• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

’ساحر لدھیانوی‘ ترقی پسند شاعری کا روشن ستارہ

ساحر لدھیانوی ترقی پسند شاعروں میں بلند مقام رکھتے ہیں۔ ان کی شہرت و مقبولیت آج بھی پوری آب و تاب سے قائم ہے۔ ان کی نظمیں اثرانگیز اور دلوں میں اتر جانے والی ہیں۔ انہوں نے اپنے دلکش لہجے اور باغیانہ افکار سے ایک عہد کو متاثر کیا۔ ان کی شاعری میں احتجاج اور محبت کے رنگ ہم آمیز نظر آتے ہیں۔ ان کا مجموعہ کلام ’’تلخیاں‘‘ نوجوان نسل کو متاثر کرنے والی شعری کتابوں کی تاریخ میں ہمیشہ نمایاں رہے گا۔ بقول احمد ندیم قاسمی ساحر لدھیانوی کی شاعری کی بنیادی خصوصیت ان کی شدت احساس ہے۔

ہندوستان کی فلمی شاعری کے معیار کو بلند کرنے اور فلمی نغموں میں ادبی حسن پیدا کرنے کے حوالے سے بھی ان کی کوششیں ناقابل فراموش ہیں۔ ان کو 1964ء اور 1977ء میں بہترین گیت نگار کا فلم فیئر ایوارڈ دیا گیا۔ ان کی شاعری میں مزدوروں، کسانوں اور معاشرے کے کچلے ہوئے طبقوں سے ہمدردی کے جذبات ملتے ہیں، ان کی شاعری اپنے عشقیہ مزاج کے باوجود ایک گہرے سیاسی شعور کی آئینہ دار ہے۔ ان کی عوامی شہرت کا آغاز 1944ء سے ہوا،جب انہیں ظہیر کاشمیری نے ایم اےا و کالج امرتسر کے ایک ’’مشاعرے‘‘ میں بحیثیت نوجوان شاعر مدعو کیا۔ جہاں ساحر نے پہلی بار نظم تاج محل سنائی اور مشاعرہ لوٹ لیا۔ اگلے ہی دن سے وہ طلباء و طالبات کے محبوب شاعر بن گئے۔

ساحر مشرقی پنجاب کے شہر لدھیانہ میں 8؍مارچ 1921ء کو پیدا ہوئے۔ ان کا اصل نام عبدالحئی تھا۔ والد چوہدری فضل محمد ایک سخت دل اور روایتی جاگیردار تھے جنہوں نے ساحر سے کبھی شفقت اور محبت کا برتائو نہیں کیا۔ وہ اپنے والد کی گیارہویں بیوی سردار بیگم کی پہلی اولاد تھے۔ شوہر کے خراب رویے اور اپنے حق سے محرومی کے باعث ان کی والدہ نے علیحدگی اختیار کرلی۔ ساحر لدھیانوی کی پرورش ان کے ننھیال میں ہوئی۔ انہوں نے مالوہ خالصہ اسکول سے میٹرک پاس کیا۔

1939ء میں اس درس گاہ سے انٹر کا امتحان پاس کیا۔ لیکن وہ بی اے نہ کرسکے کیونکہ بی اے کے آخری سال میں وہ اپنی ایک ہم جماعت طالبہ ایشر کور پر عاشق ہوگئے، جس کی وجہ سے انہیں گورنمنٹ کالج لدھیانہ کی انتظامیہ نے کالج سے نکال دیا۔یہی وہ دن تھے جب وہ اشتراکی نظریے سے متاثر ہوئے اور کمیونسٹ پارٹی کی سرگرمیوں میں حصہ لینے لگے۔ ناکام عشق کے احساس غم نے ان کی شاعری کو چمکا دیا اور ان کے لفظوں میں ایک نئی تاثیر ڈال دی۔

جب وہ گورنمنٹ کالج لدھیانہ چھوڑ کر امرتسر سے لاہور آئے تو ان دنوں لاہور شعر و ادب کا ایک بڑا مرکز تھا۔ شاعری تو انہوں نے امرتسر میں اسکول ہی سے شروع کردی تھی۔ لاہور کی ادبی فضا اور صحبتوں نے ان کی ادبی شخصیت اور شاعری کو بھی فائدہ پہنچایا۔ انہوں نے دیال سنگھ کالج لاہور میں داخلہ لے کر دوبارہ بی اے کرنے کی کوشش کی لیکن وہاں بھی وہ ناکام رہے، کیونکہ کمیونسٹ پارٹی سے وابستگی اور سیاسی سرگرمیوں کے باعث انہیں کالج سے بے دخل کردیا گیا۔

ساحر نے لاہور سے نکلنے والے مشہور ادبی رسائل ماہنامہ ’’ادب لطیف‘‘ اور ’’سویرا‘‘ کی ادارت بھی کی۔ ’’سویرا‘‘ کی ادارت میں احمد ندیم قاسمی بھی ان کے ساتھ شامل تھے۔ ان کے قریبی دوست شورش کاشمیری، احمد راہی، ابن انشاء (جو اس وقت شیر محمد قیصر کے نام سے جانے جاتے تھے) اور حمید اختر تھے۔ جب ساحر 1948ء میں دلی منتقل ہوئے تو وہاں انہوں نے ایک ادبی رسالہ ’’شاہکار‘‘ کے نام سے نکالا اور ’’پریت کی لڑی‘‘ کی ادارت کی۔1949ء میں کلونت رائے نے انہیں ہندوستانی کلامندر کی فلم ’’آزادی کی راہ پر‘‘ کے گانے لکھنے کے لئےبمبئی آنے کی دعوت دی۔ 

اس فلم کے چار گانے ساحر لدھیانوی نے لکھے لیکن وہ قبول عام حاصل نہیں کرسکے۔ فلمی دنیا میں کامیابی کے لئے انہیں بڑی جدوجہد کرنی پڑی… فلمی گیت نگار کی حیثیت سے ان کی شہرت کا آغاز موسیقار ایس ڈی برمن سے ان کی ملاقات کے بعد ہوا، ان کی جوڑی نے انڈین فلم انڈسٹری کو فلمی نغمہ نگاری کے ایک نئے رخ سے آشنا کیا اور دنیا کو کئی لازوال گیت دئیے۔ 1950ء میں ساحر نے دلی کی سکونت چھوڑ کر بمبئی میں مستقل رہائش اختیار کرلی۔یہ ایک حقیقت ہے کہ شاعری میں ان کا بنیادی حوالہ ان کا پہلا مجموعہ کلام ’’تلخیاں‘‘ ہے۔ جو ان کی طالب علمی کے زمانےمیں شائع ہوا۔ ’’تلخیاں‘‘ کے اب تک پچاس سے زائد ایڈیشن چھپ چکے ہیں۔ ان کی تصانیف میں ’’تلخیاں‘‘ کے بعد ’’پرچھائیاں‘‘، ’’آئو کوئی خواب بنیں‘‘ اور ان کے گیتوں کا مجموعہ ’’گاتا جائے بنجارہ‘‘ شامل ہیں۔

’’پرچھائیاں‘‘ ساحر لدھیانوی کی طویل نظم ہے۔ جس کا مرکزی خیال جنگ سے نفرت اور امن و آشتی کی حمایت ہے۔ اس نظم کے دو حصے ہیں، پہلا حصہ رومانوی مناظر سے آراستہ ہے اور دوسرے حصے میں انقلاب اور سماجی مظالم سے لڑنے کا پیغام ہے۔ اس کا فکری اور جذباتی مواد مزاحمتی رنگ لئے ہوئے ہے۔ یہ نظم ساحر نے دو مختلف بحروں میں لکھی ہے اور اس میں ’’فلیش بیک‘‘ کی تکنیک کو بڑی مہارت اور خوبصورتی سے استعمال کیا ہے۔ اس نظم کے اختتامی مصرعے ملاحظہ کریں:

ہمارا خون امانت ہے نسل نو کے لئے

ہمارے خون پہ لشکر نہ پل سکیں گے کبھی

کہو کہ آج بھی ہم سب اگر خموش رہے

تو اس دمکتے ہوئے خاکداں کی خیر نہیں

جنوں کی ڈھالی ہوئی ایٹمی بلائوں سے

زمیں کی خیر نہیں آسماں کی خیر نہیں

گزشتہ جنگ میں گھر ہی جلے مگر اس بار

عجب نہیں کہ یہ تنہائیاں بھی جل جائیں

گزشتہ جنگ میں پیکر جلے مگر اس بار

عجب نہیں کہ یہ پرچھائیاں بھی جل جائیں

ان کے عشق کی داستانیں سدھا ملہوترا سے لے کر امرتا پریتم تک پھیلی ہوئی ہیں… لتا منگیشتر سے ان کے جھگڑے اور اختلافات کا سبب لاجی سے ان کا مختصر اور ناکام عشق تھا۔ انہوں نے جو بھی عشق کیا اس سے انہیں رنجِ فراق کے سوا اور کچھ نہیں ملا۔ ان کی ناکام محبتیں ان کے دل کو تو ضرور دکھاتی رہیں لیکن ان کے گیتوں میں نئے رنگ بھر گئیں… اور انہوں نے دلوں کو چھو لینے والے لازوال نغموں کے ڈھیر لگا دئیے جو آج بھی فضائوں میں گونج رہے ہیں۔ جانے وہ کیسے لوگ تھے جن کے پیار کو پیارملا

ہم نے تو جب کلیاں مانگیں کانٹوں کا ہار ملا۔ بجھا دئیے ہیں خود اپنے ہاتھوں محبتوں کے دئیے جلا کے/ مری وفا نے اجاڑ دی ہیں امید کی بستیاں بسا کے۔ اپنوں پہ ستم غیروں پہ کرم/ اے جان جہاں یہ ظلم نہ کر۔ چلو اک بار پھر سے اجنبی بن جائیں ہم دنوں۔ میں پل دوپل کا شاعر ہو پل دو پل مری کہانی ہے۔ آ… آئے تو خیال دل ناشاد آیا/ کتنے بھولے ہوئے زخموں کا پتہ یاد آیا۔ 

میں نے شاید تمہیں پہلے بھی کہیں دیکھا ہے/ جو بات تجھ میں ہے تری تصویر میں نہیں۔ رومانی گیتوں کے علاوہ انہوں نے ترقی پسند نظریہ کے انقلابی گیت بھی لکھے۔ وہ صبح کبھی تو آئے گی۔ رات بھر کا ہے مہماں اندھیرا/ کس کے روکے رکا ہے سویرا۔ یہ محلوں یہ تختوں یہ تاجوں کی دنیا/ یہ انساں کے دشمن سماجوں کی دنیا/ یہ دنیا اگر مل بھی جائے تو کیا ہے۔

یہ مجروح سلطان پوری، شکیل بدایونی اور ساحر لدھیانوی ہی تھے جنہوںنے بھارتی فلمی صنعت میں ہونے والی فلمی شاعری کو یکسر بدل دیا۔ فلمی شاعری کو نئے استعاروں، نئی تشبیہوں اور نئے ذخیرہ الفاظ سے روشناس کرایا۔ اور عام گانے سننے والے لوگوں کے ذوق کو بھی بلند کیا۔

ساحر تلخیاں جیسا کوئی دوسرا اہم شعری مجموعہ تو اردو شاعری کے قارئین کو نہ دے سکے کیونکہ فلم انڈسٹری کی چکاچوند نے انہیں اپنے شب و روز میں الجھا لیا۔ مگر انہوں نے اس کمی کا مداوا اس طرح کیا کہ اپنے بےمثال تخلیقی شعور کے کمال کو اپنے گیتوں میں سمو دیا۔ ہم یقین سے کہہ سکتے ہیں کہ ان کے گیتوں کے ادبی میعار نے اس کی تلافی کردی۔ انہوں نے جن مشہور فلموں کے گیت لکھے، ان میں سے چند کے نام یہ ہیں۔ کبھی کبھی، بازی، غزل، برسات کی رات، ٹیکسی ڈرائیور، پیاسا، ہائوس نمبر۔44، بہو بیگم، ینم جی، تاج محل، گمراہ، دھرم پتر، شگون، چتر لیکھا اور دھول کا پھول۔

فلمی دنیا میں کامیابی ملنے کے اور معاشی طور پر خوشحال ہونے کے بعدان کی طبیعت میں غرور و تکبر پیدا ہوگیا تھا۔ انہوں نے فلمسازوں کے سامنے یہ شرط رکھی کہ آئندہ سے وہ کسی کی دھن پر گیت نہیں لکھیں گے۔ موسیقار ان کے گیت پر دھن ترتیب دیں گے، انہوں نے اپنے محسن ایس ڈی برمن سے کہا کہ وہ ہارمونیم لے کر ان کے گھر آئیں اور ان کے گیت کی دھن بنائیں۔ ایس ڈی برمن بہت اعلیٰ درجے کے موسیقار اور خوددار انسان تھے۔ انہیں ساحر کے اس توہین آمیز رویے سے بہت تکلیف پہنچی اور انہوں نے ساحر سے اپنے تعلقات توڑ لئے۔ ان کا یہ بھی مطالبہ تھا کہ انہیں لتامنگیشتر سے ایک روپیہ زیادہ معاوضہ دیا جائے۔ انہوں نے ریڈیو سے نشر ہونے والے گیتوں کے ساتھ شاعر کا نام بھی نشر کرنے کا مطالبہ کیا جو معقول ہونے کی وجہ سے تسلیم کرلیا گیا۔

ان کی ادبی خدمات کے صلے میں حکومت نے انہیں ’’پدم شری‘‘ کے اعزاز سے نوازا۔ 1973ء میں انہیں ’’جسٹس آف پیس‘‘ اور سویت نہرو ایوارڈ ملے۔ 8؍مارچ 1913ء کو ان کی تصویر سے مزین ایک یادگاری ڈاک ٹکٹ بھی جاری کیا گیا۔

ان کی شاعری میں ایک ناکام عاشق اور ایک اشتراکی انقلابی ساتھ ساتھ دکھائی دیتے ہیں۔ ان کے کلام میں ایک تلخی کا رنگ بھی ہے جو ان کی ذاتی محرومیوں کا مرہون منت ہے۔ ان کے تمام ٹوٹے ہوئے عشق اور شکستہ محبتیں خود ان کے ذاتی رویوں کا نتیجہ ہیں۔ جب کوئی عشق کامیابی سے ہمکنار ہونے کے قریب ہوتا تو وہ خود پیچھے ہٹ جاتے۔ یہ ایک خود انتقامی کا جذبہ تھا جو باپ سے نفرت اور حالات کی ستم ظریفی کے باعث ان کے کردار کا حصہ بن گیا تھا۔ 

جس کی سب سے بڑی مثال مشہور ادیب امرتا پریتم نے اپنی خود نوشت سوانح ’’رسیدی ٹکٹ‘‘ میں ’’کورے کاغذ کی داستان‘‘ کے عنوان سے کیا ہے۔ ساحر لدھیانوی نے شادی نہیں کی اور مجرد زندگی گزاری… وہ اپنی ماں اور بہن سے بہت محبت کرتے تھے۔ اپنی ساری انسانی کمزوریوں اور محرومیوں کے باوجود وہ ایک کامیاب، بہترین اور مقبول شاعر تھے۔ انہوں نے اپنا تخلص ساحر علامہ اقبال کے اس شعر سے متاثر ہوکر رکھا۔ 

اس چمن میں ہوں گے پیدا بلبل شیراز بھی/ سیکڑوں ساحر بھی ہوں گے صاحب اعجاز بھی۔ وہ جاگیرداری اور استحصالی نظام کو نفرت کی نگاہ سے دیکھتے تھے۔ جب وہ سماجی ناانصافی اور معاشرے کے تضادات پر اپنی شاعری میں تنقید کرتے تو ان کے اندر کی ساری تلخی ان کے لہجے میں سمٹ آتی ۔ ساحر ایک انسان دوست، امن کے پیغامبر اور انسانی قدروں سے محبت کرنے والے سچے اور کھرے شاعر تھے ان کی نظمیں اور فلمی گیت اردو ادب کا قیمتی سرمایہ ہیں۔ 

ان کی شاعری ہمیں ایک ایسی دنیا کا خواب دکھاتی ہے جس میں احترام بشر، مساوات، امن و آشتی اور انصاف ہوگا۔ اردو دنیا کا یہ البیلا، منفرد اور دلنواز شاعر 25؍اکتوبر 1980ء کو بمبئی میں دل کا دورہ پڑنے سے وفات پاگیا اور بمبئی ہی میں آسودہ خاک ہوا۔ اس کا یہ شعر اس کی زندگی کی تفسیر بنا رہا۔؎

دنیا نے تجربات و حوادث کی شکل میں

جو کچھ مجھے دیا ہے وہ لوٹا رہا ہوں میں

تازہ ترین