برصغیر میں ٹرائی اینگل لواسٹوری موویز بنانے کے رجحان کو محبوب خان کی سپر کلاس فلم’’انداز‘‘ 1959ء میں فروغ ملا، جس میں اس وقت کے مایہ ناز ستارے دلیپ کمار، نرگس اور راج کپور اس تِکون لو اسٹوری فلم کے لیڈ کیریکٹرز تھے۔ فلم انداز کی کہانی کی ون لائن اسٹوری کچھ یُوں تھی کہ دو دوست ایک ہی حسینہ کے عشق میں مبتلا ہوجاتے ہیں، لیکن حسینہ یعنی ہیروئن کی توجہ اور محبت کامرکز و محور توان میں سے کوئی ایک ہی ہوتا ہے ، لہٰذا فلم کے کلائمکس پوائنٹ پر جب کہانی پہنچتی ہے، تو ایک دوست اپنی جان کی قربانی دے کر یا خود کو الگ کرکے اس تکون سے باہر نکل جاتا ہے۔
’’انداز‘‘ کی کہانی کا یہ انداز فلم میکرز کو اس قدر بھایا کہ بار بار اس ’’ون لائن‘‘ پر طبع آزمائی کی گئی اور متعدد فلمیں بنائی گئیں، جن میں سے بیش تر کام یاب ہوئیں ، تو کچھ ناکام بھی رہیں۔ اس ضمن میں پاکستان میں پہلی قابل ذکر کاوش شریف نیر کی ’’نائلہ‘‘ 1965ء تھی، جس کی کہانی کا تِکون سنتوش کمار، درپن اور شمیم آرا پر مشتمل تھا۔ ’’نائلہ‘‘ رضیہ بٹ کے ناول پر مبنی تھی، لیکن کہانی کا تھیم تین کرداروں سے متعلق تھا۔’’نائلہ‘‘ مضبوط اسکرپٹ، یادگار میوزک، بہترین ڈائریکشن اور معیاری کردار نگاری کا مرقع تھی۔ شعبہ اداکاری میں خاص طور پر شمیم آراء نے اپنی فنی زندگی کے مشتکل ترین کرداروں میں سے ایک ناقابل فراموش کردار ادا کیا تھا، بالخصوص زہر خورانی کے بعد کے مناظر میں ان کی پرفارمنس بہت نیچرل اور جاندار تھی۔
چوں کہ یہ ناول سے ماخوذ تھی، لہٰذا اس کا اختتام بعد ازیں بننےوالی تمام ٹرائی اینگل اسٹوریز سے یوں جداگانہ تھا کہ اس کہ ان میں کسی ایک عاشق کے بہ جائے ہیروئن نے جان واردی۔ ’’نائلہ‘‘ کا شمار پاکستان کی بہترین موویز میں ہوتا ہے اور اس فلم نے باکس آفس پر شان دار گولڈن جوبلی منائی تھی۔ اسی سال ہدایت کار حسن طارق کی ’’کنیز‘‘ منظر عام پرآئی جو محمد علی، وحید مراد اور زیبا کی ٹرائنگل لواسٹوری پر مبنی تھی۔ اس مثلث کا ایک کردار خورشید (محمد علی) کہانی کے اختتامی مراحل میں اپنی محبت سے دست بردار ہو کر دو پیار کرنے والوں وحید مراد اور زیبا کو یکجا کردیتے ہیں۔ یہ فلم کردار نگاری کے شعبے میں آغا طالش اور صبیحہ خانم کے علاوہ محمد علی کے نام رہی، ’’کنیز‘‘ نے بھی شان دار گولڈن جوبلی کا اعزاز حاصل کیا۔
1969ء میں جینئس فلم میکر نذرالسلام کی ’’پیاسا‘‘ رحمٰن عظیم اور سچندا کی تِکون پریم کہانی پر مبنی ایک بہت ہی دل کش اور معیاری فلم تھی۔ کہانی کی تِکون کے اہم کردار رحمٰن پر جب یہ انکشاف ہوتا ہے کہ اسے بچپن کی عمر سے پیار کرنے والی سچندا اب اسے بُھول چکی ہے، تو وہ خود کو اس کہانی سے الگ کرلیتا ہے۔ رحمن کی کردار نگاری کے ضمن میں ہم ’’پیاسا‘‘ کو نہایت اہم فل قرار دے سکتے ہیں، مگر افسوس کہ باکس آفس پر اس فلم کو سلور جوبلی جیسی پزیرائی بھی نہ مل سکی۔
1970ء میں ٹرائی اینگل لو اسٹوری پر مبنی 3؍ عدد قابلِ ذکر فلمیں ’’شمع پروانہ‘‘، ’’بازی‘‘ اور ’’جلے نہ کیوں پروانہ‘‘ منظرعام پرآئیں۔ دل چسپ بات ہے کہ تینوں فلموں کی تِکون میں سپر اسٹار ندیم شامل تھے۔ حسن طارق کی شمع اور پروانہ دراصل بھارتی فلم ’’دیدار‘‘ کا چربہ تھی، جس میں ندیم، اعجاز اور رانی ٹرائینگل اسٹوری کے مرکز و محور تھے۔ شمع اور پروانہ کا جو شعبہ اعلی ترین معیار کا حامل تھا ، وہ تھا فلم کی موسیقی و نغمات کا، مسرور انور اور سیف کی اعلی شاعری، نورجہاں، مجیب عالم، احمد رشدی اور مالا کی بہترین گائیکی اور نثار بزمی کی ایک سے ایک شاہ کار دُھن جس کی بدولت ہر گیت اور سنگیت سے تعبیر ہوا۔
ورنہ فلم کا اسکرپٹ خاصا کمزور تھا۔ اسکرین پلے پر بالکل توجہ نہیں دی گئی تھی، کردار نگاری کے معیار بھی بس واجبی تھا۔ شمع اور پروانہ کی کہانی کو اختتام یُوں دیا گیا کہ کہانی کی تِکون کے دو کردار یعنی ہیرو ندیم اور ہیروئن رانی دونوں ہی موت کو گلے لگا کراپنی محبت کو امر کردیتے ہیں۔ شمع اور پروانہ کو بھی باکس آفس پر زیادہ پزیرائی نہ مل سکی اور یہ محض سلور جوبلی منا سکی۔ تاہم رپیٹ رن میں یہ فلم جب بھی چلی اپنے سپر کلاسیک گیتوں کی بدولت شان دار بزنس کیا۔
ہدایت کار اقبال شہزاد کی ’’بازی‘‘ بھارتی فلم ’’انداز‘‘ کے انداز پر بنائی گئی، ایک معیاری اور متاثر کن فلم تسلیم کی جاتی ہے ، جس کی تِکون محمد علی، ندیم ور نِشو پر مشتمل تھی۔ بازی کی کہانی کچھ یُوں تھی کہ ندیم اور نِشو ایک دوسرے کو پسند کرتے ہیں ، لیکن نِشوکی منگنی محمد علی سے طے ہوجاتی ہے، علی کو بھی نِشو سے محبت ہے، لیکن جب علی پر یہ انکشاف ہوا کہ ندیم اورنِشو ایک دوسرے کو چاہتے ہیں، تو وہ اپنے دوست ندیم کی خاطر اپنی زندگی کی قربانی دے کران دونوں کو ایک کروادیتے ہیں۔
بازی اپنی جملہ خوبیوں کی بدولت باکس آفس پر ہٹ ضرور ہوئی، لیکن گولڈن جوبلی سے خاصی دور رہی۔ ’’شمع اور پروانہ‘‘ اور ’’بازی‘‘ والے سال 1970ء میں ہی ہدایت کار شوکت ہاشمی کی ’’جلے نہ کیوں پروانہ‘‘ منظر عام پرآئی، جس میں ندیم، کمال اور شبنم ٹرائینگل لو اسٹوری کے بنیادی کردار تھے، لیکن اصل محبت کمال اور شبنم کے مابین تھی، جب کہ ندیم ایک غلط فہمی کے تحت شبنم کو غلط سمجھتے ہیں، لیکن آخری مرحلے میں ان کی غلط فہمی جب دور ہوتی ہے، تو وہ زندگی کی قربانی دےکر کمال اور شبنم کویکجائی کاموقع فراہم کر دیتے ہیں۔
جلے نہ کیوں پروانہ، ایک غیر متاثر کن فلم تھی، لیکن فلم کا میوزک جو ناشاد نے مرتب کیا تھا، بےحد دل کش اور معیاری تھا۔ 1971ء وہ سال تھا کہ جب ٹرائینگل اسٹوری پر بننے والی سب سے کام یاب فلم ’’دوستی‘‘ منظر عام پر آئی۔ ’’دوستی‘‘ کے ڈائریکٹر تھے شریف نیر۔ دوستی کی تِکون رحمن، اعجاز اور شبنم پر مشتمل تھی، جس میں اپنے یار اعجاز کے لیے اپنی خاموش محبت کی قربانی رحمن دےکر دوستی کو امر کردیتے ہیں۔ دوستی یُوں تو ہر اعتبار سے ایک مکمل معیاری اور بار بار دیکھی جانے کے قابل فلم تھی، لیکن اے حمید کا میوزک اور نورجہاں کے گائے گیتوں نے اسے امر اور لازوال بنانے میں کلیدی کردار ادا کیا۔
تاہم گریٹ شبنم نے بھی ایک معصوم دیہاتی دوشیزہ کے کردار کو کمال فن کے ساتھ ادا کیا تھا۔ دوستی نے باکس آفس پر شان دار ڈائمنڈ جوبلی منائی۔ حیدرآباد میں بھی وینس سنیما پر اس یادگار فلم نے مجموعی 25؍ ہفتے مکمل کرکے سلور جوبلی کا اعزاز حاصل کیا۔ 1973ء میں محبت کی تِکون پر مبنی 2؍ عدد فلمیں شباب کیرانوی کی ’’دامن اور چنگاری‘‘ اور ایس سلیمان کی ’’تیرا غم رہے سلامت‘‘ ریلیز ہوئیں۔ ’’دامن اور چنگاری‘‘ کی تِکون محمد علی، ندیم اور زیبا پر مشتمل تھی، جس میں ندیم، جان کا نذرانہ دے کر دوست کی دوستی کی خاطر خود کو قربان کردیتے ہیں، دامن اور چنگاری شباب کیرانوی کی موسٹ پاپولر موویز میں سے ایک تھی، جسے باکس آفس پر بھی بلاک بسٹر کام یابی ملی، جب کہ ایس سلیمان کی ’’تیرا غم رہے سلامت‘‘ جو کہ ندیم ، شاہد اور نشو کی تین طرفہ محبت پر مبنی تھی، اسے عوامی سطح پر قطعی مسترد کیا گیا۔
اس کا شمار اس وضوع پر بننے و الی ڈیڈ فلاپ فلموں میں ہوتا ہے۔ 1974ء میں ایم اے رشید کی نغمہ بار یادگار فلم ’’تم سلامت رہو‘‘ محمد علی ، وحید مراد اور آسیہ کی تِکون ساٹوری پر مبنی بہت دل کش رومانی و جذباتی فلم تھی، جس میں دو بھائی ایک دوسرے پر اپنی محبت قربان کردینا چاہتے ہیں ، لیکن بالآخر بڑا بھائی شاہ رخ (محمد علی) چھوٹے بھائی خرم (وحید مراد) کے لیے اپنی محبت قربان کرنے میں کام یاب ہو کر سرخرو ہوتا ہے، اس کہانی کے تینوں ہی فن کارکردار نگاری میں فنی کمال کرتے نظر آئے اور تینوں ہی نے عمدہ کارکردگی پیش کی۔ ’’تم سلامت رہو‘‘کا شمار بھی یادگار معیاری گولڈن جوبلی فلموں میں ہوتا ہے۔
فلم کا دل کش میوزک ناشاد نے مرتب کیا تھا، ہدیات کارظفرشباب کی ’’دامن کی آگ‘ 1996ء محمد علی، ندیم اور شبنم جیسے بلند پایہ فن کاروں کی مثلث پر مبنی تھی، جس میں ندیم قدر نگیٹو شیڈ کے ساتھ سامنے آئے تھے، لیکن انہیں اس انداز میں پزیرائی نہ مل سکی۔ دامن کی آگ کا میوزک بہت معیاری تھا لیکن اسکرپٹ خاصا کمزور فلم کا شعبہ کردار نگاری بھی خاص اثر نہ چھوڑ سکا تھا لہٰذا یہ فلم مسترد کردی گئی۔
شباب کیرانوی کی ’’شمع محبت‘‘ 1977ء شاہد، غلام محی الدین اور شبنم کی تکون پر مبنی دل چسپ اور کام یاب گولڈن جوبلی فلم تھی، جس میں کہانی کی تِکون کا اہم کردار عدنان (شاہد) آخری مرحلے میں اپنی جان کانذرانہ پیش کرکے شمع محبت روشن کردیتا ہے۔
1982ء کی ریلیز ہدایت کار محمد جاوید فاضل کی ’’آہٹ‘‘ محبت کی تِکون پر بنائی جانے والی فلموں میں سب سے زیادہ بلند معیار کی حامل ایک شاہ کار فلم تھی، جس میں تِکون کا اہم کردار فراز یعنی ندیم نے اپنی محبوبہ کی خاطر موت کو گلے لگا کراپنے پیار کو امر کردیا اور شبنم کے شوہر وحید مراد کو یہ کبھی پتہ نہ چل سکا کہ اس کی بیوی کی زندگی میں کوئی فراز نامی نوجوان بھی آیا تھا۔ ’’آہٹ‘‘ کا ایک ایک فریم قابل دید تھا۔ ندیم اور شبنم کی کردار نگاری بھی آؤٹ اسٹینڈنگ تھی۔ روبن گھوش کا میوزک بے مثل تھا، لیکن صد افسوس کہ فلم کو باکس آف پر پزیرائی نہ ملی اور یہ فلم محض 28؍ ہفتے چل سکی۔