• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

انگلش کرکٹ میں ادارے کی سطح پر نسل پرستی موجود ہے، عظیم رفیق، فوری کارروائی کی جائے، بورس جانسن

بریڈفورڈ (محمد رجاسب مغل ) یارکشائر کے سابق کھلاڑی عظیم رفیق سے ناروا سلوک کی تحقیقات،عظیم رفیق پارلیمنٹ کی ڈیجیٹل، کلچر، میڈیا اینڈ اسپورٹس سلیکٹ کمیٹی کے سامنے پیش ہوئے اس موقع پر عظیم رفیق نے آبدیدہ ہو کر بتایا کہ انھیں مسلسل لفظ “ پی” کا سامنا کرنا پڑا،خود کو تنہا اور الگ تھلگ محسوس کرتا تھا ،انہیں جب کپتان بنایا گیا تو ڈریسنگ روم کا ماحول خاصا زہریلا تھا،جو کچھ میرے ساتھ ہوا میں اس سلوک کا مستحق نہیں تھا، ایسا ماحول تھا کہ کسی مسلمان کھلاڑی کے روزہ کھنے پر اُسے ہر غلطی کا ذمہ دار ٹھہرایا جاتا تھا، کرکٹ میں ادارہ جاتی طور پر تعصب کی موجودگی کو تسلیم کرتا ہوں، غلط کاموں میں ملوث افراد نے تحقیقات میں تعاون نہیں کیا، جس طرح تحقیقات کی گئی وہ ناقص تھیں، دیگر کاؤنٹیز سے کھیلنے والے غیرملکی کھلاڑی بھی ناروا سلوک کی شکایت مجھ سے کرتے لیکن سامنے آنے سے گھبراتے تھے۔ پاکستانی پس منظر رکھنے والے کھلاڑیوں کو نسلی گالیوں کا بہت زیادہ سامنا کرنا پڑا،یارکشائر کے سابق چئیرمین راجر ہیٹن اور ای سی بی کے چیف ایگزیکٹو ٹام ہیریسن بھی کمیٹی کے سامنے پیش ہونگے،عظیم رفیق کا مزید کہنا تھا کہ انگلش کرکٹ میں ’ادارے کی سطح پر‘ نسل پرستی موجود ہے۔ انھوں نے گواہی دیتے ہوئے جذباتی بیان میں کہا کہ جب 2017 میں ان کے ہاں مردہ بچہ پیدا ہوا تو کلب نے ان کے ساتھ بہت ’غیر انسانی‘ سلوک کیا، انھوں نے کہا کہ جن مسائل کا انہیں یارکشائر میں سامنا ہوا وہ ’بغیر کسی شک کے‘ ڈومیسٹک کرکٹ میں وسیع پیمانے پر پھیلے ہوئے ہیں رفیق نے کہا کہ وہ اپنا کیریئر نسل پرستی کے ہاتھوں کھو چکے ہیں، جو کہ ایک ’خوفناک احساس‘ ہے، لیکن اس کے متعلق کھل کر بولنے سے انھیں امید ہے کہ اگلے پانچ برسوں میں بڑے پیمانے پر تبدیلی آئے گی۔ انھوں نے مزید کہا میں صرف قبولیت چاہتا تھا، ایک معذرت، ایک ادراک، اور چلو مل کر کوشش کرتے ہیں کہ ایسا دوبارہ نہ ہو، میں اسے جانے نہیں دینا چاہتا تھا، چاہے مجھے جتنا بھی نقصان ہو جائے۔ میں بے آوازوں کی آواز بننے کے لیے پر عزم تھا، اس موقع پر وزیراعظم بورس جانسن نے کرکٹ حکام سے  کہا ہے کہ وہ عظیم رفیق کے ارکان پارلیمنٹ کے ثبوت کے جواب میں فوری کارروائی کریں وزیر اعظم نے یارکشائر کاؤنٹی کرکٹ کلب میں نسل پرستی کے بارے میں بات کرنے میں عظیم رفیق کی ہمت کی تعریف کی۔انہوں نے کہا کہ برطانوی معاشرے میں نسل پرستی کی کوئی گنجائش نہیں، برطانوی کرکٹ اور یارکشائر کاؤنٹی کرکٹ کلب اس معاملے پر فوری کاروائی کرے۔ لیڈز نارتھ ویسٹ کے لیبر ایم پی ایلکس سوبل نے جہاں یارکشائر کاؤنٹی کرکٹ کلب کا ہیڈنگلے گراؤنڈ واقع ہے نےکہا کہ پیر کو ایم پیز کو مسٹر رفیق کی طرف سے دی گئی گواہی ذہن اڑا دینے والی تھی۔مسٹرسوبل نے کہا کہ انگلینڈ اور ویلز کرکٹ بورڈ (ای سی بی) کے جوابات مبہم تھے۔ انہوں نے کہامیں ہر پیشہ ور کرکٹر کی حوصلہ افزائی کروں گا، لیبر پارٹی کے لیڈر سر کیئر اسٹارمر نے کہا کہ رفیق عظیم کے شواہد نے کھیل میں نسل پرستی کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کی ضرورت کو ظاہر کیا ہے خاص طور پر کرکٹ میں، انہوں نے کہا میرے خیال میں کلب کا ردعمل انتہائی ناقص تھا، بغیر کسی مناسب پابندی کے اور نسلی گالیاں بکنے کے مترادف تھیں، یارکشائر کاؤنٹی کرکٹ کلب کے پاس جواب دینے کے لیے کچھ بہت سنجیدہ سوالات ہیں اور ہمیں اب کارروائی کی ضرورت ہے کہ وہ کلب اور کھیل میں ثقافت کو کس طرح تبدیل کرنے جا رہے ہیں، لیبر کی ڈپٹی لیڈر انجیلا رینر نے کہا کہ یہ خوفناک تھا یہ واضح طور پر YCCC اور ECB کی گورننس کی شرمناک ناکامی ہے۔ ہمیں عمل کی ضرورت ہے نہ کہ گھٹیا الفاظ سیکرٹری صحت ساجد جاوید ، کلچر سیکرٹری نادین ڈوریز ،نے سیشن کو دل کو چھونے والا قرار دیا، انہوں نے عظیم رفیق کی بہادری کو سلام پیش کیا عظیم کی بہادری نے یارکشائر کاؤنٹی کرکٹ کلب میں نفرت انگیز نسل پرستانہ ثقافت پر روشنی ڈالی ہے، ای سی بی کو مضبوط اور فیصلہ کن کارروائی کرنے کی ضرورت ہے تاکہ یہ یقینی بنایا جا سکے کہ عظیم جس سے گزرا ہے، اس سے کسی اور کو نہ گزرنا پڑے، بریڈ فورڈ ایسٹ کے لیبر ایم پی عمران حسین نے کہا کہ یہ گواہی افسوس کی بات ہے کہ نسل پرستی کے ایک وسیع تر مسئلے کے آئس برگ کا صرف ایک سرا ہے جو ہمارے بہت سے کھیلوں کو زہر دیتا ہے،تقریباً ایک گھنٹہ 40 منٹ تک جاری رہنے والے سیشن کے دوران مسٹر رفیق کی آواز میں مدھم پڑ گیا اور انہوں نے کئی مواقع پر آنسوؤں کا مقابلہ کیا، جب جذبات نے ان پر قابو نہ رہا تو ایک موقع پر وقفے کے لیے رک گئے، انہوں نے کہا کہ نسلی امتیاز اور اس کے خلاف موقف اختیار کرنے کے ان کے فیصلے نے اس کھیل میں ان کے کیریئر کو نقصان پہنچایا ہے، جس کے بارے میں وہ محسوس کرتے ہیں کہ اس میں مسائل پیدا ہو گئے ہیں، یہ پوچھے جانے پر کہ کیا وہ کسی ایسے فرد کی شناخت کر سکتے ہیں جو اس کے لیے کھڑا ہوا ہو یا اس وقت نسل پرستی کی کارروائیوں کو پکارا ہو وہ نام پیش کرنے سے قاصر تھا، انہوں نے مزید کہا آپ کے پاس ایسے لوگ تھے جو کھلے عام نسل پرست تھے اور آپ کے پاس دیکھنے والے تھےکسی نے محسوس نہیں کیا کہ یہ اہم ہے۔

تازہ ترین