• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
  • کسی کا بھی معمول اچانک خلافِ معمول میں بدل سکتا ہے
  • برسوں بعد ایسی بارش برسی، جو مجھے اندر سے بھگو رہی تھی
  • اِک دَربدر، خاک بسر… اور عشقِ مجازی سے عشقِ حقیقی تک کا سفرِ مسلسل

کتنی عجیب بات ہے کہ قدرت ہمیں اس جہاں میں جینے، زندہ رہنے کے لیے بھیجتی ہے،مگردنیا کا سارا نظام ہمیں موت اورمرجانے کے خوف پرقائم ملتا ہے۔ کبھی میں سوچتا تھا کہ اگر جیون ملتے ہی مر جانے کا یہ خوف ہم انسانوں کے ساتھ نہ جُڑتا تو یہ سارا سلسلہ اور یہ زندگی کیسی ہوتی۔ شاید ایک عذابِ مسلسل، کیوں کہ موت ہی زندگی کا پردہ ہے۔ لیکن ہم چھے قیدی دوبارہ اُسی زندگی کی طرف بھاگنےکاتہیّہ کرچُکےتھے۔ ظہیر نے بہت سوچ سمجھ کر اپنی ٹیم کا انتخاب کیاتھا۔ جیل کی چھے بُرجیاں تھیں اور اُسے ہر برج پر تعینات پہرے داروں کے بندوبست کے لیے ایک ایک بندہ چاہیے تھا۔ بگّھا سنگھ اور بخت خان جسمانی طور پر اتنے مضبوط تھے کہ اکیلے تین چار پر بھاری پڑتے تھے۔ سنتوش کے ہاتھ آتے ہی ہرتالا کُھل جاتا تھا اور کُندن مسیح اونچی فصیلیں، دیواریں کودنے کا فن جانتا تھا،جب کہ سب کی ایک قدرِمشترک تھی ’’جینے کی تمنّا‘‘۔ ظہیر نےفرار کے لیے 17؍اکتوبر کا دن بھی بڑی عرق ریزی کےبعدچُنا تھا۔ اُس کا منصوبہ بھی اُسی کی طرح انوکھا تھا، جس کاسارا دار و مدار موسم پر تھا۔ وہ پچھلے تین ماہ سے اس تاریخ کا انتظار کر رہا تھا۔ اُس کے منصوبے کےتین حصّے تھے۔ اوّل، جیل کے اندر بغاوت یا بلوہ، جس کا مرکزی کردار یوگی تھا۔ یوگی کو 17اکتوبر کی شام اپنی بیرک میں آگ لگا کر جیل میں افراتفری پھیلانی تھی تاکہ عملے کی ساری توجّہ آگ پر مبذول ہوجائے اور ظہیر ساتھیوں کے ساتھ کال کوٹھری کے عملے پر قابو پاسکے۔ منصوبےکے دوسرے حصّے کا اہم کردار ڈیڑھ حوالدار تھا، جس نے نقشے کی مدد سے جیل کی پُرانے دَور کی ایک ناکارہ نکاسی لائن کا سُراغ لگانا تھا، جو جیل سے باہر خشک ندی میں گرتی تھی اور ڈیڑھ حوالدار اپنا یہ کام کرچُکا تھا۔ وہ پائپ لائن کال کوٹھریوں کےاحاطے کےبالکل پیچھے، نیچے کی زمین سے گزر رہی تھی، لیکن یہ کوئی نہیں جانتا تھا کہ نکاسی آب کا یہ ایک صدی پرانا راستہ ابھی تک کُھلا ہے یا پائپ کی ٹوٹ پھوٹ اور ٹنوں مٹی کے تودے گرنے سے آگے جا کر کہیں بند ہو چُکا ہے؟ اس صُورت میں وہ دیوہیکل پائپ ہی ہمارے لیےقبر ثابت ہوسکتا تھا۔ ظہیر کے منصوبے کا تیسرا اور سب سے اہم حصّہ موسم اور قدرت کی مہربانی سےجُڑا تھا۔ سچ یہ ہے کہ اگر اُس روز کسی موسمی تغیّر کی وجہ سے وہ طوفان اور موسلادھار بارش ٹل جاتی، تو ہمارے سارے خواب چکنا چُور ہو سکتے تھے۔ ظہیر کو باہر سے اُس کے دوستوں نے پہلے ہی سے آگاہ کر رکھا تھا کہ آنے والی 17تاریخ کو اس علاقے میں شدید بارش، طوفان اور سیلاب کی پیشین گوئی ہے۔ یہ موسمیات کا محکمہ، انٹرنیٹ، گوگل سے آنے والے دِنوں، ہفتوں کے موسم کا احوال جاننا کتنا فائدہ مند ہے، اس کا اندازہ ہمیں یہاں اِن کال کوٹھریوں میں بیٹھے ہو رہا تھا۔ ظہیر کے منصوبے کے مطابق شدید بارش اور سیلابی ریلے کی صُورت میں اُس کے باہر بیٹھےجاں نثار جیل سے ملحقہ ندی کا باندھ ڈائنامائیٹ کے بلاسٹ سے اڑانے والے تھے، جس کے نتیجے میں سیلاب کا بہت بڑا ریلہ ٹھیک جیل کی چاردیواری کے اُس حصّے سےٹکراتا، جو سزائے موت کےبیرونی پھانسی گھاٹ والے حصّے کو جوڑ رہی تھی۔ نہ صرف یہ بلکہ ٹھیک اُسی وقت ایک دوسری اُفتاد بھی جیل کے عملے اور گارڈز کے سر پر پڑنےوالی تھی، کیوں کہ ظہیر کے ساتھیوں کا دوسرا گروپ جیل کےچاروں اطراف شدید فائرنگ اور کریکر دھماکے کرکےان کادھیان تیسری طرف بٹانے کے لیے پہنچ چُکا ہوگا۔ یوں جیل کا عملہ، گارڈز اور دیگر پولیس تین محاذوں میں بٹ جاتی۔ جیل میں لگی آگ، قیدیوں کی چیخ و پکار، انہیں دیگر بیرکوں میں منتقل کرنے کی ہڑبڑاہٹ، سیلابی ریلے کا جیل کی چار دیواری میں داخل ہونا اور ٹھیک اُسی وقت باہر چاروں طرف دھماکے، دیواروں پر فائرنگ، جیل اسٹاف کے حواس معطّل کرنے کو یہ عوامل کافی تھے۔ اس صورت میں لامُحالہ سزائے موت کے قیدیوں کو بھی جلد بازی اور بوکھلاہٹ میں ضرور کسی اور طرف منتقل کیاجاتا، کیوں کہ سیلاب کا ٹھاٹھیں مارتا ریلا اگر اُسی قوّت سے جیل کی بیرونی دیوار سے ٹکراتا، جو ظہیر نے ناپ رکھی تھی تو جیل کی کئی دیواروں میں شگاف لازم تھا۔ سزائے موت کے قیدیوں کےاحاطے کاوہ حصّہ، جہاں پھانسی گھاٹ بنایا گیا،براہ ِراست سیلابی طوفان کی زد میں آ رہا تھا۔ شگاف یا نقب ہی تو زنداں کا متضاد ہوتا ہے اور جس زنداں میں نقب لگ جائے، وہ زنداں رہ نہیں پاتا۔ پنجرہ کُھل جائے تو پنچھی اُڑ جاتے ہیں۔ ہم سب نے بھی اُڑنے کی تیاری کرلی تھی، ظہیر کایہ بھی ماننا تھا کہ قدرت اور میٹافزکس دراصل ایک ہی سکّےکےدو رُخ ہیں یا یوں کہہ لیں کہ قدرت اپنے اصول میٹا فزکس کے پیمانے پر طے کرتی ہے۔ سارا کھیل وقت اور لمحوں کے پتّے درست پڑنے کاہے۔ اگر 17تاریخ کو قدرت ہم پر مہربان ہوئی، موسم کی پیشین گوئی کرنے والے آلے درست ثابت ہوئے تو شدید طوفانی بارش متوقع تھی، جس کے نتیجے میں ہمیشہ کی طرح جیل کے قریب سے گزرتی خشک ندی میں تیز سیلابی ریلا آنا تھا۔ یہ سب اس علاقے کا معمول تھا، مگر غیر معمولی بات یہ تھی کہ ہمیشہ کی طرح سیلابی ریلے کو روکنے والے باندھ کو دھماکے سے اُڑا دیا جانا تھا، جس کے نتیجے میں ریلے کا رُخ جیل کی طرف ہو جاتا اور اس ایک خلافِ معمول عمل سےآگےچل کر ایسے غیرمعمولی اتفاقات کا ایک سلسلہ جُڑا تھا، جس پر ہمارے فرار کا سارا دارومدار تھا۔ مجھے یوگی کی کہی بات یاد آگئی کہ دنیا میں وقوع پذیر ہونے والا ہرحادثہ، موت، قتل، جنگ، آفت اور تباہی کسی خلافِ معمول وقت، گھڑی یا عمل ہی کا نتیجہ ہوتی ہے۔ مثلاً سانس سے ہماری زندگی چلتی ہے۔ ہم زندہ رہتے ہیں اور سانس لینا انسان کا معمول ہے، لیکن چند لمحوں کے لیےیہ چلتی ہوا رُک جائے یا ہم کسی کا دَم گھونٹ دیں، تو یہ ایک خلافِ معمول بات ہوگی۔ ایک لمحےکو سوچا جائے تو یہ کتنی خطرناک بات ہے کہ کسی کے منہ اور ناک پر صرف چند لمحوں کے لیےہاتھ کی مضبوط گرفت سے ہم کسی کی یا کوئی بھی ہماری جان لے سکتا ہے۔ بس ذرا طاقت اور ہوش کی سرحد پار کرنے کی دیر ہے۔ انسان کسی کے بھی معمول کو خلافِ معمول میں تبدیل کر سکتا ہے۔

ظہیر بھی 17اکتوبر کی رات اس جیل کے معمول کو بیرونی قوّتوں سے مل کرخلافِ معمول میں بدلناچاہتا تھا۔ میں نے اس کامنصوبہ سُننے کےبعد صرف ایک شرط رکھی۔ ظہیر نے چونک کر پوچھا ’’شرط … کیسی شرط …؟‘‘ ’’ہاں، میری بس ایک شرط ہے، ہمارے فرار کے اس سارے منصوبے میں کسی کو نشانہ نہیں بنایا جائے گا۔ مجھے عُمر قید یا پھانسی قبول ہےلیکن کسی کی جان لینا نہیں۔ اتنے بڑے بوجھ کےساتھ میں ویسے بھی جی نہیں پائوں گا۔‘‘ ظہیر میری بات سُن کر زور سے ہنس پڑا ’’مَیں جانتا تھا، تم یہی کہو گے اور یقین کرو کہ یہ بات ہم پانچوں کے دل میں بھی ہے۔ کسی بے گناہ کی جان لینا کتنا تکلیف دہ عمل ہے، یہ عذاب ہم نے ان کال کوٹھریوں میں دن رات سوتے جاگتے محسوس کیا ہے اور ہم سب نے پہلے دن ہی یہ طے کرلیا تھا کہ فرار کے دوران ایسا کوئی وار ہماری طرف سے نہیں ہوگا۔ ویسے بھی ہم نہتّےہیں، ہتھیار محافظوں کے پاس ہیں اور اِسی لیے میں نے مہینوں کی محنت سے یہ افراتفری پیدا کرنے والا منصوبہ بنایا ہے، ورنہ مَیں ایسے چند گروہوں کو بھی جانتا ہوں جو بڑی رقم کےعِوض سیدھا اس جیل پرحملہ کرکے،ہمیں زندہ یا مُردہ چھڑوا کر لے جا سکتےتھے۔ تم نے شاید ابھی کچھ عرصہ پہلےایک جیل ٹوٹنے کا احوال سُنا ہوگا، جس میں تین سو انتہائی خطرناک قیدی دن دیہاڑے جیل توڑ کر بھگا لیےگئے اور پھر اُن کا کوئی سراغ بھی نہیں مل سکا۔ یہ زور کی دنیا ہے پیارے، جو زور آور ہے، وہی ہر قید سےآزاد ہےمگر تم بے فکر رہو۔ ہمارا ارادہ کسی کی جان لینے کا نہیں۔ تبھی یہ تین طرفہ پلان ترتیب دیا ہے۔‘‘ ظہیر کے جواب نے میرے دل کا بوجھ تو ہلکا کردیامگرایک اَن جانی سی الجھن مجھے گھیرے بیٹھی رہی۔ اگلی شام ٹہلائی کے دوران ظہیر نے زنجیروں کی کھن کھن کے ذریعے باقی ساتھیوں کو میرے شامل ہونے کی اطلاع دی، تو احاطے میں کچھ دیر کے لیےماحول آہنی بیڑیوں، زنجیروں کی جھنکارسےجھنجھناسااُٹھا۔ وہ سب مجھے اپنے گروہ میں خوش آمدید کہہ رہے تھے۔ ذرا سی دیر میں وہ شور اٹھا کر باہر سے سنتری دوڑے چلے آئے کہ جانے اندر کیا طوفان آگیا۔

دن رینگتے رینگتےاب ٹھہر سےگئےتھے۔ ہم روز صبح اٹھ کرسب سےپہلےآسمان کی طرف دیکھتے، جیسے وہاں سے ہمارے لیےکوئی من و سلویٰ اترنے والا ہے۔ لیکن آسمان پر کوئی بدلی یا بادل کا ٹکڑا نہ پا کر ہمارے چہرے لٹک جاتے۔ موسم کےآثار کہیں سے بھی یہ نہیں بتا رہے تھے کہ اگلے دو چار دن میں ایسی طوفانی بارش متوقع ہے۔ ظہیرکےمنصوبےکے مطابق جیل سے زندہ سلامت نکل جانے کی صُورت میں ہم چھے میں سے ہر ایک کو کسی مختلف سمت دوڑنا تھا۔ جیل کے باہر ندی کے کنارے ظہیر کے ساتھیوں نے ہم سب کے لیے نئے لباس کا انتظام کرنا تھا اور ہم سب کو جیل کی وردی سے چھٹکارا پانے کے بعد مشرق، مغرب، شمال، جنوب میں پھیل جانا تھا۔ ظہیر کو مشرق میں سڑک کی طرف، بخت خان کومغرب میں ندی کی جانب، بگھے کو شمالی پہاڑ کی سمت اور سنتوش کو جنوب میں جنگل کی طرف نکلنا تھا۔ میرے اور کندن مسیح کے حصّے میں شمال مشرق اور جنوب مغرب آئے۔ شمال مشرق کی طرف وہ ویران ریلوے اسٹیشن تھا، جہاں سے آدھی رات کو مال گاڑی گزرتی تھی اور جنوب مغرب میں جیل سے پرے کی آبادی اور پھر چالیس پچاس میل دُور بڑا شہر واقع تھا۔ یہ ساری سمتیں ایک قرعہ اندازی کے نتیجے میں ہمارے حصّے آئی تھیں، جو دوسری طرف کی کال کوٹھریوں میں میرے آنے سے پہلے ہوچُکی تھی۔ میرے حصّے جو سمت آئی، کرم داد کے زندہ ہونے کی صُورت میں اُسے ملنی تھی۔ مجھے ایک لمحے کےلیےپھر ایسا محسوس ہوا، جیسے کرم داد اور مہرو کی نم آنکھیں مجھے کال کوٹھری کی دیوار سے لگاتار گھور رہی ہیں۔ آخر17اکتوبر کی صبح بھی آگئی۔ ہم میں سےکوئی بھی اُس رات سو نہیں پایا اور صبح ہوتے ہی سب نےآنکھیں آسمان پر گاڑ دیں۔ گہرا نیلا آسمان، جہاں ہمیں دُور دُور تک کہیں بھی سفید رنگ کی آمیزش نظر نہیں آرہی تھی۔ چمکتا سورج ہماری بےبسی پر قہقہے لگارہا تھا۔ شام چاربجے ہمیں حسبِ معمول ٹہلنے کے لیے نکالا گیا، توسب ہی کے چہرے تنے ہوئے تھے۔ وہ غصّے میں زنجیریں جھنکا کر ظہیر سے سوال کرتے رہے، لیکن ظہیر کےسپاٹ چہرے پر اُن کے کسی سوال کا جواب نہ تھا۔ موسم سے بھلا کون لڑ سکا ہے، زندگی میں پہلی مرتبہ نیلارنگ آنکھوں کو چُبھنے لگا تھا۔ سب کے دِلوں کو اس وقت بس ایک ہی خدشہ ڈس رہا تھا کہ کہیں جیل سے باہر موجود ظہیر کی ٹیم سے موسم کی پیشین گوئی میں کوئی غلطی نہ ہوگئی ہو، حالاں کہ آج کل سائنس اتنی ترقّی کر گئی ہے کہ ہفتوں پہلے آنے والے موسم کے تغیر کا پتا لگانا عام بات ہےلیکن پھر بھی کون جانے موسم کےتیور کب بدل جائیں۔ ہمیں ساڑھے چاربجےکوٹھریوں میں پہنچادیاگیا۔ اور پھر، ٹھیک اُسی وقت،جب پہرے پر مامور سنتری جس وقت میری بیڑیاں کھول رہا تھا، کہیں دُور بال گرجنے کی آواز سنائی دی۔ گھنٹے بعد ہی سارا آسمان کالے گھنےبادلوں سےڈھک چُکا تھا۔ تیز طوفانی ہوائوں کے ساتھ ہی کہیں دور بجلی کی گرج چمک سُنائی دینے لگی اور پھر اچانک ہی تیز بوچھاڑ کے ساتھ پانی کے بہت سے آوارہ چھینٹے میری کھولی کے چھوٹے سے روشن دان کی جالی سے اندر لپکے اور میرا پورا چہرہ بھگو گئے۔ بہت زمانےبعد ایسی بارش برسی تھی، جو میرا اندر، میرا مَن بھگو رہی تھی، ورنہ تَن گیلا کرنے والی تو جانے کتنی برساتیں آئیں اور گزرگئیں۔ تھوڑی ہی دیر میں سزائے موت کےقیدیوں کے احاطے میں جل تھل ایک ہوگیا۔ برآمدے میں تَنی ٹین کی چھت پر بوندوں کا جلترنگ بجنے لگا۔ سامنے والےبرآمدے سے بگّھے نے نعرہ لگایا ’’واہ گُروداخالصہ، واہ گرودی جے…‘‘ ہم سب دَم سادھے اپنی اپنی کھولی کی سلاخوں سے جُڑے باہر برستے مینہہ کو یوں دیکھ رہے تھے، جیسے یہ ہماری زندگی کی پہلی بارش ہو۔

ابھی شام کا اندھیرا پوری طرح چھایا نہیں تھا کہ اچانک عام قیدیوں کی بیرکس کی طرف سے پہلے کچھ ہلکے اور پھر گہرے دھوئیں کے بادل بلند ہوتے نظر آئے اور پھر اچانک ہی چیخ و پکار سی مچ گئی’’آگ لگ گئی، آگ… بچائو …بچائو‘‘ میرےجسم کا خون تیزی سے میری کن پٹیوں کی طرف دوڑنے لگا۔ اوپر چھت پر کھڑے ایک محافظ نےچیخ کر دوسری برجی والے گارڈ سے پوچھا ’’کیاہوا منظورے؟‘‘ ’’بیرکس میں آگ بھڑک گئی ہے، تین بیرکس جل رہی ہیں۔ قیدیوں کو نکال رہے ہیں یار، اللہ خیر کرے۔‘‘ برستی بوچھاڑ میں دوسری جانب سےچیخنے چلانے کی آوازیں سنائی دے رہی تھیں اور پھر اچانک ایک کان پھاڑ دینے والا دھماکا ہوا۔ جیل کے در و دیوار لرز سے گئے۔ اوپر کوئی چلاّیا ’’یہ کیا ہوا، یہ تو ندی کی طرف کوئی دھماکا ہوا ہے‘‘بہت سے بھاگتے قدموں کی آوازیں جیل کی چھت پر گونجیں اورتیز آوازیں سنائی دیں۔ ’’ندی کا بند ٹوٹ گیا ہے۔ جلدی کرو، پانی اسی طرف آرہا ہے۔‘‘ ظہیر کےمنصوبے کے مطابق جیل کا معمول، خلافِ معمول میں تبدیل ہونا شروع ہوچُکا تھااور پھر اچانک باہر شدید فائرنگ، دھماکوں کی آواز نے ماحول کو لرزا دیا۔ برآمدے میں بخت خان کی چیخ گونجی ’’حق ہے…‘‘ اور پھر جیل کی بجلی بند ہوگئی یا شاید اُڑا دی گئی۔ فائرنگ، گارڈز کے چلّانے کی آوازیں، بھاگتے قدم، برستی بارش میں آتے جاتے سپاہیوں کے ہاتھوں میں جلتی ٹارچوں کی جگنو جیسی لرزتی روشنیاں… اور پھر یوں لگا، جیسے بہت سے جنگلی بھینسوں کا ایک جنگلی ریوڑ تیزی سے دوڑتا جیل کے پھانسی گھاٹ والے احاطے سے پوری قوت سے ٹکرایا ہو۔ تبھی اوپر کھڑا کوئی محافظ زور سے چلّایا ’’سیلاب کے پانی نےباہر کی دیوار میں شگاف ڈال دیاہے، جیلر صاحب کو اطلاع دو جلدی۔‘‘ باہرخطرے کےسائرن بجنا شروع ہو چُکے تھے۔ جیل میں ایک قیامت صغریٰ کاسماں تھا۔پانی تیزی سےہماری کوٹھریوں کے اندر داخل ہونا شروع ہوچکا تھا۔ ہم سب نے طے شدہ منصوبے کے تحت شور کر کر کے آسمان سر پر اٹھا لیا۔ جیل کے عملے کو سمجھ ہی نہیں آرہا تھا کہ وہ جلتی آگ کو بجھائیں یا قیدیوں کی بیرکوں میں ٹھاٹھیں مارتے پانی کو روکنےکی فکر کریں۔ اچانک بہت سےمحافظوں کےدوڑ کر سزائے موت کے احاطے میں داخل ہونےکی آواز سنائی دی۔ منصوبے کاآخری مرحلہ آپہنچا تھا۔ محافظوں کے پاس ہمیں بیڑیاں ڈالنے،ڈنڈا ڈولی کرنے کا وقت ہی نہیں تھا۔ جلدی میں ساری کال کوٹھریاں کھولی گئیں اور اندھیرے ہی میں ہتھکڑیاں پہنا کرہمیں ایک جانب ہانک دیا گیا۔ تبھی میری نظر برساتی اوڑھے ڈیڑھ حوالدار پر پڑی، جس نے کسی اندھیری راہ داری میں ایک لمحے کے لیےاپنی ٹارچ جلائی اور بُجھادی۔ یہ بگھے اور بخت خان کے لیےسگنل تھا۔ وہ دونوں چلتےچلتے آپس میں بِھڑگئے۔ اندھیرے میں سبھی قیدی گتھم گتھا ہوگئے۔ محافظ زور سے چلائے، لیکن اندھیرے میں بگّھے اور بخت خان نے دو تین محافظوں کو بھی لپیٹ میں لے لیا۔ باقی ماندہ گارڈز نےبوکھلا کر بندوقیں نشانہ لینےکے لیےسیدھی کیں۔ جانو زور سے چلایا ’’گولی مت چلانا صاحب، ہمارے اپنے بندے بھی درمیان میں ہیں‘‘۔ ’’ہوشیار! جیلر صاحب نے سارے گارڈز کو گیٹ کی بُرجی کا گھیرا ڈالنے کو کہا ہے۔ باہر قیدیوں نے بغاوت کر دی ہے۔ جلدی کرو، سب پہنچو… شیرو، رحیمے، شبیرے، مختار، کہاں مرگئے ہو سارے…‘‘ اندھیرے میں کوئی زور سے چلّایا۔ بیرونی دیوار پر پھر گولیوں کی ایک بوچھاڑ ہوئی۔ جیل کے محافظ اوپر بُرجیوں سے فائرکررہے تھے، مگر گُھپ اندھیرے میں اَن جانا دشمن انہیں دکھائی نہیں دے رہا تھا۔ یہاں نیچے برستی بارش میں زمین پر گرے کیچڑ میں لت پت بگھے، بخت خان اور گارڈز کے درمیان جنگ جاری تھی،پہچاننا مشکل تھا کہ ان میں سے کون قیدی ہے اور کون محافظ، ایک چیخ وپکار تھی۔ دوسرے گارڈز بھی گھبرا کر اپنے ساتھیوں کو چُھڑانے کے لیے آگے بڑھے۔ ایک لمحے کو ان کا دھیان بٹا، تو اچانک میری ہتھکڑی پر ظہیر کا ہاتھ پڑا اور وہ مجھےگھسیٹتے ہوئے راہ داری میں ایک جانب بھاگ کھڑا ہوا۔ اُسی لمحے میں نے کندن اور سنتوش کو بھی دوسری سمت بھاگتے دیکھا۔ اندھیرے میں آسمانی بجلی کا ایک کوندا لپکا۔ ظہیر بھاگتے ہوئے زور زور سے اپنے قدم گن رہا تھا۔’’ 32،33،34 …50 قدم بعد دائیں…‘‘ پہلے مجھے کچھ سمجھ نہیں آیا، لیکن میں نے اندھیرے میں ظہیر کے ہیولے کو دائیں طرف مُڑتے دیکھا، تو پیچھے بھاگتے ہوئے میں بھی مُڑگیا۔ ’’ 70قدم بعد بائیں، تیز… ہمارے پاس وقت نہیں ہے زیادہ … ‘‘ہم دونوں دیوانہ وار دوڑ رہے تھے۔ ظہیر نے جیل کا نقشہ گھول کرپی رکھا تھا اور اسی دن کے لیے اس نےتمام بُرجیوں اورگارڈز کی تفصیلات اور اوقات از برکیے تھے۔ ہم دونوں بھاگتے ہوئے ایک نسبتا ًکھلے میدان میں آنکلے، ظہیر چلّایا ’’ہم پندرہ سیکنڈ لیٹ ہیں۔ سرچ لائٹ سے بچنا‘‘ اتنے میں دُور اوپر لگی کسی گھومتی ہوئی سرچ لائٹ کا دائرہ ہم پر روشنی ڈالتا گزر گیا۔ ظہیر کی وقت کی گنتی بالکل صحیح تھی، ٹھیک اُسی وقت اوپر دیوار سے کوئی چلّایا ’’خبردار!کون ہو تم…رُک جائو…‘‘ظہیر چلّایا ’’بھاگتے رہو…‘‘ اور اگلے ہی لمحے گولی کی آواز فضا میں گونجی۔

میرے کان میں ایک سائیں کی سی آواز آئی، جیسے زن سے کوئی تیزی رفتار بُلٹ ٹرین گزری ہو اور تبھی میری ناک نے جلتے بارود کی بُو محسوس کی۔ نشانچی کی گولی مجھے تقریباً چُھوتی گزر گئی تھی، اگربارش کی تیز بوچھاڑ اور اندھیرا نہ ہوتا تو ضرور اس کا نشانہ میری پیشانی کے درمیان پیوست ہوتا۔ مجھے لگا، میرے آس پاس ہی کہیں موت کی دیوی مُسکائی اور اُس نے میرے کان میں سرگوشی کی ’’نہیں… ابھی نہیں…‘‘ ہم کیچڑ میں لت پت اندھیرے میں بھاگتے ایک اور احاطے میں جا نکلے، جہاں پچھلی طرف آگ کے شعلے کہیں دُور آسمان کی طرف بلند ہوتے دکھائی دے رہے تھے۔ ظہیر کی مہینوں کی محنت ہمارے کام آرہی تھی۔ وہ جیل کے پیچیدہ راستوں کو اپنی گلی محلے کی طرح سر کر رہا تھا۔ احاطے کے درمیان ایک گول چو بارہ سا بنا تھا، جسے اوپر سیمنٹ اور مٹی سے پاٹ دیا گیا تھا۔ قریب ہی کچھ کُدالیں اور بیلچے پڑے تھے، ظہیر نے نعرہ لگایا ’’جیو ڈیڑھ حوالدار…‘‘ ظہیر نے کُدال اٹھائی اور چوبارے کے درمیان ضرب لگائی۔ میں بھی اس کی دیکھا دیکھی کدال لیے شریک ہو گیا۔ کچھ ہی لمحوں میں نیچے سے لوہے کی ایک چارخانوں والی جالی نکل آئی۔ ظہیر چلّایا ’’جلدی کرو، گارڈز آتے ہی ہوں گے۔ یہی وہ پرانا کنواں ہے، جو نیچے نکاسی کی لائن سے جُڑا ہوا ہے۔‘‘ اتنے میں اندھیرے میں دُورسے بھاگتے قدموں کی آواز سنائی دی اور پھر پہلے بگّھا اور بخت خان اور دوسری جانب سے کندن اور سنتوش بھاگتے دکھائی دئیے۔ ظہیر نے زور سے سیٹی بجائی کہ ہم یہاں ہیں۔ وہ چاروں ہماری طرف لپکے اور ٹھیک اُسی وقت ایک زور دار فائر کی آواز کے ساتھ ہی میں نے سنتوش کو زمین پر گرتے دیکھا۔ بارش کے پانی میں سنتوش کا خون مل کر بہنے لگا تھا۔ (جاری ہے)

تازہ ترین