اگرچہ حکیم الامّت، علّامہ محمّد اقبالؒ اپنی عُمر کے آخری برسوں میں لاہور کی ادبی و شعری مجالس سے کنارہ کش ہو چُکے تھے، لیکن اس کے باوجود لاہور کو اُن کے وجود نے وہ مرتبہ اور رونق عطا کر رکھی تھی، جو کبھی قدیم دلی کو غالب نے بخشی تھی۔ ادیب، شعراء، علماء، صحافی، سیاست دان، قانون دان، اساتذہ اور طلبہ اُن کی خدمت میں حاضر ہوتے۔انہی حاضر باش ہم عصروں میں سے کئی ایک نے اپنی آپ بیتیوں میں شاعرِ مشرق سے ملاقاتوں کا بھی تذکرہ کیا۔
اِس لیے یہ کہنا بے جا نہ ہو گا کہ برّصغیر کے مختلف مشاہیر کی آپ بیتیاں ذکرِ اقبال کا بہترین مرقّع ہیں، جن میں بیان کیے گئے بعض واقعات پڑھ کر شاعرِ مشرق کی فکر و شخصیت کی ایسی تصویر سامنے آتی ہے، جو خوش کُن بھی ہے اور حیران کُن بھی۔
معروف ادیب اور طبیب، حکیم احمد شجاع کا تعلق لاہور کے ایک نیک نام گھرانے سے تھا۔وہ اپنی خود نوشت’’ خوں بہا‘‘ میں علّامہ اقبال کی پہلی غزل کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں،’’مَیں نے بزرگوں سے سُنا ہے کہ 1890 ء میں میرے والد نے اردو زبان کی روز افزوں ہر دِل عزیزی سے متاثر ہو کر فارسی اور عربی میں شعر کہنا چھوڑ دیا اور ایک’’ اردو بزمِ مشاعرہ‘‘ کی بنا ڈالی۔’’ شورِ محشر‘‘ اُسی بزمِ مشاعرہ کا آرگن تھا۔یہ مشاعرہ ہر ہفتے میرے عم زاد بھائی، حکیم امین الدّین( بیرسٹر ایٹ لا) کے مکان پر منعقد ہوتا اور وہاں جو کلام پڑھا جاتا تھا،وہ ماہانہ’’ شورِ محشر‘‘ میں شایع ہوتا۔
اس رسالے کے ایڈیٹر شعر و شاعری میں میرے سب سے پہلے استاد، خان احمد حسین خان تھے۔سَر محمّد اقبال نے، جو اُس وقت گورنمنٹ کالج، لاہور میں پڑھتے تھے،اپنی پہلی غزل اسی مشاعرے میں پڑھی۔اتفاق کی بات ہے کہ جس سال مَیں پیدا ہوا، اُسی سال اقبال نے اس مشاعرے میں وہ شعر پڑھا جس کا چرچا بہت دیر تک اربابِ ذوق کے حلقوں میں رہا۔اُن کا یہ شعر اب تک پرانے لوگوں کی زبان پر جاری ہے ؎’’موتی سمجھ کے شانِ کریمی نے چُن لیے…قطرے جو تھے مرے عرق انفعال کے۔‘‘میاں امیر الدّین لاہور کے ایک مخیّر گھرانے کے چشم و چراغ تھے۔
اُنہیں گورنمنٹ کالج، لاہور میں علّامہ اقبال کی شاگردی کا شرف حاصل ہوا۔اپنی خودنوشت’’یادِ ایام ‘‘ میں بیان کرتے ہیں کہ’’ جب مَیں 14 ویں جماعت میں تھا، تو ہمارے انگریزی کے استاد چلے گئے۔اُن کی جگہ علّامہ اقبال انگریزی شاعری کے لیے ہمارے استاد مقرّر ہوئے۔
ڈاکٹر صاحب کا لباس انگریزی ہوتا اور وہ اُنہیں خُوب سجتا تھا۔شیلے کی نظم’’ Adonis‘‘ اور ورڈز ورتھ کی نظم ’’Ode to Immortality‘‘ ہمارے نصاب میں شامل تھیں۔ علّامہ صاحب نے یہ دونوں نظمیں جس طرح ڈوب کر پڑھائیں، اُس کیفیت کا اثر تاحال دل و دماغ میں موجود ہے۔پوری جماعت پر ایک سحر طاری تھا۔حق یہ ہے کہ وہ ایک بڑے ہی کام یاب استاد تھے۔انگریزی زبان پر بے پناہ قدرت تھی۔
اُن کی گفتگو میں چاشنی اور شگفتگی کا جوہر نمایاں ہوتا تھا۔چناں چہ، اُن کا لیکچر خواہ کتنا ہی طویل ہوتا، اُس میں کتنی ہی باریک باتیں بیان کی گئی ہوتیں، کبھی بوجھل محسوس نہ ہوتا تھا۔‘‘واضح رہے، میاں امیر الدّین کے والد، میاں جلال الدّین، علّامہ اقبال کے قریبی دوستوں میں شامل تھے۔ علّامہ کی وفات کے بعد اُن کی صاحب زادی، منیرہ بانو کی شادی اُنہی میاں امیر الدّین کے بیٹے، میاں صلاح الدّین سے ہوئی تھی۔
علّامہ اقبال اپنے استاد شمس العلماء، مولوی سیّد میر حسنؒ کا بے حد احترام کرتے تھے۔جب انگریز حکومت نے آپ کو’’ سَر‘‘ کا خطاب دینے کا فیصلہ کیا، تو اُس موقعے پر آپ ہی کی تجویز پر سرکار نے مولوی سیّد میر حسن کو بھی شمس العلماء کا خطاب دیا۔
گورنر نے دریافت کیا،’’ مولوی صاحب نے اب تک کتنی کتابیں لکھی ہیں؟‘‘ تو علّامہ صاحب نے مُسکراتے ہوئے جواب دیا،’’ ان کی’’ زندہ تصنیف ‘‘ میری صُورت میں آپ کے سامنے موجود ہے۔‘‘فقیر سیّد وحید الدّین’’ روزگارِ فقیر‘‘ میں بیان کرتے ہیں کہ’’ ستمبر 1929 ء میں مولوی صاحب کا انتقال ہوا، تو شہر سیال کوٹ ماتم کدہ بن گیا۔چھوٹے، بڑے ہر مذہب و ملّت کے لوگ غم زدہ اور ملول تھے،جیسے اُن کے خاندان کا کوئی بزرگ دنیا سے اُٹھ گیا ہے۔
ڈاکٹر صاحب کو اپنے شفیق استاد کے انتقال کی خبر ملی، تو وہ میکلورڈ روڈ والے مکان سے اُسی وقت، خبر سُنتے ہی ریلوے اسٹیشن کی طرف چل پڑے۔وہاں پہنچ کر پتا چلا کہ اِس وقت سیال کوٹ کوئی گاڑی نہیں جاتی۔اتفاق کی بات کہ اُس وقت ایک مال گاڑی وزیر آباد جا رہی تھی۔ڈاکٹر صاحب اُس میں بیٹھ گئے اور وزیر آباد پہنچ کر وہاں سے سیال کوٹ جانے کا کوئی بندوبست کیا۔‘‘
علی گڑھ کی تاریخی درس گاہ سے علّامہ اقبال کا قلبی و روحانی تعلق تھا۔اس سلسلے میں بریگیڈئیر (ر) اقبال شفیع نے اپنی آپ بیتی’’ تلاشِ منزل‘‘ میں ایک دِل چسپ خواب کا تذکرہ کیا ہے۔سر سیّد احمد خان کے پوتے، سر راس مسعود کے نام خط میں مذکورہ خواب کا ذکر کرتے ہوئے علّامہ اقبالؒ نے تحریر فرمایا’’3 اپریل کی شب کو جب مَیں بھوپال میں تھا،مَیں نے تمھارے دادا(سر سیّد احمد خانؒ) کو خواب میں دیکھا۔
مجھ سے فرمایا کہ’’ اپنی علالت کے متعلق حضور رسالت مآب ؐ کی خدمت میں عرض کر۔‘‘مَیں اُسی وقت بیدار ہو گیا اور کچھ شعر عرض داشت کے طور پر فارسی زبان میں لکھے۔کُل سات شعر ہوئے۔لاہور آ کر خیال ہوا کہ یہ چھوٹی سی نظم ہے۔اگر کسی بڑی مثنوی کا حصّہ ہو جائے، تو خُوب ہے۔الحمد للہ، یہ مثنوی بھی اب ختم ہو گئی ہے۔مجھ کو اس مثنوی کا گمان بھی نہ تھا۔بہرحال اس کا نام ہو گا’’ پس چہ باید کرد اے اقوامِ مشرق‘‘۔ضربِ کلیم کے بعد اس کی کتابت شروع ہوگی۔‘‘
واضح رہے کہ سَر راس مسعود کے نام تحریر کیا گیا یہ خط ’’کلیاتِ مکاتیبِ اقبال‘‘ کی چوتھی جِلد میں بھی شامل ہے۔ بریگیڈئیر (ر) اقبال شفیع کے مطابق،’’ سر سیّد کی وفات کے بعد علّامہ نہ صرف سَر آغا خان، سَر شیخ عبدالقادر، میاں فضل حسین اور سَر شاہ سلیمان جیسے نام ور محبّانِ علی گڑھ کے ساتھ مِل کر یونی ورسٹی کے قیام کے سلسلے میں روپے جمع کرنے کی مہم میں سرگرم رہے، بلکہ خود تین دفعہ علی گڑھ تشریف لائے۔
9 فروری 1911ء میں اپنے لیکچر بمقام اسٹریچی ہال میں فرمایا کہ’’ مسلمانوں کو اپنی تاریخ سے واقفیت اور مذہب سے لگاؤ کی اشد ضرورت ہے، کیوں کہ اسلامی شعار سے الگ ہو کر ہمارے نوجوان دنیاوی ترقّی تو کر سکتے ہیں،مگر قوم و مذہب کے لیے باعثِ فخر نہیں ہو سکتے۔‘‘یاد رہے، بریگیڈئیر (ر) اقبال شفیع کا بچپن علی گڑ ھ ہی میں گزرا اور وہیں سے تعلیم حاصل کی۔اُن کے والد، پروفیسر ایس ایم شفیع علی گڑھ میں معاشیات کے استاد تھے۔
عبدالوحید خاں تحریکِ پاکستان کے ممتاز کارکن اور پاکستان کی پہلی دستور ساز اسمبلی کے رُکن تھے۔ایّوب دَور میں ریلوے اور اطلاعات و نشریات کے مرکزی وزیر رہے۔ وہ اپنی کتاب’’ تاثرات و تصوّرات ‘‘ میں لکھتے ہیں،’’بالِ جبریل‘‘ شائع ہو چُکی تھی۔
بانگِ درا کی اشاعت کے مدّت بعد اردو زبان میں کلام کے مجموعے کی اس اشاعت سے تمام مُلک میں عقیدت کا اظہار کیا جا رہا تھا۔رسائل و اخبارات اور تمام علمی و ادبی حلقوں میں’’ بالِ جبریل ‘‘ کا غیر معمولی استقبال ہو رہا تھا، لیکن لکھنؤ کے بعض حلقے سخت نکتہ چینی میں مصروف تھے۔ان میں’’ اودھ پنچ‘‘ بہت پیش پیش تھا۔اس کے پیش کردہ اعتراضات میں سے ایک اعتراض، مَیں نے علّامہ کے سامنے بیان کیا، جو’’ بالِ جبریل ‘‘ کے سرورق کے اِس شعر کے متعلق تھا ؎’’اُٹھ کہ خورشید کا سامانِ سفر تازہ کریں…نفسِ سوختہ شام و سحر تازہ کریں‘‘، اعتراض یہ تھا کہ ’’سامانِ سفر ‘‘ باندھا جاتا ہے، تازہ نہیں کیا جاتا۔
یہ اعتراض سُن کر آپ نے فرمایا،’’ ہمارے اردو ناقدین کا مطالعہ بہت محدود ہے۔عربی اور فارسی شعرا کے غیر مطبوعہ کلام کا تو ذکر ہی کیا،اُن کے ہر شعر میں’’ سفر تازہ کنیم ‘‘،’’ حضر تازہ کنیم ‘‘ کی ترکیب ہے۔‘‘ متحدہ پنجاب کی معروف سیاسی شخصیت، میاں سَر فضل حسین سے بھی علّامہ صاحب کی گاڑھی چھنتی تھی۔جب کبھی دونوں دوست باہم مل بیٹھتے، تو باتوں سے شگوفے پھوٹتے۔ اسی سلسلے میں برّصغیر کے نام وَر اخبار نویس، عبدالمجید سالک اپنی آپ بیتی’’سرگزشت‘‘ میں رقم طراز ہیں،’’ایک دن میاں فضل حسین لاہور آئے۔مَیں ڈاکٹر صاحب کے ساتھ میاں صاحب سے ملنے گیا۔دونوں دوستوں میں بہت مزے مزے کی چوٹیں چلتی رہیں۔
اِتنے میں میاں صاحب نے پوچھا،’’ کیوں بھئی اقبال، تمھاری بیوی پردہ کرتی ہے؟‘‘وہ کہنے لگے،’’ہاں پردہ کرتی ہے، جیسے تمھاری بیوی کرتی ہے‘‘۔دراصل اُس وقت ایک مسئلہ درپیش تھا کہ جنوبی افریقا میں ایجنٹ گورنرجنرل ہند کس کو بنا کر بھیجا جائے۔اس کے لیے ایک ایسے ممتاز شخص کی تلاش تھی، جس کی بیوی ’’ میزبان ‘‘ کے فرائض آج کل کی سوشل رسوم و عقائد کے ساتھ ادا کر سکے۔مَیں نے فوراً کہا،’’ میاں صاحب! آپ ڈاکٹر صاحب سے یہ سوال اِس لیے کر رہے ہیں کہ ان کو جنوبی افریقا بھیجنے کا ارادہ ہے؟‘‘
میاں صاحب کہنے لگے،’’آپ کی تیز فہمی کے کیا کہنے۔میرے ذہن میں واقعتاً یہی بات تھی۔‘‘اس پر ڈاکٹر صاحب ہنسنے لگے اور کہا،’’ مَیں اب تک تین بیویاں کر چُکا ہوں۔اب چوتھی کوئی ایسی کروں گا، جو پردہ نہ کرتی ہو۔تین پرائیویٹ بیویاں ہیں، چوتھی پبلک بیوی سہی۔‘‘
اس پر قہقہے لگے۔اس کے بعد ڈاکٹر صاحب نے ایک اور لطیفہ فرمایا کہ’’ میری تجویز مانو، تو بیگم شاہ نواز کو ایجنٹ بنا کر بھیج دو، کیوں کہ اُن کی سیاسی خدمات قابلِ قدر ہیں اور میاں شاہ نواز کو اُن کے ساتھ بطور رفیقِ حیات بھیج دو۔‘‘میاں صاحب اس لطیفے پر پھڑک گئے۔غرض یہ بات لطیفوں ہی میں اُڑ گئی اور کچھ عرصے کے بعد رضا علی اس عُہدے پر مقرّر ہو گئے اور انہیں ’’میزبانی‘‘ کے لیے جنوبی افریقا کے ایک خاندان کی خاتون، مس کمبرلے سے شادی کرنی پڑی تاکہ سوشل مدارات میں خلل نہ پڑنے پائے۔‘‘
علّامہ صاحب کی پہلی شادی گجرات کی کریم بی بی سے ہوئی، جن کے بطن سے معراج بیگم اور آفتاب اقبال پیدا ہوئے۔عقدِ ثانی لدھیانہ کی مختار بیگم سے کیا، جو پہلی زچگی کے دَوران انتقال کر گئیں۔تیسرا نکاح لاہور کی سردار بیگم سے ہوا، جو جسٹس(ر)ڈاکٹر جاوید اقبال اور منیرہ بانو کی والدہ تھیں۔
حکیم الامّت کو اپنی صاحب زادی، منیرہ بانو سے بے حد محبّت تھی۔علّامہ کے برادر زادے، شیخ اعجاز احمد کے مطابق ایک بار بچپن میں ہماری چچی جان نے منیرہ کے الجھے ہوئے بالوں میں کنگھی کرنی چاہی، تو وہ رونے لگی۔اس پر علّامہ صاحب نے اپنی بیگم صاحب سے فرمایا،’’یہ کنگھی کروائے یا نہ کروائے، مگر اس کو رونے نہ دیا کرو۔
مَیں اس کے رونے کی آواز نہیں سُن سکتا۔دل کو تکلیف ہوتی ہے۔‘‘آپ بیٹی کی پیدائش کو رزق میں برکت کا سبب قرار دیا کرتے تھے۔سر سیّد احمد خان ؒ کے پوتے، سَر راس مسعود کے ہاں بیٹی ہوئی، تو آپ نے اس پر قطعہ کہا،جس کے چوتھے شعر میں بیٹی کے وجود کو ’’ باعثِ برکاتِ لا محدود‘‘ فرمایا۔شیخ اعجاز احمد کے گھر تیسری بیٹی پیدا ہوئی، تو انہیں خط لکھا کہ’’آج بھائی صاحب کے خط سے معلوم ہوا کہ تمھارے ہاں ایک اور لڑکی ہوئی ہے۔لڑکیوں کی افزائش، رزق کی افزائش ہے۔
کیا عجب، خدا تعالیٰ تمھارے رزق میں بھی توسیع کر دے۔‘‘ علّامہ اقبال نے وفات سے قبل اپنے بچّوں کے بارے میں جو وصیّت لکھوائی،اس کے مندرجات سے پتا چلتا ہے کہ اُنہیں فنِ قانون پر کس قدر گرفت حاصل تھی۔ان کا ذہن کس قدر سلجھا ہوا اور حقیقت شناس تھا۔’’روزگارِ فقیر‘‘ میں درج اُن کی وصیّت کا آخری حصّہ ملاحظہ فرمائیے،’’میرے مذہبی اور دینی عقائد سب کو معلوم ہیں۔ مَیں عقائدِ دینی میں سلف کا پیروکار ہوں۔نظری اعتبار سے فقہی معاملات میں غیر مقلّد ہوں۔ عملی اعتبار سے حضرت امام ابو حنیفہؒ کا مقلّد ہوں۔
بچّوں کی شادی بیاہ کے معاملے میں میرے ورثا کا اور مقرّر کردہ اولیا کا فرض ہے کہ وہ اس بات کا پورا لحاظ کریں اور رشتے ناتے میں شرافت اور دین داری کو علم و دولت اور ظاہری وجاہت پر مقدّم سمجھیں۔‘‘ اس وصیّت سے معلوم ہوتا ہے کہ مجتہدانہ فکر و نظر کے مالک، علّامہ اقبال انتشارِ فکر اور تجدّد و آزاد خیالی کے اس دَور میں دین و ایمان کی سلامتی کے لیے عقائد و اعمال میں سلف صالحین کی پیروی کو کتنا ضروری خیال کرتے تھے۔