• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

برطانیہ میں مہنگائی نے 10 سالہ ریکارڈ توڑ دیا، اخراجات میں 4.2 فیصد اضافہ

لندن / راچڈیل( ہارون مرزا /پی اے) برطانیہ میں مہنگائی کاگذشتہ10سالہ ریکارڈ ٹوٹ گیا۔شماریات کے قومی دفتر کے مطابق اکتوبر میں ختم ہونے والے12ماہ کے دوران اخراجات زندگی میں 4.2فیصد اضافہ ہوا ہے۔ قیمتوں میں اضافے کا بنیادی سبب فیول اور انرجی کی قیمتوں میں ہوشربا اضافہ ہے لیکن اشیائے خورد و نوش کی قیمتوں میں بھی ریکارڈ اضافہ ہوا ہے قومی شماریات دفتر کا کہنا ہے کہ کورونا کی پابندیوں کے خاتمے اور اقتصادی سرگرمیاں شروع ہونے کے ساتھ ہی قیمتوںمیں اضافہ ہونا شروع ہوگیا ہے۔ بینک آف انگلینڈ کا کہنا ہے کہ قیمتوں میں اضافے کے رجحان کو روکنے کیلئے اگلے مہینوں کے دوران سود کی شرح میں اضافہ کیا جاسکتا ہے بینک آف انگلینڈ کی مانیٹری پالیسی کمیٹی کے سابق رکن سرجون گیو کا کہنا ہے کہ قیمتوں میں اضافے کا واحد سبب افراط زر نہیں ہے۔ بینک اور دیگر ماہرین کا خیال ہے کہ مہنگائی میں اضافے کا سلسلہ اپریل تک جاری رہ سکتا ہے اور افراط زر کی شرح5.2 فیصد تک جاسکتی ہے اور اس کے بعد پورے سال یہ شرح برقرار رہے گی۔ قومی شماریات دفتر کا کہنا ہے کہ اکتوبر کو ختم ہونے والے سال کے دوران گیس کی قیمتوں میں 28.1 فیصد اور بجلی کے نرخ میں 18.8 فیصد کی شرح سے اضافہ ہوا جس کی وجہ سے قیمتوں میں اضافے کا رجحان پیدا ہوا۔ شماریات دفتر کے مطابق پیٹرول کی قیمتوں میں25.4پنس فی لیٹر کا اضافہ ہوا جس سے پیٹرول کی قیمت138.6پنس فی لیٹر تک پہنچ گئی پیٹرول کی یہ قیمتیں ستمبر 2021 کے بعد سب سے زیادہ ہے۔ قومی شماریات دفتر کے مطابق عالمی سطح پر مائیکرو چپس کی کمی کی وجہ سے کاروں کی پروڈکشن متاثر ہوئی جس کی وجہ سے استعمال شدہ کاروں کی قیمتوں میں گذشتہ سال اپریل سے اب تک 27.4 فیصد تک اضافہ ہوچکا ہے۔ شیڈو چانسلر راکیل ریوز کا کہنا ہے کہ قیمتوں میں اضافے کی وجہ سے ہر گھرانے کو سالانہ ایک ہزار پونڈ سے بھی زیادہ کا بوجھ برداشت کرنا پڑے گا اور حکومت کسی طرح کی کارروائی کرنے کے بجائے دوسرے راستے تلاش کررہی ہے اور عالمی مسائل کو اس کا ذمہ دار قرار دے رہی ہے۔ زیادہ تر تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ بینک آف انگلینڈ دسمبر میں سود کی شرح میں اضافہ کردے گا۔ کیپٹل اکنامکس کے چیف اکنامسٹ پال ڈیلس کا کہنا ہے کہ توقع ہے کہ بینک آف انگلینڈ دسمبر میں سود کی شرح میں 0.1فیصد سے0.25 فیصد تک اضافہ کردے گا۔ اس کے بعد فروری میں یہ شرح0.5 فیصد اور اگلے سال کے آخر تک 1-1.25فیصد تک کردی جائے گی۔بریگزٹ اور عالمی وبا کورونا وائرس کے بعد سپلائی چین کے بحران نے برطانیہ کو جہاں افرادی قوت کی کمی جیسے سنگین مسائل کی دلدل میں دھکیلا ہے وہیں مہنگائی کی شرح ایک دہائی میں سب سے بلند ترین شرح پر پہنچ گئی اور اکتوبر میں زندگی کے اخراجات 4.2یصد تک اضافہ ریکارڈکیا گیا۔ ہوشربا مہنگائی نے متوسط اور غریب خاندانوں کیلئے کئی مسائل کھڑے کردیئے ہیں ملک میں سپلائی چین کی افراتفری‘ مزدوروں کی قلت ‘ ڈرائیوروں کے بحران ‘ توانائی کی قیمتوں میں اضافہ کی وجہ سے سی پی آئی کی شرح ستمبر میں 3.1فیصد سے بڑھ کر اکتوبر میں 4.2فیصد تک پہنچ گئی ہے ایسا اضافہ نومبر 2011کے بعد سے نہیں دیکھا گیا یہ اعداد و شمار بینک آف انگلینڈ کے ہدف سے دوگنا سے زیادہ ہے اور اس نے فوری طور پر قیاس آرائیوں کو ہوا دی کہ رواں ماہ کے شروع میں مارکیٹوں کو حیران کرنے کے بعد اسے ہفتوں کے اندر شرحوں پر عمل کرنے پر مجبور کیا جائے گاوبائی امراض کے تناظر میں قیمتوں پر دباؤ پوری دنیا میں خطرے کی گھنٹی کا باعث ہے، امریکہ میں افراط زر کی شرح 30 سال کی بلند ترین سطح پر پہنچ چکی ہے بعض ماہرین اقتصادیات نے متنبہ کیا ہے کہ اسے اجرتوں میں شامل ہونے کی اجازت دینا ایک ایسا سرپل پیدا کر سکتا ہے جو 1970 کی دہائی سے برطانیہ میں نہیں دیکھا گیا تھا جس سے لاکھوں لوگوں کو تکلیف ہو سکتی ہے تاہم بعض ماہرین کا اصرار ہے کہ کوویڈ کی زد میں آنے کے بعد معیشت اب بھی نازک حالت میں ہے اور شرح سود کو اٹھانے سے کوئی فائدہ نہیں ہوگا کیونکہ اس کے عوامل عالمی ہیں چانسلر رشی سوناک نے کہا ہے کہ کئی ممالک مہنگائی کاسامنا کر رہے ہیں کیونکہ کورونا وباسے نکلنے کے بعد ہم بہتری کی جانب گامزن ہیں اور وسائل تیزی سے استعمال ہو رہے ہوں تو لوگوں کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے ان لوگوں کی مدد اور معاشی سہارا دینے کے لیے 4.2بلین پونڈ کے خطیر سرمایہ سے موثر اقدامات کیے جا رہے ہیں ملازمتوں کے منصوبے کے ذریعے اور یونیورسل کریڈٹ حاصل کرنے والے کارکنوں کے ٹیکسوں میں مؤثر طریقے سے کٹوتی کے ذریعے لوگوں کو کام کرنے، ترقی دینے اور جو کچھ کماتے ہیں اسے برقرار رکھنے میں مدد کر رہے ہیں ۔انتہائی کمزور خاندانوں کے لیے 500 ملین پونڈکے فنڈ زسے فوری مدد کے منصوبے بھی سرفہرست ہیں۔ دفتر برائے قومی شماریات (او این ایس) نے بجلی کے لیے 18.8 فیصد اور گیس کے لیے 28.1 فیصد کی سالانہ افراط زر کی شرح کی طرف اشارہ کیا 2009 کے اوائل سے دونوں کے لیے سب سے زیادہ سالانہ شرحیں ہیں اکتوبر 2021 تک مینوفیکچررز کے ذریعہ استعمال ہونے والے مواد اور ایندھن کی قیمتوں میں سال میں 13 فیصد اضافہ ہوا ستمبر 2021 تک سال میں 11.9 فیصد اضافہ ریکارڈ کیا گیا اکتوبر 2021 تک برطانیہ کے کارخانوں کے ذریعہ تیار کردہ سامان کی قیمتوں میں سال میں 8 فیصد اضافہ ہوا، جو کہ ستمبر 2021 میں سال میں 7 فیصد اضافے سے زیادہ ہے۔ او این ایس کے چیف اکانومسٹ گرانٹ فٹزنر نے صورتحال پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ اکتوبر میں افراط زر کی شرح تقریباً ایک دہائی میں اپنی بلند ترین شرح پر پہنچ گئی ہے ۔

تازہ ترین