• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پاکستان قائم ہونے کے 74سال بعد آج بھی علمی و ادبی حلقوں میں یہ بحث جاری ہے کہ علامہ اقبال اصل میں کس طرح کا پاکستان دیکھنا چاہتے تھے، وہ کیسا نظام چاہتے تھے؟ علامہ اقبال اور قائداعظم کی انتھک کوششوں سے ہندوستان کی تقسیم دو آزاد مملکتوں میں ہوئی اور مسلمانوں کے لئے دنیا کے نقشے پر ایک نیا ملک وجود میں آیا۔ لیکن ہم آج بھی اسی صورت حال سے دوچارہیں جو آزادی کے وقت تھی،پاکستان میں بدعنوانی،مہنگائی،بے روزگاری عروج پر ہے، ان برسوں میں ہم اپنے پائوں پر کھڑے نہ ہوسکے، غیر ملکی قرضوں کا حجم اس قدر ہے کہ ہماری اگلی نسلیں بھی ان قرضوں کے بوجھ تلے دبی رہیں گی، ملک میں سیاسی ماحول بھی ایساا نہیں رہا ہے جوہمارے جمہوری ہونے کا ثبوت فراہم کرسکے، ہمارا عدالتی نظام بھی اس قدرمضبوط ثابت نہ ہوسکا جس کا خواب تحریک پاکستان کے رہنمائوں نے دیکھا تھا۔ پاکستان اس وقت تیزی سے بدلتی معاشی و سیاسی صورتحال سے دوچار ہے، جس کے سبب ملک میں معاشی عدم استحکام کے بڑھنے کا خدشہ ہے۔کسی بھی ملک کا دفاع اس کی مظبوط معیشت سے ہی ممکن ہے،مگر پاکستان کی موجودہ صورت حال اس حوالے سے بہت زیادہ خطر ناک نظر آرہی ہے، حکومت اور حزبِ اختلاف میں جاری کشیدگی اور لفظی جنگ کے ختم ہونے کا کوئی امکان نظر نہیں آرہا۔ ایک دوسرے پر لگائے جانے والے الزامات سیاسی ماحول کو مزید آلودہ کررہے ہیں۔ حکومتی طرزِ عمل نے حزبِ اختلاف کے اتحاد کو مزید مستحکم کردیا ہے۔ پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) میں شامل جماعتیں وسیع عوامی نمائندگی کے ساتھ حکومت کے خلاف صف آرا ہیں۔ ملکی سیاست دو انتہاؤں میں تقسیم ہوگئی ہے اس میں اعتدال کا عنصر ختم ہوگیا ہے۔ سیاسی مخالفین کے درمیان اعتماد کا فقدان اس حد تک بڑھ چکا ہے کہ قومی ضرورت اور مشترکہ مفاد کے حامل معاملات پر بھی آپس میں بہت کم تعاون کیا جاتا ہے۔ اسٹیبلشمنٹ کو سیاسی کھیل میں گھسیٹا جا رہا ہے۔ بڑھتی ہوئی کشیدگی اور سیاسی درجہ حرارت کی وجہ سے ملک کو درپیش معاشی چیلنجز سے توجہ ہٹ رہی ہے۔ سیاسی عدم استحکام معاشی ترقی کا سب سے بڑا دشمن ہوتا ہے اور خاص طور پر ایسے وقت میں جب ملک پہلے ہی کورونا کی وجہ سے معاشی دباؤ کا شکار ہے، ایسی صورتحال میں حکومت کی توجہ عوام کو درپیش مسائل کے حل کے بجائے سیاسی رسہ کشی پر ہو تو حکومت پر سے عوام کا اعتماد اٹھ جاتا ہے۔ ۔حکومت اور اپوزیشن دونوں سیاسی نظام کو لاحق خطرات کے پیش نظر جاری کشیدگی کم کریں اور مذاکرات کی میز پر اپنے اختلافات حل کریں۔ سیاستدانوں کے مابین جاری چپقلش کو دیکھتے ہوئے شاید یہ سمجھنا خوش گمانی ہی ہوگی کہ وہ کسی قومی معاہدے پر تیار ہوں گے۔ بہرحال مستقبل کے لئے اصول اور ضابطوں کا تعین ہوسکتا ہے اور ہونا بھی چاہئے۔ ساتھ ہی ملک کو درپیش دفاعی اور معاشی چیلنجز سے نمٹنےکے لئے اتفاق رائے ہونا چاہئے اور اسے تمام اداروں کی حمایت بھی حاصل ہونی چاہئے،ا س وقت ملک میں مہنگائی اور گرانی نے شہریوں کا جینا حرام کردیا ہے، بے روزگاری عروج پر ہے، جس نے لوگوں کو ذہنی طور پر معذور کر دیا ہے، ملک میں صحت،تعلیم سمیت ہر نظام مکمل طور پر تباہی کا شکار ہے،افغانستان میں طالبان کے کنٹرول کے بعد خطے کی سیاسی اور معاشی صورتِ حال پر گہرے اثرات مرتب ہونے کا امکان ہے، سیاسی اور دفاعی ماہرین ماضی کی طرح اس مرتبہ بھی افغانستان کی صورتِ حال کا براہ راست اثر بلوچستان پر پڑنے کا خدشہ ظاہر کر رہے ہیں۔ بھارت ایک بار پھر پاکستان میں دہشت گردی کو فروغ دینے کی کوشش کررہا ہے، افغانستان میں مسلسل اس کی مداخلت جاری ہے جہاں دھماکوں کا سلسلہ نہیں رک رہا، افغانستان میں حالات قابو میں نہ آئے تو اس سے براہ راست پاکستان متاثر ہوگا،پی ٹی آئی حکومت سے جو توقعات وابستہ کی گئی تھیں وہ پوری نہیں ہوئیں،پیٹرول کی قیمتوں میں ہر روز بے پناہ اضافہ مہنگائی کے جن کو بے قابو کررہا ہے ۔ملک میں جاری سیاسی بحران ہر نئے دن کے ساتھ بڑھتا جارہا ہے،، تاجر برادری اور صنعت کار اپنا کاروبار سمیٹ رہے ہیں، ان کا اعتماد متزلزل ہوچکا ہے۔

تازہ ترین