عابدہ حُسین
جب بھی اور جہاں بھی سیّدہ عابدہ حُسین کا ذکر ہو،قصّے،کہانیوں اور واقعات کا ایک لامتناہی سلسلہ شروع ہو جاتا ہے، اُن کی جرأت مندی، سیاسی بے باکی کا ایک زمانہ گرویدہ ہے۔ وہ پاکستان کی پہلی خاتون رُکنِ قومی اسمبلی تھیں،جو ایک عام نشست سے باقاعدہ انتخاب لڑ کر ایوان میں پہنچیں۔ اُنہیںیہ انفرادیت بھی حاصل ہے کہ وہ پاکستان کی پہلی خاتون تھیں ، جنہوں نے امریکا میں بحیثیت پاکستانی سفیر اپنے مُلک کی نمایندگی کی ، بعد ازاں یہ سفارتی منصب ڈاکٹر ملیحہ لودھی اور شیری رحمٰن کے حصّے میں بھی آیا۔ یہی نہیں انہیں اپنے آبائی علاقے ، جھنگ سے پہلی خاتون میئر ہونے کا بھی اعزازحاصل ہے۔
واضح رہے،انتخابات میں کام یابی کے بعد انہیں علاقائی سیاست میں مخالفین کی جانب سے شدید مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا۔ بہر حال، مرکزی سیاست میں حصّہ لینے کے لیے 1988ءمیں جب انہوں نے جھنگ میں اپنے آبائی حلقے سے الیکشن لڑا اور مدّ ِمقابل، مولانا حق نواز جھنگوی کو، جن کا تعلق جمعیت علمائے اسلام (ف) سے تھا، سخت مقابلے کے بعد واضح برتری سے شکست دی ،تو سیاست میں مخالفت کی سطح دشمنی تک جاپہنچی۔ عابدہ حُسین ( جنہیں اُن کے خاندان میں ’’چندی‘‘ کے نام سے بھی پکارا جاتا ہے)کی شخصیت اور مزاج میں تنوّع کےسبب بھی اُن سے متعلق متضاد واقعات اور پُر تجسّس کہانیاں مشہور ہیں۔ ان کی خاندانی شخصیت کا وقار، پس منظر، دھیما لہجہ، شگفتہ اندازِ گفتگو،موضوع خواہ کیسا ہی کیوں نہ ہو ،مدلّل بحث مباحثہ اُنہیں دیگر سے ممّیز کرتا ہے، تواُن کی شُستہ و رفتہ، اردو، انگریزی بھی دیکھنے ،سُننے والوں کو اُن کا گرویدہ کر دیتی ہے۔
عابدہ حُسین نے ابتدائی تعلیم کانونٹ آف جیزز اینڈ میری، لاہور اور سرول مانٹریئکس (Surval Montreux) بورڈنگ اسکول، سوئٹزر لینڈ سے حاصل کی۔ بعد ازاں، اعلیٰ تعلیم کے لیے اٹلی بھی گئیں، لیکن گریجویشن مکمل کیے بغیر ہی وطن واپس لَوٹ آئیںکہ ان کی شادی ، اپنے کزن اورمعروف بیوروکریٹ ، فخر امام سے طے پاگئی تھی۔ یہاں دل چسپ بات یہ ہے کہ جب جنرل (ر)پرویز مشرف نے فوجی وردی پر شیروانی پہنی ،تو قومی اسمبلی کی رکنیت کے لیے، کم ازکم تعلیمی قابلیت گریجویشن قرار دے دی، جس کےنتیجے میں اسمبلی سےنااہل ہونے والوں میں نواب زادہ نصراللہ ، قومی اسمبلی کے اسپیکر گوہر ایوب خان اورمتعدّد سیاست دان سمیت بیگم عابدہ حُسین بھی شامل تھیں۔بہر حال،بعد ازاں انہوں نے بہائو الدین زکریا یونی وَرسٹی سے 2008ء میں پولیٹیکل سائنس میں گریجویشن کی سند حاصل کرلی۔
ایک طرف تو عابدہ حُسین حلیم طبع، بندہ پرور اور سیّدزادی ہونے کے ناتے بھی مظلوموں کا ساتھ دینے کے واقعات کا حوالہ رکھتی ہیں ،تو دوسری جانب اُن کے آبائی علاقے میں ان کے مخالفین انہیں ایک ظالم جاگیردارنی کے رُوپ میں پیش کرنے کے لیےبھی مختلف واقعات کی منظر کشی کرتے دِکھائی دیتےہیں۔ سیّدہ عابدہ حُسین کے والد، سیّد عابد حُسین شاہ ایک بڑے زمین دار اور غیر منقسم ہندوستان کی برطانوی ہند فوج میں اعزازی کرنل بھی تھے، جواُنہیں ان کے اثر ونفوذ کی وجہ سے دیاگیا تھا۔ وہ سیاست دان کی حیثیت سے بھی خاصے اہم سمجھے جاتے تھے۔
انہیں 1945ءمیں ہندوستان کی دستور ساز اسمبلی کے لیے بھی منتخب کیا گیا اور یہ کام یابی انہیں مسلم لیگ کے پلیٹ فارم سے حاصل ہوئی۔ قیامِ پاکستان سے ایک سال کم عُمر سیدہ عابدہ حُسین پنجاب کے معروف لیکن قدرے پس ماندہ علاقے ،جھنگ میں پیداہوئیں۔وہ اپنی پُرکشش شخصیت، حسب نسب اور خاندانی پس منظر کے حوالے سے اس قدر اہم تھیں کہ ان سے شادی کے خواہش مندوں کی ایک طویل فہرست تھی۔ اُنہیں الزبتھ ٹیلر اور جینا لولو سے زیادہ خوب صُورت قرار دیا جاتا تھا۔
یاد رہے، سیّدہ عابدہ حُسین سے شادی کے خواہش مندوں میںجنرل ایوب خان کے سب سے چھوٹے بیٹے ،طاہر ایوب خان بھی شامل تھےاور یہی وجہ تھی کہ صدر ایّوب خان نے نواب آف کالا باغ کے ذریعے ،جو اُس وقت مغربی پاکستان کے گورنر تھے، اپنے بیٹے کی شادی کا پیغام بھی بھیجا تھا، لیکن عابدہ حُسین کے والد نے انکار کر دیاتھا۔یہی نہیں ،ملکہ ترنّم نورجہاں نے بھی اپنے بیٹے ،اکبر رضوی کے لیےعابدہ حُسین کا ہاتھ مانگا ، مگر یہاں بھی ان کے والد عابد حُسین شاہ آڑے آگئے اور جواباًنور جہاں سے گانا سُنانے کی فرمائش کردی۔
نورجہاں ،جو ایک معاملہ فہم اور سُوجھ بُوجھ رکھنے والی خاتون تھیں، فوراً سمجھ گئیں کہ سادات گھرانے کے بڑے زمین دار گانے کی فرمائش کرکے اُن کے اور اپنے درمیان فرق ظاہر کرنے کی کوشش کر رہےہیں، چناں چہ انہوں نے بھی ترکی بہ ترکی جواب دیتے ہوئے کہا کہ’’ اگر آپ رشتے کے لیے ہاں کردیں، تو جب تک چاہیں گے،گانا سُناتی رہوں گی۔‘‘ اس طرح بات ختم ہوگئی ۔بعد میں عابدہ حُسین کی شادی ان کے کزن فخرامام سے ہوئی، جو شادی کے ابتدائی دِنوں میں عابدہ کو بورنگ، مگراب صبر و استقامت کی تصویر نظر آتے ہیں ۔
سیّدہ عابدہ حُسین نےاپنے دَورِ سیاست کی یادداشتوں پر مشتمل ایک کتاب بھی ’’ POWER FAILURE ‘‘کے نام سے تحریر کی ہے، جس میں چشم کُشا واقعات کا تذکرہ کیا گیاہے ۔ جو لوگ قابلِ ذکر شخصیات کی خودنوشتوں میں دل چسپی رکھتے اور پاکستان کی رنگا رنگ سیاست کا دل چسپ احوال جاننا چاہتے ہیں، انہیں یہ کتاب ضرور پڑھنی چاہیے۔ اس کتاب میں انہوں نے بطور رکنِ پارلیمنٹ ، بحیثیت جرأت مند سیاست دان ہی نہیں، سفارت کار کی حیثیت سے بھی چندناقابلِ فراموش واقعات کاتفصیلاً ذکر کیا ہے۔ خصوصاً ذوالفقار علی بھٹو سے سیاسی وابستگی کااظہار کرتے اورانہیں خراجِ تحسین پیش کرتے ہوئے لکھا ہے کہ’’ مَیں بھٹو صاحب کی بڑی مدّاح تھی۔ مَیں نے دسمبر 1976ءمیں خواب میں دیکھا تھا کہ بھٹو صاحب آم کے ایک درخت پر پھانسی کے پھندے سے لٹکے ہوئے ہیں اور آم کا یہ باغ ہمارے لاہور والے گھر کے سامنے تھا۔‘‘
عابدہ حُسین نے اپنےسیاسی کیریئر کا آغاز پاکستان پیپلز پارٹی سے کیا ، لیکن بعدازاںپیپلز پارٹی چھوڑنے کی وجہ بتاتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ’’1977ءکے عام انتخابات میں ذوالفقار علی بھٹو نے مجھےقومی اسمبلی کی نشست پر انتخاب لڑنے کے لیے ٹکٹ دینے سے صرف اس لیے انکار کردیا تھا کہ مَیں ایک خاتون امیدوار تھی۔‘‘ بقول عابدہ حُسین، بھٹّو جیسے جدّت پسند کی جانب سے یہ صنفی امتیاز پیپلز پارٹی چھوڑنے کی بنیادی وجہ بنی ۔
تاہم، بعض حلقے ان کے اس موقف سے اتفاق نہیں کرتے کہ صدر ضیاء الحق نے جلاوطنی اختیار کرنے والی محترمہ بے نظیر بھٹو کی وطن واپسی سے پہلے 1986ءمیں جب بے نظیر بھٹو کا سیاسی طلسم غیر موثر کرنے کے لیے اپنے رفقا سے مشاورت شروع کی، تو سیّدہ عابدہ حُسین اور سید فخر امام کو ایک مضبوط سیاسی جوڑے اور طاقت وَر سیاسی حلقوں کی حمایت کے ساتھ میدان میں لانے کا فیصلہ کیاگیا اور اس مقصد کے لیے غیر علانیہ طور پر تیاریاں بھی شروع کردی گئیں، لیکن صدرضیاء الحق کو بتایا گیا کہ دونوں میاں بیوی کے مسلک کے پیشِ نظر سعودی حکّام ناراض ہوسکتے ہیں، لہٰذایہ سارا عمل روک دیا گیا اور پھر طاقت اور سیاست کی یہ سرمایہ کاری میاں نواز شریف پر کی گئی۔
عابدہ حسین مسلم لیگ (نون) میں ایک بااثر شخصیت تھیں ،میاں نواز شریف نےانہیں دو مرتبہ اپنی کابینہ میں وزیر بنایا۔ 1997ءمیں وزیرِ خوراک و زراعت اور دوسری مرتبہ وزیرِ منصوبہ بندی ،جب کہ نواز دَور ہی میں انہیں امریکامیں پاکستان کی سفیربھی مقرر کیا گیا۔ لیکن عابدہ حُسین یہ تسلیم نہیں کرتیں کہ انہیں نواز شریف نے سفیر بنا کر امریکا بھیجا تھا، بلکہ وہ اس کا تمام کریڈٹ اُس وقت کے صدر غلام اسحاق خان کو دیتی ہیں۔ یہ بھی درست ہے کہ ان کی زیادہ سیاسی اور ذہنی ہم آہنگی غلام اسحاق خان سے تھی، جن کی دیانت داری کے وہ اکثر گُن گاتی بھی دکھائی دیتی تھیں ۔ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ’’ امریکا میں کیے گئے میرے اہم فیصلوں میں وزیراعظم نواز شریف کاکوئی کردار نہیں ہوتا تھا کہ مَیں براہِ راست غلام اسحاق خان سے رہنمائی لیتی تھی۔‘‘
تاہم، یہ بھی حقیقت ہے کہ عابدہ حُسین کی بطور سفیر،امریکا روانگی سے قبل ایک اہم ملاقات ایوانِ صدر میں ہوئی تھی،جہاں غلام اسحاق خان کے علاوہ وزیرِ خارجہ صدیق کانجو، سیکریٹری خارجہ، شہریار خان اور امریکی سفارت خانے کے حکاّم بھی موجود تھے ،لیکن اس میٹنگ میں وزیراعظم نواز شریف مدعو نہیں تھے۔نیز، صدر غلام اسحاق خان نے روانگی سے پیش تر عابدہ حُسین کو بریفنگ میں بتایا تھا کہ’’ آپ نےلگ بھگ 18ماہ تک امریکی حکام کو مختلف موضوعات میں الجھا کر یہ عرصہ گزارنا ہے، کیوں کہ ہمیں ایٹمی طاقت بننے کے لیے اتنا ہی عرصہ درکار ہوگا۔‘‘
عابدہ حُسین کا کہنا ہے کہ پاکستان میں ہونے والی تبدیلیوں کے بارے میں واشنگٹن کی معلومات باقی دنیا سے دو قدم اور خود پاکستان سے چار قدم آگے ہوتی ہیں۔ وہ جانتے ہیں کہ پاکستان میں حکومت کو کب رخصت کیا جائے گا اور آئندہ آنے والی حکومت کس کی ہوگی، جس کی ایک مثال دیتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ ’’ 1993ءمیں جب غلام اسحاق خان نے نواز شریف کی حکومت برطرف کی اور پھر عدالت نے ان کی بحالی کا فیصلہ دے دیا ،تو اس وقت میری امریکی سیکیوریٹی ایڈوائزر سے ملاقات ہوئی ۔ انہوں نے عدلیہ کی جانب سے نواز شریف کی حکومت کی بحالی کا فیصلہ سراہا اور یہ بھی کہا کہ میاں نواز شریف کو اب الیکشن میں جانا چاہیے اور ایسا ہی ہوا۔ اگلے ہی ماہ پاکستان میں الیکشن کا اعلان ہوگیا۔ ‘‘
اپنے کئی انٹرویوز میں عابدہ حُسین نے میاں نواز شریف کا،جنہوں نے انہیں دو مرتبہ اپنی کابینہ میں وزیر بنایا اور کئی حوالوں سے غیر معمولی اہمیت بھی دی ،تذکرہ بہت بےزاری اور ناخو ش گوار الفاظ میں کیا اور اپنے حسب نسب کی بالادستی کے مقابلے میں انہیں بار بار کم تر ، غیر قانونی اور غیر اخلاقی رستوں سے کام یابی حاصل کرنے والا فرد قرار دیا ۔ہوسکتا ہے کہ ان کے پاس یہ سب کہنے کا کوئی جواز موجود ہو،لیکن اس تناظر میں ان کا نواز شریف کی کابینہ سے مستعفی ہونے کاوہ واقعہ بھی نظرانداز نہیں کیا جاسکتاکہ جب وہ بہبودِ آبادی کی وزیر تھیں اور سائنس اینڈ ٹیکنالوجی کی وزارت کا قلم دان بھی ان کے پاس تھا۔
اس زمانے میں جب بجلی چوری کی شکایات بہت زیادہ بڑھ گئیں، تو حکومت نے واٹر اینڈ پاور ڈویلپمنٹ اتھارٹی کو فوج کے حوالے کر دیا،جس نے بجلی چوری کی روک تھام کے لیے گھر گھر تلاشی کا آپریشن شروع کیا ۔اس آپریشن میں جھنگ میں واقع سیدہ عابدہ حُسین کے ڈیر ی فارم میں غیرقانونی بجلی کا کنیکشن لگانے اور عرصۂ دراز سے بلا ادائی بجلی استعمال کرنے کے الزام میں نہ صرف بجلی کا کنیکشن منقطع کر دیا گیا، بلکہ ان کے خلاف کارروائی شروع کرنے کا فیصلہ بھی کیا گیا۔ اس صورتِ حال میں عابدہ حُسین نے بالمشافہ طور پراُس وقت کے وزیرِ اعظم، نواز شریف سے ملاقات کرکے اس معاملے کو ختم کرنے کا مطالبہ کیا، لیکن انہوں نے اپنی وزیر سے معذرت کرتے ہوئے کہا کہ ’’ آپ کو صورتِ حال کا سامنا کرنا چاہیے، دوسری صورت مستعفی ہونے کی ہے۔‘‘ چناں چہ عابدہ حُسین نے ’’ ذاتی وجوہ‘‘ کی بنیاد پر استعفیٰ دے دیا۔
عابدہ حُسین بتاتی ہیں کہ ’’ 1992 ء میںجب مَیںامریکا میں پاکستانی سفیر کی حیثیت سے اپنی ذمّے داریاں انجام دے رہی تھی، تواس وقت کے آرمی چیف ، آصف جنجوعہ واشنگٹن کے دَورے پر آئے ۔یہ وہ عرصہ تھا، جب پاکستان پر اس حوالے سے بہت زیادہ دبائو تھا کہ وہ اپنا ایٹمی پروگرام رول بیک کرلے اور اس فیصلے کے لیے پاکستان پر دبائو کے ساتھ ساتھ ’’ترغیبات‘‘ کا سلسلہ بھی جاری تھا۔ ظاہر ہے کہ اس صورتِ حال میں پاکستانی سفیر پر بھی اپنی منصبی ذمّےداریوں کے حوالے سے غیر معمولی دباؤ تھا۔ امریکی وزیرِ دفاع، ڈک چینی اور جنرل آصف نواز جنجوعہ کی میٹنگ طے تھی۔میٹنگ شروع ہونے سے قبل ڈک چینی نے اپنے اسٹاف کو کمرے سے باہر جانے کے لیے کہا ،لیکن مجھے اس بات کا یقین تھا کہ جنرل آصف نواز مجھے کمرے سے باہر جانے کے لیے نہیں کہیں گے، لیکن ایسا نہیں ہوا اور انہوں نے مجھ سےکہا کہ ’’میرا خیال ہے کہ آپ کو بھی باہر چلے جانا چاہیے ،کیوں کہ اب آپ کا یہاں بیٹھنا مناسب نہ ہوگا ۔‘‘اورمَیں نے ایسا ہی کیا۔پھر میٹنگ کے بعد مَیں نے جنرل آصف نواز جنجوعہ سے کہا کہ ’’ میرا اندازہ ہے کہ امریکی وزیرِ دفاع نے آپ کو پیش کش کی ہوگی کہ پاکستان میں اقتدار سنبھالنے کے لیے ہم آپ کی مدد کوتیار ہیں۔‘‘ جس پر آصف نواز کو ایک دھچکا سا لگا اور وہ ششدر رہ گئے ۔ انہوں نے اگلے ہی لمحے مجھ سے پوچھا کہ’’ کیا ڈک چینی نے تمہیں یہ بات بتائی ہے؟ ‘‘ لیکن مَیں خاموش رہی ۔‘‘
بےنظیر بھٹو کے بارے میں سیّدہ عابدہ حُسین کا کہنا ہے کہ ’’بے نظیر ایک بہادر خاتون تھیں۔ جب وہ پہلی مرتبہ وزیراعظم بنیں، تو ان کی عمر صرف 35 سال تھی اور بعد میں 39 سال کی عُمر میں دوبارہ وزیراعظم بنیں ۔میرے خیال میں پاکستان جیسے مُلک کے سیاسی حالات میں وزیراعظم بننے کے لیے وہ کم عُمر تھیں۔تاہم، جب وہ جلا وطنی میں گئیں، تو انہوں نے وہاں بہت کچھ سیکھا اور وطن واپسی پر وہ ایک زیادہ سمجھ دار اور معاملہ فہم سیاسی لیڈر کے طور پر سامنے آئیں، لیکن یہ ہماری بدقسمتی ہی ہے کہ ہم نے انہیں کھو دیا۔‘‘
اپنی کتاب میں وہ لکھتی ہیں کہ ’’1990ءکی دہائی میں جب میاں نواز شریف پنجاب کے وزیرِاعلیٰ اوربے نظیر بھٹو مُلک کی وزیرِاعظم تھیں،اُس وقت کوئٹہ میں اپوزیشن کے رہنمائوں ،نواب اکبر بگٹی، نواب زادہ نصراللہ خان جیسی شخصیات کی میٹنگ ہو رہی تھی،جس میں میاں نواز شریف اور مَیں بھی شامل تھے۔ میٹنگ کے دوران میاں نواز شریف نے شرکا سے ایک ضروری فون سننے کی اجازت لی اور باہر چلے گئے، جب وہ کافی دیر تک واپس نہ آئے، تو مجھے کہا گیا کہ اُنہیں تلاش کیا جائے،مَیں انہیں تلاش کرنے میں کام یاب ہوگئی ،تو دیکھا کہ وہ ’’فون پر گُنگنا رہے تھے‘‘۔
سیّدہ عابدہ حُسین کے شوہر، سیّد فخر امام نے پاکستان کی قومی اسمبلی کے11ویں اسپیکر کی حیثیت سےفرائض سرانجام دیئے، پھر اُسی اسمبلی میں وہ اپوزیشن لیڈر بھی رہے۔ تاہم، اُنہیں مُلکی سیاست میں اُس وقت غیرمعمولی اہمیت ملی، جب انہوں نے قومی اسمبلی کی اسپیکر شِپ سے اصولی موقف اختیار کرتے ہوئے استعفیٰ دیا۔ یاد رہے، سیّد فخر امام مختلف وزارتوں کے سربراہ کی حیثیت سےبھی ذمّے داریاں انجام دے چُکے ہیں اور اب پی ٹی آئی میں شمولیت کےبعد ان دِنوں نیشنل فوڈسیکیوریٹی اینڈ ریسرچ کی وزارت سنبھالے ہوئے ہیں۔
جب کہ اُن کی صاحب زادی، صغریٰ امام، جنہوں نےسیاسی کیریئر کا آغاز پاکستان پیپلز پارٹی سےکیا،2009ءسے 2015 ءتک خواتین کی مخصوص نشست پر سینیٹر بھی رہیں اور ان دِنوں پنجاب اسمبلی کی رکن ہیں۔ نیز، معروف ویمنز رائٹس ایکٹیویسٹ، صحافی اور ٹی وی اینکر، سیّدہ جگنو محسن بھی عابدہ حُسین کے گھرانے ہی سے تعلق رکھتی ہیں۔
سیّدہ عابدہ حُسین انتہائی بھرپور، ہنگامہ خیز، قدرےمتنازع واقعات سےبَھری زندگی گزارنے کے بعد اِن دنوں معاملاتِ سیاست میں عملاً غیر فعال ہیں۔ لیکن یہ نقل و حرکت پیرانہ سالی کے باعث ہی محدود ہوئی ہے، اپنے افکار و خیالات کے اعتبار سے وہ آج بھی توانا ہیں کہ اُن کی یادداشت پر اُن کی عُمر کے اثرات مرتّب نہیں ہوئے۔جب کبھی کوئی مُلکی یاغیرمُلکی میڈیا کانمایندہ پاکستان کی نصف صدی کی تاریخ کےحقائق جاننےکےلیے اُن سے رابطہ کرتا ہے، تو وہ اُن کی بہترین یادداشت پر حیران رہ جاتا ہے۔ چوں کہ ابتدا ہی سے مویشیوں کے فارمز اوراُن کی افزائش وغیرہ کےمعاملات اُن کے کاروبار کا حصّہ تھے، تو آج بھی یہ شعبہ عابدہ حُسین کے لیے انتہائی اہمیت کا حامل ہےاور وہ کسی نہ کسی شکل میں اس شعبے سے متعلق باخبر ہی رہتی ہیں۔ (جاری ہے)