• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

عالمی اقتصادی ڈھانچہ کورونا وبا کے بعد سے بحرانی کیفیت سے دوچار ہے۔یہ تباہی 2007 میں شروع ہونے والی عالمی کساد بازاری سے کہیں زیادہ نقصان دہ ثابت ہوئی ہے۔ تیل کی فی بیرل قیمت 100 امریکی ڈالرز کی بلند ترین سطح پر پہنچ چکی ہے ، جس کی متعدد وجوہات ہیں۔ دنیا وبائی امراض کے لاک ڈاؤن سے نکل رہی اور صنعتیں دوبارہ متحرک ہو رہی ہیں لیکن ایسا ہر ملک میں ممکن نہیں ہو پار ہا، خدشہ ہے کہ آنے والا توانائی بحران ترقی پذیر ممالک کو ترقی یافتہ ممالک سے کہیں زیادہ متاثر کرے گا۔ یہ بحران سنگین نتائج کاحامل ہو سکتا ہے۔ آگے بڑھنے کا واحد راستہ یہ ہے کہ پہلے اس طوفان کو سمجھ لیا جائے جو ہمارے سامنے سر اٹھا رہاہے۔

قیمتوں میں موجودہ اضافہ توانائی کے تینوں بنیادی ذرائع یعنی کوئلے، گیس اور تیل سے جڑا ہواہے۔ گھریلو اور صنعتی استعمال کے باعث قیمتیں عدم استحکام کا شکار رہیں گی۔ سال 2020 میں، کاروبار اور کارخانے بند ہونے کی وجہ سے، ڈیمانڈ میں زبردست کمی آئی، جس سے تیل اور گیس کی قیمتیں مستحکم رہیں۔ 2021میں، ویکسی نیشن کے بعد کاروبار کھلنا اور صنعتیں حرکت میں آنا شروع ہوئیں۔ چین اور امریکہ سب سے پہلے معاشی لاک ڈاؤن سے باہر آئے۔ یورپ بڑے پیمانے پر ویکسی نیشن میں سست تھا لیکن ستمبر کے آغاز تک یورپی ممالک پابندیاں ہٹانے اور فیکٹریوں کو پیداوار بڑھانے کی اجازت دینے میں کامیاب ہو گئے۔ مالیاتی سرگرمیوں میں بحالی سے نقل و حمل اور بین الاقوامی تجارت کا آغاز ہوا جس کی وجہ سے گیس اور تیل کی ڈیمانڈ میں شدید ترین اضافہ ریکارڈ کیا گیا۔ دوسری طرف سپلائی سسٹم ڈیمانڈ کو پورا کرنے کے قابل نہیں رہا۔ تیل کی سپلائی کو بنیادی طور پر O.P.E.C (آرگنائزیشن آف آئل ایکسپورٹ کنٹریز) کے ذریعے کنٹرول کیا جاتا ہے۔ بڑھتی ہوئی مانگ کے باعث تیل کے نرخ اور پیداوار میں واضح فرق آیا۔ اوپیک ممالک قیمتوں کو مستحکم رکھنے میںبری طرح ناکام رہے، پیداوار میں اضافہ ہواتوسپلائرز نے قیمتوں میں اضافہ کرنا شروع کر دیا جس نے قیمتوں کو مزید بڑھا کر 80 ڈالرز فی بیرل تک پہنچادیا۔ تیل کی سپلائی میں مصروف کئی بڑی کمپنیوں نے اپنی مشینری اور عملے کو محدودکر دیا تھاکیونکہ وبا کے دوران تیل کی طلب انتہائی سطح تک گِر چکی تھی۔ یہ سپلائی اور ڈیمانڈ کے طوفان کا آغاز تھا۔

موجودہ بحران کا دوسرا بڑا عنصر قابل تجدید توانائی کے ذرائع کی ناکامی ہے۔اگرچہ موسمِ سرما بھی نہیں تھا لیکن یورپ میں ونڈ اور سولر انرجی پیدا وار ناکافی ثابت ہوئی۔ اقوام متحدہ، آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک نے بنیادی طور پر ترقی یافتہ ممالک میں قابل تجدید توانائی کو فروغ دینے کے لیے اربوں ڈالر زکی سرمایہ کاری کی ، لیکن موسم سرما میں تقریباً تمام قابل تجدید ذرائع شمسی توانائی سے کم پیداوار دے پاتے ہیں۔ گھریلو سطح پر، شمسی توانائی کی دستیابی میں کمی کو قدرتی گیس کے استعمال کے ذریعے پورا کیا جاتا ہے۔ سردیوں سے پہلے ہی گیس کے زیادہ استعمال اور اس کی قیمتوں میں اضافے نے بین الاقوامی مارکیٹ میں تیل کی قیمت کو مزید بڑھا وا دیا۔ قدرتی گیس کا استعمال تیل کی کمی کو پورا کرنے سے قاصر ہے ۔ اسلئے پورے یورپ میں گیس اور تیل دونوں کی شدید قلت ہوئی۔ اکتوبر کے آغاز میں برطانیہ میں 90فیصد پیٹرول اسٹیشن بند کر دیے گئے ۔ایک اور بنیادی شے جو تیل، گیس اور قابل تجدید توانائی کی پیداوار کی کھپت اور قیمتوں سے گہرا تعلق رکھتی ہے وہ کوئلہ ہے۔ چین کوئلے کا سب سے بڑا صارف ہے اور بجلی کا ایک بڑا حصہ کوئلے سے بناتا ہے۔ ایندھن کی کمی اور سولر پلانٹس سے توانائی کی کم پیداوار نے چین میں توانائی بحران کو جنم دیا جہاں اب متعدد علاقوں کو بجلی کی بندش کا سامنا ہے۔

چین میں 1975کے بعد سے بجلی کی لوڈ شیڈنگ نہیں ہوئی ۔ چین میں کھپت کا انداز قدرتی گیس اور تیل کی قیمتوں کو مزید بڑھا دے گا کیونکہ تھرمل پاور پلانٹس میں پیداوار کے لیے درکار کوئلہ کم ہو جائے گا۔ اس کمی کا دو گنا اثر ہوگا، معاشی بحالی میں سست روی ہوگی اور گھریلو استعمال کے لیے قدرتی گیس کی قیمتوں میں ہمہ وقت اضافہ دیکھا جائے گا۔ گیس ذخائر پر انحصار کے باعث بھارت میں کوئلے کی فیکٹریاں پہلے ہی بند کر دی گئی ہیں۔

امریکہ گرین انرجی میں سرمایہ کاری کو فروغ دینے پر زور دے رہا ہے، جو آج تک توانائی کی طلب اور رسد کے درمیان فرق کو ختم کرنے میں ناکام رہی ہے۔ معاشی بحالی کے لیے فوسل فیول میں سرمایہ کاری کو بڑھانے کی ضرورت ہے ۔ ترقی یافتہ ممالک ماحولیاتی اثرات اور گلوبل وارمنگ سے پیدا ہونے والے خطرات کے حوالے سے سرمایہ کاری کرنے کی بجائے اپنے مفادات کے تحفظ کے لیے دیواریں تعمیر کر رہے ہیں۔ایک اندازے کے مطابق کوئلے، گیس اور تیل کے استعمال کی موجودہ شرح پر، 2040 تک دنیا کا درجہ حرارت تباہ کن سطح تک پہنچ جائے گا۔ انسانیت کو اس اجتماعی آفت سے نمٹنے کے لیے باہمی اقدامات کی اشد ضرورت ہے۔

پاکستان بھی بین الاقوامی، علاقائی اور ملکی اقتصادی طوفانوں کی لپیٹ میں ہے۔ تیل اور گیس کی بین الاقوامی قیمتیں ترقی پذیر معیشت کو مزید نقصان پہنچائیں گی۔ موسم سرما میں گھریلو اور صنعتی شعبوں میں گیس کی مانگ بڑھ جائے گی، جو ایک بحران میں بدل سکتی ہے۔ پاکستان حکومتی امور چلانے کے لیے درآمدی ڈیوٹیوں اور ٹیکسوں پر بہت زیادہ انحصار کرتا ہے اس لیے درآمدات میں رکاوٹ ڈالنا کوئی بہتر آپشن نہیں، اگر ایسا کیا گیا تو روپے کی قدر مزیدکم ہو جائے گی ،جو اقتصادی مسائل میں اضافے کا باعث ہو گی۔معاشی طوفان آنے والا ہے، پوری دنیا اس کی زد میں ہے آگے بڑھنے کا واحد راستہ باہمی اشتراک ہے۔ قومی، علاقائی اور بین الاقوامی تعاون اور انضمام آج کی اہم ضرورت ہے۔

انسانیت کی بقاء کے لئے وبائی مرض کے خلاف باہمی حکمتِ عملی کی طرح مل بیٹھ کر تیاری کرنے اوروسائل کی منصفانہ تقسیم کا وقت ہے۔اب وقت آگیا ہے کہ عالمی سطح پر فیصلہ کیا جائے کہ امیر کو امیر اور غریب کو غریب تر نہیں ہونا چاہئے۔

(مضمون نگار جناح رفیع فاؤنڈیشن کے چیئرمین ہیں)

تازہ ترین