• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

کتنا خوش قسمت ہو گا وہ انسان، جس کے شاگرد اُس کی راہوں میں پلکیں بچھائیں، ہم عصر دانش وَر اُس کی فکرو دانش کے گُن گائیں، اہلِ سیاست اُس سے علم و حکمت کے چند موتی لینا چاہیں،جس کی فکر سے متاثّر ہونے والوں میں علّامہ اقبالؔ، مولانا مودودیؒ، مولانا عبید اللہ سندھی ، قانون دان اے کے بروہی، سیاست دان جی ایم سیّد اور نہ جانے ان جیسے کتنے نام شامل ہوں۔جی ہاں ، یہ تمہیدی جملے علّامہ آئی آئی قاضی ہی کے لیے ہیں۔

قاضی اِمام علی انصاری ایک صاحبِ علم انسان ہونے کے ساتھ حیدر آباد، سندھ کے ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ کے منصب پر بھی فائز تھے۔اُن کے حلقۂ احباب میں ہر شعبے سےتعلق رکھنے والے افراد شامل تھے۔وہ نہ صرف علمی و ادبی ذوق کے حامل تھےبلکہ شعراء اور علماء کی سرپرستی بھی کیا کرتے۔ قاضی امام علی انصاری نے دو شادیاں کی تھیں۔9 اپریل 1886ء کواُن کی دوسری بیوی کے بطن سے جو بیٹا پیدا ہوا، اُس کا نام’’ امداد علی امام علی قاضی ‘‘ رکھا گیا، جسے دنیا’’ آئی آئی قاضی‘‘ کے نام سے جانتی ہے۔ گرچہ آئی آئی قاضی کی پیدائش حیدر آباد، سندھ میں ہوئی ،مگراُن کے خاندان کا تعلق ضلع دادو کے ایک اہم گاؤں ’’پٹ‘‘ سے تھا۔ امداد علی امام بچپن ہی سے ذہین تھا۔ یادداشت بے حداچھی تھی،جو کچھ دیکھتا ذہن نشین کرلیتا۔گرچہ گھریلو فضا ہر لحاظ سے دولت و ثروت سے پُر اور ہر مَن پسند چیز دسترس میں تھی،لیکن مضبوط تہذیبی تربیت اور نگہداشت نے کسی اخلاقی کج روی میں مبتلا نہ ہونے دیا۔ ابتدائی تعلیم دینے کے لیے ایک عالِم، اخوند عبدالعزیز کی خدمات حاصل کی گئیں۔اُستاد نے رفتہ رفتہ بچّے میں تعلیم کے شوق کو پروان چڑھایا اور مختلف زبانوں سے اُلفت پیدا کی۔یہ شاید اُن کی بہترین نگرانی ہی کا ثمر تھا کہ امداد علی نے جلد عربی،سندھی ،فارسی اور اُردو زبانوں میں مہارت حاصل کرنا شروع کردی ۔ بچپن کی عُمر سُرعت سے گزر گئی،مگر گزرتے وقت کے ساتھ بچّےنے عربی، فارسی، انگریزی اوراُردو زبانوں میں مہارت حاصل کرلی۔ 1904ء میں اسکول کی تعلیم کے دوران ہی سندھی زبان کا اعلیٰ ترین امتحان اور اگلے ہی برس 1905 ء میں بمبئی یونی وَرسٹی (موجودہ ممبئی یونی وَرسٹی) سے میٹرک کا امتحان بھی پاس کرلیا۔ثانوی تعلیم کے دَوران آئی آئی قاضی کے اساتذہ کو محسوس ہوگیاتھا کہ لڑکا انتہائی ذہین اور نصاب میں غیر معمولی دل چسپی لینے والا ہے۔اس لیے انہیں 1906 ء میں اعلیٰ تعلیم کے لیےعلی گڑھ مسلم یونی وَر سٹی بھیج دیا گیا۔اُس زمانے میں علی گڑھ میں تعلیم حاصل کرناافتخار کی علامت سمجھا جاتا تھا، مگر آئی آئی قاضی کو وہاں انٹر کا نصاب معیاری نہیں لگا، تو انہوں نے اس حوالے سے اپنے والدین کو آگاہ کیاکہ علی گڑھ یونی وَرسٹی میں تعلیم حاصل کرنا اُن کے حق میں بہتر نہ ہوگا، لہٰذا انہیں اعلیٰ تعلیم کے لیے بیرونِ مُلک بھیجا جائے۔ گھر والے بھی بہ خُوبی جانتے تھے کہ امداد علی غیر معمولی طالب علم ہے اور اگر اس نے محسوس کیا ہے کہ علی گڑھ مسلم یونی وَرسٹی میں اُس کے خوابوںکو تعبیر نہیں مل سکتی ، تو ایسا ہی ہو گا۔ یہی وجہ تھی کہ گھر والے اُنہیںباہر بھیجنے پر آمادہ ہو گئے۔ یوں 1907 ء میں اعلیٰ تعلیم کے لیے اپنے ماموں زاد بھائی ایم اے حفیظ کے ہم راہ بحری جہاز سے لندن روانہ ہوئے۔ یہ وہ دَور تھا، جب ہندوستان تیز رفتار سیاسی تبدیلیوں کی زَد میں تھا۔ مسلم لیگ کا قیام عمل میں آ چکا تھا اورمسلمانوں میں بیداری کی لہر محسوس کی جا سکتی تھی۔ اسی تسلسل میں 1908 ء میں برطانیہ میں بھی مسلم لیگ کی شاخ قائم کی گئی، جس کی تنظیمی صدارت سیّد امیر علی کو سونپی گئی۔سیّد امیر علی نے ،نوجوان آئی آئی قاضی کی فعال اور متحرّک شخصیت میں ایک سمجھ دار اور تعلیم یافتہ مسلمان کی تمام تر خوبیاں موجود پاتے ہوئے ،اُنہیں جوائنٹ سیکریٹری کے عہدے پر کام کی پیش کش کی۔ تاہم،انہوں نے معذرت کر لی، کیوںکہ وہ اُس وقت خود کو سیاسی مصروفیتوں اور الجھنوں میں مبتلا نہیں کرنا چاہتے تھے۔ برطانیہ کی وسیع و عریض دنیا میں آئی آئی قاضی کو اپنے شعور کی سطح بلند کرنے کا پورا پورا موقع حاصل ہوا ۔ 1909 ء تک انہوں نےپہلے لندن اسکول آف اکنامکس سے معاشیات اور پھر کِنگز کالج، لندن سے نفسیات کی اسناد حاصل کیں۔اسی زمانے میں انہوں نے مشرقی علوم پر گہری دسترس رکھنے والے تھامس آرنلڈ اور اور پروفیسر ایل ٹی ہاب ہاؤس کی صحبتوں سے بھی بھر پوراستفادہ کیا۔ بعد ازاں ،وہ اعلیٰ تعلیم کے لیے جرمنی چلےگئے، جہاں اُن کی ملاقات ایلساجیر ٹروڈ نامی ایک خاتون سے ہوئی اور وہ دونوں 1910 ء میں شادی کے بندھن میں بندھ گئے۔یوں ایلسا ٹروڈ ، ایلسا قاضی کے نا م سے پہچانی جانے لگیں۔ وہ ایک شاعرہ اور ادیبہ ہونے کے ساتھ فلسفے سے بھی خاص شغف رکھتی تھیں۔اُن کی دل چسپی کا ایک اور محورومرکز موسیقی تھی، جس میں انہوں نے بہت سی کام یابیاں بھی سمیٹیںاوراس کی ایک وجہ شاید یہ بھی تھی کہ ایلسا کو موسیقی سے لگاؤ وَرثے میں ملا تھا ، اُن کے والد اعلیٰ پائے کے موسیقار تھے۔ صرف یہی نہیں،ایلسا مصوّری بھی اس کمال کی کرتی تھیں کہ بہت سے اعلیٰ جرمن خاندانوں میں اُن کی پینٹنگز اہتمام کے ساتھ گھر کی زینت بنائی جاتیں۔ایلسا قاضی نےشاہ عبداللّطیف بھٹّائی کے کلام کے انگریزی تراجم کی مدد سے سندھ دھرتی کی اس عظیم شخصیت کے افکار سے بھی بہت رہنمائی حاصل کی۔

1911 ء میں آئی آئی قاضی نے لنکنز اِن،لندن سے بار ایٹ لاکی ڈگری حاصل کی اور وہیں قانون کی پریکٹس شروع کر دی۔سماجیات، تاریخ، ادب اور مذاہب کا تقابلی مطالعہ اُن کی ذہنی تسکین کا ایک اور میدان تھا۔یہی نہیں،طبیعات، فلکیات، نباتیات جیسے موضوعات بھی اس غرض سے اپنی طرف متوجّہ کرتے کہ سائنسی موضوعات کا مطالعہ قدرت کے اصولوں کو سمجھنے میں معاون ثابت ہو سکے۔اسی کے ساتھ انہوں نے مغربی علوم اور ادب پر بھی گہری توجّہ مرکوز رکھی ۔ مذکورہ سال وہ اپنی شریکِ حیات کے ساتھ واپس حیدرآباد آئے۔تاہم، دو ہی برس بعددوبارہ برطانیہ چلے گئے۔یعنی 1914ء میںپہلی جنگِ عظیم کے دَوران اُن کاقیام برطانیہ میں تھا، جو 1918ء تک رہا۔ 1919 ء میں وہ اپنے وطن واپس پہنچےاوراُسی سال اُن کے والد کا انتقال ہو گیا۔اب ایسی صورت دَرپیش تھی کہ وہ برطانیہ واپس نہیں جا سکتے تھے،لہٰذاانہوں نے ہندوستان ہی میں رہنے اور ملازمت کرنے کا ارادہ کیا۔اُس زمانے میں ہندوستان پر برطانوی راج بہت طمطراق سے قائم تھا اور برطانوی اقتدار کا سورج غروب ہونے کا امکان تقریباً معدوم ہوچکاتھا۔ برطانوی حکومت نے آئی آئی قاضی کو ٹنڈو محمد خان،سندھ میں سول جج کی ملازمت کی پیش کش کی،جسے انہوں نےقبول کر لیا۔ کچھ ہی وقت بعد اُنہیں خیرپور ،سندھ میں ڈسٹرکٹ اینڈ سیشنز جج کا عہدہ دے دیا گیا۔یہاں قیام کے دَوران علّامہ صاحب کوصوفی مزاج رکھنے والے شاعر ،میر علی نواز ناز کی شاعری سے بھی لگاؤ پیدا ہوگیا۔ 1921 ء میں اُنہیں ’’ریاست خیرپور کا داخلی نمایندہ ، برائے مشاورتی کاؤنسل‘‘ کا عہدہ بھی پیش کیا گیا، جو انہوں نے قبول تو کرلیا۔ تاہم ، آئی آئی قاضی برطانوی حکومت کے مقامی لوگوں کے ساتھ روا رکھے جانے والے امتیازی سلوک کو دُرست نہیں سمجھتے تھے۔

’’اُردو غزل ‘‘پرانگریزی زبان میں تحریر کیا گیا اُن کا ایک مقالہ 1924 ء میںبرطانیہ میں شایع ہوا،جسے بے حد پسند کیا گیا اور اسی بنیادپرمیر علی نواز ناز کی ایک اُردوغزل بھی، انگریزی زبان میں شایع ہوئی( اس غزل کو انگریزی پیرہن عطا کرنے والی ایلسا قاضی تھیں)۔اب علّامہ آئی آئی قاضی خیرپور کی ملازمت ترک کرکے پبلک پراسیکیوٹر ،تھرپارکر کے عہدے پرتعیّنات ہوچکے تھے۔ ابھی ملازمت شروع کیے زیادہ وقت نہ ہوا تھا کہ انہوں نے ادارے سے طویل رخصت لی اور ایک بار پھر لندن کا رُخ کرلیا۔ 1928ء میں ’’فلاسوفیکل سوسائٹی آف انگلینڈ‘‘ کے رکن بنے۔یہاں سے انہوں نے 1931 ء میں اپنا استعفیٰ روانہ کر دیا۔لندن میں اپنے قیام کے دَوران انہوں نے وہاں کے مختلف مذہبی اجتماعات ، بالخصوص جمعے کے روز خطبات دینے کا سلسلہ شروع کیا۔ مذہب پر اُن کی گہری دسترس اور تقابلی مذاہب پر وسیع معلومات حاضرین و سامعین کو بے حد متاثر کرتیں۔ 1932ء میں نام وَر ڈراما نگار اور ادیب، جارج برنارڈ شا نے’’The Adventures of the Black Girl in Her Search for God ‘‘کے عنوان سے ایک مقالہ تحریر کیا، جس کالُبِّ لباب یہ تھا کہ طرزِحیات میں دینی عقایدکا کوئی خاص کردار نہیں ہوتا۔ 1933ء میں آئی آئی قاضی اور اُن کی اہلیہ نے جواباً ایک مقالہ’’ Adventures of the Brown girl in her search of God ‘‘ پیش کیا،جس میں برنارڈ شا کے دلائل کومکمّل طور پررَد کیا گیا تھا۔1934ء میں انہوں نے لندن میں رہنے والے مسلمانوں کے لیے ’’جماعت المسلمین ‘‘ کے نام سے ایک اِدارے کی بھی بنیاد رکھی۔ آئی آئی قاضی نے لندن میں لگ بھگ چار برس گزارے ۔ بعد ازاں، ہِزہائینس، خیرپور کے پیہم اصرار پر 1935ء میں ایک بار پھر وطن واپس لوٹے۔یہاں ’’انجمنِ تبلیغِ اسلام‘‘ نے اُنہیں اپنا صدر منتخب کر لیا۔ تاہم ، اُنہیں مختلف دینی رہنماؤں کے درمیان چھوٹے چھوٹے اُمور پر سخت اختلافات کا مشاہدہ کر کے بہت مایوسی ہوئی اور وہ اُسی سال اکتوبر1935 ء میں ایک بار پھر لندن چلے گئے۔1936 ء میں سندھ کو بمبئی سے الگ کر دیا گیا، یہ ایک بڑا سیاسی اور انتظامی فیصلہ تھا۔ آئی آئی قاضی کی شاید سب سے بڑی خواہش یہ تھی کہ وہ سندھ میں تعلیم عام کریں،سو مذکورہ قدم کی صورت ،اُن کی یہ اُمّیدبڑھ گئی کہ اب ایسا ہونا ،ممکن ہو چلا ہے۔ یوں لندن میں دو مزید برس گزارنے کے بعد وہ1938 ء میں کراچی آ گئے۔یہاں اُنہوں نے جمعے کی نماز پڑھانے اور خطبہ دینے کا سلسلہ شروع کیا،تو اُن کی پُر مغز تقاریر کی شہرت دُور دُور تک پھیل گئی ۔ اُن کے خطبے سننے کے لیے نام وَر افرادنے آنا شروع کر دیا۔ ایسی ہی نام وَر شخصیات میںسے ایک شخصیت، اے کے بروہی کی بھی تھی،جنہوں نے آگے چل کر قانون کی دنیا میں اپنا لوہا منوایا۔یہیں جی ایم سیّدنے بھی اُن سے مراسم استوار کیے ۔1939ء میں انہوں نے حکومت کی درخواست پر عدالتی اُمور کی ذمّے داریاں سنبھالیں۔ غالباً یہی موقع تھا جب اکبر بگٹی بھی ان کے نام اور کام سے متاثر ہوئے۔کہا جاتا ہے کہ اُن کے کچھ خُطبوں میںمولانا ابوالکلام آزاد نے بھی بہ طور سامع شرکت کی۔ 1940 ء میں ’’قراردادِ پاکستان‘‘ کی منظوری کے بعد یہ نظر آنے لگا تھا کہ ہندوستان کی تقسیم ہو کر رہے گی۔ آزادی کا کارواں انتہائی تیز رفتاری سے حُرّیت کے راستوں سے گزرتا ہوا منزل کی طرف گام زن تھا۔سندھ وہ پہلا صوبہ تھا ،جس نے 1943ء میں اپنے پارلیمانی اجلاس میںپاکستان کے حق میں قرارداد منظور کی۔جی ایم سیّد نےاجلاس سے خطاب کرتے ہوئےکہا کہ ’’میں نے جو تقریر کی ،وہ در اصل آئی آئی قاضی کا پَر تو تھی۔‘‘ 1947 ء میں جب پاکستان کا قیام عمل میں آیا، تو علّامہ آئی آئی قاضی کو جج بننے کی پیش کش کی گئی،لیکن انہوں نے قبول نہ کی اوربرطانیہ چلے گئے۔ 1951ء میں واپس آئے اور سندھ یونی وَرسٹی کے وائس چانسلر کے طور پر فرایض ادا کرنے شروع کیے۔ اُن کی سر براہی میں محض چند ہی برسوں میںسندھ یونی وَرسٹی نے مضبوط بنیادوں پر کام شروع کر دیا، اب یہاں سے ایم اے اور پی ایچ ڈی کی اسناد بھی جاری کی جانے لگیںاوریہ صرف علّامہ آئی آئی قاضی کی متحرّک، فعال اور صاحبِ علم شخصیت ہی کی بِنا پر ممکن ہوا تھا۔علم دوستی کا یہ عالم تھا کہ انہوں نے اپنی آدھی تن خواہ اِدارے کو دینا شروع کر دی، دیگر اساتذہ کے برعکس اپنے مصرف میں ایک گاڑی تک نہ رکھی۔ یہ سارا عمل اُن کی غیرمعمولی شخصیت کا غمّاز تھا۔1955 ء میں وَن یونٹ کے نفاذ کے بعد اُس وقت کے مغربی پاکستان(موجودہ بنگلا دیش) کے گورنر ،نواب مشتاق گورمانی نے حیدرآباد،سندھ کادَورہ کیا ۔تمام سرکاری افسران کو تاکید کی گئی تھی کہ وہ سرکِٹ ہاؤس پہنچ جائیں،جہاں گورنرکی اُن سے ملاقات ہو گی۔ جب صبح کے وقت علّامہ آئی آئی قاضی وہاں پہنچے تو دیکھا کہ ایک مجمع تھا،جہاں افسران سے گورنر محوِ کلام تھے۔ وہ یہ دیکھ کر واپس لوٹ گئے،کسی نے گورمانی کو اطلاع دی کہ علّامہ آئی آئی قاضی آپ سے ملاقات کیے بغیر ہی روانہ ہو گئے۔انہوں نے جلدی جلدی سرکاری اُمور نمٹائے اور سوِل لائنز کا رُخ کیا،جہاں آئی آئی قاضی کا قیام تھا، جب گورمانی وہاں پہنچے ، تودوپہر کے دو بج چکے تھے ۔اُنہیں بتایا گیا کہ یہ قاضی صاحب کے آرام کا وقت ہے اور وہ کسی سے نہیں مل سکتے۔ گورمانی اُس وقت نہ صرف واپس چلے گئےبلکہ شام کو پانچ بجےدوبارہ اُن سے ملنے آئے۔

مُلک میں پہلے مارشل لا کا نفاذ اکتوبر 1958 ء میں ہوا۔ اسی سال سندھ یونی وَرسٹی میں چند فوجی اہل کار آئے اور علّامہ آئی آئی قاضی کے سلسلے میں پوچھ گچھ کی گئی۔ جب علّامہ صاحب کو یہ اطلاع ملی، تو انہوں نے سندھ یونی ورسٹی سے فی الفور استعفیٰ دے دیا۔ بیگم ایلساقاضی کا انتقال مئی 1967 ءمیں ہوا،جب کہ علّامہ آئی آئی قاضی 13 اپریل 1968 ءکو جہانِ فانی سے کُوچ کر گئے۔ اُن کی کوئی اولاد نہیںتھی۔اُن کے خاندان میں بہت سے نام وَر افراد پیدا ہوئے۔ایسے ہی افراد میں سے ایک اے جی این قاضی بھی تھے،جن کا پورا نام آفتاب غلام نبی قاضی تھا۔1919 ء میں غیر منقسم ہندوستان کی سندھ،بمبئی پریزیڈنسی میںپیدا ہونے والے ،اے جی این قاضی نے 1944 ء میں آئی سی ایس(انڈین سول سروس) کا امتحان پاس کیا اور بہار اور اڑیسہ میں ڈپٹی کمشنر کے طور پر خدمات انجام دیں۔پاکستان بننے کے بعد وہ بہت سے اعلیٰ عُہدوں پر فائز رہے۔1978ء میں اسٹیٹ بینک آف پاکستان کے گورنر مقرّر ہوئے، جہاں سے 1986 ء میں سبک دوش ہوئے۔ 1993 ء میں اُنہیں پرائیوٹائزیشن کمیشن کا چیئرمین بنایا گیا۔وہ اس عہدے پر ایک برس تک کام کرتے رہے۔ اے جی این قاضی نے اپنی طویل پیشہ ورانہ ملازمت میں بہت سے صدور اور وزرائے اعظم کے ساتھ کام کیا۔وہ اگست 2016 ء میں طویل علالت کے بعد انتقال کر گئے۔

اسی نام وَر گھرانے کا ایک اور چمکتا دمکتا ستارا، جسٹس مامون قاضی کے نام سے پہچانا گیا۔ ایس ایم لا کالج سے قانون کی تعلیم پانے والے مامون قاضی نوّے کے وسط میں سندھ ہائی کورٹ کے چیف جسٹس مقرّر ہوئے ۔اُنہی دنوں مرتضیٰ بھٹو دہشت گردی کا نشانہ بنے۔اُن کے کیس کی سماعت جسٹس مامون قاضی ہی نے کی۔1997ء کے آخر میں وہ ترقّی پا کر سپریم کورٹ کے جج مقرّرہوئے۔وہ سپریم کورٹ کے اُن چھے ججز میں شامل تھے، جنہوں نے فوجی حکم راں، جنرل پرویز مشرف کی حکومت میں پی سی او کے تحت حلف اُٹھانے سے انکار کر دیا تھا۔جسٹس مامون قاضی کا انتقال اپریل 2014 ء میں ہوا۔

ڈاکٹر شاہدہ قاضی کا شمار مُلک کی ممتاز ہستیوں میں کیا جاتا ہے۔علّامہ آئی آئی قاضی کی نواسی (قاضی صاحب کی بھانجی کی بیٹی) شاہدہ قاضی 1944 ء میںپیدا ہوئیں۔ وہ گزشتہ کئی دَہائیوں سے درس و تدریس کے شعبے سے وابستہ ہیں۔ اُن کے والد قاضی محمد حسن تجارت کے شعبےسے وابستہ تھے۔ شاہدہ قاضی کراچی یونی وَرسٹی سے 1965ء میں صحافت میں ایم اے کرنے والی پہلی طالبہ تھیں۔1966ء میں روزنامہ ڈان سے بہ حیثیت رپورٹر منسلک ہوئیں۔صحت،تعلیم اور اُمورِ خواتین سے متعلق خبریں تیار کرنا اُن کے فرایض کا حصّہ تھا۔جس زمانے میں انہوں نے رپورٹنگ کا کام شروع کیا، تو اُن کے چند رفیق کار مرد صحافی اُنہیں ازراہِ مذاق ’’مینا بازار‘‘ کہا کرتے تھے، کیوں کہ اُن کے خیال میں خواتین کوکسی ایسے شعبے میں رپورٹنگ کرنے کا حوصلہ نہ تھا،جہاں دُشواریاں راہ تک رہی ہوتی ہیں۔ تاہم ، شاہدہ قاضی نے اس کام کو ایک چیلنج سمجھ کر قبول کیا اور غالباً یہ طبیعت کی اُسی استقامت اور حوصلے کا نتیجہ تھا کہ وہ 1968 ء میں پی ٹی وی سے بہ طوررپورٹر وابستہ ہوئیں اور صحافت سے متعلق خبروں کی بہم رسانی کا کام شروع کیا۔بعد ازاں، اتنی ترقّی کہ نیوزپروڈیوسر کے عہدے سے نیوز ایڈیٹر کے عہدے تک پہنچیں۔وہ 1985 ء تک پی ٹی وی سے وابستہ رہیں۔اگلے قدم کے طور پر کراچی یونی وَرسٹی سے تعلق استوارکیا اور ایک طویل عرصے تک صحافت کی تعلیم دیتی رہیں۔ نیز، جامعہ کراچی کے علاوہ دیگر جامعات جیسے جناح یونی وَر سٹی برائے خواتین وغیرہ میں بھی بہ طور صدرِشعبۂ ابلاغیاتِ عامّہ بھرپور خدمات انجام دیں۔ وہ صحافت کے موضوع پر کئی کتابیں بھی تحریر کر چکی ہیں۔ڈاکٹر شاہدہ قاضی کی زندگی اس مُلک کی خواتین کے لیے ایک مثال ہے۔ وہ زندگی کی پون صدی گزارنے کے بعد بھی متحرّک اور فعال ہیںاورسماجی و صحافتی سلسلوں سے منعقد ہونے والی تقریبات میں اپنے تجربات اور مشاہدات کو بہت سادہ اور عام فہم الفاظ میں لوگوں اور طلبہ تک پہنچاتی ہیں۔

علّامہ آئی آئی قاضی کی زندگی سے شروع ہونے والا علم کا سفر نسل در نسل آگے بڑھ رہا ہے اور یوں یہ خانوادہ اس مُلک کی ترقّی میں اپنا شان دار کردار پوری دل جمعی سے ادا کرنے میں مصروف ہے۔ 

تازہ ترین