• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

واقعہ سیالکوٹ کے پیچھے مذموم مقاصد ہیں

تحریر:قاری عبدالرشید۔۔۔اولڈہم
انسان تو انسان کسی حیوان کو بھی اس طرح مارنا اور پھر جلانا مذہب اسلام میں جائز نہیں ،مختلف رپورٹس کے مطابق یہ واقعہ مذہبی نہیں انتظامی تھا ، مالک اور منیجر کے درمیان یا منیجر اور ملازمین کے درمیان معاملات کی وجہ سے ہوا، اگر اس کو مذہبی مان بھی لیا جائے تو پھر اس کے پیچھے مذموم مقاصد ہیں جن میں سے ایک ’’قانون توہین رسالت ‘‘کو ختم کرنا یا کروانا بھی ہو سکتا ہے،اس واقعہ کی ہر سطح پر مذمت ہو چکی،ساری مذہبی و سیاسی قیادت اور حکومت باالخصوص وہ جماعت جس کا نعرہ اس موقع پر لگایا گیا وہ بھی حملہ آوروں سے اعلان لا تعلقی کر چکی ہے،پاکستان میں مقیم سری لنکن شہری کے خاندان کے ساتھ اظہار ہمدردی ساری دنیا کے مسلمان کر چکے ہیں ۔مفتی محمد تقی عثمانی کی قیادت میں تمام مکاتب کا نمائندہ وفد سری لنکا کی ایمبیسی میں جا کر اظہار ندامت و افسوس کر چکا ہے ،سیالکوٹ کی کاروباری برادری مقتول کے خاندان کیلئے بڑی رقم دینے اور اس کی تنخواہ باقاعدہ جاری رکھنے کا اعلان کر چکی ہے،سری لنکن سفیر اور حکومت دونوں پاکستانی علماء کرام ، مسلمانوں اور حکومت پاکستان کے رویے پر اظہار اطمینان کر چکے ہیں،یہ واقعہ دنیا کا کوئی پہلا واقعہ نہیں،ماضی قریب میں اگر جائیں اور دیکھیں، حال میں بھی گرد و پیش میں جھانکیں تو اس سے بھی بھیانک اور سخت واقعات دیکھنے کو ملیں گے جن میں یہ سب کچھ مسلمانوں کے ساتھ ہوتا نظر آئے گا لیکن ان کے حق میں کلمہ خیر کہنا تو دور کی بات ان پر جاری مظالم روکنے تک کی بات ہمیں سنائی نہیں دیتی،سری لنکن شہری کے ساتھ سیالکوٹ میں جو افسوسناک واقعہ پیش آیا چونکہ یہ سب کچھ پاکستان کے شہر سیالکوٹ میں ہوا اور اس کو مذہبی رنگ دینے کی بھی ناکام کوشش کی گئی تو اس سے اسلام و پاکستان اور مسلمانوں کو بدنام کرنے کا بھی اگر کوئی مذموم منصوبہ تھا تو وہ علماء کرام اور حکومت پاکستان کے بروقت احسن اقدامات سے دم توڑ گیا ہے لیکن یہ بحث ایک بار پھر چل نکلی ہے کہ ’’قانون توہین رسالت کا غلط استعمال‘‘ہوتاہے لہٰذا اسے ختم کر دینا چاہئے، کوئی ان سے پوچھے کہ مشتعل ہجوم نے کیا اس قانون پر عمل کرتے ہوئے یہ سب کچھ کیا ، اور تمہیں ایک بار پھر زہر اگلنے اور بدبو پھیلانے کا موقع مل گیا ، یہ مطالبہ کرنے والے عجیب بزعم خود ’’سیانے‘‘ لوگ ہیں جو سب کو اپنے جیسا ’’سیانا‘‘ ہی سمجھتے ہیں تو اس موقع پر کچھ باتیں ان مادر پدر آزاد ’’سیانوں‘‘ سے بھی ہو جائیں،باالفرض اگر ان ’’سیانوں‘‘کی بات مان لی جائے اور قانون توہین رسالت ختم کر دیا جائے تو ان ’’سیانوں‘‘کی طرف سے کیا گارنٹی ہے کہ پھر ملک کے کسی حصے میں بھی۔توہین و تنقیص کا کوئی واقعہ رونما نہیں ہو گا، کیا کوئی’’سیانا‘‘ آگے بڑھ کر ایسی گارنٹی دے سکتا ہے، ان’’سیانوں‘‘ کی بات مان کر اگر’’قانون توہین رسالت‘‘ ختم کر دیا جاتا ہے تو پھر ان "سیانوں" سے پوچھنا تھا کہ قانون تو تم نے ختم کروا دیا لیکن اسلام کی مقدس شخصیات کی توہین و گستاخی تم نہ رکوا سکے،اب کیا ہو گا، خدانخواستہ اگر کسی شہر میں کوئی بدبخت اس جرم کا مرتکب ہوتا ہے تو کیا ہو گا،اب اس مجرم کو کس قانون کے تحت حوالے پولیس کیا جائے گا، قانون نہیں تو مجرم پر پولیس نے بھی ہاتھ نہیں ڈالنا،’’سیانوں‘‘ اب راستہ بتائو،علماء کرام کیا کریں اور مسلمان کہاں جائیں، کیا تم نے دیکھا نہیں کہ سیالکوٹ کا واقعہ ہوا اور اس پر بظاہر الزام توہین رسالت کا لگا،مشتعل ہجوم نے اس کو مارا پھر جلایا لیکن کسی ایک عالم دین نے بھی اس عمل کی تائید نہیں کی اور آج تک وہ یہی کہہ رہے ہیں کہ بالفرض اگر اس نے توہین و گستاخی کی بھی تھی تو سزا دینے مارنے کا حق عوام کے پاس نہیں تھا اس کو پولیس کے حوالے کیا جاتا ۔قانون موجود ہے،عدالت کیس سنتی اگر وہ مجرم ثابت ہو جاتا تو سزا عدالت دیتی عمل اس پر حکومت کرتی۔(بصد افسوس لکھنا پڑ رہاہے کہ عدالتوں نے بعض مجرموں کو سزائیں سنائیں لیکن عمل درآمد کے حوالے سے حکومتوں نے مجرموں کو سزا دینے میں مجرمانہ غفلت کا ارتکاب کیا اور نقصان اٹھایا)بزعم خود، ’’سیانوں‘‘ اب سوچو اور غور کرو کہ علماء کرام عوام کو اسی لئے روک اور کوس رہے ہیں ناں کہ قانون موجود ہے اگر یہ قانون نہ ہو تو پھر علماء کرام کے پاس کون سا ہتھیار ہے جس سے وہ مشتعل افراد کو کنٹرول کریں گے، یہ بات تو سب جانتے ہیں کہ مسلمان عمل کے اعتبار سے کمزور ہو سکتا ہے اور ہے بھی لیکن ایمانی غیرت کے اعتبار سے وہ ایک لمحے کے لئے بھی کمزور یا بزدل نہیں ہوتا۔کیا تم سارے’’مفاد پرست سیانے‘‘ قانون توہین رسالت ختم کروا کر وطن عزیز پاکستان کی گلی چوکوں اور بازاروں میں مزید واقعہ سیالکوٹ جیسے مناظر دنیا کو دکھا کر اپنی تنخواہیں اگلی نسلوں کو بھی دلوانا چاہتے ہو، رسالت مآبﷺ اور صحابہ کرامؓ و اہلبیت عظامؓ کی توہین و تنقیص کا جو سلسلہ دنیا اور وطن عزیز پاکستان میں جاری و ساری ہے ، اس اندازِ گستاخی کو روکنا کس کی ذمےداری ہے، ظاہر ھے یہ کام حکومتوں نے کرنا ہے، سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر حکومتیں یہ ذمےداری نہ نبھائیں یا بعض خود اس مذموم کام کو اپنی سرپرستی میں کروائیں یا ایسا کرنے والوں کو اپنے اپنے ملکوں میں محفوظ پناہ گاہوں میں منتقل کرادیں یا توہین کا جرم ثابت ہونے پر عدالتوں سے سزا پانے والوں کو جیلوں سے نکال کر بھگوا دیں یا توہین مقدسات کے مرتکب افراد کو سزا دینے والے قانون کو ہی ختم یا نرم کرنے کے لئے دن رات ایک کردیں تو پھر اس کے رد عمل میں کیا ہو گا، اس بات کا تاریخی تجزیہ کرنا نہایت ضروری ہے ،اس دریدہ ذہنی کے مختلف عوامل ہیں، مسلمانوں کے مقابل میدانِ جنگ میں شکست کی ذلت ، اسلام کی غیر معمولی نشر و اشاعت کے سامنے اپنی بے بسی ،مسلمانوں کی اخلاقی وسعت کے سامنے اپنی برہنہ تہذیب کا احساس اور ان سب سے بڑھ کر سیرتِ محمدی ﷺکی حیرت انگیز روحانی تاثیر ، یہ وہ عوامل ہیں جو ان کی طبیعتوں پر اسلام کے حوالے سے جھنجھلاہٹ ، ہٹ دھرمی اور عامیانہ پن پیدا کردیتے ہیں ، پوری دنیا میں کوئی قانون اس لئے بنایا جاتا ہے کہ ریاستی نظام کو امن و امان سے چلایا جا سکے اور خلاف ورزی کرنے والے کو سزا دی جائے تاکہ آئندہ مجرم یا کوئی دوسرا بھی سزا سے نصیحت پکڑے اور جرم سے دور رہے، قانون پر عمل درآمد کرانا حکومت کی ذمہ داری ہوتی ہے اور خلاف ورزی کرنے والے کو سزا صرف اور صرف عدالت دے سکتی ہے،عوام کسی جرم کی نشاندہی کر سکتی ہے،جرم روکنے میں حکومت کی مدد کر سکتی ہے لیکن سزا دینے کا اختیار عام عوام کے پاس نہیں ہوتا اور جب ماورائے عدالت سزا عام شہری دینے لگتے ہیں ایک تو یہ سیدھا سیدھا جرم کرتے ہیں اور دوسرا اس وجہ سے معاشرے میں شر پیدا ہوتا ہے اور سارا معاشرہ تباہ ہو کر رہ جاتا ہے، اگر کہیں ایسے حالات پیدا ہو جائیں جیسا کہ بدقسمتی سے ہمارے ملک میں کچھ ایسا ہی ہو رہا ہے تو اس صورت میں حکومت وقت کو خود بھی اور عام عوام کو بھی قانون پر سختی سے عمل کرنے اور کروانے کی شدید ضرورت ہوتی ہے، بدقسمتی سے ہمارے ادارے اور حکمران نہ تو خود سو فیصد قانون پر عمل کرتے ہیں اور نہ ہی عوام سے کروا سکتے ہیں، جب کوئی مسئلہ بنتا ہے تو اپنی کمزوریوں کو چھپانے کے لئے عجیب وغریب بیان دے دیتے ہیں کہ فلاں قانون ٹھیک نہیں، فلاں شق تبدیل کی جائے ، یہ کیا جائے ، وہ کیا جائے وغیرہ اور اگر ان میں سے کسی کی توہین ہو جائے تو تحریک استحقاق اور ہتک عزت کے دعوے سامنے آ جاتے ہیں یعنی ان کی تو تکریم رہے اور اسلام جس مقدس نام پر پاکستان معرض وجود میں آیا اس کی مقدس شخصیات کی توہین بے شک ہوتی رہے اور اس کی روک تھام کے لئے جو قانون ہے وہ بھی ختم کر دیا جائے ۔ یہاں یہ بات یاد رہے کہ توہین رسالت کی سزا کیا ہے اور کیا ہونی چاہیے اس پر اسلامی جمہوریہ پاکستان کی اسمبلی اور پارلیمنٹ وغیرہ اسلامی نقطہ نظر سے ضرور بحث کر سکتی ہے اور قانون میں تبدیلی لا کر مزید سخت تو کر سکتی ہے۔ لیکن یہ تو ہو ہی نہیں سکتا کہ توہین رسالت کا قانون ختم ہو جائے، دنیا کا کوئی بھی انسان اپنے نبی، پیغمبر یا لیڈر کی توہین برداشت نہیں کرسکتا، مسلمانوں کو ایک طرف کر کے فرض کریں اگر کوئی ہندؤ یا کوئی دوسرا بھی حضرت عیسیؑکی شان میں گستاخی کرتا ہے تو کیا عیسائی یہ برداشت کریں گے، اگر کوئی مسلمان ہندؤوں کے دیوتا کی توہین کرتا ہے تو کیا ہندو یہ برداشت کریں گے، ہر گز نہیں اور کرنی بھی نہیں چاہئے کیونکہ جب ہم اپنی توہین ہونے پر ہتک عزت کا دعوی کر دیتے ہیں تو پھر ان لوگوں جن کو انسانوں کی ایک جماعت عظیم ہستی سمجھتی ہے کی شان میں گستاخی یا توہین کسی صورت قابل قبول نہیں ہونی چاہئے، چاہے وہ ہستی مسلمانوں کی ہو یا پھر کسی بھی مذہب کی ہو، یہاں ایک بات یاد رہے کہ نظریات و عقائد سے اختلاف اور چیز ہے اور توہین و گستاخی اور چیز ہے،فرض کریں اگر یہ قانون ختم کر دیا جاتا ہے تو پھر ہر کسی کو چھوٹ ہو گی کہ وہ جو چاہے کرے۔ منفی ذہنیت کے مالک لوگوں کو موقع مل جائے گا اور پھر ایسے ایسے بیانات اور گستاخیاں ہوں گی کہ پوری دنیا کا معاشرتی نظام بگڑ کر رہ جائے گا، یہ ہمارے کچھ لوگ اور حکمران آج ہمیں جس دنیا کے قانون کا حوالہ دیتے ہیں شاید ان کو خود معلوم نہیں کہ اُس دنیا میں ایک عام انسان کی توہین پر کیا سے کیا ہو جاتا ہے اور عدالتیں ایسے حرکت میں آتی ہیں کہ صدر تک کو اپنی فکر ہونے لگتی ہے، میں یہ بات بڑے وثوق سے کہتا ہوں کہ دنیا کا کوئی قانون کسی کی مذہبی شخصیات اور مذہبی رسومات کی توہین کی اجازت نہیں دیتا۔ دنیا کے ہر ملک میں ایسے قانون کسی نہ کسی صورت میں موجود ہیں، آج کل ایک اور بحث بڑی چل رہی ہے کہ مسئلہ توہین رسالت کے قانون کا نہیں بلکہ اس قانون کے غلط استعمال کا ہے، بات پھر وہیں آ جاتی ہے کہ قانون کا ٹھیک استعمال کرنا اور کروانا حکومت کی ذمہ داری ہے، دنیا میں کوئی ایسی چیز ، عہدہ اور نہ ہی کوئی قانون ایسا ہے جس کا غلط استعمال نہ کیا جاسکتا ہو۔ مثلا کوئی جھوٹی گواہی دے کر کسی کو سزا دلوا دیتا ہے اب بے گناہ کو سزا ہو جاتی ہے اس کا مطلب ہرگز یہ نہیں کہ آپ سب جانتے ہوئے بھی کہ گواہی کے نظام کے بغیر کام نہیں چلے گا اور آپ سیدھا سیدھا گواہی کے نظام کو ہی ختم کروانے چل پڑیں بلکہ ہونا تو یہ چاہئے کہ اس نظام کو بہتر کیا جائے۔ اگر اس میں بہتری کی گنجائش ہے تو بہتری کرنے کے ساتھ ساتھ عوام میں شعور بھی پیدا کریں تاکہ کوئی جھوٹی گواہی دے ہی نہ، اب یہ بات تو صاف ہے کہ کسی کی مذہبی شخصیات کی توہین کا قانون اگر ختم کر دیا جائے تو بے شمار مسائل پیدا ہو سکتے ہیں،ہاں اگر اس قانون میں کوئی کمی ہے تو اس کو بہتر کیا جائے اور اگر حکمرانوں یا انتظامی اداروں سے ٹھیک طرح قانون پر عمل درآمد نہیں کروایا جا رہا تو وہ خود کو بہتر کریں یا پھر اپنی غلطی تسلیم کریں، مانتے ہیں کہ توہین رسالت کے قانون کی آڑ میں کئی شر پسند عناصر فائدہ حاصل کرتے ہیں اور قانون کا غلط استعمال کرتے ہیں، بات پھر وہیں آتی ہے کہ قانون کا ٹھیک استعمال کس نے کروانا ہے، انتظامی اداروں کو کس نے بہتر کرنا ہے۔
تازہ ترین