• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

آخر یہ’’ میثاقِ معیشت‘‘ ہے کیا…؟؟اِن دنوں نہ صرف یہ سوال سیاسی منظر نامے پر چھایا ہوا ہے، بلکہ عوامی سطح پر بھی اِس حوالے سے خاصا تجسسں پایا جاتا ہے۔ مجوّزہ میثاق کے مختلف پہلو زیرِ بحث ہیں کہ اِس میں حکومت اور حزبِ اختلاف کا کیا کردار ہے اور اُنھیں مزید کیا کردار ادا کرنا چاہیے۔ پھر ایک اہم سوال یہ بھی ہے کہ کیا موجودہ کشیدہ سیاسی حالات میں، جب دو بڑی جماعتوں کے سربراہ سلاخوں کے پیچھے ہیں، اِس طرح کا کوئی معاہدہ واقعتاً عمل میں آ بھی سکتا ہے یا یہ صرف سیاسی پوائنٹ اسکورنگ ہے؟نیز، یہ بھی کہ کیا موجودہ بحرانی دَور میں مُلکی معیشت اِس طرح کے کسی میثاق سے سنبھل بھی سکتی ہے…؟؟ میثاقِ معیشت کی بات اس قدر اہمیت کیوں اختیار کر گئی اور اس کے لیے پسِ پردہ کوششیں کیوں کی جا رہی ہیں؟ اس تگ و دَو کی وجہ صاف ظاہر ہے کہ مُلک میں جاری بدترین معاشی بحران حکومت کے قابو میں آرہا ہے اور نہ ہی باہر سے’’ درآمد‘‘ کیے گئے ماہرین معاشی گراوٹ کے سامنے بند باندھنے میں کام یاب ہو رہے ہیں۔ ڈالر مسلسل بے قابو ہے، تو اسٹاک ایکسچینج پر بھی بے یقینی کے سائے قابض ہیں، روزمرّہ استعمال کی اشیاء کی قیمتوں کو کچھ ایسے پَر لگے ہیں کہ وہ عام آدمی کی پہنچ ہی سے دُور ہوگئیں۔ کسی کو کچھ سمجھ نہیں آ رہا کہ مُلکی معیشت کے ساتھ آخر یہ ہو کیا رہا ہے؟حالاں کہ جسے معیشت اور حکم رانی کی ذرا سی بھی شُدبُد تھی، وہ بار بار کہہ رہا تھا کہ قومی اتفاقِ رائے کے بغیر یہ بحران ٹلنے والا نہیں، مگر ابتدا میں کسی نے اِس بات پر توجّہ نہ دی اور اب جب معاملات سنگین صُورت اختیار کرچُکے ہیں، تب اتفاق، اتفاق کی صدائیں بلند ہونے لگی ہیں۔

وسیع تر قومی تناظر میں یہ بات سمجھنا ضروری ہے کہ مُلکی معیشت کا تعلق کسی ایک پارٹی یا حکومت سے نہیں، بلکہ اس کا براہِ راست تعلق عوام اور ریاست کی بقا سے ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ترقّی یافتہ دنیا میں اِس طرح کے معاملات پر ایک طرح کا قومی اتفاقِ رائے پایا جاتا ہے اور حکومتوں کی تبدیلی یا شخصیات کے اِدھر اُدھر ہونے سے بنیادی قومی ایشوز پر کوئی فرق نہیں پڑتا۔ اِس اتفاقِ رائے کی وجہ سے اُن ممالک کا سفر ایک واضح سمت میں آگے کی طرف بڑھتا رہتا ہے۔اِس کے برعکس، جن اقوام نے اپنے باہمی اختلافات کو قومی مفادات پر ترجیح دی، وہ ترقّی کی دوڑ میں بہت پیچھے رہ گئیں، بلکہ باہمی انتشار اور ذاتی اغراض کو اوّلیت دینے کے سبب کئی مضبوط سلطنتوں اور تہذیبوں کی چُولیں تک ہِل گئیں۔ بہرحال، اس سارے معاملے کا افسوس ناک پہلو یہ ہے کہ موجودہ حکومت نے ابتدا ہی سے معیشت کو کچھ خاص سنجیدگی سے نہیں لیا۔ وہ معاشی مسائل سے طے شدہ طریقوں اور قوانین کے مطابق نمٹنے کی بجائے غیر روایتی اور آسان طریقوں سے پیچیدہ معاملات حل کرنے کی کوششوں میں لگی رہی، جس سے صُورتِ حال نے سنگین رُخ اختیار کرلیا۔ خود وزیرِ اعظم، عمران خان ایسا تاثر دیتے رہے کہ اربوں ڈالرز کہیں باہر پڑے ہیں اور اُنھیں صرف یہ کرنا ہے کہ کسی بھی طریقے سے اُن ڈالرز کو پاکستان میں لے آئیں اور اس کا آسان طریقہ چند موٹی اسامیوں کو جیل کی ہوا کِھلانا ہے، جس سے دیکھتے ہی دیکھتے اربوں ڈالرز مُلکی معیشت کا حصّہ بن جائیں گے۔ کیا واقعی معاشی مسائل کا یہی حل ہے؟ اور پاکستان جیسے بیس کروڑ آبادی کے مُلک کی معیشت چلانے میں یہ طریقہ کار گر ہو سکتا تھا یا اب بھی ہوسکتا ہے؟یہ موجودہ حالات میں ایک اہم سوال ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ شاید ہی کسی ماہرِ معیشت نے اس طریقے کو کوئی اہمیت دی ہو، کیوں کہ بنیادی طور پر اِس طرح کے منصوبے عموماً ہوائی ثابت ہوتے ہیں۔ البتہ، کبھی کبھار اس طرح کے منصوبے ہنگامی یا وقتی ریلیف کا ذریعہ بھی بن جاتے ہیں، مگر پاکستان کے سیاسی حالات میں ایسے کسی منصوبے کی کام یابی کا چانس نہ ہونے کے برابر تھا اور ایسا ہی ہوا۔ بدقسمتی سے پاکستان کو معاشی لحاظ سے بڑے مسائل کا سامنا ہے،جو توانائی، تعلیم، صحت اور روزگار تک پھیلے ہوئے ہیں، ایسے میں خیالی منصوبوں کی بنیاد پر مسائل کے حل کی توقّع اقتصادی معاملات سے لاعلمی ہی کہلائے گی یا پھر یہ خود فریبی کی کوئی قِسم ہے۔اب یہ کوئی راز نہیں کہ وزیرِ اعظم کے ویژن اور پی ٹی آئی کے منشور میں اقتصادی معاملات کو ترجیحی مقام حاصل نہیں تھا۔خود حکم ران پارٹی کے سرکردہ لیڈر اور ماہرین، حد یہ کہ اسد عُمر نے بھی، جنہیں پارٹی میں اقتصادی اُمور کا ماہر اور الٰہ دین کا چراغ مانا جاتا رہا، اعتراف کیا کہ اُنہیں تو حکومت میں آنے کے بعد علم ہوا کہ مُلک معاشی لحاظ سے کس قدر دشوار اور نازک صُورتِ حال سے دوچار ہے۔ اِسی طرح اُن کے زیرِ اثر عمران خان بھی عوامی اجتماعات میں اعلان کرتے رہے کہ آئی ایم ایف یا مختلف ممالک سے قرض لینا، بھیک مانگنے کے مترادف ہے۔نیز، وہ اس طرزِ عمل کو حکم رانوں کا بدترین گناہ سمجھتے تھے، بلکہ ایک موقعے پر تو اُنھوں نے یہاں تک کہہ دیا تھا کہ’’ قرض مانگنے سے بہتر ہے کہ خود کُشی کر لی جائے۔‘‘تاہم، یہ سارے اعلانات اور دعوے ماضی کی کہانی بن چُکے ہیں، کیوں کہ حکومت اب خود یہی کام کر رہی ہے۔ یہاں تک کہ خود وزیرِ اعظم، عمران خان قرضوں اور امداد کے حصول کے لیے سعودی عرب، متحدہ عرب امارات، چین اور ملائشیا وغیرہ کے دَورے کر چُکے ہیں۔ اِن دَوروں میں اُنھیں خاصی کام یابی بھی حاصل ہوئی ۔ اُنھوں نے نہ صرف قرضوں اور امداد کے معاہدے کیے، بلکہ مُلک میں سرمایہ کاری لانے میں بھی کام یاب رہے ۔ سعودی عرب، یو اے ای اور چین کے بعد اب قطر نے بھی پاکستان کے لیے تین ارب ڈالرز کے ایک خصوصی پیکیج کا اعلان کیا ہے۔

اس پس منظر میں مجوّزہ میثاقِ معیشت کی کوششوں کا جائزہ لینا مناسب ہوگا۔ تاہم، اس سے پہلے پاکستان میں معاہدوں کی روایات پر بھی ایک نظر ڈال لینی چاہیے۔سابق صدر، پرویز مشرف کے دَور میں ایک مشہور مفاہمتی دستاویز پر دست خط ہوئے، جسے’’ میثاقِ جمہوریت‘‘ کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ دِل چسپ بات یہ ہے کہ لندن میں ہونے والے اس میثاق کا اُس وقت کی حکومت سے کوئی تعلق نہ تھا، بلکہ یہ معاہدہ آگے چل کر مشرف حکومت کو ہٹانے اور مُلک میں جمہوریت بحال کرنے کا ایک ذریعہ بنا۔ مشرف حکومت’’ میثاقِ جمہوریت‘‘ کو روزِ اوّل سے مُلکی سالمیت اور استحکام کے خلاف سازش قرار دیتی رہی، لیکن پھر اسی میثاق کے دباؤ میں آکر حکومت نے پہلے بےنظیر بھٹّو صاحبہ اور پھر میاں نواز شریف کو انتخابات میں حصّہ لینے کی اجازت دی۔ ’’میثاقِ جمہوریت‘‘ پاکستان پیپلز پارٹی کی سربراہ، بے نظیر بھٹّو اور نون لیگ کے صدر، میاں نواز شریف کے درمیان لندن میں طے پایا تھا، اسی لیے کچھ ناقدین اُسے’’ لندن پلان‘‘ کے نام سے بھی پکارتے ہیں۔ واضح رہے ، وزیرِ اعظم، عمران خان اس معاہدے کے زبردست ناقد رہے ہیں اور اُن کا کہنا ہے کہ اسی معاہدے کے تحت ایک این آر او ہوا، جس کے تحت دونوں بڑی پارٹیوں نے باریاں لگانے کا سمجھوتا کیا اور وہ اس پر گزشتہ دَس سال سے عمل پیرا تھیں کہ اُنھوں نے اقتدار میں آکر ان دونوں بڑی پارٹیوں کی پارٹنرشپ توڑ دی۔ عمران اس کام یابی کو اپنی بائیس سالہ کوششوں کا ثمر بھی قرار دیتے ہیں۔اس پس منظر کو ذہن میں رکھ کر اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ وزیرِ اعظم کی سوچ کسی بھی ایسے میثاق کے بارے میں کیا ہوسکتی ہے، جو نون لیگ اور پی پی پی سے کیا جائے، لیکن مُلکی معیشت کی زمینی حقیقت نے اُن کو اپنی سوچ اور نظریے پر نظرِثانی پہ مجبور کردیا۔ وہ زمینی صُورتِ حال یہ ہے کہ پچھلے دنوں تحریکِ انصاف کی حکومت نے اپنا پہلا باقاعدہ بجٹ قومی اسمبلی میں پیش کیا، تو اُسے اپوزیشن کی جانب سے سخت ترین تنقید کا سامنا کرنا پڑا۔ نیز، عوامی سطح پر بھی بجٹ کو خوش آمدید نہیں کہا گیا، جس سے حکومت خاصی دباؤ میں نظر آ گئی۔ دوسری طرف، حکومت کو اپنی بقا کا مسئلہ بھی درپیش ہے کہ پی ٹی آئی حکومت، ایک کم زور اتحادی حکومت ہے، جو ایم کیو ایم اور سردار اخترمینگل کے ووٹس پر کھڑی ہے۔ یعنی اسے ایوان میں معمولی سی برتری حاصل ہے، جسے کھونے کا مطلب اقتدار سے ہاتھ دھونا ہوگا، لیکن نہ معلوم کیوں وزرا مسلسل یہ تاثر دیتے رہے کہ اُن کی حکومت خاصی مضبوط ہے، خود وزیرِ اعظم بھی اپوزیشن کے خلاف سخت زبان استعمال کرتے ہیں، یہاں تک کہ حزبِ اختلاف کے رہنماؤں کو’’ چور، ڈاکو‘‘ تک کہہ ڈالتے ہیں۔علاوہ ازیں، عمران خان اپوزیشن سے کسی بھی قسم کی مفاہمت کو مُلک سے دشمنی کے مترادف گردانتے ہیں۔ بجٹ کی رات قوم سے خطاب میں بھی اُن کی اس سوچ کی واضح عکّاسی ہوئی۔اسی لیے بہت سے ناقدین کا خیال ہے کہ’’ میثاقِ معیشت‘‘ کا مقصد کوئی لانگ ٹرم اقتصادی پالیسی طے کرنا نہیں، بلکہ یہ عارضی مسائل کے حل کی ایک حکومتی حکمتِ عملی ہے۔البتہ، کئی تجزیہ کار اسے بھی اچھی سیاست کہتے ہیں، کیوں کہ اُن کے مطابق مُلک چلانے کے لیے بہرحال کئی معاملات میں باہمی افہام وتفہیم ضروری ہے۔ لیکن دوسری رائے یہ بھی ہے کہ محض عارضی اقدامات کی بے ساکھیوں پر مُلکی ترقّی قربان کرنا، مُلک وقوم کے مستقبل کو داؤ پر لگانے کے مترادف ہے۔

اِس وقت مُلکی آبادی کا 60 فی صد سے زاید نوجوانوں پر مشتمل ہے، جو بہتر مستقبل کے خواب آنکھوں میں سجائے بیٹھے ہیں۔ خاص طور پر جب وہ اپنے اطراف کے مُلکوں کو ترقّی کی دَوڑ میں آگے بڑھتے دیکھتے ہیں، تو اُن کے دِلوں میں ایک ہُوک سی اٹھتی ہے، کیوں کہ وہ اپنے مُلک کو بھی ہر صُورت ترقّی کی اِس دوڑ میں شامل دیکھنا چاہتے ہیں، بلکہ اُن کی خواہش ہے کہ اُن کا مُلک، اِس دوڑ میں بہت آگے ہو۔ اگر یہ نوجوان مایوس ہوگئے، تو یقین جانیے، قوم بڑی آزمائش سے دوچار ہو جائے گی۔ اِسی لیے ماہرین کا کہنا ہے کہ اب تمام جماعتوں ہی نہیں، بلکہ اہم اداروں کو بھی باہمی اتفاق اور مشاورت سے یہ فیصلہ کرنا ہوگا کہ مُلک و قوم کو ترقّی کے لیے کس راہ پر چلنا ہے؟جب ہم اپنے قریب ترین دوست، چین کے ساتھ سی پیک کے ذریعے اُس کے عالمی ترقّیاتی ویژن’’ بیلٹ اینڈ روڈ‘‘ کا حصّہ بن چُکے ہیں، تو اس کا بھی تقاضا ہے کہ ہم قومی سطح پر ہم آہنگی پیدا کر لیں، وگرنہ سی پیک کے صوبائی منصوبوں سے متعلق جس قسم کی آوازیں اٹھتی رہیں، اُس نے کئی مواقع پر پاک، چین دوستی میں بھی بدمزگی پیدا کی، حالاں کہ اس طرح کی صُورتِ حال سے باآسانی بچا جاسکتا تھا۔ بلاشبہ قومی ترقّی کے لیے ایک لانگ ٹرم پالیسی کی تشکیل ناگزیر ہے، خواہ اُس کا نام’’ میثاقِ معیشت‘‘ رکھا جائے یا کچھ اور۔ پہلے ہی’’ معیشت پر سیاست‘‘ سے مُلک کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچ چُکا ہے۔ شاید ہماری قومی قیادت، خاص طور پر حکم ران اس اَمر کا اندازہ نہیں لگا پائے کہ موجودہ معاشی بحران نے عالمی سطح پر پاکستان کی ساکھ کو کتنا مجروح کیا ہے۔یہ کوئی میچ نہیں، جس کی ہار، جیت وقتی ہوتی ہے۔ معاشی لحاظ سے ایک حکومت کا غلط فیصلہ، مُلک کو برسوں پیچھے دھکیل دیتا ہے اور پھر اسے دوبارہ سابقہ مقام تک لانا بعد میں آنے والی حکومتوں کے لیے چیلنج بن جاتا ہے۔ ہمارے سامنے ایران کی مثال ہے، جہاں کا ریال، تیل کی دولت ہونے کے باوجود امریکی ڈالر کے مقابلے میں 160000تک گر چُکا ہے۔ تاہم، یہ بات تمام جماعتوں، بالخصوص حکم ران جماعت کو سمجھ لینی چاہیے کہ’’ میثاقِ معیشت‘‘ ہر زاویے سے’’ میثاقِ سیاست‘‘ بھی ہوگا۔اگر قیادت میں قوم کو ساتھ لے کر چلنے کی خواہش نہ ہو، تو چند سال تک محض بجٹ وغیرہ کی گاڑی کو دھکّا لگانے سے کوئی فائدہ نہ ہوگا۔ قومی ترقّی کی گاڑی چلانی ہے، تو حکومت کو انجن بننا پڑے گا اور پھر سب کو مل جل کر پورا دَم لگانا ہو گا۔

اشرف غنی کا اہم موقعے پر پاکستان کا دورہ
افغان صدر امریکا، طالبان مذاکرات میں شامل نہ کیے جانے پر شاکی ہیں

افغان صدر، اشرف غنی نے پاکستان کا دو روزہ دورہ کیا۔اُن کا یہ دورہ، تین سال کے بعد ممکن ہوا، جس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ اسلام آباد اور کابل کے درمیان تعلقات کی نوعیت کس قسم کی رہی ہے۔ ہلکے سے ہلکے الفاظ میں یہی کہا جاسکتا ہے کہ دونوں پڑوسی ممالک ایک دوسرے سے بہت سی ایسی شکایات رکھتے ہیں، جنھیں ابھی تک دُور نہیں کیا جا سکا۔ صدر اشرف غنی نے اسلام اباد میں وزیرِ اعظم، عمران خان کے علاوہ فوجی قیادت سے بھی ملاقات کی۔ یہ اس لیے بھی ضروری تھا کہ بیش تر پاک، افغان معاملات کسی نہ کسی شکل میں فوجی اُمور ہی سے جُڑے ہوئے ہیں۔ اس وقت افغانستان کو دو اہم معاملات درپیش ہیں۔ ایک تو یہ کہ امریکا اور طالبان میں براہِ راست بات چیت ہو رہی ہے۔ کہا جا رہا ہے کہ فریقین کئی بنیادی اختلافات کی خلیج پاٹنے میں کام یاب ہوگئے ہیں اور بہت جلد کوئی ٹھوس معاہدہ سامنے آجائے گا، جس کے بعد غیر مُلکی افواج کی مکمل واپسی شروع ہوجائے گی۔ پاکستان نے اِن مذاکرات میں مرکزی کردار ادا کیا ہے اور اب سہولت کار کے طور پر اس معاملے کو پائے تکمیل تک پہنچا رہا ہے۔تاہم اس سارے عمل میں کابل بہت شاکی رہا، کیوں کہ امریکا نے مذاکرات میں اشرف غنی کی حکومت کو اب تک شامل نہیں کیا، جب کہ ان کا شروع ہی سے یہ مطالبہ رہا ہے کہ طالبان سے بات چیت میں افغان حکومت کو بھی نمایندگی دی جائے۔ دوسری طرف، پاکستان اور افغانستان کے درمیان اعتماد کا فقدان بھی پریشان کُن ہے۔ بعض اوقات دہشت گردی کے واقعات کے بعد دونوں برادر پڑوسی مُمالک کے درمیان الزام تراشی کا سلسلہ شروع ہوجاتا ہے، جو تعلقات میں بدمزگی کا باعث بنتا ہے۔پاکستان صورتِ حال میں بہتری لانے کے لیے بائیس سو کلو میٹر طویل بارڈر پر باڑ تعمیر کر رہا ہے تاکہ ایک طرف تو پاکستان کو بیرونی دہشت گردی سے بچایا جاسکے اور دوسری طرف، افغان حکومت کے خدشات کا بھی ازالہ ہوسکے، مگر افغانستان اس پر بھی تحفّظات کا اظہار کر رہا ہے۔اسلام آباد کا یہ بھی کہنا ہے کہ وہ تقریباً چالیس سال سے افغان مہاجرین کی میزبانی کر رہا ہے اور اب وقت آگیا ہے کہ اُنھیں واپس اپنے مُلک بھیجا جائے، کیوں کہ پاکستان کی معیشت بھی اب تیس لاکھ افغان مہاجرین کی مزید میزبانی جاری رکھنے کی اجازت نہیں دیتی۔اس کے علاوہ، افغانستان کے لیے ایک اہم معاملہ یہ بھی ہے کہ کہیں امریکا کی واپسی کے بعد کوئی پیچیدگی پیدا نہ ہوجائے۔نیز، وہاں صدارتی اور پارلیمانی انتخابات بھی سَر پر ہیں، اُن کے بعد کیا صُورت سامنے آئے گی، خاص طور پر اگر طالبان نے اُن میں حصّہ لیا، اس سوال کی بھی موجودہ منظرنامے میں بہت اہمیت ہے۔ یہ سب ایسے معاملات تھے، جن پر دونوں ممالک کی اعلیٰ ترین قیادت کی سطح پر بات چیت ضروری تھی۔ وزیرِ اعظم، عمران خان اور صدر اشرف غنی نے ان معاملات پر تفصیلی مذاکرات کیے۔ ویسے بھی غنی حکومت امریکا سے خوش نہیں اور اِدھر پاک، امریکا تعلقات میں بھی تلخی ہے، لہٰذا، اِن حالات میں اشرف غنی اسلام آباد سے قربت بڑھا کر واشنگٹن پر دباؤ ڈالنے کی کوشش کریں گے۔ واضح رہے، اشرف غنی بہت سے مواقع پر پاکستان کے خلاف بے بنیاد الزامات لگاتے رہے ہیں۔ افغانستان میں طالبان کی کارروائیوں پر وہ پاکستان ہی کو موردِ الزام ٹھہراتے ہیں۔اس طرح کے اُمور کو طے کرنے میں اشرف غنی کا دورہ سود مند ہوسکتا ہے، لیکن اس کے لیے باہمی اعتماد کو فروغ دینا ضروری ہے۔ 

تازہ ترین