• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ڈاکٹر عذرا رفیق،کراچی

عالمی ادارۂ صحت،ورلڈ الائنس فار بریسٹ فیڈنگ ایکشن اور یونیسیف کے اشتراک سےہر سال دُنیا بَھر میں اگست کا پہلا ہفتہ ’’بریسٹ فیڈنگ اوئیرنیس‘‘کے طور پر منایا جاتا ہے، تاکہ ہر سطح تک ماں کے دودھ کی افادیت سے متعلق معلومات عام کی جاسکیں۔جدید تحقیق سے ثابت ہوچُکاہے کہ بریسٹ فیڈنگصرف بچّے ہی کے لیے نہیں، بلکہ خود ماں کی بھی ذہنی و جسمانی صحت کے لیے فائدہ مندہے۔ غذائی اعتبار سے ماںکے دودھ کا نعم البدل آج تک دریافت ہو سکا ہےاور نہ ہی مستقبل میں ایسا ممکن ہے۔ رواں سال مذکورہ تنظیموںکی جانب سےماں کے دودھ کی افادیت سے متعلق ایک پیغام،’’پیدایش کے پہلے گھنٹے میں ماں کا دودھ پلانے سے ایک ملین بچّوں کی جان محفوظ۔‘‘ بھی جاری کیا گیاہے،کیوں کہپیدایش کے فوراً بعد گاڑھے پیلے رنگ کے جس دودھ کو مضرِ صحت کہہ کر نظرانداز کر دیا جاتا ہے، درحقیقت اس میں تقریباً ایسےدس امائنو ایسڈز پائے جاتے ہیں، جو نومولود کی مدافعتی صلاحیت میں اضافے کا سبب بن کر اُسے مختلف بیماریوں سے محفوظ رکھتے ہیں۔ عالمی ادارۂ صحت اور یونیسیف کے مطابق ماں کا دودھ پلانے سے پوری دُنیا میں پانچ سال تک کے8,20,000بچّوں کی جان بچائی جاسکتی ہے۔ماں کا دودھ غذائیت سے بَھرپور ہی نہیں ، بلکہ حفاظتی ٹیکے کے طور پر بھی مؤثرثابت ہوتا ہے کہ یہ نومولود کو کئی امراض سے محفوظ رکھتا ہے۔

ازمنۂ قدیم سے مائیں اپنے بچّوں کو اپنا دودھ بہترین غذا سمجھ کر پلاتی رہی ہیں، بلکہ ایسی کسی حالت میں کہ جب وہ اپنا دودھ پلانے سے قاصر ہوں، تو اجرت پر دودھ پلوانے کا باقاعدہ انتظام کیاجاتا تھا،تاکہ نومولودکی بہتر نشوونما ہوسکے۔اللہ تعالیٰ نے ماں کے دودھ کی وہ اہمیت و افادیت قریباً سوا چودہ سوسال قبل قرآن پاک کی سورۃ بقرہ اور سورۃ احقاف کی آیات میں بیان فرما دی تھی،جو آج جدید تحقیق کے ذریعے ثابت کی جارہی ہے۔ ایک رپورٹ کے مطابق دُنیا بَھر میں کوئی بھی مُلک اُس معیار پر پورا نہیں اُترتا، جو عالمی ادارۂ صحت نے بریسٹ فیڈنگ کے لیے مقرر کیا ہے۔ اس عالمی معیار کے مطابق پیدایش کے پہلے گھنٹے میں ماں نومولود کو اپنا دودھ پلائے،چھے ماہ تک صرف اور صرف ماں کا دودھ پلایا جائے اور گُھٹّی، شہد، چائے، پانی، اوپر کا دودھ وغیرہ دینے سے قطعاً گریز کیا جائے، البتہ جب بچّہ چھے ماہ کا ہوجائے تو پھر نرم غذا شروع کرنے کے ساتھ دو سال کی عُمر تک ماں کا دودھ بھی جاری رکھا جائے۔ عالمی ادارۂ صحت کے مطابق194 مُمالک میں سے صرف 23 مُلکوں میں بچّے کو چھے ماہ تک ماں کا دودھ پلانے کی شرح60فی صد ہے۔پاکستان میں پیدایش کے فوراً بعد سے لے کرچھے ماہ تک بریسٹ فیڈنگ کی شرح 18فی صد، جب کہ چھے ماہ تک صرف اور صرف ماں کا دودھ پلائے جانے کی شرح37.7فی صد ہے۔ حالاں کہ پاکستان میں44فی صد بچّوں کی بہتر نشوونما نہیں ہوپاتی ہے۔نومولود کی بہتر نشوونما نہ ہونے میںقد کا نہ بڑھنا، ذہنی صلاحیتیں متاثر ہونا اور بڑھوتری کے دیگر مسائل شامل ہیں، جن کایقینی حل ماں کا دودھ ہی ہے۔ طبّی ماہرین ماں کے دودھ کو’’ سفید خون ‘‘سے تشبیہہ دیتے ہیں کہ اس کی ساخت اور اجزاء کا تناسب خون سے قریب تر ہے، سوائے خون کے سُرخ خلیوں کے۔مگر افسوس ناک امر ہے کہ ڈبّے کا دودھ متعارف ہونے کے بعد ماؤں کے دودھ پلانے کے رجحان میں خاصی کمی آتی چلی گئی،لہٰذا لگ بھگ20سال پہلے "Breast Feeding Initiative"مہم شروع کرنے کی ضرورت محسوس ہوئی اور ساتھ ہی صحت کے مختلف مراکز میں’’بچّہ دوست سرگرمیوں‘‘ (Baby Friendly Activitis)کا بھی آغاز ہوا۔ یہ تجربہ خاصا کام یاب رہا، لیکن پھر وقت کے ساتھ اس کی سرگرمیاں ماند پڑتی چلی گئیں۔ تاہم ،اب پاکستان پیڈیاٹرک ایسوسی ایشن نے ماں کے دودھ کی افادیت اُجاگر کرنے کےحوالے سےکام شروع کیا ہے۔

یاد رہے، ماں کے دودھ میں نشاستہ، پروٹینز، وٹامنز اور ایسے کئی مفید اجزاء متوازن مقدار میں پائے جاتے ہیں، جو بچّے کی بڑھوتری، نشوونما اور مدافعتی نظام کی مضبوطی کے لیے ضروری ہیں۔ نیز، ماں کا دودھ کئی بیماریوں سے، جیسے الٹی، دست، نمونیا، ڈبل نمونیا، مختلف اقسام کے سرطان، دِل کے عوارض، کان سے پیپ بہنا اور اُن تمام امراض سے، جن میں خون جمنے کی صلاحیت ختم ہو جاتی ہے، محفوظ رکھتا ہے۔ چار ماہ کی عُمر ہی میں بچّے کے مدافعتی نظام کا ایک اہم حصّہ Thymus Glandحجم کے لحاظ سے دگنا ہوجاتا ہے، جب کہ ڈبّے کا دودھ پینے والے بچّوں میں ایسا نہیں ہوتا۔ موجودہ دَور میں مدافعتی نظام ماحولیاتی آلودگی کی زد میں ہے۔ تحقیق سے ثابت ہوچُکا ہے کہ پانی، ہوا اور غذا میں کیمیائی اجزاء کی آمیزش، جانوروں، پودوں میں مختلف کیمیکلز شامل ہونے، بچّوں میں گائے اور ڈبّے کے دودھ کے استعمال، نومولودکو قبل از وقت ٹھوس غذا دینے جیسے عوامل الرجی کےامراض، خصوصاً مستقل نزلے، دَمے، جِلدی الرجی وغیرہ کے پھیلاؤ کا سبب بن رہے ہیں، لہٰذا اگر کسی کی فیملی ہسٹری میں الرجی، دَمہ یا جِلدی الرجی پائی جاتی ہو، تو نومولود کو نو ماہ تک صرف اور صرف ماں ہی کا دودھ پلایا جائے۔ اگر ماں کے دودھ پر پلنے والے بچّے کا وزن بڑھ رہا ہے اور کوئی دوسری غذائی کمی بھی نہیں تو پھر ٹھوس غذا نو ماہ کی عُمر کے بعد شروع کی جائے، تاکہ بچّہ گائے کے دودھ اور دیگر غذاؤں میں موجود پروٹین کی حسّاسیت سے محفوظ رہے۔ عام مشاہدے کی بات ہے کہ ڈبّے یا گائے کا دودھ پینے والے بچّوں میں مختلف اقسام کے انفیکشنز اور الرجیز کے سبب اسپتال میں داخلے کا تناسب ماں کا دودھ پینے والے بچّوں کی نسبت دگنا ہے۔ ماں کے دودھ میں ایک سال کی عُمر تک دستوں کے ایک مخصوص وائرس سے بچائو کی صلاحیت بھی موجود ہے۔ جب کہ خود دودھ پلانے والی مائوں میں بریسٹ اور رحم کےسرطان کی شرح بہت حد تک کم ہوجاتی ہے۔ ایک جدید تحقیق کے مطابق وہ بچّیاں، جنہوں نے ماں کا دودھ پیا ہو، ان میں بھی سرطان کے امکانات کم ہوتے ہیں۔ نیز، ماں کا دودھ بچّوں کی اچانک ہونے والی اموات سے بھی، جسے طبّی اصطلاح میں "SIDS:Sudden Infant Death Syndrome"کہا جاتا ہے، محفوظ رکھتا ہے۔

ماں دُنیا کےجس خطّے سے بھی تعلق رکھتی ہو، اُس کے دودھ کی خاصیت میں بہت کم فرق ہے، جب کہ چکنائی کا تناسب بھی قریباً یک ساں ہے۔ خیال رہے، ماں کے دودھ میں موجود ایک خاص قسم کی چکنائی’’ڈی ایچ اے‘‘بچّے کی بینائی بہتر بنانے میں اہم کردار ادا کرتی ہے۔ اسی طرح ماں کے دودھ میں موجود نشاستہ، لیکٹوز کی صُورت نومولود کے تیزی سے بڑھتے دماغ کو درکار توانائی فراہم کرتا ہے۔ ماں کے دودھ میں پایاجانے والا پروٹین متوازن اور اعلیٰ قسم کا ہوتا ہے، جو نہ صرف مقررہ وقت، بلکہ قبل از وقت پیدا ہونے والے بچّوں کی بھی غذائی ضروریات پوری کرتا ہے۔ نیز، پروٹین کا60فی صد حصّہ جلد ہضم ہو کرفوری توانائی فراہم کرتا ہے۔ ماں کا دودھ معاشی اعتبار سے بھی مفید ہے کہ اگر ہم صحت کی مد میں خرچ ہونے والے سالانہ بجٹ کا اندازہ لگائیں، تو یہ دودھ نہ پلانے کی قیمت بہت زیادہ ادا کرنی پڑتی ہے۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق نومولود کو ماں کا دودھ نہ پلانے کے نتیجے میں صرف چار بیماریوں الٹی، دست، نمونیا، کان میں پیپ اور چائلڈ ڈائی بیٹیز کے علاج کا خرچہ بیس کروڑ روپے بنتا ہے، جو کہ پاکستان جیسے ترقّی پذیر مُلک کے لیے ایک بہت بڑا بوجھ ہے۔ یعنی ڈبّے کے دودھ کا استعمال ترک کرکے ہر خاندان ماہانہ اچھی خاصی بچت کرسکتا ہے۔ نیز،ماں کا دودھ پلانے سے وہ وقت بھی بچتا ہے، جو ڈبّے کے دودھ کی خریداری اور بنانے کے عمل میں ضایع ہوجاتا ہے۔ پھرماں کا دودھ ماحولیاتی آلودگی کے مضر اثرات سے بھی پاک ہوتا ہے،جب کہ دُنیا بھر میں دودھ بنانے اور بوتلوں کو جراثیم سے پاک کرنے کے لیے پانی، گیس، بجلی اور لکڑی کی بڑی مقدار استعمال کی جاتی ہے۔ اس کے برعکس ماں کے دودھ کی فراہمی کے لیے ان میں سے کسی بھی چیز کی ضرورت نہیں ہوتی۔یہاں تک کہ ماں کے دودھ میں اضافے کے لیے بھی زیادہ تگ و دو کی ضرورت نہیں پڑتی کہ دودھ پینے کا عمل ہی اس میں اضافے کا سبب بنتا ہے،البتہ اگر ماں کی خوراک میں دودھ، لسّی، یخنی، جوس اور پتلی دالوں کا استعمال بڑھ جائے، تو دودھ وافر مقدار میں بنتا ہے اور ان غذائی اجزاء کا خرچہ بہت کم بلکہ نہ ہونے کے برابر ہے۔

یاد رکھیں، نومولود کو دودھ پلانے کی ذمّے داری صرف ماں ہی کی نہیں، بلکہ اس حوالے سے سب کو، جس میں والدین، بہن، بھائی، ساس، سُسر، معالجین اور نرسز شامل ہیں، مل کر ایک حوصلہ افزا ماحول تشکیل دینا ہوگا، تاکہ دودھ پلانے والی ماؤں کی حوصلہ افزائی ہوسکے۔

(مضمون نگار کنسلٹنٹ پیڈیاٹریشن ہیں ، سیلانی تھیلیسیمیا کئیر سینٹر اینڈ بلڈ بینک،کراچی سے وابستہ ہیں، جب کہ گورنمنٹ قطر اسپتال، اورنگی ٹاؤن، کراچی کے شعبۂ اطفال کی سربراہ بھی رہ چُکی ہیں )

تازہ ترین