نیلوفر بختیار
راول پنڈی، اسلام آباد کی معروف سیاسی و سماجی شخصیت، بیگم علی ملک، جن کا سیاسی حوالہ ذوالفقار علی بھٹو کی پیپلز پارٹی تھی، 1971ء میں پاک، بھارت جنگ کے دوران جنگی قیدیوں کی دیکھ بھال کےلیے قائم کی جانے والی نیشنل کمیٹی کی پہلی چیئرپرسن بھی تھیں۔ اُن کے شوہر کرنل کے عُہدے سے ریٹائر ہوئے اور صاحب زادی، نیلوفر بختیار نے راول پنڈی کے ’’پریزنٹیشن کانونٹ گرلز ہائی اسکول‘‘ سے انٹر، جامعہ پنجاب سے بیچلرز اور ہینز کالج، امریکا سے پبلک ایڈمنسٹریشن میں ماسٹرز کیا۔
نیلوفر بختیار نےسماجی خدمات کے لیے ’’انٹرنیشنل ایسوسی ایشن آف لائنز کلب‘‘ کا انتخاب کیا، جو اُن کے ابتدائی تعارف کا حوالہ بنا۔ نیلوفر بختیار کے شوہر ایک غیر معروف شخصیت ہیں، بہت ہی کم لوگ احمد بختیار کو پہچانتے ہیں۔ وہ تقریبات سے بھی دُور ہی رہتے ہیں اور اُن کی اپنی بیگم کے ساتھ کوئی تصویر بھی سوشل میڈیا پر موجود نہیں ہے۔
نیلوفر بختیار کو ’’دی انٹرنیشنل ایسوسی ایشن آف لائنز کلب‘‘ کی جانب سے دو سال کے لیے ڈائریکٹر منتخب کیا گیا، تو انہوں نے جہاں بیرونِ ممالک سماجی خدمات انجام دیں، وہیں پاکستان میں ذیابطیس کی روک تھام اور ذہنی طور پر معذور بچّوں کے لیے کئی لائنز اسکول بھی قائم کیے، جب کہ وہ ایک بہترین ہوٹل ایڈمنسٹریٹر بھی ہیں۔ جہاں تک اُن کے سیاسی کیرئیر کا تعلق ہے، تو انہوں نے 1990 ءمیں میاں نواز شریف کی قیادت میں پاکستان مسلم لیگ (نون) میں شمولیت اختیار کی اور 1992 -93 اور 1997 کے انتخابات میں خواتین کی قیادت کرتے ہوئے بھرپور انتخابی مہم چلائی۔
اسی مقصد کےلیے اُنہیں مسلم لیگ (نون) کے خواتین وِنگ کا صدر بھی بنایا گیا تھا۔ بعد میں وہ مسلم لیگ (نون) کی ورکنگ کمیٹی کی مرکزی رکن بھی رہیں۔ یاد رہے، جب میاں نواز شریف کی رہائی کے لیے مسلم لیگ (نون)نے تحریک شروع کی، تو خواتین کی سماجی حیثیت، صحت اور تعلیم کے شعبوں میں کام کرنے والی نیلوفر بختیار بھی احتجاج کے لیے سڑکوں پر نکل آئیں، نیلوفر بختیار سے متعلق کسی تذبذب کے بغیر یہ کہا جاسکتاہےکہ اُن کی تعلیمی، سماجی، سیاسی اور ذاتی زندگی انتہائی شان دار رہی۔
بعد ازاں، انہوں نے پاکستان مسلم لیگ (ق) میں شمولیت اختیار کرلی۔ البتہ ہمیشہ مثبت حوالوں اور اجتماعی بھلائی کے کاموں سے شہرت رکھنے والی نیلوفر بختیار 2007ء میں اُس وقت ایک متنازع ترین شخصیت کے حوالے سے میڈیا پر سامنے آئیں، جب وہ اُس وقت کے وزیراعظم شوکت عزیز کی کابینہ میں وفاقی وزیرِ سیاحت کی حیثیت سے فرانس کے دَورے پر تھیں۔
اِس دورے کا پس منظر یہ تھا کہ اُنہیں 2005ء میں پاکستان میں آنےوالے بدترین زلزلے کے لیے امدادی رقم جمع کرنی تھی اور دَورے کے مختلف پروگرامز میں سے ایک میں اُنھیں انتہائی بلندی سے پیراشوٹنگ بھی کرنی تھی۔ گوکہ وہ اس عمل سے قطعی طور پر نامانوس اور خوف زدہ تھیں، لیکن انہوں نےانسٹرکٹر کی مدد سے چھلانگ لگائی اور بخیروعافیت زمین پر اُتر بھی آئیں، تو اُترتے ہی سرخُوشی کے عالم میں انسٹرکٹر کو گلے لگا لیا۔
اس ضمن میں نیلوفر بختیار کاکہنا تھا کہ ’’میری دانست میں، مَیں نے غیر معمولی بہادری کا مظاہرہ کیا تھا، تو کام یابی پر مَیں کچھ زیادہ ہی جذباتی ہوگئی اور چوں کہ کام یابی میں بنیادی کردار میرے غیر مُلکی انسٹرکٹر کا تھا، تو یہی وجہ تھی کہ مَیں نے زمین پر اُترتے ہی اُنہیں گلے لگا لیا، وہ دَرحقیقت میری حددرجہ خُوشی اور انسٹرکٹر کی صلاحیتوں کے اعتراف کا ایک انداز تھا، لیکن یقیناً مغربی انداز تھا۔‘‘
بہرحال، اُن چند لمحات کے اُس منظر کی تصاویر بھی بنیں اور مغربی پریس میں شایع بھی ہوئیں، جنہیں پاکستانی میڈیا نے بھی نشر اورشایع کیا اورپاکستانی عوام کے سامنے انسانی خدمت کے لیے کی جانے والی کسی کاوش کے بجائے ایک اسکینڈل کی صُورت پیش کیا۔ جواباً مختلف طبقات کی جانب سے اِس کا ردّعمل بھی آیا، پھر نیلوفر بختیار کے کچھ سیاسی مخالفین نے بھی معاملے کو مزید ہوا دینے کا کام کیا،جن میں خود اُن کی حکومت اور جماعت کے بھی بعض لوگ شامل تھے۔ اُس وقت نجی ٹی وی چینلز اور سوشل میڈیا تو موجود نہیں تھا، لیکن طرح طرح کی خبروں، مخالفانہ بیانات اور دھمکیوں کی جیسےایک آگ سی بھڑک اُٹھی۔
یہاں تک کہ اُس وقت کے رویتِ ہلال کمیٹی کے چیئرمین، مفتی منیب الرحمان نے اُن کی تصویر کو پاکستانی قوم کے لیے شرمندگی سے تعبیر کرتے ہوئے، نیلوفر بختیار کو سینیٹ کی رکنیت سے ہٹانے کا مطالبہ کردیا۔ ایک حد تک تو نیلوفر بختیار نے اس صورتِ حال کا مقابلہ کیا، لیکن جب اُن کی جماعت مسلم لیگ (ق) کے سربراہ، چوہدری شجاعت حُسین کا بیان سامنے آیا کہ ’’نیلوفر بختیار کا مذکورہ عمل صدر پرویز مشرف کے روشن خیال نظریے کی تکذیب ہے۔‘‘ اور پارٹی سطح پر ان کے خلاف کارروائی کا فیصلہ بھی کیا گیا، تو وہ سخت مایوس ہوگئیں۔
یہاں یہ بات بھی قابلِ ذکر ہے کہ اِس واقعے سے کچھ عرصہ قبل وزیرِ سیّاحت کی حیثیت ہی سے نیلوفر بختیار نے مُلک میں سیّاحت کے فروغ کے لیے مغربی سیّاحوں کے لیے شراب کی فراہمی کی تجویز بھی پیش کی تھی، جس کے بعد اُن کے مخالفین نے اِن دونوں واقعات کو ملا کر خاتون وزیر کی شخصیت کو ایک خاص سوچ اور کردار کے تناظر میں پیش کرنا شروع کردیا۔
اِن دونوں واقعات سے متعلق نیلوفر بختیار نے لاتعداد جواز، حقائق، وضاحتیں اور تردیدیں پیش کیں، لیکن معاملہ اُن کی مغربی سوچ سے بڑھ کر،کردار کُشی تک جا پہنچا۔ یہ بھی کہا گیا کہ ’’یہ عورت پاکستان میں سیّاحوں کی آڑ میں شراب نوشی عام کرنا چاہتی ہے اور خود بھی اس کی شوقین ہے۔‘‘ یہ وہ وقت تھا، جب نیلوفر بختیار پر فتوے لگائےجارہے تھے اور اُنھیں جان سے مارنے کی دھمکیاں بھی موصول ہو رہی تھیں، مگر اُن کی اپنی پارٹی اور سیاسی رفقا نے اُنہیں بہت حد تک تنہا چھوڑ دیا تھا۔ کسی بھی فورم سے نہ اُن کی حمایت کی گئی اور نہ ہی اُن کے حق میں بیانات جاری کیےگئے، جس کے نتیجے میں انہوں نے مسلم لیگ (ق) سے استعفیٰ دے دیا اور سیاست سے مکمل طور پر لاتعلق ہوگئیں۔
سیاست کو خیرباد کہنے کے بعد وہ زیادہ عرصہ بیرونِ مُلک ہی رہیں، جہاں اُن کا بیٹا بھی زیر تعلیم تھا۔ تاہم، طویل خاموشی کے بعد انہوں نے جب سیاسی طور پر دوبارہ فعال ہونے کا پروگرام بنایا تو 2018ء کے آغاز میں بلاول ہائوس، اسلام آباد میں سابق صدر آصف علی زرداری سے ملاقات کی اور اپنے والدین کےنقشِ قدم پر چلتے ہوئے پاکستان پیپلز پارٹی میں شمولیت کا اعلان کر دیا۔ یہ اعلان کرتے ہوئے اُن کا کہنا تھا کہ ’’چوں کہ میرے والدین کا تعلق بھی پی پی پی سے تھا، اِس لیے مَیں اب اپنےپرانے گھرلَوٹ آئی ہوں۔‘‘ لیکن وہ اس ’’پرانے گھر‘‘میں بھی زیادہ دن نہ رُکیں، جس کی ایک وجہ پیپلز پارٹی میں پہلے ہی اُن جیسی کئی قابل اور نظریاتی خواتین کا موجود ہونا بھی تھا لہٰذا اُنہیں وہاں اپنی قابلیت اور سیاسی صلاحیتیں دکھانے کا کچھ زیادہ موقع نہ ملا اورمحض چار ماہ کے قلیل عرصے ہی میں انہوں نے پی پی پی کو بھی خیرباد کہہ دیا۔ جس کے بعد اُن کی اگلی سیاسی منزل پاکستان تحریکِ انصاف تھی۔
عمران خان نے بنی گالہ میں ایک تقریب میں پی ٹی آئی کے جھنڈے کے ساتھ اُن کا خیرمقدم کیااور تادمِ تحریر وہ پی ٹی آئی ہی کی رُکن ہیں۔ البتہ وہ ایک طویل عرصے سے کچھ علیل بھی تھیں تو اب صحت یابی کے بعد ایک بار پھر اپنے کام کے حوالے سے منصوبہ بندی میں مصروف ہیں۔ گرچہ موجودہ صورتِ حال میں بھی اُنہیں اپنے مقاصد کی تکمیل میں خاصی دشواریاں پیش آرہی ہیں، جس کی ایک تازہ مثال تو یہ ہے کہ ’’نیشنل کمیشن آن دی اسٹیٹس آف ویمن ‘‘ جو ایک قومی کمیشن ہے اور جسے قانونی حیثیت بھی حاصل ہے۔
یہ کمیشن 2012ء میں ایک صدارتی آرڈیننس کے ذریعے تشکیل دیا گیا تھا اور اس کے قیام کے مقاصد میں خواتین کی ترقّی کے لیے پالیسیاں، پروگرامز ترتیب دینا اور دیگر اقدامات وغیرہ شامل ہیں، 2018 ء میں اس آرڈیننس کو ترمیم کے ذریعے پارلیمنٹ کا حصّہ بنایا گیا، لیکن کمیشن غیر فعال ہی تھا، پی ٹی آئی حکومت نے اسے فعال کرنے کے لیے نیلوفر بختیار کو اس کاچیئرپرسن مقرر کیا، مگر پاکستان پیپلز پارٹی کی ارکان نے اس فیصلے کی سخت مخالفت کی اور حکومت کی جانب سےجاری کردہ نیلوفر کا نوٹیفیکیشن منسوخ کروا دیا۔
اس کے باوجود وہ اس حیثیت سے قومی اور بین الاقوامی اداروں کے حقوقِ نسواں سمیت سماجی خدمات کےدیگر اداروں کے ساتھ روابط میں ہیں۔ تاہم، اس حوالے سے ابھی تک ابہام موجود ہے، کیوں کہ پاکستان پیپلزپارٹی کی رکنِ قومی اسمبلی، نفیسہ شاہ، جو اس حوالے سے خاصی فعال ہیں، اُن کا دعویٰ ہے کہ نیلوفر بختیار کی تقرری کا نوٹیفکیشن منسوخ ہوچُکا ہے، لہٰذا وہ چیئرپرسن کا منصب سنبھال سکتی ہیں اور نہ اس حیثیت سے کوئی ذمّے داری انجام دے سکتی ہیں۔ لیکن نیلوفر اپنی سرگرمیوں سے نفیسہ شاہ کے اس دعوے سے بے نیاز ہی دکھائی دیتی ہیں۔ اس کی تازہ مثال یہ ہے کہ گزشتہ ماہ کے اختتام پر انہوں نے کمیشن کی چیئرپرسن کی حیثیت سے کراچی میں سندھ کے گورنر، عمران اسماعیل اور پنجاب اسمبلی کے اسپیکر، چوہدری پرویز الٰہی سمیت دیگر شخصیات سے نہ صرف ملاقاتیں کیں بلکہ مستقبل کے منصوبوں کے حوالے سے تبادلۂ خیال بھی کیا۔
نیز، کراچی کی ایک جیل میں قیدی خواتین اور دارالامان کا دَورہ کیا اور وہاں خواتین کو دَرپیش مسائل سننے کے ساتھ ہُنرمندی کے لیے وسائل کی فراہمی کے معاملات پر بھی بات چیت کی۔ علاوہ ازیں، نیلوفر بختیار رواں ماہ یورپی یونین کے تعاون سے چلنے والے ایک پراجیکٹ میں ایک اسٹرٹیجک پلان شروع کرنے کی منصوبہ بندی میں بھی مصروف ہیں اور یہ ملاقاتیں اِسی سلسلے کی ایک کڑی تھیں۔
بتایا جا رہا ہے کہ کمیشن پاکستان کے ہر ضلعے میں خواتین کی متنوّع آوازوں کی نمایندگی کے لیے پُرعزم ہے اوراِس نے ماضی میں بھی عوامی اور نجی شعبوں میں صنفی مساوات کےفروغ کے لیےگراں قدر کام کیاہے۔ نیلوفربختیار نے اپنی منصوبہ بندی کے حوالےسے کراچی اور لاہور سمیت مختلف شہروں کے دانش وَروں، ذرایع ابلاغ کے نمایندوں اور مختلف طبقات کی فعال شخصیات سےتعاون کی درخواست بھی کی ہے۔
اب ایک طرف تو سیاسی اور پارلیمانی سطح پر اُن کے خلاف مزاحمت کی منصوبہ بندی کی جارہی ہے، تو دوسری طرف وہ تمام رکاوٹوں کے باوجود اپنے سماجی کاموں میں بھی مصروف ہیں، جب کہ حکومت کی جانب سے بھی اُنہیں بھرپور معاونت حاصل ہے۔
تاہم، انہوں نے پاکستان تحریکِ انصاف کے اقتدار میں آنے سے پیش تر جس جوش و ولولے سے سیاسی اور انتخابی سرگرمیوں میں حصّہ لیا تھا، تاحال اُن کی ویسی سرگرمیاں دیکھنے میں نہیں آرہیں، حالاں کہ نیلوفر بختیار اعلیٰ تعلیم یافتہ ہونے کے ساتھ سیاسی شعور کے حوالے سے بھی انتہائی پختہ ہیں۔
عُمدہ گفتگو میں ماہرہیں اور اپنی سیاسی جماعت کا موقف بہت موثر انداز میں دلیل کے ساتھ پیش کرتی ہیں۔ سینیٹ کے ایوان میں ایک طویل عرصے تک مسلم لیگ (ق) کی ترجمانی اور اپنی سیاسی قیادت کے دفاع میں دلائل سے توجّہ حاصل کر تی رہیں۔ اِسی طرح جب وہ چند ماہ کے لیے پاکستان پیپلز پارٹی میں شامل ہوئیں، تو آصف علی زرداری کی وکالت میں بھی کوئی عار محسوس نہیں کی۔
پاکستان تحریکِ انصاف میں شمولیت کے ابتدائی عرصے میں تو وہ ٹی وی ٹاک شوز اور دیگر سیاسی سرگرمیوں میں نظر آئیں، لیکن اب ایک طویل عرصے سے کہیں نظر نہیں آرہیں۔ اُن کی سماجی سرگرمیوں سے متعلق کبھی کبھی اخبارات میں تو پڑھنے کو مل جاتا ہے، لیکن بعض اطلاعات کے مطابق وہ کیمرے کے سامنے آنے سے گریزاں ہیں۔ اِس کی وجہ طبیعت کی ناسازی بھی بتائی جا رہی ہے۔ مگر ان تمام باتوں کی تصدیق خود نیلوفر بختیار ہی کر سکتی ہیں۔ (جاری ہے)