میں نے جس وقت تجھے پہلے پہل دیکھا تھا
تو جوانی کا کوئی خواب نظر آئی تھی
حسن کا نغمۂ جاوید ہوئی تھی معلوم
عشق کا جذبۂ بے تاب نظر آئی تھی
اے طرب زار جوانی کی پریشاں تتلی
تو بھی اک بوئے گرفتار ہے معلوم نہ تھا
تیرے جلووں میں بہاریں نظر آتی تھیں مجھے
تو ستم خوردۂ ادبار ہے معلوم نہ تھا
تیرے نازک سے پروں پر یہ زر و سیم کا بوجھ
تیری پرواز کو آزاد نہ ہونے دے گا
تو نے راحت کی تمنا میں جو غم پالا ہے
وہ تری روح کو آباد نہ ہونے دے گا
تو نے سرمائے کی چھاؤں میں پنپنے کے لیے
اپنے دل اپنی محبت کا لہو بیچا ہے
دن کی تزئین فسردہ کا اثاثہ لے کر
شوخ راتوں کی مسرت کا لہو بیچا ہے
زخم خوردہ ہیں تخیل کی اڑانیں تیری
تیرے گیتوں میں تری روح کے غم پلتے ہیں
سرمگیں آنکھوں میں یوں حسرتیں لو دیتی ہیں
جیسے ویران مزاروں پہ دیے جلتے ہیں
اس سے کیا فائدہ رنگین لبادوں کے تلے
روح جلتی رہے گھلتی رہے پژمردہ رہے
ہونٹ ہنستے ہوں دکھاوے کے تبسم کے لیے
دل غم زیست سے بوجھل رہے آزردہ رہے
دل کی تسکیں بھی ہے آسائش ہستی کی دلیل
زندگی صرف زر و سیم کا پیمانہ نہیں
زیست احساس بھی ہے شوق بھی ہے درد بھی ہے
صرف انفاس کی ترتیب کا افسانہ نہیں
عمر بھر رینگتے رہنے سے کہیں بہتر ہے
ایک لمحہ جو تری روح میں وسعت بھر دے
ایک لمحہ جو ترے گیت کو شوخی دے دے
ایک لمحہ جو تری لے میں مسرت بھر دے