تیل کی قیمتیں ایک بار پھر عالمی مارکیٹ میں ریکارڈ قائم کر رہی ہیں، جو اِن سطور کے تحریر کیے جانے تک86 ڈالر فی بیرل تک پہنچ چُکی ہیں۔ تیل کی اِن قیمتوں کے اثرات گزشتہ دو ماہ سے پاکستان میں بھی سامنے آرہے ہیں کہ یہاں بھی اشیائے ضروریہ کی قیمتیں مسلسل بڑھتی ہی جارہی ہیں۔باقی دنیا کا حال بھی کچھ ایسا ہی ہے۔ برطانیہ میں گزشتہ دنوں تیل سپلائی کا تاریخی بحران آیا، یہاں تک کہ مدد کے لیے فوج بُلانی پڑی۔ گو کہ اِس کی وجہ ڈرائیورز کی کمی بتائی گئی، مگر وہاں بھی تیل بہت منہگا ہوا ہے، جس پر وزیرِ اعظم بورس جانسن اور وزراء عوام سے معذرتیں کر رہے ہیں۔
ہمارے مُلک میں معاملہ بالکل ہی اُلٹ ہے۔یہاں حکومت عوام کو تیل کی عالمی قیمتیں بتا کر ایک طرف بیٹھ جاتی ہے۔تیل کی قیمتیں دنیا بَھر میں بڑھی ہیں اور ظاہر ہے، ہم تیل پیدا نہیں کرتے ، بلکہ باہر سے منگواتے ہیں، اِس لیے عالمی اُتار چڑھاؤ کے اثرات سے انکار لاعلمی ہی کہلائے گی، مگر اچھی گورنینس سے عوام کو مشکل وقت گزارنے میں مدد بھی تو دی جاسکتی ہے اور یہی حکومتوں کا بنیادی کام ہے۔ماہرین کے مطابق، قیمتوں پر کنٹرول کے نظام میں بہتری سے عوامی مشکلات میں کمی لائی جاسکتی ہے، مگر حکومت کی اِس طرف کوئی توجّہ نہیں ، اگر ہے بھی تو وہ محض بیانات ہی تک محدود ہے۔
سب سے پہلے تو یہ دیکھ لیا جائے کہ عالمی سطح پر تیل کی قیمتوں میں اضافے کی وجہ ہے کیا؟دراصل، کورونا نے گزشتہ سال یعنی 2020 ء میں دنیا بَھر کی معیشت مفلوج کر کے رکھ دی، جس کی ایک بڑی وجہ لاک ڈائونز تھے۔ ترقّی یافتہ، ترقّی پذیر اور غریب ممالک میں مہینوں لاک ڈائونز لگے رہے، بلکہ امریکا، یورپ اور سعودی عرب وغیرہ میں تو سال بَھر یہ سلسلہ جاری رہا۔یہاں تک کہ مسلمانوں کی مقدّس ترین عبادت گاہیں دو سال تک بند رہیں۔حج معمول کی بجائے علامتی طور پر ہوا۔یہ ایک تکلیف دہ صُورتِ حال تھی، لیکن انسانی جان کے بچاؤ کے لیے بہت کچھ کرنا پڑا۔
معاشی تباہی کی دوسری وجہ وہ ریلیف پیکیجز تھے، جو حکومتوں نے اپنے عوام کو دیے تاکہ وہ مشکلات کا مقابلہ کرسکیں۔امریکا میں یہ پیکیجز کھربوں ڈالرز پر مشتمل تھے، جو آج بھی عوام کو دیے جارہے ہیں۔یہ بھی دیکھنے میں آیا کہ لوگوں نے اِس چکر میں کام پر ہی جانا چھوڑ دیا اور اب اُنھیں بڑی مشکل سے ورک پلیسز پر واپس لایا جارہا ہے۔پاکستان میں وزیرِ اعظم، عمران خان مکمل لاک ڈاؤن کے خلاف رہے، باوجودیکہ یہاں کورونا کا علاج بھی میّسر نہ تھا۔
عمران خان کا کہنا تھا کہ اگر لاک ڈائون کیا گیا، تو کورونا سے زیادہ لوگ بھوک سے مر جائیں گے۔اُنہوں نے اسمارٹ لاک ڈائون اور مائیکرو اسمارٹ لاک ڈائون جیسی اصطلاحات متعارف کروائیں۔یوں ہم اُن ممالک میں شامل ہیں، جن پر لاک ڈائون کے اثرات نہ ہونے کے برابر تھے۔ پھر یہ کہ مکمل لاک ڈاؤن نہ کرنے پر عوام بھی بہت خوش تھے۔اِسی پس منظر میں صدر، وزیرِ اعظم اور وزراء کی طرف سے بار بار یہ دعویٰ کیا جاتا رہا کہ حکومت نے عالمی وبا سے نمٹتے ہوئے معیشت بچالی، جو دنیا کے لیے نہ صرف ایک مثال ہے،بلکہ اُسے ماڈل بنانا چاہیے۔یہ الگ بحث ہے کہ کتنے ممالک نے ایسا کیا اور یہاں پر کیا گزری؟
بہرحال مُلک اور لوگ سلامت ہیں، جس پر اللہ کا شُکر ادا کرنا چاہیے، لیکن دنیا اِتنی خوش قسمت نہیں تھی، اِسی لیے وہاں حکومتوں کو اپنے خزانے سے شہریوں کو ریلیف دینا پڑا۔وہاں مانگے تانگے کی ویکسینز، قرضوں یا دیوالیہ ہونے کا رونا نہیں تھا۔ وہاں کی معیشتوں پر شدید دبائو آیا، جو ٹرانسپورٹ اور ائیر سروسز میں نمایاں تھا۔ سیّاحت، جو اُن کی آمدنی کا بڑا ذریعہ ہے، مکمل طور پر بند ہوگئی۔
ائیر لائنز بیٹھ گئیں اور اب بھی بمشکل چل رہی ہیں، بے روز گاری عروج پر پہنچی۔ظاہر ہے، ایسی صُورت میں تیل کون استعمال کرتا اور کہاں استعمال کرتا؟ تیل کا استعمال کم ہوا، تو اس کی قیمتیں بھی دھڑام سے گر پڑیں۔گزشتہ سال ایک، دو دن ایسے بھی آئے کہ تیل کی قیمتیں منفی میں چلی گئیں، ایسا کم ازکم ایک صدی میں تو سننے میں نہیں آیا تھا۔تیل پیدا کرنے والے ممالک دیوالیہ ہونے کے قریب آگئے۔
بہرحال وہ وقت گزر گیا اور اب دنیا بھر میں معیشتوں کا پہیّہ نہ صرف گھومنا شروع ہوگیا ہے، بلکہ بہت تیزی سے گھوم رہا ہے اور ہر چیز کی طلب بڑھ رہی ہے۔ چوں کہ یہ توقّع سے زیادہ تیزی سے ہوا ہے، اِس لیے مختلف اشیاء کی قیمتوں پر دبائو ہے، جن میں تیل سرِ فہرست ہے۔تاہم، اگر ان ممالک کی معیشت کا درست تجزیہ کرنا ہے، تو پھر وہاں بے روزگاری اور افراطِ زر کا معاملہ دیکھنا ہوگا۔وہاں بے روزگاری ختم ہو رہی ہے، بلکہ امریکا، برطانیہ اور جرمنی وغیرہ میں تو بہت سے شعبوں میں اسامیاں خالی ہیں کہ لوگ نہیں مل رہے۔
دوسری طرف افراطِ زر، یعنی منہگائی میں بھی اضافہ ہوا ہے۔ ماہرین کے مطابق منہگائی واپسی کے عمل کا حصّہ ہے، کیوں کہ اگر قیمتیں وبا کے زمانے کی سطح پر رہیں گی، تو کاروبار میں وسعت کیسے ہوگی؟ ایسا اچانک نہیں ہوا، بلکہ وہاں کی حکومتوں نے اس کا حساب کتاب لگا رکھا تھا، اِسی لیے اُن حکومتوں کے ہاتھ پیر نہیں پھول رہے۔ چین سے لے کر امریکا تک اور برازیل سے یونان تک، بلکہ تیل پیدا کرنے والے ممالک میں بھی یہ سب ایک منصوبے کے تحت ہو رہا ہے۔
دس برس قبل آنے والے عالمی اقتصادی بحران نے بہت سے ممالک اور عالمی مالیاتی اداروں کو سِکھا دیا تھا کہ بحرانی اقتصادی صُورتِ حال کیسے مینیج کرنی ہے؟ اور اسی وجہ سے دنیا سال بھر کے لاک ڈائون اور بغیر ویکسین کے بھی بحران سے نکل آئی۔ کہیں کوئی حکومت گری اور نہ ہی کہیں مظاہرے ہو رہے ہیں۔اور نہ ہی حکومتیں یہ کہہ رہی ہے کہ منہگائی تو ہر جگہ ہو رہی ہے، ہم کیا کریں؟ یا یہ کہ لوگوں کو شُکر ادا کرنا چاہیے کہ قیمتیں کم بڑھی ہیں؟اصل بات یہ ہے کہ قیمتوں سے متعلق پہلے سے اندازے لگانے پڑتے ہیں اور دنیا کے اکثر ممالک میں ایسا ہی کیا گیا اور اب وہ اس معاملے سے بھی اعتماد کے ساتھ نبرد آزما ہیں۔اسی کو’’ اکنامک مینجمنٹ‘‘ کہتے ہیں اور اِسی مقصد کے لیے مختلف وزارتیں اور محکمے قائم کیے جاتے ہیں کہ معاشی جھٹکے قابو میں کیے جا سکیں۔
نیز، یہ بھی کوئی انکشاف نہیں تھا کہ ویکسین آنے کے بعد پہلے لوگوں اور پھر حکومتوں کا اعتماد بحال ہوگا۔ اِس بات کا اندازہ پہلے ہی لگا لیا گیا تھا۔اسی لیے ویکسینز پہلی مرتبہ فاسٹ ٹریک پر تیار ہوئیں، پھر کروڑوں کی تعداد میں لگائی گئیں اور مُلک، مُلک تقسیم کی گئیں۔ ویکسینز کی تیاری گزشتہ سال ستمبر سے شروع ہوئی اور دسمبر میں یہ لگنا بھی شروع ہوگئیں، جس کے ساتھ ہی آہستہ آہستہ دنیا بھی کُھلنے لگی۔
امریکا کُھلا، چین میں لوگ باہر نکلے، برطانیہ میں کام کا آغاز ہوا، یورپ میں معیشت کا پہیّہ گھوما، عرب ممالک میں تیل کی پیداوار بڑھی اور یوں دنیا معمول پر آنے لگی،لیکن یہ سب ایک طے شدہ طریقے اور ہم آہنگی سے ہوا۔ تیل پیدا کرنے والے ممالک سے لے کر مختلف اشیاء بنانے والوں تک، اجناس پیدا کرنے والوں سے لے کر خدمات مہیّا کرنے والے ممالک تک سب ہی ایک پیج پر تھے۔
اگر کوئی مُلک تنازعات میں اُلجھا رہا اور اپنے عوام کی ضروریات نظر انداز کرتا رہا، تو وہ اب دُہائی دے رہا ہے کہ’’ ہم تو مارے گئے‘‘،’’ ہم کیا کریں‘‘،’’ دنیا مدد کو آئے، وگرنہ انسانی المیہ جنم لے سکتا ہے۔‘‘حالاں کہ اب یہ کہانی اِتنی پرانی ہو چُکی ہے کہ شاید ہی کوئی مُلک اِس پر کان دھرے۔یہ مسابقت کا دَور ہے۔اگر کروڑوں کی آبادی کے مُلک روتے پیٹتے رہیں یا بھکاری بنے رہیں، تو اُنہیں دنیا سے بہت کم اُمید رکھنی چاہیے۔ بھیک یا امداد کے طور پر چند ارب ڈالرز تو مل جائیں گے، لیکن اگر گورنینس اور مالیاتی مینجمنٹ موجود نہ ہو، تو پھر آگے اندھیرا ہی اندھیرا ہے۔کورونا کو ٹالنا کوئی کارنامہ نہیں، بلکہ اسے مینیج کر کے اس میں سے مواقع نکالنا اصل کمال ہے، جو دنیا میں بخوبی ہو رہا ہے۔
چوں کہ اِن دنوں دنیا میں مختلف اشیاء کی قیمتوں میں اضافہ دیکھا جارہا ہے، تو اسی بنیاد پر ہماری حکومت بھی کہہ رہی ہے کہ’’ یہ ایک عالمی معاملہ ہے۔‘‘ مثال کے طور پر پام آئل کی قیمتیں600 ڈالرز سے ایک ہزار ڈالر فی ٹن پر چلی گئی ہیں، ایل این جی کی قیمتیں دس ڈالر سے پچاس ڈالر،خام تیل کی قیمت 40 سے 85 ڈالر فی بیرل، جب کہ کوئلے کی قیمتیں 60 سے 250 ڈالر تک پہنچ گئی ہیں اور اِن قیمتوں میں فوری کمی کا بھی امکان نہیں ہے۔اِس کا مطلب یہ ہے کہ دنیا کو کچھ عرصے تک اِسی منہگائی کے ساتھ جینا ہوگا۔لیکن دوسری طرف کورونا کی وجہ سے پیدا ہونے والا جمود ٹوٹا ہے اور اقتصادی عمل بہت تیز ہوگیا ہے، جس نے روزگار میں اضافہ کر دیا ۔
لوگ کما رہے ہیں اور اُن کے پاس خرچ کرنے کے لیے پیسے بھی ہیں۔ہماری صُورتِ حال مختلف ہے۔حکومت کے مطابق افراطِ زر9 فی صد ہے، جب کہ آزاد ماہرین اسے 12 فی صد سے زیادہ بتاتے ہیں۔حکومتی اعداد و شمار کے مطابق شرحِ نمو 4 فی صد ہوگی، جب کہ ماہرین کے مطابق تین، ساڑھے تین فی صد رہے گی۔اگر یہ شرح چار بھی ہو، تب بھی یہ روزگار کے مواقع پیدا کرنے کے لیے ناکافی ہے، کیوں کہ اِس مقصد کے لیے اس کا چھے فی صد سے اوپر ہونا ضروری ہے۔
ایک حالیہ سروے میں77 فی صد عوام کا کہنا ہے کہ حکومت کی معاشی سمت درست نہیں، جب کہ پنجاب میں یہ رائے رکھنے والوں کی تعداد 79 فی صد ہے، جہاں مُلک کی60 فی صد سے زاید آبادی ہے اور یہی مُلکی سیاست میں فیصلہ کُن قوّت تصوّر کی جاتی ہے۔
سوال یہ ہے کہ وہ وقت کب آئے گا، جب قومی سطح پر اقتصادی زبوں حالی کا ذکر یا بہتری کے فرضی دعووں کا سلسلہ ختم ہوگا اور ایسی شارٹ یا لانگ ٹرم اقتصادی پالیسیز بنائی جائیں گی، جن پر عمل ہوتا ہوا نظر بھی آئے اور جس سے عوام مطمئن ہوسکیں۔
عوامی اطمینان کا مطلب کسی عارضی میڈیا پراپیگنڈے سے رائے عامّہ ہم وار کرنا نہیں، بلکہ اُن کی زندگی میں واقعی وہ تبدیلی آنا شروع ہوجائے، جس سے وہ سُکھ کا سانس لے سکیں۔دنیا میں ایسے ممالک کی کمی نہیں، جنہوں نے گزشہ پچاس سالوں میں اقتصادی ترقّی کی اور اس میدان میں وہ چھلانگیں لگائیں کہ اُن کے نقّاد بھی حیران ہیں۔چین اس کی سب سے شان دار مثال ہے۔
اس کے علاوہ بنگلا دیش، بھارت، ویت نام، برازیل، تُرکی، انڈونیشیا، سنگاپور اور جنوبی کوریا اِس فہرست میں شامل ہیں۔ ایسے چھوٹے چھوٹے جزائر یا خطّے جہاں پچاس سال پہلے جدید زندگی کا تصوّر تک نہ تھا، آج ٹیکنالوجی کے لیڈر بنے ہوئے ہیں۔اُن کے پاسپورٹ مضبوط اور لوگوں کے چہرے دمکتے ہیں۔اُنہیں ایسی کوئی فکر نہیں کھائے جارہی کہ اُن کے مُلک کا کیا بنے گا؟
اونچ نیچ تو آتی رہتی ہے، جیسے کورونا کے دو برسوں میں ہوا، لیکن اُنہیں کبھی یہ پریشانی لاحق نہیں ہوئی کہ مُلک دیوالیہ ہوجائے گا یا لوگ سڑکوں پر بھوکے مرنے لگیں گے۔ویکسین کیسے ملے گی، تحفے میں یا امداد میں؟ ہم ہر کچھ دن بعد اپنا گھر ٹھیک کرنے کی باتیں کرتے ہیں اور ہر حکومت یا پارٹی کا خیال ہے کہ یہ کام صرف وہی کرسکتی ہے، حالاں کہ ایسا ہے نہیں۔اقتصادی عمل کے لیے کم ازکم دو چیزوں کا ہونا ضروری ہے۔ایک درست سمت یعنی تمام مُلکی پالیسیز پر معاشی ترقّی کو برتری حاصل ہو، اِس کے لیے جھوٹی اَنا اور جھوٹے دعووں کی بجائے حقیقت پسندانہ فیصلے کرنے میں کوئی جھجک محسوس نہ کی جائے۔
پچھلے نعرے بُھلا کر اب عوام کی خوش حالی کے لیے آگے بڑھا جائے۔ دوسری ضروری چیز قومی یک جہتی ہے۔ اِس سے مُراد قومی نغمات یا تقاریر پر جھومنا نہیں، بلکہ ہر مکتبۂ فکر کے افراد کو کاروانِ ترقّی میں شامل کرنا ہے۔قومی ترقّی کسی ایک پارٹی یا حکم ران کی مرہونِ منّت نہیں ہوتی اور نہ ہی کسی کی میراث۔ یہ قوم کے اجتماعی شعور کی عکّاس ہوتی ہے، جسے وہ ٹھوس ترقّی کی شکل میں ثابت کرتی ہے۔مگر ہم اِس مرحلے تک کب پہنچیں گے؟ قوم ہنوز منتظر ہے۔