• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

یہ واقعہ، جس کی راوی ہماری والدہ کی نانی تھیں،مَیں ماہِ اگست کے حوالے سے قارئین کی نذر کر رہی ہوں۔ ہمارا اپنے ننھیال برسوں بعد کسی کے شادی بیاہ ہی کے موقعے پر جانا ہوتا تھا۔ جب وہاں جاتے ، تو نانی جنہیں سارے خاندان والے ہمیشہ ’’بڑی ماں‘‘ کہہ کر بلاتے تھے، الگ تھلگ رہتی تھیں، لیکن میری والدہ کی آمد کا سُن کر ہمیں فوراً بلاوا بھیج دیتیں کہ کچھ دِن ان کے ساتھ گزاریں اور ان کے ساتھ گزارے وہ چند روز ہمارے لیے یادگار ثابت ہوتے۔ بڑی ماں کے گھر رہ کر جو مزہ آتا تھا، وہ بُھلایا نہیں جا سکتا۔ ان کے گھر پالتو جانور بھی بہت تھے۔ ان کی بڑی بیٹی جو شادی کے بعد سے ان کے ساتھ رہتی تھیں ہمارے بہت ناز اُٹھاتیں۔ وہ بہت مزے کے کھانے بناتی تھیں۔ ان کے شوہر میری والدہ کے ماموں تھے اور ہم بھی انہیں ماموں اور ان کی بیوی کو کرن مامی کہتے۔ ہماری سمجھ میں یہ رشتہ کبھی نہیں آتا تھا کہ ماموں بڑی ماں کے بیٹے تھے اور کرن مامی بھی بڑی ماں کی بڑی بیٹی، تو پھر ان دونوں کی شادی کیسےہوگئی۔ بڑوں کے بارے میں سوالات کرنے کی ہمّت نہیں پڑتی تھی، اس لیے یہ سوال ذہنوںہی میں گردش کرتا رہتا ۔ دُوسری بات جو ہمیں عجیب لگتی ، وہ بڑی ماں کا لباس تھا۔ وہ سَر تا پا چادر میں لپٹی رہتیں۔ کبھی ہم نے ان کو صرف دوپٹے میں نہیں دیکھا، پوری آستینوں کے کپڑے پہنتی تھیں۔ رات کو دیر تک جاگتیں۔ چوں کہ ہم بچّے جلدی سو جاتے تھے، اس لیے انہیں یونہی چادر ہی میں لپٹے دیکھا۔شایدسوتے وقت وہ چادر اُتار دیتی ہوں، لیکن ہم نے اُنہیں ہمیشہ چادر ہی میں دیکھا تھا۔

ایک بار برسات کے دِنوں میں ہمیں ان کے گھر پندرہ روز گزارنے کا سُنہری موقع ملا۔ تب اس راز بلکہ ان دونوں رازوں سے پردہ اُٹھ گیا۔ ہوا یہ کہ ماموں اور مامی کسی عزیز کی وفات پر دو روز کے لیے ساتھ والے گائوں چلے گئے۔ مَیں نے سوچا کہ رات کو دیر تک بڑی ماں سے پُرانی باتیں کروں گی، لہٰذا جب سب سو گئے، تو چپکے سے اُٹھ کر بڑی ماں کے کمرے میں چلی گئی، جو دوسری منزل پر تھا۔ اتفاق سے ان کے کمرے کا دروازہ کھلا تھا۔ مَیں نے دیکھا، بڑی ماں نے چادر اُتاری ہوئی ہے اور وہ اپنی کلائیوں پر گاڑھے سبز رنگ کے تیل سے مالش کر رہی ہیں۔ مَیں نے پہلی دفعہ ان کی کلائیاں دیکھیں، جنہیں دیکھ کر جھرجھری سی آگئی کہ ان کی دونوں کلائیوں پر بہت بڑے بڑے گھائو کے بدنما نشانات تھے۔ انہوں نے مجھے دیکھ کر جلدی سے اپنی کلائیاں ڈھانپ لیں۔ اتفاق سے میرا بھائی اس وقت جاگ رہا تھا۔ اس نے مجھے کمرے سے نکلتے دیکھ لیا اور آن کے آن سارے بچّوں کو اُٹھا دیا۔ وہ سب یہ دیکھنا چاہتے تھے کہ مَیں رات کو کس مہم پرجا رہی ہوں۔ سب میرے پیچھے خاموشی سے چلتے بڑی ماں کے کمرے میں آ گئے۔ گویا ہم سب نے ان کے کمرے میں چھاپہ مار دیا تھا۔ بڑی ماں نے کہا ’’آئو بچّو! بیٹھو۔ کیا تم لوگوں کو نیند نہیں آ رہی ہے؟‘‘ہم بڑی ماں کی کلائیاں دیکھ کر کچھ سہم سے گئے تھے۔ انہوں نے یہ بات فوراً سمجھ لی اور کہنے لگیں۔ ’’بچّو! تم مجھ سے کہانیاں تو سُنتے ہی رہتے ہو ،تو آج بھی مَیں تمہیں ایک کہانی سُنا رہی ہوں۔ تم نے جو میری کلائیوں پرزخموں کے بڑے بڑے نشانات دیکھے ہیں،یہ اُن کی داستان ہے۔ ‘‘یہ سُن کر ہمارا خوف قدرےکم ہوگیا کہ ہم سب یہی خواہش رکھتے تھے۔ لیجیے، بڑی ماں کی وہ داستان اُن ہی کی زبانی سُنیے۔

’’میری شادی کے ایک سال بعد پاکستان کا قیام عمل میں آگیا۔ ہم بھارت میں رہتے تھے، مگر میرے شوہر کی ملازمت سیال کوٹ میں تھی۔ شادی کے بعد مَیں ان کے ساتھ کچھ ماہ رہی، پھر کرن کی پیدایش کے دِنوں میں میری طبیعت خراب رہنے لگی، تو وہ مجھے سیال کوٹ سے بھارت لے آئے۔ میرا سُسرال بھی وہیں تھا۔ کرن وہیں پیدا ہوئی۔ میرے میاں مہینے میں ایک دو بار وہاں کا چکر لگاتے رہتے ۔ کرن اکثر بیمار رہتی تھی، اس لیے مَیں نے اپنے میکے ہی میں ڈیرا ڈالے رکھا۔ ہندوستان کے حالات رفتہ رفتہ بگڑتے جا رہے تھے۔ دِلوں کی نفرتیں اُبلنے لگی تھیں، جوروز بروز شدّتیں اختیار کرتی جارہی تھیں۔ فسادات کی اِکّا دُکّا خبریں آنے لگی تھیں، جو پاکستان کے قیام کے اعلان کے ساتھ الٰہ آباد ہمارے شہر میں بھی سُنی جانے لگیں۔ ابّو نے مشورہ دیا کہ مجھے فوراً پاکستان میرے شوہر کے گھر بھیج دیا جائے۔ انہوں نے مرتضیٰ کو خط لکھ دیا کہ وہ مجھے یہاں سے آ کر لے جائیں۔ اُن کا جواب آیا کہ ’’اس وقت یہاں کے حالات بھی بگڑ رہے ہیں، مناسب موقع دیکھ کر مَیں لینے آ جاؤں گا۔ بہتر ہوگا کہ میری بیوی کے ساتھ آپ سب لوگ بھی پاکستان آنے کی تیاری کرلیں اور یہ پیغام میرے گھر بھی پہنچا دیں ،تاکہ وہ بھی تیاری شروع کر دیں۔‘‘حالات دیکھتے ہوئے، ابّو نے گھر سے نکلنا کم کر دیا تھا۔ میری چھوٹی بہن بھی اپنا دو ماہ کا بیٹا کو لے کر ہمارے گھر آ گئی تھی۔ سو، والد صاحب دِن رات ہمارا پہرہ ہی دے رہے تھے۔ بھائی باہر جا کرشہر سے خبریں اور سودا سلف لے آتا تھا۔ میرے سُسرال مرتضیٰ کا پیغام پہنچانے کے ساتھ، والد صاحب نے یہ مشورہ بھی بھجوایا تھا کہ وہ سب بھی ہمارے گھر آ جائیں۔ جیسے ہی مرتضیٰ آئے گا، تو سب مل کرفوراً پاکستان کے لیے روانہ ہو جائیں گے۔ ان لوگوں نے یہ بات مان لی تھی۔ میرے دیور عثمان کا چار سالہ بیٹا گڈّو مجھ سے اور میری بیٹی سے بہت پیار کرتا تھا۔ اسے میرا بھائی اپنے ساتھ ہی لے آیا تھا۔ چند دِن وہ ہمارے ساتھ رہا۔ پھر وہاں سے پیغام آیا کہ ’’گڈّو کو بھجوا دیں اور وہ سب تین روز بعد ہمارے گھر پہنچ جائیں گے۔‘‘ ہم نے گڈّو کو بھجوا دیا۔ تیسرے روز ابّو نے بھائی سے کہا کہ وہ ان لوگوں کو خود جاکر لے آئیں۔ بھائی اسی ارادے سے گھر سے نکلے، مگر فوراً ہی واپس آگئے اور کہا کہ محلّے کے ایک شخص نے یہ خبر دی ہے کہ چند ہندو کسی بھی وقت ہمارے گھر حملہ کرنے والے ہیں۔ بہتر ہوگا کہ ہم شام تک یہاں سے جانے کا کوئی مناسب بندوبست کرلیں۔جس شخص نے بھائی کو رازداری سے یہ خبر پہنچائی، وہ خود ہندو تھا اور ابّو کے بچپن کا دوست بھی۔ ابّو کے ہاتھ پائوں پھول گئے۔ انہوں نے بھائی کو گھر روک لیا اور خود اس سے ملنے چلے گئے۔ واپس جلدی آگئے اور بتایا کہ خبر پکّی ہے اور دوست نے پیش کش کی ہے کہ خواتین کو اس کے گھر بھیج دیں، وہ اُنہیں تہہ خانے میں چُھپا دے گا اور مَرد گھر کی حفاظت کے لیے فی الحال وہیں ٹھہرے رہیں۔ شام کو حالات دیکھ کر وہ ان کی مدد کرے گا۔ ابّو نےیہ مشورہ مان کر مجھے سب سے پہلے اپنے ہندو دوست کے گھر بھجوادیا۔ شام سے ذرا پہلے میری چھوٹی بہن بھی اپنے بیٹے سمیت آ گئی۔ اُس نے بتایا کہ بہت کوشش کے باوجودمیرے سُسرال والوں سے ابّو کا کو کوئی رابطہ نہیں ہورہاہے، البتہ کچھ قریبی رشتے داروں کو اکٹھا کر لیا ہے اور یہ طے پایا ہے کہ ہم سب صُبح سویرے قافلے کی صُورت یہاں سے روانہ ہو جائیں گے، کیوں کہ ہندوئوں نےکل رات تک ہمارے گھر پر حملہ ملتوی کر دیا ہے۔وہ رات ہم نے اس ہندو چاچا ،سُکھی رام ہی کے گھر گزاری۔ اس کی بیوی نے ہمارا خاص خیال رکھا اور وقتی طور پر ہمارے گھر پر رُکوانے میں بھی چاچا سُکھی رام ہی کا ہاتھ تھا۔ انہوں نے نہایت رازداری سےصُبح مُنہ اندھیرے ہمیں قافلے کی صُورت محلّے سے رُخصت کیا۔ گھر سے ہم ایک دو افراد مل کر نکلے اور محلّے کے باہر قافلہ بن گیا۔ ہم نے راستے میں بہت قتل و غارت دیکھی۔ سڑکوں پر پڑی عورتوں اور بچّوں کی نیم برہنہ لاشیں، کتّوں کے دانتوں سے اُدھڑے انسانی اعضاء، سسکتے جسم اور ٹوٹتی سانسیں۔بعض جگہ آگ کے الائو جل رہے تھے،جس میں زندہ مسلمانوں کو جھونکا جا رہا تھا۔ ہم پر اللہ نے یہ کرم کیا کہ سب کی نگاہوں سے چُھپتے چُھپاتے ہم جنگلوں کی طرف آ گئے تھے۔ مگربکرے کی ماں کب تک خیر مناتی۔ ہمارے قافلے پر بھی ایک حملہ ہوا اور ہمارے عزیزوں میں سےسات افراد مارے گئے۔ اس وقت والد صاحب نے حکم دیا کہ آگے ایک ساتھ چلنے میں بڑی دُشواریاں پیش آ سکتی ہیں، لہٰذا سب اپنے عزیزوں کے ساتھ الگ الگ سمت پر چلیں۔

مَیں اپنے والدین اور بہن کے ساتھ ایک سمت چل پڑی۔ بھائی وہیں رہ گئے تھے۔ وہ میرے شوہر اور سُسرالیوں کو ساتھ لے کر وہاں سے نکلنا چاہتے تھے۔ ہمارے رکھوالے صرف ابّو جی تھے، جو ہماری ہمّت بندھاتے ہمارے ساتھ ساتھ چل رہے تھے۔ ہمارے پائوں میں چھالےپڑ گئے تھے، زبانیں خشک تھیں۔ پانی بھی ختم ہوچُکاتھا اور ایسی حالت میں چند نوعُمر سکھ لڑکوں نے ہمیں گھیرلیا، جن کا واحد مقصد ہمیں ہر صُورت قتل کرنا تھا۔ سو، پہلے ابّو، پھر امّی کو قتل کرکے مجھ پر تلواریں سونت کر حملہ آور ہوئے۔ مَیں نے اپنے ہاتھ اونچے کرکے وار روکنے کی کوشش کی،تو انہوں نے میری کلائیوں پر الٹے ترچھے وار کیے۔ بہن اپنے بیٹے کو لے کر ایک درخت کے پیچھے چُھپ گئی تھی۔ مجھے زخمی حالت میں زمین پر گرا چھوڑ کر وہ لڑکے بھاگ گئے۔میری گردن پر ان کی تلواروں کے کٹ لگے تھے۔ اس حالت میں بھی ہم نے ہمّت نہ ہاری اور چلتے رہے۔ امّی، ابّو کی لاشوں پر ہم نے امّی ہی کی چادر اُتار کر ڈال دی تھی۔ بھوک پیاس نے زور پکڑا، تو اس کا شکار پہلے میری بہن کا بیٹا ہوا۔ اس کے ننّھے سے مردہ جسم پر بہن نے اپنی اوڑھنی ڈال دی اور اردگرد اینٹیں چُن دیں۔کچھ دُور چلے ہی تھے کہ ہمیں دو آدمیوں نے سامنے آ کر روک لیا۔ انہوں نےکہا کہ ہم آگے نہ جائیں، وہاں فسادی تلواریں سونتے ہر آتے جاتے مسلمان کو مار رہے ہیں۔ ہم نے روتے ہوئے جواب دیا کہ ہمارے پاس کوئی جائے پناہ نہیں۔وہ ہم دونوں بہنوں کو اپنے گھر لے آئے، وہ محکمۂ جنگلات کے ہندو ملازم تھے۔ وہاں انہوں نے ہماری پوری دیکھ بھال کی۔ میرے زخم پندرہ سولہ روز بعد مندمل ہوگئے، مگر میری بیٹی اور بہن کی حالت نہ سدھر سکی۔ وہ دونوں انتقال کرگئیں۔بہرحال ،کسی طرح انہوں نےمرتضیٰ سے رابطہ کرکے مجھے پاکستان ایک فوجی قافلے کے ساتھ روانہ کردیا اور اس طرح مَیں اپنے کئی رشتے دفنا کر پاکستان پہنچ گئی، مگر میری رُوح جیسے ان کے ساتھ ہی مرچُکی تھی۔ مرتضیٰ نے مجھے ہاتھوں ہاتھ لیا۔ میرا اتنا خیال رکھا کہ رفتہ رفتہ کئی ماہ بعد مَیں چلنے پھرنے کے قابل ہوگئی۔ وہاں سے ہم کراچی منتقل ہوگئے۔ انہوںنے وہاں پہلے ہی گھر کا بندوبست کرلیا تھا۔ پھر ہماری چار بیٹیاں اور پانچ بیٹے ہوئے۔ بیٹے سب ماشاء اللہ پڑھ لکھ کر بیرونِ مُلک چلے گئے اور بیٹیوں کی بھی شادیاں ہوگئیں۔ سب زخم اللہ نے بَھر دیے، مگر میرے جسم پر تلوار کے ان گہرے گھائو کے نشانات اب بھی باقی ہیں، جنہیں سب سے چُھپائے رکھتی ہوں۔ ایسا ہی ایک گہرا گھائو میری گردن کے نیچے ہے، جو ان اناڑی سکھ لڑکوں نے مجھے تختۂ مشق بنا کر لگایا تھا۔بڑی ماں نے وہ گھائو بھی دکھایا اور بتایا کہ ’’برسات میں آج بھی ان میں جلن ہوتی ہے،اس لیے مَیں ان پر روزانہ تیل کی مالش کرتی ہوں۔ یہ کسی حکیم کا بنایا ہوا خاص تیل ہے۔‘‘

ہم بچّے بڑی ماں کی اس دُکھ بھری کہانی کو بہت حیرت سے سُن رہے تھے کہ یکایک میرے دِل میں دوسرا سوال بجلی کی مانند کوندا کہ بڑی ماں کی بیٹی کرن تو انتقال کرگئی تھی، پھر یہ کرن مامی کون تھیں اور ماموں اگر ان کے بیٹے تھے، تو ان کی شادی کرن سے کیسے ہوگئی۔ مَیں نے جوں ہی یہ سوال پوچھا،تو وہ بولیں۔’’ارے! تمہارے ننّھے منّے دماغوں میں کتنے سوالات چُھپے ہیں،لو آج سب پوچھ لو۔ سُنو! پاکستان آنے کے بعد جو بیٹی پیدا ہوئی، اُس کا نام مرتضیٰ نے کرن رکھا۔ یہ وہی کرن ہے، جو مجھے جی جان سے پیاری ہے۔ شادی کے دو سال بعد جب ہم کراچی آچُکے تھے، تو مرتضیٰ ایک روز گھر آئے،تو اُن کے ساتھ ایک ہندو شخص اور ایک چھے سال کا بچّہ تھا، جو سیال کوٹ سے ان کے پُرانے دفتر سے نئے دفتر کا پتا لے کر آیا تھا۔ اُس نے بچّہ اُن کے حوالے کرتے ہوئے کہا، ’’بھائی جی! اپنی امانت سنبھالیں۔ مَیں اُسی محلّے کا رہنے والا ہوں، جس میں ایک گھر پر حملہ ہوا تھا۔ یہ بچّہ خوف زدہ ہو کر میرے گھر آگیا، تو میری بیوی نے اسے چُھپا لیا۔ اس گھر کا ایک ایک فرد چُن چُن کر قتل کر دیا گیا، صرف یہی بچّہ بچ گیا۔ اس نے آپ کے بارے میں بتایا، تو مَیں اسے لے کر آپ کے محلّے گیا۔ وہاں آپ کے گھر کو بھی جلتے دیکھا، تو واپس آگیا۔ یہ بچّہ میرے پاس آپ کی امانت تھا۔ مَیں نے دو سال کی محنت کے بعد آپ کا کھوج لگایا ہے اور اب اسے آپ کے پاس چھوڑنے آیا ہوں۔ یہ آپ کے چھوٹے بھائی عثمان علی کا بیٹا ہے۔‘‘میرے شوہر اس کو لپٹا کر رو پڑے۔ جب وہ میرے سامنے آیا، تو مَیں نے فوراً پہچان لیا، وہ ہمارا گڈّو تھا۔ وہ بھی میری طرح اپنے خاندان کو ان کی شہادت کے بعد چھوڑ کر اکیلا پاکستان آیا تھا۔میری ایک کرن شہید ہوچُکی تھی،تو مَیں نے اُس کا پیار اور مقام گڈّو کو دے دیا اور کسی کو شبہ تک نہیں ہونے دیا کہ یہ میرا بیٹا نہیں ہے، البتہ رشتے دار یہ بات جانتے ہیں۔ مَیں نے اُسے لکھا پڑھا کر دھوم دھام سے شادی کی، مگر اس کی بیوی دو ماہ بعد گردن توڑ بخار میں مبتلا ہوکر انتقال کرگئی، تو مَیں نے اور مرتضیٰ نے اس کی دوسری شادی اپنی بیٹی کرن سے کر دی۔‘‘ اب ماں جی ان دونوں کے ساتھ ہی رہ رہی تھیں، مگر شوہر کے انتقال کے بعد خود کو بالکل اکیلا محسوس کرنے لگی تھیں۔ اُن کا کہنا تھا کہ ’’مجھے اچھے بُرے ہر قوم میں ملے، مگر اپنوں کی دائمی جدائی نے مجھے اندر سے بالکل کھوکھلا اور انہیں تنہا کر دیا ہے۔‘‘

(مدیحہ ممتاز)

آپ ہی سے کچھ کہنا ہے

اگر آپ کے ذہن میں کوئی ایسا واقعہ محفوظ ہے جوکسی کردار کی انفرادیت، پُراسراریت یا واقعاتی انوکھے پن کی بنا پر قارئین کے لیے دل چسپی کا باعث ہے تو فوراً قلم اٹھائیے اور اس صفحے کا حصہ بن جائیے۔ یہ واقعات قارئین کے شعور وآگہی میں اضافے کے ساتھ ان کے لیے زندگی کاسفر آسان کرنے میں ممدومعاون ثابت ہوسکتے ہیں۔ واقعات بھیجنے کے لیے تحریر کا پختہ ہونا ضروری نہیں، صرف سچّا ہونا لازم ہے، نیز ،اپنا نام و پتا بھی لکھیے تاکہ رابطے کی ضرورت پڑے تو آسانی ہوسکے۔

ہمیں اپنی کہانیاں اور آراء اس پتے پر بھیجیں

انچارج صفحہ، ناقابلِ فراموش، جنگ سنڈے میگزین،روزنامہ جنگ

اخبار منزل ،آئی آئی چندریگر روڈ، کراچی

تازہ ترین