• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

وطنِ عزیز کو اِس وقت جن چیلنجوں کا سامنا ہے وہ کورونا وائرس کے باعث معاشی سرگرمیوں کے انحطاط اور کساد بازاری کے شکار دیگر ملکوں کے مقابلے میں اس اعتبار سے اضافی کہے جا سکتے ہیں کہ ہمسایہ ملک افغانستان ایسے انسانی المیے کے خدشات سے دوچار ہے جس کے ممکنہ اثرات خطّے کے تمام ہی ممالک کے لئے فکرمندی کا باعث ہیں مگر اسلام آباد کے لئے یہ صورت حال اس لحاظ سے زیادہ مستعدی کی متقاضی ہے کہ افغانستان کے حالات سے پاکستان سب سے زیادہ متاثر ہوتا ہے۔ اس منظر نامے میں وزیراعظم عمران خان کے حالیہ دورہ سعودی عرب کے علاوہ وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی اور دیگر اہم شخصیات کے غیرملکی دوروں سمیت مصروفیات کو دیکھا جائے یا وزیراعظم پاکستان کی چینی صدر شی جن ینگ سے ٹیلیفون پر گفتگو کا جائزہ لیا جائے، تو یہ واضح ہوتا ہے کہ درپیش چیلنجوں کے حوالے سے وطن عزیز مستعد بھی ہے اور ان سے نبردآزما ہونے کے لئے تدابیر بھی بروئے کار لائی جارہی ہیں۔ سعودی عرب کے دارالحکومت ریاض میں مشرقِ وسطیٰ شاداب اقدام کانفرنس کے موقع پر عمران خان کی سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان سے ملاقات میں مختلف شعبوں میں باہمی تعاون مزید مستحکم بنانے پر جو اتفاق رائے سامنے آیا اس کا ایک اظہار پاکستان کے زرمبادلہ ذخائر میں سعودی معاونت کی صورت میں ہوا ہے۔ وزیر اطلاعات فواد چوہدری کے ٹوئٹ سے ظاہر ہوتا ہے کہ ریاض نے پاکستان کے مرکزی بینک میں 3ارب امریکی ڈالر جمع کرانے کا اعلان کیا ہے جبکہ ایک سال کے دوران 1.2ارب امریکی ڈالرز مالیت کی پیٹرولیم مصنوعات بھی موخر ادائیگی پرپاکستان کو فراہم ہوں گی۔ حماد اظہر کے بیان کے بموجب مذکورہ سعودی اعانت سے تجارت اور فاریکس اکائونٹس پر دبائو کم کرنے میں مدد ملے گی۔ پیر کے روز ریاض کانفرنس کے موقع پر وزیراعظم عمران خان کی بحرین کے وزیراعظم اور ولی عہد شہزادہ سلمان بن حمد بن عیسیٰ الخلیفہ اور امریکی خصوصی نمائندہ برائے ماحولیات جان کیری سے بھی مفید ملاقاتیں ہوئی ہیں۔ جبکہ منگل کو وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کی تہران میں ایرانی ہم منصب ڈاکٹر حسین امیر عبداللہیان سے ملاقات میں افغان امن کے لئے اسلام آباد اور تہران واضح طور پر ایک صفحہ پر نظر آئے۔ منگل ہی کے روز وزیراعظم عمران خان نے چینی کمیونسٹ پارٹی کی 100ویں سالگرہ اور چینی عوام کی غربت کے خاتمے کے لئے بےمثال کامیابیوں پر مبارکباد کے لئے جو ٹیلیفون کیا، اس بات چیت میں دونوں رہنمائوں نے جہاں پاک چین تعلقات مزید مستحکم بنانے پر اتفاق کیا اور علاقائی و عالمی امور پر تبادلہ خیال کیا وہاں عالمی برادری سے یہ اپیل بھی کی کہ افغان عوام کو فوری انسانی اور معاشی امداد فراہم کی جائے۔ اس گفتگو میں دونوں رہنمائوں نے پاک چین سفارتی تعلقات کے 70سال مکمل ہونے پر بھی ایک دوسرے کو مبارکباد دی۔ جہاں تک طویل جنگ سے خستہ حال افغانستان کی تعمیر نو میں مدد دینے اور افغان عوام کو فوری انسانی و معاشی امداد فراہم کرنے کیلئے عالمی برادری کے سرگرم ہونے کی ضرورت کا تعلق ہے، بین الاقوامی سطح کی ہر گفتگو اور ہر فورم میں اسلام آباد کی طرف سے اسے اجاگر کیا جاتا رہا ہے۔ بیجنگ، ماسکو، تہران سمیت کئی دارالحکومت اس ضمن میں سنجیدگی سے سرگرم ومتحرک نظر آرہے ہیں۔ اس باب میں فوری اقدامات و تدابیر اقوام متحدہ سمیت مختلف سطحوں پرکی جانی چاہئیں۔ افغان عوام کو فوری انسانی اور معاشی امداد فراہم کرکے وہاں عدم استحکام کی صورت پر قابو پانے میں مدد دینا عالمی امن کی اہم ضرورت ہے۔اس مقصد کیلئے افغانستان کے منجمد اثاثے فوری طور پر جاری کئے جانے چاہئیں۔ جنگ سے بدحال ملک کوطویل مدتی ترقی و استحکام درکار ہے جس میں تعاون کیلئے عالمی برادری کی مستقل اور مثبت بات چیت اہم ہے۔

تازہ ترین