• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

دُنیا بَھر میں ہر سال’’International Association For The Study Of Lungs Cancer‘‘کے زیرِ اہتمام نومبرکا پورا مہینہ’’پھیپھڑوں کے سرطان سے متعلق آگہی‘‘کے طور پر منایا جاتا ہے،جس کا مقصد اس موذی مرض کے حوالے سے ہر سطح تک معلومات عام کرنا ہے، کیوں کہ پوری دُنیا میں پھیپھڑوں کا سرطان، مریضوں کی تعداد کے اعتبارسے بریسٹ کینسر کے بعد دوسرے نمبر پر شمار کیا جاتا ہے۔

عالمی ادارۂ صحت کی جانب سے جاری کردہ اعدادوشمار کے مطابق 2020ء میں دُنیا بَھر میں 22لاکھ افراد اس عارضےکا شکار ہوئے، جب کہ تقریباً 18لاکھ لقمۂ اجل بنے۔ واضح رہے، سرطان کی دیگر اقسام کی نسبت پھیپھڑوں کا سرطان زیادہ مہلک ثابت ہوتا ہے کہ اس سے ہونے والی اموات کی شرح دیگر کینسرز کے مقابلے میں بُلند ہے۔

پھیپھڑے ہمارے جسم کے اہم ترین اعضاء ہیں، جو دائیں بائیں جانب ایک دوسرے کے ساتھ منسلک ہوتے ہیں اور لوبیے کے بیج کی مانند دکھائے دیتے ہیں۔ تنفّس کا عمل ان ہی کے ذریعے انجام پاتا ہے۔ دراصل جب ہم سانس لیتے ہیں، تو ہوا ناک کے راستے پھیپھڑوں کے اندرونی حصّوں تک پہنچتی ہے۔ پھیپھڑے، ہوا سے صاف آکسیجن الگ کرکے خون میں شامل کرتے ہیں(جو کہ جسم کو توانائی پہنچانے کے لیے انتہائی ضروری ہوتی ہے) اور مضر کاربن ڈائی آکسائیڈ خارج کردیتے ہیں۔

یہ پورا عمل ایک منظم نظام کے تحت انجام پاتا ہے، جس کے لیے پھیپھڑوں کا صحت مند ہونا ضروری ہے۔ اگر پھیپھڑے صحت مند ہوں گے، تو ہمیں سانس لینے میں کسی قسم کی دشواری کا سامنا نہیں کرنا پڑے گا۔ کورونا وبا کے دوران عوامی سطح پر اس بات کا زیادہ مشاہدہ کیا گیا اور پھیپھڑوں کی اہمیت بھی عام لوگوں پر واضح ہوئی۔ کورونا وائرس سانس کے ذریعے براہِ راست پھیپھڑوں پر حملہ آور ہوتا ہے اور ان کی کارکردگی متاثر کرکے سانس لینے میں دشواری کا باعث بنتا ہے۔ 

کووڈ-19سے متاثرہ متعدّد مریض آکسیجن کی کمی کا شکار ہوئے، جن میں سے کئی مریضوں کو سادہ طریقے سے آکسیجن فراہم کی گئی، جب کہ وہ مریض ،جن کے سانس لینے کا عمل وقتی طور پر معطل ہوگیا، انہیں وینٹی لیٹر کے ذریعے پریشر کے ساتھ آکسیجن فراہم کی گئی۔ اس سے بھی پھیپھڑوں کی اہمیت کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔

٭ پھیپھڑوں کے عوارض: پھیپھڑوں کے کئی امراض ہیں، جن میں نمونیا اور اس کی بدترین شکل کورونا وائرس، دائمی کھانسی، سانس کی بیماری، دَمہ، ٹی بی وغیرہ شامل ہیں۔ ان میں سب سے مہلک پھیپھڑوں کا سرطان ہے۔ جس طرح ہمارے جسم کے دیگر اعضاء خلیات پر مشتمل ہوتے ہیں، بالکل اِسی طرح پھیپھڑوں میں بھی کئی ہزار خلیے تہہ در تہہ پائے جاتے ہیں۔اگر یہ خلیےغیر معمولی طور پر تعداد اور حجم میں بڑھنا شروع ہوجائیں، تو بڑھتے بڑھتے ایک گچّھے کی شکل اختیار کرلیتے ہیں، جسے طبّی اصطلاح میں ٹیومر یا رسولی کہا جاتا ہے۔

خلیات میں یہ اضافہ جسم میں کئی خرابیوں کا باعث بنتا ہے۔جیسا کہ جسم کے کسی حصّے میں خون کی فراہمی میں رکاوٹ یا رگوں کو دباؤ کے ذریعے ناکارہ کردینا وغیرہ۔ پھیپھڑوں کے سرطان کا علاج انتہائی منہگا اور مشکل ہے، لیکن اس سے بچاؤ کی تدابیر اُسی قدر آسان اور ہر ایک کے لیے سہل ہیں۔ دُنیا بَھر کے طبّی ماہرین اور تحقیقی ادارے اس بات پر متفق ہیں کہ پھیپھڑوں کا سرطان لاحق ہونے کی بنیادی وجہ تمباکو کا استعمال ہے، چاہے وہ سگریٹ کی شکل میں کیا جائے یا حقّے، شیشے وغیرہ کے ذریعے۔ایک محتاط اندازے کے مطابق تمباکو نوشی سے پھیپھڑوں کے سرطان میں مبتلا ہونے کی شرح 80سے 90فی صد ہے۔ 

دراصل، تمباکو میں نکوٹین سمیت تقریباً چار ہزار مضرِ صحت کیمیائی اجزاء پائے جاتے ہیں، جو سگریٹ کا کش لگانے کی صُورت میں سانس کے ذریعے پھیپھڑوں کے اندر تک پہنچ کر نقصان برپا کردیتے ہیں۔ ان کیمیکلز میں کاربن مونو آکسائیڈ، سلفر ڈائی آکسائیڈ، سائنائڈ وغیرہ شامل ہیں اور یہ سب مضر اجزاء مل کرہی پھیپھڑوں کے کینسر کا باعث بنتے ہیں۔ اسی بناء پر اس بیماری کو ہمیشہ سگریٹ نوشی کے ساتھ منسوب کیا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ ماحول میں آلودگی، تمباکو نوش کے ساتھ وقت گزارنے والے افراد(مثلاًاہل خانہ اور کولیگز وغیرہ)بھی اس بیماری کے خطرے سے دوچار رہتے ہیں۔ 

ایک طبّی تحقیق میں ماہرین نے یہ تجویز کیا ہے کہ جو افراد 30سال یا اس سے زائد عرصے سے سگریٹ نوشی کی علت کا شکار ہیں اور اس وقت 55 سے 80 سال کی عُمر کے درمیان ہیں یا جو 30برس یا اس سے زیادہ عرصے سے سگریٹ نوشی کررہے ہیں اور جو افراد ترک تو کرچُکے ہیں، لیکن عُمر کے کسی بھی حصّے میں15 سال مسلسل سگریٹ نوشی کرتے رہے ہیں،اُنہیں پھیپھڑوں کے کینسر سے بچاؤ کے لیے وقتاً فوقتاً مستند معالج سے معائنہ کرواتے رہنا چاہیے۔ اس کے علاوہ قدرتی طور پر پائی جانے والی ایک تاب کار گیس Radon بھی پھیپھڑوں کے کینسر کا موجب بن سکتی ہے۔ شہری آبادی میں اس بیماری کا تناسب زیادہ پایا جاتا ہے، جس کی ایک وجہ ماحولیاتی اور صنعتی آلودگی ہے۔

٭ علامات: عمومی طور پر پھیپھڑوں کے سرطان کی علامات مختلف ظاہر ہوتی ہیں۔ اس کا انحصار متاثرہ جگہ پر رسولی کے حجم اور جسم میں دیگر حصّوں تک سرطان کے پھیلاؤ یا بلاواسطہ اثر سےہوتا ہے۔ تاہم، پھیپھڑوں کے سرطان کی سب سے عام علامت کھانسی ہے۔ ابتدا میں خشک کھانسی ہوتی ہے،مگر بعدازاں بلغمی بھی ہو سکتی ہے۔ واضح رہے، اگر کوئی فرد تمباکونوشی کی وجہ سے پہلے ہی سینے کی بیماری میں مبتلا ہو اوراچانک ہی کھانسی کی شدّت بڑھ جائے یا کھانسی کے ساتھ کوئی نئی علامت بھی ظاہر ہو، تو فوری طور پر معالج سے رجوع کیا جائے کہ یہ پھیپھڑوں کے سرطان کی علامت ہو سکتی ہے۔ 

تھوک یا بلغم میں خون کی آمیزش بھی ایک اہم علامت گردانی جاتی ہے۔ اگر تمباکونوشی کے عادی افراد کے بلغم میں خون خارج ہو، تو بہتر ہوگا کہ معالج کے مشورے سے پھیپھڑوں کے سرطان کا ٹیسٹ کروالیا جائے۔ بعض کیسز میں بلغم کے ساتھ خون کا زائد اخراج جان لیوا بھی ثابت ہوسکتا ہے۔ پھیپھڑوں کے سرطان کی دیگر علامات میں سانس لینے میں دشواری، سینے میں درد، غذا نگلنے میں دشواری، آواز بیٹھ جانا، گلے میں گلٹیاں بننا، پٹّھوں کی کم زوری اور تیزی سے وزن میں کمی وغیرہ شامل ہیں۔

اگرچہ ان تمام تر علامات میں سے کسی کو بھی کینسر کی حتمی علامت نہیں کہا جا سکتا ہے، لیکن انھیں نظر انداز بھی نہیں کیا جاسکتا۔ بہر حال، اگر مذکورہ علامات میں سے کوئی ایک بھی ظاہر ہو، تو بہتر تو یہی ہے کہ جلد از جلد ماہر معالج سے رجوع کرکے مرض کی حتمی تشخیص کروالی جائے، تاکہ بروقت علاج ممکن ہوسکے۔

٭ تشخیص: سرطان کے کام یاب علاج کے لیے بروقت تشخیص سب سے اہم اور ضروری ہے کہ اس سے علاج کی کام یابی کے امکانات کئی گنا بڑھ جاتے ہیں۔ اس کے علاوہ علاج کے اخراجات اور مرض کی تکالیف بھی خاصی حد تک کم کی جا سکتی ہیں۔ 

عمومی طور پر تشخیص کے لیے ایکس رے یا پھر سی ٹی اسکین تجویز کیا جاتا ہے۔ تاہم، حتمی تشخیص کے لیے بائیوآپسی ناگزیر ہے۔ اس کے علاوہ ’’Bronchoscopy‘‘ بھی تجویز کی جاسکتی ہے، جس میں کیمرے کےذریعے معائنہ کیا جاتا ہے۔ بعض کیسز میں Pet Scan بھی کیا جاتا ہے، تاکہ یہ جانچ کی جاسکے کہ آیا جسم میں سرطان کس حد تک پھیل چُکا ہے۔

٭ علاج: سرطان کی حتمی تشخیص کے بعد علاج کا مرحلہ آتا ہے، جو مرض کی اسٹیج، قسم، حجم اور پھیلاؤ کے مطابق کیا جاتا ہے۔ نیز، مریض کی عمومی صحت، پھیپھڑوں کی طاقت اور علاج کے لیے مریض کی سکت کا بھی جائزہ لیا جاتا ہے، تاکہ انہیں سامنے رکھتے ہوئے علاج کا طریقۂ کار تجویز کیا جاسکے۔ 

سرطان کے علاج کے چار طریقے مستعمل ہیں، جن میں آپریشن، کیمو تھراپی، ریڈی ایشن اور اِمیونو تھراپی (Immunotherapy) شامل ہیں۔ اگر ٹیومر اپنی جگہ پر محدود ہو اور اس کی تشخیص ابتدائی مرحلے ہی میں ہوجائے، تواسے آپریشن کے ذریعے نکال دیا جاتا ہے۔ نیز، آپریشن کے بعد صحت یابی کے امکانات بھی بڑھ جاتے ہیں۔ اگر ٹیومر مخصوص جگہ سے جسم کے دیگر حصّوں تک پھیل چُکا ہے اور آپریشن کے ذریعے علاج ممکن نہیں، تو پھر کیموتھراپی کا طریقہ اختیار کیا جاتا ہے۔ کیمو تھراپی میں انجیکشنز اور ادویہ کے ذریعے علاج کیا جاتا ہے۔ تیسرے طریقے میں شعاؤں کے ذریعے (ریڈی ایشن)سرطان کے سیلز ختم کیے جاتے ہیں۔ 

یہاں اس بات کی وضاحت ازحدضروری ہے کہ کیمو یا ریڈی ایشن تھراپیز کے ذریعے سرطان کا جڑ سے خاتمہ نہیں کیا جاسکتا ، البتہ جسم کے دیگر حصّوں تک اس کے پھیلاؤ کی روک تھام ممکن ہے۔ اِمیونو تھراپی میں مریض کو بہت ایڈوانس ادویہ استعمال کروائی جاتی ہیں۔ تاہم یہ طریقۂ علاج عام نہیں ہے۔ بہرحال ،یہ بات ذہن نشین کرلیں کہ چاہے علاج کاجو بھی طریقہ تجویز کیا جائے، اس کا دورانیہ لازماً مکمل کریں، جب کہ مکمل علاج کے بعد معالج کی ہدایت کے مطابق معائنہ (follow up) بھی لازماً ہونا چاہیے، کیوں کہ بعض کیسز میں کام یاب علاج کے بعد بھی سرطان زدہ چھوٹے ذرّات جسم میں رہ جاتے ہیں، جن کی تعداد میں بتدریج اضافہ ہوتا چلا جاتا ہے، لہٰذا متواتر معائنہ ناگزیر ہے، تاکہ خدانخواستہ ایسی کسی صُورت میں بھی بروقت علاج کیا جا سکے۔

٭ مرض سےبچاؤ کی عمومی احتیاطی تدابیر: عالمی ادارۂ صحت نے پھیپھڑوں کے سرطان سے بچاؤ کی گائیڈ لائنز میں جو عمومی احتیاطی تدابیر بیان ہیں، اُن میں تمباکو نوشی سے اجتناب برتنا، قد کی مناسبت سے وزن برقرار رکھنا، متوازن غذا سمیت موسمی پھل، سبزیوں کا استعمال، باقاعدگی سے ورزش یا واک کرنا، الکحل سے پرہیز، اگر معالج تجویز کرے، تو ایچ پی وی اور ہیپاٹائٹس بی سے بچاؤ کی ویکسین لگوانا اور آلودہ اور تاب کاری اجزاء سے محفوظ ماحول میں رہنا وغیرہ شامل ہیں۔

پھیپھڑوں کا سرطان ایک جان لیوا مرض ہے، جس کے بارے میں جاننا اور اس سے بچاؤ کے لیے احتیاط تدابیر پر عمل انتہائی ضروری ہے۔ واضح رہے، اس طرح کے آگاہی مضامین کا مقصد عوام الناس کو مرض سے خوف زدہ یا شکوک و شبہات میں مبتلا کرنا نہیں، بلکہ انہیں اپنی صحت برقرار رکھنے کے لیے عمومی احتیاطی تدابیر اختیار کرنے کی جانب متوجّہ کرنا ہوتا ہے، تاکہ کسی بھی بیماری سے محفوظ رہا جا سکے اور بیماری ہونے کی صُورت میں اس کا بروقت علاج ممکن ہو سکے۔ 

البتہ اس موذی مرض کا پھیلاؤ روکنے کے لیے حکومت کو چاہیے کہ ترجیحی بنیادوں پر انسدادِتمباکو نوشی کے مختلف اقدامات کرے، جن میں سگریٹ پر عائد ٹیکسز میں مزید اضافہ، تعلیمی اداروں اور تمام پبلک مقامات پر اس کے استعمال کی پابندی پر سختی سے عمل درآمد وغیرہ شامل ہیں۔نیز، مرض کی بروقت تشخیص کے لیے تمام سرکاری اسپتالوں میں سرطان کا شعبہ قائم کیا جائے، جہاں تمام ضروری وسائل کے ساتھ ماہر ڈاکٹرز بھی موجود ہوں۔ (مضمون نگار، پشاور میڈیکل کالج میں بطور پروفیسر آف پلمونولوجسٹ خدمات انجام دے رہے ہیں۔ نیز، پاکستان اسلامک میڈیکل ایسوسی ایشن (پیما) ، خیبر پختون خوا کے سینئر ممبرہیں)

مضمون نویس معالجین توجّہ فرمائیں!!

اگر آپ شعبۂ طب سے وابستہ ہیں اور لکھنے کےشائق ہیں، تو ہمیں سنڈے میگزین کے سلسلے’’ہیلتھ اینڈ فٹنس‘‘ کے لیےاپنے علم، تجربات اور مشاہدات پر مبنی تحریریں ارسال کرسکتے ہیں، تاکہ عام افراد مختلف امراض اور اُن سے بچاؤ سے متعلق حفاظتی تدابیر سے آگاہ ہوسکیں۔ لکھنے کے شائق معالجین سے درخواست ہے کہ اپنےمضامین کے ساتھ، اپنی پاسپورٹ سائز واضح تصاویر بھیجیں ۔ نیز، مکمل تعارف اور رابطہ نمبر بھی لازماً تحریر کریں، کیوں کہ کچھ تحریروں میں لکھی جانے والی مخصوص طبّی معلومات یا کسی ابہام کی تصحیح یا درستی کے لیے مضمون نگار سے براہِ راست رابطہ ضروری ہوجاتا ہے،اپنی تحریریں اِس پتے پر ارسال فرمائیں۔

ایڈیٹر، سنڈے میگزین،صفحہ’’ہیلتھ اینڈ فٹنس‘‘روزنامہ جنگ، شعبۂ میگزین،

اخبار منزل، آئی آئی چندیگر روڈ، کراچی۔

ای میل sundaymagazine@janggroup.com.pk:

تازہ ترین