• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

سیالکوٹ میں ایک فیکٹری کے ملازمین سمیت مشتعل ہجوم کی جانب سے فیکٹری کے سری لنکن منیجر کے بہیمانہ قتل پر پوری قوم سوگوار ہے۔ مختلف مکاتب فکر کے جید علمائے کرام سمیت تمام شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والی نمائندہ شخصیات نے اس اندوہناک واقعے کی شدید مذمت کی ہے اور کہا ہے کہ ہمارا مذہب کسی شخص یا گروہ کو قانون اپنے ہاتھ میں لینے کی اجازت نہیں دیتا۔ اگر کسی نے کوئی جرم کیا ہے تو اسے سزا دینے کا اختیار صرف قانونی عدالتوں کو ہے۔ حکومت نے واقعے کے ملزموں کو کیفر کردار تک پہنچانے کیلئے کارروائی شروع کر دی ہے اور اب تک 131افراد کو گرفتار کرکے حوالہ زنداں کیا جا چکا ہے۔ ملک کی سیاسی و عسکری قیادت نے بھی، جس کا اجلاس پیر کو وزیراعظم عمران خان کی صدارت میں ملکی سیکورٹی کی مجموعی صورتحال کا جائزہ لینے کیلئے منعقد ہوا، اِس واقعے پر گہری تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ کسی ہجوم کو قانون اپنے ہاتھ میں لینے کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔ وزیراعظم عمران خان نے اجلاس میں درست کہا کہ سانحہ سیالکوٹ پر پوری قوم کے سرشرم سے جھک گئے ہیں۔ اجلاس میں فیصلہ کیا گیا کہ آئندہ اس قسم کے واقعات کی روک تھام کیلئے جامع حکمت عملی بنائی جائے گی۔ اسی تناظر میں نیشنل ایکشن پلان کا بھی ازسر نو جائزہ لینےکا فیصلہ کیا گیا جو اس طرح کے واقعات کے سدباب کیلئے بنایا گیا تھا اور اطلاعات کے مطابق اس کے 20میں سے 9نکات پر 7سال گزرنے کے بعد بھی عملدرآمد نہیں کیا جا سکا۔ وزیر داخلہ شیخ رشید احمد نے اظہار تعزیت کیلئے پاکستان میں سری لنکا کے ہائی کمشنر سے ملاقات کی اور کہا کہ ہم آپ کے غم میں برابر کے شریک ہیں۔ سری لنکا ان ممالک میں سے ہے، جن کے پاکستان کے ساتھ ہمیشہ خوشگوار دوستانہ تعلقات رہے ہیں۔ سری لنکن ہائی کمشنر نے پاکستان کی حکومت اور عوام کے ردعمل پر اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اس واقعہ سے پاک سری لنکا تعلقات متاثر نہیں ہوں گے۔ یہ امر لائقِ تحسین ہے کہ سیاسی و عسکری قیادت کے اجلاس نے، جس میں آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ بھی شریک تھے، آئندہ ایسے واقعات کے تدارک کیلئے جامع حکمت عملی بنانے کا فیصلہ کیا ہے۔ ملک میں نیشنل ایکشن پلان کے نام سے ایک حکمت عملی پہلے سے موجود ہے جسے بہتر بنانے کے علاوہ یہ بھی دیکھا جانا چاہئے کہ اس پر پوری طرح عمل کیوں نہیں کیا گیا۔ مذہب کے نام پر عدم برداشت کی حوصلہ شکنی اور مذہبی رواداری اور اقلیتوں کیلئے برابری کی بنیاد پر آئینی حقوق کی پاسداری مملکت کا فرض اولین ہے۔ پاکستان دہشت گردی کی ایک طویل جنگ سے سرخرو ہو کر نکلا ہے۔ 2014کا سانحہ پشاور اب بھی لوگوں کے ذہنوں میں تازہ ہے جس میں آرمی پبلک اسکول کےبچے اور اساتذہ دہشت گردی کا نشانہ بنا دیے گئے تھے۔ اس المناک واقعے کے بعد سیاسی و عسکری قیادت نے نیشنل ایکشن پلان کی منظوری دی تھی جس کا مقصد انتہا پسندانہ کارروائیوں کا سدباب تھا۔ اس پر پوری طرح عمل ہوتا دکھائی نہیں دیا۔ بہتر ہو گا کہ ملک میں سیکورٹی کی مجموعی صورت حال کا جائزہ لیتے وقت ان عوامل پر بھی غور کر لیا جائے جن کی وجہ سے نیشنل ایکشن پلان پر عملدرآمد ادھورا رہا اور ایسی جامع حکمت عملی تیار کی جائے جس کی مدد سے ہر طرح کی انتہا پسندی کی ترغیب و تعزیر کے موثر اقدامات کے ذریعے روک تھام یقینی بنائی جائے۔ سیالکوٹ کے واقعے میں ایک جواں مرد ملک عدنان نے سری لنکن شہری کو بچانے کیلئے جس جرات کا مظاہرہ کیا اس پر اسے تمغہ شجاعت دینے کا اعلان کیا گیا ہے۔ اس اقدام سے لوگوں کو حوصلہ ملے گا کہ ایسے مواقع پر خاموش تماشائی نہ بنیں بلکہ برائی کو روکنے کیلئے آگے بڑھیں اور اپنا ناگزیر اخلاقی فرض ادا کریں۔

تازہ ترین