• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ہر کمپنی کی کوشش ہوتی ہے کہ مسابقتی میدان میں وہ اپنی حریف کمپنیوں سے ممتاز اور مختلف نظر آئے۔ ایسا کرنے میں کامیابی پر وہ اپنی ٹارگٹ مارکیٹ میں ایک منفرد مقام بنانے میں کامیاب ہوجاتی ہے اور اس کا صلہ وہ اکثر ’پریمیم پرائس‘ کی صورت میں وصول کرتی ہے۔ یہی بات اگر کسی کمپنی میں کام کرنے والے ملازمین کے حوالے سے کی جائے تو یہ دیکھنا ہوگا کہ ’لیڈر شپ‘ کی صلاحیتیں رکھنے والے افراد خود کو کس طرح دوسروں سے ممتاز اور منفرد ثابت کرتے ہیں؟ ایسا کیا کرنے پڑے گا کہ سینئر مینجمنٹ آپ کو دیگر ملازمین کے مقابلے میں مختلف اور منفرد نظر سے دیکھے؟ کیا آپ کے لیے مختلف نظر آنے سے مراد زیادہ کامیابی، بہتر تنخواہ و مراعات اور اعلیٰ پوزیشن ہے؟ یقیناً ہرکسی کے لیے ان میں سے ہر سوال کا جواب ’ہاں‘ میں ہی ہوگا۔

کیا ’لیڈرز‘ کو پرفیکٹ ہونا چاہیے؟

لیڈرز کے بارے میں یہ خیال کیا جاتا ہے کہ وہ ہر کام کرنے میں اعلیٰ مہارت رکھتے ہیں۔ اب آپ کسی ایسے شخص کے بارے میں سوچیں جسے آپ لیڈر تصور کرتے ہیں اور پھر خود سے سوال کریں کہ کیا وہ شخص ’پرفیکٹ ‘ ہے؟ کیا اس میں کچھ کمزوریاں ہیں؟ آپ مشاہدہ کرنے کے بعد اس نتیجے پر پہنچیں گے کہ کوئی بھی لیڈر پرفیکٹ نہیں ہوسکتا۔ خامیاں ان میں بھی ہوتی ہیں، تاہم ان میں کچھ ایسی خصوصیات ضرور بدرجہ اتم موجود ہوتی ہیں، جو انھیں دیگر سے ممتاز بناتی ہیں۔ اس حوالے سے فوربز کی جانب سے 59ہزار سے زائد لیڈرز کے مشاہدے کیلئے ایک وسیع تر مشق کی گئی، جس میں ان کی شخصیات میں پائی جانے والی خصوصیات کا ادارے پر پڑنے والے اثرات کا جائزہ لیا گیا۔ فوربز کی جانب سے اس مشاہدے کے لیے جن لیڈرز کا انتخاب کیا گیا انھیں 10یا اس سے زائد منیجرز، ہمعصر رفقاء، ڈائریکٹر رپورٹس اور ریٹ کرنے والے دیگر افراد یا اداروں کی طرف سے تجویز کیا گیا تھا۔ مجموعی طور پر اس مشاہدے میں ایسے لیڈرز کو رکھا گیا، جنھیں صلاحیتوں اور استعداد کے میدان میں کم از کم 90فیصد یا اس سے زیادہ کی ریٹنگ دی گئی تھی۔

اس مشاہدے میں لیڈرز کو 16مختلف صلاحیتوں کے پیمانے میں ناپا گیا۔ مشاہدے کے نتائج میں بتایا گیا کہ وہ لیڈرز جن میں بدرجہ اتم کوئی صلاحیت نہیں تھی، ان کی لیڈرشپ اثر پذیری(Effectiveness)کی اوسط ریٹنگ مجموعی اسکیل پر38فیصد تھی۔ جبکہ منتخب کردہ 16صلاحیتوں میں سے کسی بھی ایک شعبہ میں استعداد ان کی مجموعی ریٹنگ میں 30فیصد اضافے کا باعث تھی۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ جن لیڈرز میں 3شعبہ جات میں بدرجہ اتم صلاحیتیں موجود تھیں، ان کا شمار زیرِ مشاہدہ 59ہزار لیڈرز میں ٹاپ کے 20فیصد میں کیا گیا۔

اس وسیع تر مشاہداتی تحقیق کے مطابق، یہ بات واضح ہوچکی ہے کہ کسی بھی کمپنی میں وہ لیڈرز منفرد اور ممتاز مقام رکھتے ہیں، جو کم از کم کچھ شعبہ جات میں صلاحیتوں کے مالک ہوتے ہیں۔ یقیناً، کسی بھی لیڈر کے لیے یہ ممکن نہیں ہے کہ وہ ہر شعبے میں غیرمعمولی صلاحیتوں کا حامل ہو، اس لیے انھیں کم از کم کوشش کرکے ان شعبہ جات میں بدرجہ اتم ہنر اور صلاحیتیں حاصل کرنی اور سیکھنی چاہئیں، جو انھیں ذاتی طور پر پسند ہوں ۔ عمومی طور پر لیڈرشپ صلاحیتیں حاصل کرنے کا یہ طریقہ کار مؤثر اور کارگر ثابت ہوتا ہے، کیونکہ جب ہم وہ صلاحیت حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں، جو ہمیں پسند نہیں ہوتی تو اسے حاصل کرنے کی پیشرفت انتہائی سست اور مشکل ہوتی ہے۔اس کے برعکس، جب ہم کوئی ایسا ہنر یاصلاحیت سیکھنے اور حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں، جس میں ہم دلچسپی رکھتے ہیں تو وہ عمل تیز، پُرلطف اور آسان بن جاتا ہے۔

کن صلاحیتوں کا اثر سب سے زیادہ ہوتا ہے؟

محققین کو پہلی بار جب یہ معلوم ہوا کہ کسی شعبہ میں غیرمعمولی صلاحیتوں کا ہونا لیڈرز کی مجموعی کارکردگی پر گہرا اثر ڈالتا ہے تو اگلے مرحلے میں انھوں نے یہ جاننے کی کوشش کی کہ کیا کچھ صلاحیتوں کا اثر زیادہ اور کچھ کا کم ہوتا ہے؟ تجزیے سے ثابت ہوا کہ حقیقتاً ایسا ہی ہے اور جس لیڈر میں درج ذیل صلاحیتیں ہوں تو وہ اسے دیگر کے مقابلے میں منفرد اور ممتاز بنادیتی ہیں:

1- اشتراک یا تعاون (Collaborate) 2-ابلاغ یا اطلاع کا تبادلہ(Communicate) 3-اہداف کا تعین (Establish Goals)

اگر لیڈرز میں درج ذیل صلاحیتیں ہوں تو یہ ان کے لیے فائدہ مند ضرور ثابت ہوتی ہیں، لیکن اوپر درج کی گئی تین صلاحیتوں کے مقابلے میں ان کا اثر کم ہوتا ہے:

1-تکنیکی سوجھ بوجھ، 2-نتائج کے لیے کام کرنا

ہرچندکہ کسی بھی شعبہ میں بدرجہ اتم صلاحیت ہر لیڈر کے لیے فائدہ مند ثابت ہوتی ہے، تاہم محققین کا کہنا ہے کہ ہر لیڈر کو اپنی ذاتی دلچسپی اور موجودہ ذمہ داریوں (جاب) کو مدِنظر رکھتے ہوئے اپنی صلاحیتوں میں اضافہ کرنا چاہیے۔

کن صلاحیتوں کا امتزاج ’بہترین‘ ہوتا ہے؟

لیڈر A-کی صلاحیتیں

تعلقات بناتا ہے، ابلاغ کا ہنر جانتا ہے اور دوسروں کو آگے آنے کے مواقع فراہم کرتا ہے۔

لیڈر B-کی صلاحیتیں

مسائل حل کرتا ہے، نئے لائحہ عمل پیش کرتا ہے اور مؤثر حکمتِ عملی بناتا ہے۔

لیڈر Aمیں تین خصوصیات ہیں اور یہ اس کی شخصیت اور دیگر ضروری صلاحیتوں کو اجتماعی طور پر فروغ دینے اور آگے بڑھانے کا باعث بنتی ہیں۔ اس کے برعکس لیڈر Bبھی تین صلاحیتوں کا حامل ہے، جن کا تعلق تین بڑی کیٹیگریز - تجزیاتی صلاحیتوں، نتائج پر نظر اور سمت/تبدیلی سے ہے۔ اب سوال یہ بنتا ہے کہ کیا وہ لیڈر زیادہ مؤثر ثابت ہوگا، جس میں تینوں ایک جیسی خصوصیات پائی جاتی ہیں یا وہ لیڈر زیادہ مؤثر رہے گا جو تین مختلف النوع صلاحیتیں رکھتا ہے۔ نتائج سے ظاہر ہوتا ہے کہ جو لیڈرز تین مختلف النوع صلاحیتیں رکھتے ہیں، انھیں ان لیڈرز پر 5فیصد تک برتری حاصل ہوتی ہے، جو ایک ہی نوعیت کی تین صلاحیتیں رکھتے ہیں۔ ہرچندکہ بظاہر یہ کوئی بڑا فرق نہیں ہے، لیکن عملی زندگی میں اعدادوشمار کے لحاظ سے یہ ایک قابلِ ذکر فرق ثابت ہوتا ہے۔محققین کا مزید کہنا ہے کہ، ہر شخص اپنے اندر بدرجہ اتم صلاحیتیں پیدا کرسکتا ہے تاہم اس کے لیے سخت محنت، پریکٹس اور جنون کی ضرورت ہوتی ہے۔

تازہ ترین