شاعری انسانی ضمیر کی بین الاقوامی آواز سمجھی جاتی ہے اور شعرائے کرام انسانی ضمیر کے ترجمان۔ اس حوالے سے روس کے عالمی شہرت یافتہ شاعر، نثر نگار، رسول حمزاتوف اپنی کتاب میں لکھتے ہیں کہ ’’ادیب اور شاعر، اندر کی آتش کے محافظ یعنی انسان کے اندر کی آگ کے نگہبان ہوتے ہیں۔‘‘ جس قوم کی آگ بجھ جائے، سمجھ لیں اُس قوم کے محافظ مرچکے ہیں۔ ادباء اور شعراء کا کام اندر کی آگ کو زندہ رکھنا ہوتا ہے۔ اپنے اندر کی آگ ہی سے وہ مشعل بنتے ہیں۔ قوم کو ظالموں کے ظلم و جبر، غیروں کی غلامی، غاصبوں کی محکومی سے نجات دلاتے ہیں اور تنگ دستی، معاشی بدحالی کی دلدل سے نکال کر ایک آزاد و خوش حال معاشرے، روشن صبح کی نوید سُناتے ہیں۔
عظیم انقلابی شاعر، احمد فراز کا شمار بھی حُسن و محبّت، امن و انسانیت اور احترامِ آدمیت کے علَم برداروں میں ہوتا تھا۔ وہ ہمیشہ اپنے کلام میں آمریت وجبرو استبداد کے خلاف آواز بلند کرتے رہے، حق کے لیے نہ صرف پوری زندگی لڑتے رہے، بلکہ اس کی خاطر بڑی سے بڑی قربانی دینے سے بھی دریغ نہ کیا۔ دنیا میں انہیں جہاں کہیں بھی ظلم ہوتا نظر آیا، انہوں نے اپنے مزاحمتی لب و لہجے میں پوری شدّت سے آواز بلند کی۔
انہوں نے دنیا کی مظلوم و محکوم قوموں، حریّت پسندوں اور آزادی کے متوالوں، خصوصاً مجاہدینِ فلسطین، کشمیر، لبنان، شام اور افریقا کے مظلوم انسانوں کے لیے ’’بیروت، منشور، محاصرہ، آشوب، دوسری ہجرت اور اے شہر! تیرا نغمہ نگار ہوں‘‘ جیسی بے شمار انقلابی نظمیں لکھیں۔
انہوں نے اپنی شاعری میں حُسن و جمال، دل کشی و رعنائی کے ساتھ جس طرح انسان دوستی، امن و آشتی کے مختلف رنگ و آہنگ کو اُجاگر کیا، اس کی دنیا میں کہیں مثال نہیں ملتی۔ حسّاس طبع شاعر، احمد فراز کا اصل نام سیّد احمد شاہ تھا۔ وہ 12 جنوری 1931ء کو کوہاٹ کے ایک معزز سادات گھرانے میں پیدا ہوئے۔ اُن کے والد سیّد محمد شاہ برق اُردو اور فارسی زبان کے قادر الکلام شاعر تھے۔ اس طرح ادبی ماحول انہیں ورثے میں ملا۔ ابتدا میں اُن کا تخلص ’’شرر‘‘ تھا، لیکن جب احمد فراز کے نام سے لکھنا شروع کیا، تو دنیائے ادب میں ایسے’’سرفراز‘‘ ہوئے کہ اردو شاعری اُن کی ’’نازبردار‘‘ ہوگئی۔
انہیں اُردو اور فارسی زبانوں پر عبور حاصل تھا۔ احمد فراز کا پہلا شعری مجموعہ ’’تنہا تنہا‘‘ جب شایع ہوا، وہ اُس وقت بی اے کے طالب علم تھے۔ پھردورانِ تعلیم ہی پشاور یونی ورسٹی میں لیکچرار مقرر ہوگئے۔ اس دوران اُن کا دوسرا مجموعہ ’’دردِ آشوب‘‘ شایع ہوا، جسے ’’پاکستان رائٹرز گلڈ‘‘ کی جانب سے ’’آدم جی ایوارڈ‘‘ سے نوازا گیا۔
اُن کی ادبی خدمات کو سراہتے ہوئے وفاقی حکومت نے انہیں پاکستان نیشنل سینٹر کا ڈائریکٹر مقرر کیا۔ پھر 1976ء میں ادارہ ’’اکیڈمی ادبیات پاکستان‘‘ قائم ہوا، تو وہ اس کے پہلے سربراہ مقرر کیے گئے۔ بعدازاں، جنرل ضیاء الحق کے دورِ حکومت میں انہیں جلا وطنی بھی اختیار کرنی پڑی۔ محترمہ بے نظیر بھٹو کی حکومت میں انہیں نیشنل بُک فائونڈیشن کا سربراہ بنایا گیا اور اس منصب پر وہ سال 2006ء تک متمکّن رہے۔
جدید اردو شاعری میں فیض احمد فیض کے بعد احمد فراز کی شاعرانہ عظمت و شہرت کی مثالیں دی جاتی ہیں۔ انہوں نے اردو شاعری کو اپنے دل کش اسلوب اور جداگانہ انداز کی بدولت عالمی سطح پر مقبول بنانے میں عہدساز کردار ادا کیا۔ان سے پہلے عالمی ادب کے اکابرین کا عقیدہ تھا کہ دنیا کی عظیم شاعری غزل میں نہیں، بلکہ نظم میں کہی گئی ہے، مگر احمد فراز نے اپنے پُرکشش طرز ِ اظہار سے ثابت کر دکھایا کہ عظیم شاعری غزل کی صُورت بھی ہوسکتی ہے۔
اُن کی اردو شاعری میں جس غزل نے شہرتِ دوام حاصل کی، اس کا مطلع ملاحظہ ہو؎سُنا ہے لوگ اُسے آنکھ بھر کے دیکھتے ہیں .....سو اس کے شہر میں کچھ دن ٹھہر کے دیکھتے ہیں .....سُنا ہے ربط ہے، اُس کو خراب حالوں سے .....سو، اپنے آپ کو برباد کر کے دیکھتے ہیں ۔اسی طرح ایک اور مشہورغزل کا مطلع ہے؎اب کے ہم بچھڑے تو شاید کبھی خوابوں میں ملیں.....جس طرح سوکھے ہوئے پھول کتابوں میں ملیں۔ وہ اظہارِمحبت کےلیے بھی یک سر جداگانہ انداز اختیار کرتے ہوئے کہتے ہیں؎رنجش ہی سہی، دِل ہی دُکھانے کے لیے آ.....آ پھر سے مجھے چھوڑ کے جانے کے لیے آ۔
اُنہوں نے عشق کو آسودگی کا تصوّر اس طرح بخشا کہ اُس کی حدیں حُسن و جمال تک جا پہنچیں؎یہ عالم شوق کا دیکھا نہ جائے.....وہ بُت ہے یا خدا، دیکھا نہ جائے۔جب کہ فراز کا تصورِ عشق، وصال یار سے گزر کر ہجرو فراق کی بھی بھرپور عکّاسی کرتا ہے؎تجھے تو میں نے بڑی آرزو سے چاہا تھا.....یہ کیا کہ چھوڑ چلا تُو بھی اور سب کی طرح۔اور؎وہ اجنبی تھا تو کیوں مجھ سے پھیر کر آنکھیں.....گزر گیا کسی دیرینہ آشنا کی طرح۔ انہوں نے آزاد نظمیں بھی پورے رکھ رکھائو سے تخلیق کیں۔
مثلاً؎ لوگ کہتے ہیں… ابھی ابھی سب نے دیکھا......ہاں آٹھ برس کی… ایک گڑیا جیسی بچّی تھی… اس کے بال نوک دار چوٹیوں سے گُندھے تھے.....اس نے معصومیت سے پولیس کو احتجاجاً مُکّا دکھایا… اُسے دیکھنے والوں نے دیکھا… سُرخی ہی سُرخی پھیل گئی… کچھ گوشت کے لوتھڑے… کچھ پھڑپھڑاتے ہوئے رنگ دار چیتھڑے… زمین پر بکھرے پڑے تھے…ابھی ابھی یہاں پُھول دار سرخ کپڑوں میں…ایک گڑیا جیسی بچّی تھی ۔بلاشبہ، فراز کی پوری شاعری انسان اور انسانیت کی غلامی کے خلاف ہمہ گیر احتجاجی جذبات سے معمور ہے۔
1982ء میں بیروت میںاسرائیلی جارحیت کے خلاف انہوں نے ایک دل چیر دینے والی نظم لکھی؎یہ سربریدہ بدن ہے کس کا.....یہ جامۂ خوں کفن ہے کس کا.....یہ زخم خوردہ ردَا ہے کس کی.....یہ پارہ پارہ صدا ہے کس کی..... یہ کس لہو سے زمین یاقوت بن گئی ہے.....یہ کس کی آغوش، کس کا تابوت بن گئی ہے.....یہ کس نگر کے سپوت ہیں.....جو دیارِ انگار میں کھڑے ہیں.....یہ کون بے آسرا ہیں......جو تیغِ قاتلاں سے.....کٹی ہوئی فصل کی طرح.....جا بجا پڑے ہیں.....یہ کون ماں ہے.....جو اپنے لختِ جگر کو ملبے میں ڈھونڈتی ہے.....یہ کون بابا ہے.....جس کی آواز ، شورِمحشر میں دب گئی ہے.....یہ کون معصوم ہیں.....کہ جن کو.....سیاہ آندھی دیے سمجھ کر بجھا رہی ہے.....انہیں کوئی جانتا نہیں.....انہیں کوئی جاننا نہ چاہے.....یہ کس قبیلے کے سربکف جانثار ہیں.....جن کو کوئی پہچانتا نہیں......کوئی بھی پہچاننا نہ چاہے.....کہ ان کی پہچان امتحاں ہے.....کہ ان کی پہچان میں زیاں ہے.....نہ کوئی بچّہ، نہ کوئی بابا، نہ کوئی ماں ہے.....محل سرائوں میں خوش مقدّر شیوخ چُپ.....بادشاہ چُپ ہیں.....حرم کے سب پاسباں.....عالم پناہ چُپ ہیں......منافقوں کے گروہ کے سربراہ چُپ ہیں.....تمام اہل ریا کہ جن کے لبوں پہ ہے.....لا الہ چُپ ہیں۔
فراز نے صرف اردو کی مستحکم شعری روایت کے عناصر ہی کو اپنے فن میں جذب نہیں کیا، بلکہ عصری صورتِ حال پر بھی اُن کی گہری نظر تھی۔ ملکی و عالمی سطح پر اَمن، آزادی اور انسانی مساوات کے اصولوں کی جابر و ظالم قوتوں کی طرف سے پامالی دیکھ کر اُن کا دل تڑپ اٹھتا تھا۔ اُن کی شاعری میں انسانی جبر کے خلاف جو زبردست احتجاج پایا جاتا ہے، وہ اُن کے حق پرست اور سچّے ہونے کی دلیل ہے۔ انہوں نے کبھی وقت کے آمر اور جابر حکمرانوں کی اطاعت قبول نہیں کی۔ ہمیشہ ظلم کو ظلم اور جابر کو جابرہی کہااور اس حقیقت کا اظہار انہوں نے خود طنزیہ انداز میں کچھ اس طرح کیا؎حاکم کی تلوار مقدّس ہوتی ہے.....حاکم کی تلوار کے بارے مت لکھو.....وہ لکھو بس، جوبھی امیرِ شہر کہے.....جو کہتے ہیں، درد کے مارے مت لکھو۔
فراز کی شاعری جن دو بنیادی جذبوں، رویوں اور تیوروں سے مل کرتیار ہوتی ہے وہ احتجاج مزاحمت اور رومان ہیں۔ ان کی شاعری سے ایک رومانی، ایک نوکلاسیکی، ایک جدید اور ایک باغی شاعر کی تصویر بنتی ہے۔ انہوں نے عشق، محبت اور محبوب سے جڑے ایسے کومل احساسات اور جذبوں کو شاعری کی زبان دی، جو اُن سے پہلے تک اَن چُھوے تھے۔ شاید اسی لیے وہ اپنے عہد کے مقبول ترین شعراء میں شمار ہوتے تھے۔ ہندوپاک کے مشاعروں میں جتنی محبتوں اور دل چسپی سے فراز کو سُنا گیا ہے، شاید ہی کسی اور شاعر کو سُنا گیا ہو۔ فراز کی پذیرائی ہر سطح پر ہوئی، اُنہیں بہت سے اعزازات وانعامات سے نوازا گیا۔
مثلاً 1988ء میں ’’آدم جی ایوارڈ‘‘، تو 1990ء میں ’’اباسین ایوارڈ‘‘ اور بھارت میں ’’فراق گورکھپوری‘‘ ایوارڈ دیا گیا۔علاوہ ازیں،1991ء میں ادبی خدمات پر اکیڈمی آف اردو لٹریچر، کینیڈا کی طرف سے ایک ایوارڈ، جب کہ 1992ء میں بھارت میں ’’ٹاٹا ایوارڈ‘‘ سے بھی نوازا گیا۔ عالمی مشاعروں اور ادبی تقریبات کے حوالے سے انہوں نے لاتعداد ممالک کے دورے کیے۔ دنیا بھر میں اُن کے بے شمار مدّاح موجود ہیں۔
فراز کا اردو کلام علی گڑھ یونی ورسٹی، بھارت اور پشاور یونی ورسٹی کے نصاب میں بھی شامل ہے۔ جامعہ ملیہ اسلامی دہلی یونی ورسٹی، بھارت میں اُن کی شاعری پر پی ایچ ڈی کا مقالہ تحریر کیا گیا، جس کا موضوع ’’احمد فراز کی غزل‘‘ ہے، اسلامیہ یونی ورسٹی بھاول پور میں بھی احمد فراز ’’فن اور شخصیت‘‘ کے عنوان سے پی ایچ ڈی کا مقالہ تحریر کیا گیا۔
جب کہ اُن کی شاعری کے تراجم انگریزی، فرانسیسی، ہندی، روسی، جرمن، یوگوسلاوی اور پنجابی سمیت دنیا کی کئی زبانوں میں ہوچکے ہیں۔ جب کہ حکومتِ پاکستان کی طرف سے اُن کی ادبی خدمات کا اعتراف ہلالِ امتیاز، ستارئہ امتیاز اور بعدازمرگ، ہلالِ پاکستان دے کر کیا گیا۔ عالمی ادب کا یہ درخشاں ستارہ طویل عرصے تک گُردوں کے عارضے میں مبتلا رہنے کے بعد 25؍اگست 2008ء کو ہزاروں مداحوں کو سوگوار چھوڑ کر راہیِ مُلکِ عدم ہوگیا۔