• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

عوام کی جمہوریت سے محبت...پیرس کی ڈائری :رضا چوہدری، نمائندہ جنگ

وطن عزیز پاکستان میں حالیہ خونی انتخابات میں حصہ لینا سیاسی رہنماؤں کے ساتھ عوام کے حوصلہ اور جرأت کے علاوہ عوام کی جمہوریت سے محبت کا کھل کر اظہار ہے ۔ابھی تک کی صورتحال کے مطابق آئندہ پارلیمنٹ میں پانچ کی بجائے چھ سٹیک ہولڈرزہوں گے جن میں پاکستان پیپلزپارٹی ، پاکستان مسلم لیگ (ن)، پاکستان تحریک انصاف، متحدہ قومی مومنٹ ،پاکستان نیشنل عوامی پارٹی، جمعیت علمائے اسلام اورپاکستان مسلم لیگ (ق) شامل ہے۔ اس ہم پارلیمنٹ میں چھوٹے صوبہ بلوچستان سے وزیر اعظم بننے کا واضح امکان نظر آرہاہے کیونکہ آئندہ سال 2014اس خطے میں خصوصی اہمیت کا حامل ہوگا ۔ اس کے دوران پڑوسی ملک افغانستان سے غیر ملکی افواج کی واپسی کا شیڈول طے ہے اس دوران کوئی پختون رہنما ہی ان حالات میں اس وقت کی صورتحال میں مثبت کردارسرانجام دے سکے گا۔ لہذاان انتخابات کے نتیجہ میں سال 1985 کے غیر جماعتی انتخابات کی طرح کوئی محمد خان جونیجوجیسا وزیر اعظم قوم کو مل سکے گا جو اپنے اقدام سے اپنی شناخت پیدا کرے گا۔ ان انتخابات کے دوران اوورسیز پاکستانیوں کو ووٹ دینے کا چرچہ تو بہت ہوا مگر کوئی قابل ذکر پیش رفت نہیں ہوسکی جس کے باعث اوورسیز پاکستانیوں کو سخت مایوسی کا سامنا کرنا پڑا جہاں تک اوورسیز ووٹر کا تعلق ہے تو اس کو ووٹ کا حق نہ ملنے کا سب سے زیادہ نقصان پاکستان تحریک انصاف کے گجرات ، منڈی بہاوالدین اضلاع کے امیدواروں کو پہنچا ہے کیونکہ اوورسیز سطح پر سب سے زیادہ تعداد ان اضلاع کے لوگوں کی ہے جبکہ تیسرا نمبر کشمیری برادری کا ہے مگر ان کا ان انتخابات میں ووٹ نہیں ہے کشمیر کے ووٹوں میں ان کی اہمیت وابستہ ہے۔ حالیہ عام انتخابات کے بعد بھی آئندہ دوسال تک پاکستان پیپلزپارٹی کی اہمیت قائم رہے گی کیونکہ سینیٹ میں پاکستان پیپلزپارٹی کو عددی اکثریت حاصل ہے ۔پارلیمنٹ سے منظوری کے بعد سینیٹ کی منظوری ضروری ہوتی ہے۔ انتخابات کے دوران لمحہ بہ لمحہ صورتحال بڑی تیزی سے بدلتی ہے اور اونٹ کس کروٹ بیٹھتا ہے یہ 11مئی کو ہی سامنے آئے گا ۔ابھی تک کی پوزیشن کے مطابق پی ایم ایل (ن) 70سے80سیٹس، پی پی پی55سے65،پاکستان تحریک انصاف 45سے 55سیٹس حاصل کرتی نظر آرہی ہیں۔ ایم کیو ایم کی نشستوں میں معمولی کمی پیشی ہوسکتی ہے ۔صوبائی سطح پر صوبہ پختوخواہ میں پاکستان تحریک انصاف کے ساتھ مخلوط حکومت کے امکان کو رد نہیں کیا جاسکتا ۔ یہی صورتحال بلوچستان میں بھی نظر آرہی ہے۔ سند ھ میں پاکستان پیپلزپارٹی اور ایم کیو ایم کی حکومت کا واضح امکان ہے۔ صوبہ پنجاب کی صورتحال بڑی مختلف نظر آرہی ہے وہاں پاکستان مسلم لیگ (ن) کو ماضی کی طرح فری ہینڈ ملنے کے امکان بہت کم نظر آرہے ہیں ۔اب صوبہ پنجاب کی اسمبلی میں ان کو پاکستان پیپلزپارٹی کے علاوہ پاکستان تحریک انصاف کی مخالفت کا سامنا رہے گا ۔ لہذا ان انتخابات کے بعد واضح اکثریت نہ ملنے اور سینیٹ میں دوسال تک پی پی کی اکثریت کے باعث منتخب حکومت کو ئی قابل ذکر کام نہیں کرسکے گی اور ملک کو درپیش موجودہ مسائل جوں کے توں رہیں گے۔ انتخابات منعقدہونے سے ملک وقوم کو ایک ہی فائدہ ہوگا کہ جمہوریت چلتی رہے گی۔ یہی بڑی بات ہے کہ جمہوریت قائم دائم رہے اور آہستہ آہستہ وہاں بھی جمہوری اقدار فروغ پاسکیں کیونکہ اگر موجودہ انتخابات میں ایک دوسرے پر بہت سخت الزامات لگا کر اسمبلی میں پہنچنے والوں میں جس کو اقتدار ملا اس کو سارا وقت اپنے مخالفین کی شدیدمزاحمت کا سامنا رہے گا ۔
تازہ ترین