• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

آئین نو…ڈاکٹر مجاہد منصوری

ہر پاکستانی جہاں ہے، اسے کرکٹ کے ٹی۔20 ورلڈ کپ کے پہلے ہی میچ میں پاکستان کے ہاتھوں بھارت اور پاکستان کرکٹ مخالف آئی سی سی کے خود ساختہ نام نہاد ‘‘کرکٹ لارڈز‘‘ کی تاریخی شکست مبارک! 

میرے نزدیک دنیائے کرکٹ کی یہ بڑی خبر پاکستان کی عظیم اور تاریخی فتح سے زیادہ کرکٹ کو بھی دفاع و سلامتی کے شعبے کے حجم برابر اور حساس بنانے والے پاکستان اور پاکستانی کرکٹ مخالف بغض بھرے اور عملی سازشوں کے ریکارڈ کے حامل بھارت اور اس کے ہمرکاب ’’کرکٹ لارڈز‘‘ کی عبرتناک (تاریخی نہیں) شکست ہے جو دولت اور کئی دوسرے ثانوی حوالوں سے سائز یا درجے میں بڑے ہونے پر آئی سی سی میں دنیائے کرکٹ کے دادا بن کر کئی برس سے کرکٹ کو سیاسی رنگ دینے کے مرتکب ہو رہے ہیں۔


اس گندے کھیل میں کامیاب سازشوں کا ریکارڈ والے بھارت کا واحد اور مسلسل ہدف پاکستان ہوتا ہے۔ دبئی کے اسٹیڈیم میں پاکستان کی عظیم فتح پاکستانی کرکٹ کی تاریخی فتح سے زیادہ، بھارت اور نام نہاد کرکٹ لارڈزکی عبرناک شکست زیادہ ایسے ہے کہ کھیل کو سیاسی رنگ دینے (Politicized) بارے سوچنا بھی اسپورٹس اور امن سے دشمنی ہے کہ کھیل خصوصاً عالمی سطح کے، اسی سطح پر امن و آشتی کی فضا بنانے اور مسلسل رکھنے کا ایک بڑا اور موثر ذریعہ ہیں۔ 

پاکستان اور بھارت کے درمیان جنگ کے قریب پہنچی سرحدی کشیدگی کرکٹ ڈپلومیسی سے ختم ہوئی، اسی سے ٹریک ٹو ڈپلومیسی کو گیئر اپ کر کے نتیجہ خیز بنانے کا شاندار ریکارڈ بھی پاک بھارت دوطرفہ تعلقات کی تاریخ میں ’’کرکٹ برائے امن‘‘ کے سنہری چیپٹر کے طور محفوظ ہے۔

اتوار کے روز پاکستانی تاریخی کرکٹ فتح اور پاکستان مخالف بھارت اور اس کے ہمرکاب (اپنے تئیں) پاکستانی کرکٹ ہی نہیں ہمارے داخلی استحکام اور عالمی امیج کے بھی مخالفین کرکٹ لارڈز کی دبئی کے اسٹیڈیم میں عبرتناک شکست کے درمیان وقفہ اتنا کم ہے کہ یہ ’’کرکٹ برائے سیاست کے دو سازشی مرتکبین‘‘ کیلئے عبرت پکڑنے کا ایک بڑا سبق بن گئی ہے۔

ایسے کہ وہ اندازہ ہی نہیں کر سکے کہ ان کی کامیاب سازش کے جواب میں پاکستان کی عظیم کرکٹ وکٹری اور ان کی عبرتناک شکست سے پاکستان کی کرکٹ تو ان شاء اللہ اب ایک نیا رنگ دکھائے گی، جس سے ہمارے داخلی استحکام کو بھی فائدہ پہنچے گا۔ 

ہم تو اتنے کرکٹ لورز ہیں کہ پاکستانیوں نے ملکی شدید کرپٹ سیاسی کلچر سے ایک ایماندار سیاسی قیادت نکال کر دکھائی۔ اور ہاں خان اعظم کو بھی بہت مبارک! آپ نے تاریخی کرکٹ فتح سے پاکستانی عوام کے تعاون و اشتراک سے پاکستان کو ایک عظیم فلاحی منصوبے کا تحفہ دیا تھا۔

اب کرکٹ، فقط کرکٹ ہی نہیں بد قسمتی سے سیاست بھی ہے، شاید وہ ’’نیا پاکستان‘‘ جس کا خواب آپ مدت سے دیکھ اور ہمیں دکھا رہے ہیں، لیکن نکل نہیں رہا نکل آئے۔ نہ جانے میں کیوں؟ 

Visualize کر رہا ہوں کہ ہماری یہ تاریخی کرکٹ کامیابی اور پاکستان مخالف کرکٹ لارڈز جنہوں نے بیک وقت پاکستان اور پاکستانی کرکٹ کو ناقابل تلافی نقصان پہنچانے کی گہری سازش کی اور اس کیلئے کیوی جیسے پرامن پرندے کا ونگ استعمال کیا، ہمارے اچھے آنے والے دنوں کا ٹرننگ پوائنٹ، نہ بن جائے۔

ہم اپنی سیاسی تاریخ میں کرکٹ کی طرح کے ایسے ہی Comeback دیکھتے آئے ہیں۔ حق اور سچ یہ ہے کہ ہماری اور مخالفین کی تاریخی فتوحات تو بہت ہیں، ایسی عبرتناک شکست دنیائے کرکٹ کی تاریخ کا پہلا چیپٹر ہے جس میں میدان اور میدان سے باہر ہمارے اور ہماری کرکٹ کے بعض بھرے مخالفین کو اتنی بڑی شکست دی گئی۔

محسن پاکستان، مدد خدا

(گزشتہ سے پیوستہ)

ضیاء الحق دور کو ان کے مخالفین پاکستان کی تاریخ کا سیاہ ترین دور قرار دیتے ہیں۔ اس میں تو کوئی شک نہیں کہ اس مارشل لائی اور سول ملٹری دور پر تنقید کے تیر برسانے کی بہت گنجائش موجود ہے ، لیکن اگر موجودہ ایٹمی پاکستان کے تناظر میں اس کا تجزیہ کیا جائے تو ’’باقی ماندہ‘‘ پاکستان کو موجود درجے کے دفاعی حصار کا حامل پاکستان بنانے اور بھارت کے مقابلہ میں ایٹمی قوت کا ناصرف بیلنس آف پاور قائم کرنے بلکہ اسے (بھارت) پیچھے چھوڑ جانےکی کامیابی کی تمام تر پیش رفت کی حتمی کامیابی ضیاء الحق دور میں ہی ہوئی۔ 

قدرت کی پاکستان پر بڑی مہربانی یہ ہوئی کہ پاکستان کا سب زیادہ فسطائی دور (1972-77)اس کے پس منظر میں شراب میں دھت پاکستانی شرمناک آمرانہ قیادت، پھر ان ہر دو ادوار میں مچائی گئی سیاسی دھماچوکڑی سقوط ڈھاکہ، آئین بننے کے بعد پاکستان میں آئین کی بدترین خلاف ورزیوں اور 1977کے انتخابات میں، ووکل، جرأت مند سیاسی اپوزیشن لیڈرز کو جیلوں میں ڈال کر جس طرح آگ سے کھیلا گیا۔

یہ سب اورکے نتیجے طور 11 سالہ ملٹری ڈکٹیٹر شپ پاکستان کے ایٹمی پروگرام میں حائل نہ ہو سکی۔ ان ہر دو ادورار میں جنہیں منقسم پاکستانی اپنی اپنی رائے کے مطابق پاکستان کا سیاہ ترین دور قرار دیتے ہیں، پھر 1974میں بھارت کے ایٹمی تجربے کے بعد بھٹو اور ضیاء الحق جیسے سول و ملٹری ڈکٹیٹرز کے ہاتھوں ایٹمی پروگرام کی بنیاد پڑنا، اس کا Sustainable رہنا، ایک سے بڑھ کر ایک کامیابی حاصل کرنا، مزاحمت ہونا، شدید مزاحمت کا ایک عرصے کیلئے قدرے ٹلے رہنا پھر ہونا اور مزید شدید ہونا، سیٹ ٹارگٹ حاصل کرنے کے بعد ’’ڈلیوری سسٹم‘‘ کے حوالے سے دنیا کو حیران کر دینے والی اور بھارت کو مستقل ’’پریشر میں رکھنے اور باز رہنے والی‘‘ کامیابیاں، پاکستان کو ایٹمی بنانے کیلئے مدد خدا نہیں تو اور یہ کیا ہے اور یہ کیسے ہوا؟ (جاری ہے)

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین