• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

رحمتِ الٰہی کی وسعت اور اللہ تعالیٰ سے بخشش و مغفرت کی اُمید

پروفیسر محمد یونس جنجوعہ

حضرت عبداللہ بن عباسؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’اللہ تعالیٰ نے اپنے فرشتوں کو نیکیاں اور برائیاں لکھنے کا حکم دیا،اس طرح کہ جو شخص نیکی کا ارادہ کرے اور اس پر عمل نہ کرسکے تو اللہ تعالیٰ اسے ایک پوری نیکی شمار کرلیتا ہے اور جو شخص نیکی کا ارادہ کر کے اس پر عمل کرے، اس کے حساب میں ایک نیکی کے بدلے دس نیکیاں بلکہ سات سو نیکیاں اور اس سے بھی زیادہ لکھی جاتی ہیں اور جو شخص برائی کا ارادہ کرے اور برائی کو عمل میں نہ لاسکے (اللہ کے خوف سے یا کسی اور وجہ سے) تو خدا وند تعالیٰ اپنے ہاں اس کے حساب میں ایک پوری نیکی لکھ لیتا ہے اور جو شخص برائی کا ارادہ کر کے اسے عمل میں بھی لائے تو صرف ایک برائی اس کے نامۂ اعمال میں لکھی جاتی ہے۔‘‘ (بخاری و مسلم)

اللہ تعالیٰ جس طرح اپنی ذات میں بے مثل اور بے مثال ہے، اسی طرح اس کی ہر صفت ،ازلی و ابدی اور لامحدود ہے۔ تاہم اس کی صفت رحمت سب سے بڑھ کر ہے۔ قرآن مجید میں ارشاد ہے:’’میری رحمت وسیع ہے ہر شے پر۔‘‘ (سورۃالاعراف) حاملین عرش، مومنین کے حق میں اللہ کے حضور بخشش کی دعا کرتے وقت کہتے ہیں:اے پروردگار! تیری رحمت ہر چیز پر پھیلی ہوئی ہے، بس تو بخش دے ان لوگوں کو جو توبہ کریں۔‘‘

بخاری اور مسلم کی یہ حدیث بھی اللہ تعالیٰ کی رحمت کا مظہر ہے کہ جو شخص نیکی کا ارادہ کرتا ہے،اس کے نامۂ اعمال میں ایک نیکی کا ثواب لکھ دیا جاتا ہے،اگرچہ وہ شخص اپنے ارادے پر عمل نہ کرسکے اور اگر وہ اپنے ارادے کے مطابق نیک کام کر لے تو اسے دس نیکیوں کے برابر بلکہ سات سو یا سات سو سے بھی زیادہ نیکیوں کا ثواب دیا جاتا ہے۔ اس کے برعکس اگر کوئی شخص برائی کا ارادہ کرتا ہے تو اس کے حساب میں وہ برائی نہیں لکھی جاتی، بلکہ اگر وہ برائی کے ارادے پر عمل نہیں کرتا تو اسے ایک نیکی کا ثواب ملتا ہے اور اگر وہ اپنے برے ارادے کے مطابق برائی کر گزرے تو اس کے نامۂ اعمال میں صرف ایک ہی برائی درج کی جاتی ہے۔ 

گویا اللہ تعالیٰ اپنے بندوں پر مہربان ہے،وہ اپنے بندوں کی خطائیں معاف کرنا چاہتا ہے اور نیک کاموں پر زیادہ سے زیادہ ثواب دیتا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:’’جو کوئی ایک نیکی لاتا ہے،اس کے لیے دس گنا اجر ہے اور جو کوئی ایک برائی لاتا ہے تو اسے بس اس کی جزا ملے گی اور لوگوں پر ظلم نہیں کیا جائے گا۔‘‘(سورۃ الانعام)اللہ تعالیٰ اپنے بندوں پر بے حدمہربان ہے، بس اس کی رحمت کا دروازہ کھٹکھٹانے کی ضرورت ہے۔

ایک حدیث میں ہے کہ اللہ تعالیٰ کے پاس سو رحمتیں ہیں،ان میں سے ایک رحمت اس نے جن،انسان،چوپایوں اور زہریلے جانوروں میں بھیجی ہے، اس رحمت کے سبب سے وہ آپس میں پیار محبت اور مہربانی کرتے ہیں، جب کہ ننانوے رحمتوں کو اللہ تعالیٰ نے قیامت کے لیے اٹھا رکھا ہے کہ وہ ان سے اس دن اپنے بندوں پر رحم کرے گا۔ (بخاری و مسلم)

ایک روایت میں ہے کہ ایک شخص جس نے کبھی کوئی نیک کام نہیں کیا تھا،موت کے وقت اپنے گھر والوں سے کہا کہ جب میں مرجائوں تو مجھے جلا دینا۔ پھر آدھی راکھ جنگل میں اڑا دینا اور آدھی دریا میں بہا دینا۔ خدا کی قسم ،اگر اللہ نے مجھ پر قابو پالیا تو وہ مجھے ایسا عذاب دے گا جیسا دنیا میں پہلے کسی کو نہ دیا ہوگا۔ جب وہ بندہ مرگیا تو اس کے بیٹوں نے اس کی وصیت کے مطابق عمل کیا۔ 

اللہ تعالیٰ نے دریا کو حکم دیا اور اس کے اندر کی راکھ جمع کی،پھر جنگل کو حکم دیا اور اس کے اندر کی راکھ جمع کی۔ پھر اللہ تعالیٰ نے اس سے پوچھا تو نے ایسا کیوں کیا؟ اس نے عرض کیا: پروردگار، تیرے خوف سے اور تو یہ بات خوب جانتا ہے۔ اس پر اللہ نے اسے بخش دیا۔ اگرچہ اس شخص کی وصیت غلط تھی،مگر اللہ تعالیٰ نے اس خوف کی وجہ سے اسے بخش دیا جو اسے قیامت کے دن اللہ کے سامنے کھڑا ہونے سے تھا۔ پس اللہ تعالیٰ سے خوف کھانا اللہ کی رحمت کو متوجہ کرتا ہے۔

ایک حدیث میں ہے کہ جب اللہ تعالیٰ نے اپنی مخلوق کو پیدا کرنے کا ارادہ کیا تو ایک کتاب لکھی جو اس کے پاس عرش پر موجود ہے۔اس کتاب میں یہ الفاظ ہیں:’’میری رحمت میرے غضب پر سبقت لے گئی۔‘‘گویا اللہ کی رحمت کی کوئی حد نہیں۔ اللہ تعالیٰ کو اپنے بندوں سے اس سے کہیں زیادہ محبت ہے،جتنی ایک ماں کو اپنے بچے کے ساتھ ہوتی ہے۔ ایک دفعہ جب ایک عورت کو اپنے بچے کے ساتھ والہانہ محبت کرتے دیکھا تو رسول اللہﷺ نے اپنے صحابہؓ سے فرمایا: کیا تمہارے خیال میں یہ عورت اپنے بچے کو آگ میں ڈال دے گی؟ صحابہؓ نے عرض کیا: یارسول اللہ ﷺ ہرگز نہیں۔ اس پر آپؐ نے فرمایا: ’’اللہ اپنے بندوں پر اس سے زیادہ رحم کرنے والا ہے، جتنا یہ عورت اپنے بچے پر مہربان ہے۔‘‘پروردگار اپنے بندوں پر مہربان ہے،پھر بھی انسان اپنی بری روش، سرکشی اور نافرمانی کی وجہ سے عذاب کا مستحق بن جائے تو اس سے بڑی بدبختی اور محرومی کیا ہوگی؟

حضرت عبداللہ بن عمرؓ کہتے ہیں کہ ہم کسی غزوے میں نبی اکرم ﷺ کے ساتھ تھے۔ آپﷺ ایک جماعت کے قریب سے گزرے اور پوچھا تم کون لوگ ہو؟ انہوں نے عرض کیا ہم مسلمان ہیں۔ اس جماعت میں ایک عورت ہانڈی پکا رہی تھی اور اس کا بیٹا اس کے پاس تھا۔ جب آگ کا شعلہ بلند ہوتا تو عورت لڑکے کو پیچھے ہٹالیتی۔ پھر عورت نبی ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئی اور عرض کیا: کیا آپؐ اللہ کے رسول ہیں؟ 

آپﷺ نے فرمایا: ’’ہاں‘‘ عورت نے پوچھا: میرے ماں باپ آپؐ پر قربان! کیا اللہ بہت رحم کرنے والا نہیں؟ فرمایا: ’’ہاں‘‘ عورت نے کہا: اللہ اپنے بندوں پر اس سے زیادہ رحم کرنے والا نہیں ہے جتنا کہ ایک ماں اپنے بچوں پر رحم کرتی ہے؟ فرمایا: ’’ہاں‘‘ عورت نے کہا ماں تو اپنے بچے کو آگ میں نہیں ڈالتی۔ اس پر رسول اللہ ﷺ نے سرجھکا لیا اور روتے رہے۔ پھر سر اٹھا کر فرمایا، ’’اللہ تعالیٰ اپنے بندوں پر عذاب نہیں کرتا سوائے ان لوگوں پر جو سرکش ہیں، یعنی اللہ سے سرکشی کرتے اور اس کا حکم نہیں مانتے اور لا الٰہ الّا اللہ کہنے سے انکار کرتے ہیں۔‘‘ (ابن ماجہ)

جن احادیث میں اللہ تعالیٰ کی بے پایاں رحمت اور مغفرت کا مطلق ذکر ہے، وہاں یہ حقیقت ہے کہ اللہ کے ساتھ شرک کرنا وہ گناہ ہے، جس کے متعلق اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں ایک سے زائد مقامات پر دو ٹوک انداز میں فرمادیا ہے کہ شرک اللہ کے نزدیک ناقابل بخشش گناہ ہے۔ پس کسی انسان کا اللہ تعالیٰ کی بے پایاں رحمت اور بخشش کے باوجود اللہ تعالیٰ کے عذاب کا مستحق ہوجانا بھی عین ممکن ہے۔

معلوم ہوا کہ اللہ تعالیٰ کی بے پایاں رحمت اور مغفرت کا امیدوار ہونے کے لیے لازم ہے کہ بندہ اپنے آپ کو نیک اعمال اور توبہ واستغفار کے ذریعے اس کا اہل بنانے کی کوشش کرے۔ اللہ تعالیٰ کے احکام کو مانے، حقوق اللہ اور حقوق العباد کی ادائیگی کی کوشش کرے۔ اللہ کے غضب کو دعوت دینے والے کام نہ کرے۔ استغفار کو اپنا شعار بنائے۔ شرکیہ امور سے سخت اجتناب کرے، کیوںکہ شرک بندے کو اللہ کی بے پایاں رحمت سے محروم کردیتا ہے۔ قرآن مجید میں ارشاد ہے: ’’بے شک جس نے شریک ٹھہرایا اللہ کا پس حرام کی اللہ نے اس پر جنت اور اس کا ٹھکانہ دوزخ ہے۔‘

تازہ ترین