً70گرام سے زائدگوشت استعمال نہیں کرنا چاہیے، بصورتِ دیگر مختلف شکایات پیدا ہوسکتی ہیں۔ مثلاًبدہضمی ، ا سہال اورقے وغیرہ ۔پھر آئس کریمز، کیکس اور مٹھائیوں وغیرہ کا استعمال بھی بہت بڑھ جاتا ہے، اس میں موجود مٹھاس وزن میں اضافے کا باعث بنتی ہے، جب کہ ذیابطیس کے مریض بھی کسی پیچیدگی کا شکار ہو سکتے ہیں۔ جنک فوڈز کا استعمال ہماری عام عادت بن چُکا ہے، عید پر جنک فوڈ زکی بجائے گھر کا بنا ہوامتوازن کھانا کھانے کو ترجیح دی جائے۔ پھرہمارے یہاں عام دِنوں میں بھی مرغّن کھانوں کے ساتھ کولڈ ڈرنکس کا استعمال فیشن بن چُکا ہے۔ ان میں کئی ایسےکیمیائی مادّے شامل ہوتے ہیں،جو مختلف عوارض کا سبب بن سکتے ہیں،بہتر ہوگا کہ ان کی بجائے فریش جوسز استعمال کیے جائیں۔لیموں پانی کا استعمال مرغن غذاؤں کو ہضم کرنے میں مدد گار ثابت ہوتا ہے اورسینے کی جلن سے بھی محفوظ رکھتا ہے۔ اکثر افراد زیادہ کھانے کے بعد غنودگی سی محسوس کرتے ہیں اور سوجاتے ہیں۔ طبّی تحقیق کے مطابق کھانے کے فوراً بعد سونا بے حد خطرناک ہے۔ایک تو دِل کے دورے سے پہلے جو وارننگ سائن ملتے ہیں، نیند کی وجہ سے ان کا پتا نہیں چلتا، دوسرا یہ کہ کھانا بھی ٹھیک سے ہضم نہیں ہوپاتا ، جس کے باعث معدے کی مختلف بیماریوں اور انفیکشنز میں مبتلا ہونے کے امکانات بڑھ جاتے ہیں۔

یاد رکھیے،اگر کھانے پینے میں بے اعتدالی کومعمول نہ بنایا جائےاور توازن برقراررکھا جائے، توزندگی کے کئی خوش گوار مواقع سے ہم خُوب لطف اندوز ہو سکتے ہیں۔کھانے کا عام اصول یہ ہے کہ ہمیشہ بھوک رکھ کر کھانے کی عادت ڈالی جائے اور بے وقت کھاتے رہنے سےاجتناب برتا جائے۔ اس ضمن میں حضور ﷺنے ایک اصول بھی اپنی اُمّت کو بتایا ہے۔ آپؐ نے فرمایا،’’ انسان کو چاہیے کہ اپنے معدے کے تین حصّے کرے، ایک ٹھوس غذا کے لیے، ایک پانی کے لیے اور ایک حصّہ(ہوا کے لیے)خالی رہنے دے، تاکہ سہولت سے سانس لے سکے۔‘‘ ایک اور موقعے پر فرمایا،’’ہم وہ قوم ہیں، جو اس وقت تک نہیں کھاتے، جب تک ہمیں بھوک نہ لگے اور جب کھاتے ہیں، تو پیٹ بَھر کر نہیں کھاتے۔‘‘ جو افراد بسیار خوری کی وجہ سے موٹاپے کا شکار ہیں یا پھر کسی اور مرض میں مبتلا ہیں، انھیں عید کے موقعے پر کھانے پینے میں اعتدال کے ساتھ ساتھ احتیاط سے بھی کام لینا چاہیے ۔اسی طرح ذیابطیس کے مریض بھی کھانے کی مقدار کنٹرول کر کے اپنی پسندیدہ غذائیں کھا سکتے ہیں۔ علاوہ ازیں،دیگر غذائیں معمول کے مطابق استعمال کریں اور پانی زیادہ سے زیادہ پئیں۔اگر کھانے میں زیادتی ہو جائے، تو کچھ دیر کے لیے تیز رفتاری سے چلیں۔یعنی واک کرلیں۔معدے کے السر میں مبتلا مریض زیادہ تلی ہوئی اورمرغّن اشیاء ضرورت سے زیادہ استعمال نہ کریں ،جب کہ زیادہ ٹھنڈی اور زیادہ گرم چیزوںکے استعمال سے بھی اجتناب برتیں۔البتہ سویّاں، حلوا، سلاد، چنا چاٹ اور معمولی مقدار میں عید کے پکوان کھا ئے جاسکتے ہیں۔اسی طرح بُلند فشارِ خون کے مریض نمک کااستعمال کم سے کم کریں،تومرغّن غذائیں بھی کم مقدار میں کھائیں ، جب کہ دیگر کھانے جن میں نمک کی مقدار کم ہو ، کھا سکتے ہیں ۔ سلاد اور پانی کا استعمال بھی زیادہ کیا جائے،جب کہ عید کی گہما گہمی میں کچھ دیر آرام بھی ضرور کریں۔

عید سعید کے پُر مسرت موقعے پر کھا نے پینے میں اعتدال سے ہم نہ صرف مختلف قسم کی بیماریوں سے محفو ظ رہ سکتے ہیں ،بلکہ اچھے طریقے سے عید کی خوشیوں اور رنگینیوں سے اپنے عزیزو اقارب اور دوستوں کے ساتھ مل کر خُوب لطف اندوز بھی ہو سکتے ہیں۔

(مضمون نگار،علومِ اسلامیہ اور علم النّفس کے طالب علم ہیں)

تازہ ترین