• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

مہنگے پٹرول کی گردان کا چرچا چار سو ہو رہا ہے لیکن کئی اور سوالات بھی غور طلب ہیں۔ پہلا عوامی سوال یہ ہے کہ کپاس کی پیداوار میں چوتھے بڑے ملک کا اعزاز رکھنے کے باوجود عوام کی اکثریت تن ڈھانپنے کیلئے اچھا کپڑا خریدنے سے بھی قاصر ہو چکی ہے، اس کا ازالہ کیونکر ہوگا؟ دوسرا عوامی سوال یہ ہے کہ محکمہ زراعت بارہا یہ دہراتا رہتا ہے کہگنے کی پیداوار میں پوری دنیا میں ہمارا پانچواں نمبر ہے، اس بار ہمیں بمپر فصل حاصل ہوئی، کیا فائدہ اس پانچویں نمبر اور بمپر کراپ کا کہ جب ہمیں سستی چینی ہی دستیاب نہیں۔ پشاور سمیت کئی شہروں میں ڈیڑھ سو روپے کلو چینی کی خبر پر شدید ہیجان پیدا ہو گیا ہے کہ معاملہ کہاں تک جائے گا؟ تیسرا سوال یہ ہے کہ گندم کی کاشت میں آٹھویں نمبر کا ہم نے کیا کرنا کہ جب ہمیں نہ سستی روٹی ملنی ہے، نہ سستا اور خالص آٹا، اب تو صورتحال آٹے کی عدم دستیابی تک آن پہنچی ہے۔ چوتھا عوامی سوال یہ ہے کہ کیا ہم چاول کی پیداوار میں اپنے دسویں مقام کو چاٹیں؟ ہمیں تو اچھا چاول 2سو روپے کلو سے کم نہیں مل رہا جبکہ عام آدمی تو اچھے چاول سے ٹوٹا چاول پر منتقل ہو گیا ہے۔ اپوزیشن کی جانب سے لانگ مارچ اور دھرنے کے تمام پتے ترتیب دیے جارہے ہیں، مولانا فضل الرحمٰن کا اس لانگ مارچ میں کلیدی کردار ہوگا کیونکہ وہ روز اول سے ایک مضبوط اور مستحکم موقف رکھتے ہیں جس پر بوجوہ عمل ممکن نہ ہو سکا لیکن اس حوالے سے میاں نواز شریف کی پالیسی اور دور اندیشی نے ثابت کردیا ہے کہ وہ کس قدر درست تھے، سب کچھ اللہ پر چھوڑنے کا ان کا اعلان کس قدر صائب ثابت ہوا۔ شریف خاندان کے مابین اختلاف کی شرلی چھوڑنے کی کوششیں بدستور جاری ہیں، حملہ آور نہیں جانتے تھے کہ مدمقابل کس قدر مضبوط اعصاب کا مالک ہے اور وقت نے ثابت کردیا کہ اس کو گراتے گراتے تمام حملہ آور خود عوام کی نظروں میں اس قدر گر گئے ہیں کہ انہیں فرار کی راہ نہیں مل رہی۔ اقتصادی ترقی برپا کرنے کے دعوئوں میں سے ایک بھی حاصل نہ ہوسکا، عوام کا یہ حال ہے کہ وہ دیوالیہ ہو چکے ہیں، گھروں کے خواب کیا پورے ہوتے، ملکی کنسٹرکشن انڈسٹری نے مدد کی اپیل کی ہے کہ ہم موت کے دہانے پر پہنچ چکے ہیں، سریا 76فیصد، سیمنٹ 52فیصد، ایلومینیم 74فیصد اور بجلی کی تار 43فیصد مہنگی ہو چکی ہے، تعمیراتی سرگرمیاں عملی طور پر رک چکی ہیں۔ سب جانتے ہیں کہ کس نے مہنگائی پر کنٹرول کیا تھا، کس وزیر خزانہ نے کس طرح فوکس رہتے ہوئے اپنے ٹارگٹ کامیابی سےحاصل کئے، کس کی پالیسی اور کس کی عملیت پسندی نے پاکستان کو ترقی کی راہ پر ڈال کر مہنگائی کی شرح 3فیصد کردی تھی، دنیا کے اقتصادی اداروں نے اسے پاکستان کی تاریخ میں مہنگائی کی کم ترین شرح قرار دیا تھا، تمام تر مشکلات کے باوجود ڈالر کو 100کی نفسیاتی حد کے آس پاس کنٹرول کیا تھا،ترقی کی شرح 6فیصد کے لگ بھگ ہو گئی تھی، حقیقی گیم چینجر منصوبے سی پیک پر کام جاری رہا تھا، کراچی کو دوبارہ روشنیوں کا شہر بنایا تھا، رسہ گیروں اور لٹیروں کو شہر بدر اور زندانوں میں ڈال دیا گیا تھا۔ اس دور میں اس قدرمعاشی استحکام برپا کیا گیا کہ کراچی اسٹاک ایکسچینج ایشیا میں پہلے نمبر پر پہنچ کر ہر روز نئے اہداف حاصل کررہا تھا، امریکی ڈو مور کی گردان دم توڑ چکی تھی، آئی ایم ایف سے چھٹکارا حاصل ہو چکا تھا، معاشی اشاریے ٹھوس اور دل آویز تھے، پاکستان 2030تک ایشیا کی بڑی اقتصادی طاقت بننے جا رہا تھا، بڑے بڑے منصوبے لگا کر کئی برسوں سے جاری بجلی اور گیس کی لوڈ شیڈنگ بھی ختم کر دی گئی تھی۔ عوام جانتے ہیں کہ کس نے گلی گلی گونجتے دھماکوں سے نجات دلائی، کس نے میدانوں کی رونقیں بحال کرنے کیلئے ایک جنونی شخص کو چیئرمین کرکٹ بورڈ لگایا جس نے دن رات ایک کرکے پاکستان سپر لیگ لانچ کی، صاف صاف نظر آرہا تھا کہ ایک روشن طاقتور پاکستان ابھرنا شروع ہو گیا تھا، موجودہ بدترین حالات میں ایک بار پھر عوام نے نئےعام انتخابات سے امیدیں وابستہ کر لی ہیں، بلدیاتی انتخابات کے نتائج سے ظاہر ہورہا ہے کہ آئندہ عام انتخابات میں شیر ہی کلین سویپ کرےگا۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین