• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ورزش انسانی جسم کے ہرحصے کو متحرک کردیتی ہے ، اسی طرح سے ورزش انسانی یادداشت اور سوچنے کی صلاحیتوں میں بھی اضافے کا باعث بنتی ہے۔ ایک نئی تحقیق میں سائنسدانوں نے انکشاف کیا ہے کہ جسمانی سرگرمی صرف بڑوں ہی نہیں بلکہ بچوں کے لیے بھی اتنی ہی مفید ہوتی ہے۔ تحقیق میں کہا گیا ہے کہ جسمانی سرگرمی یا ورزش، بچوں کی ذہانت کے ساتھ ساتھ تعلیم کے میدان میں بھی ان کی کارکردگی کو بہتر بناتی ہے۔ یہ اہم تحقیق اسپین کی یونیورسٹی آف گرینیڈا نے شائع کی ہے۔

تحقیق کے خدوخال

تحقیق میں کہا گیا ہے کہ وہ بچے جو جسمانی طور پر فٹ ہوتے ہیں، ان کے دماغ کے فرنٹل، ٹیمپورل اور کالکیرائن کارٹیکس حصوں کا حجم زیادہ ہوتا ہے۔ یہ دماغ کے وہ حصے ہیں، جو سارے ’ایگزیکٹو فنکشنز ‘ انجام دینے کے ذمہ دار ہوتے ہیں۔ مزید برآں، بچوں میں سیکھنے، موٹر اِسکلز پروان چڑھانے اور بصری (ویژوئل) ادراک بڑھانے میں بھی دماغ کے ان حصوں کا کردار اہم ہوتا ہے۔ موٹر اسکلز سے مراد بچوں کی وہ صلاحیتیں ہیں، جن کے باعث دماغ، اعصابی نظام اور پٹھوں کی اکٹھے کام کرنے کی صلاحیت بہتر ہوتی ہے۔

اہداف

تحقیق کا مقصد یہ جاننا تھا کہ جسمانی طور پر زیادہ فٹ اور پھرتیلےبچوں کی دماغی صلاحیتیں کس طرح ان کے ہمعصر اور جسمانی طور پر کم پھرتیلے بچوں کے مقابلے میں مختلف طرح سے کام کرتی ہیں اور اس کا ان کی تعلیمی کارکردگی پر کیا اثر پڑتا ہے؟

اس سلسلے میں یونیورسٹی آف گرینیڈا کے اسپورٹس اینڈ ہیلتھ انسٹیٹیوٹ کے لِیڈ ریسرچر فرانسیسکو بی آرٹیگا کہتے ہیں، ’’اس سوال کا جواب مختصر اور طاقتور ہے: جی ہاں، جسمانی فٹنس اور پھر تیلےپن کی خصوصیت کئی طرح سے براہِ راست بچوں کے اہم دماغی حصوں سے جُڑی ہوئی ہوتی ہے، جس کا عکس ان کی تعلیمی کارکردگی میں دیکھا جاسکتا ہے‘‘۔

یہ تحقیق نیورو امیج جرنل میں شائع ہوئی ہے، جو ’اَیکٹیو برینز پروجیکٹ‘ کا حصہ ہے۔ تحقیق میں 8سال سے 11سال کی عمر کے ایک سو سے زائد ایسے بچوں پر طبی (کلینیکل) تجربات کیے گئے، جو زائد وزن اور موٹاپے کا شکار تھے۔ تحقیق میں پتہ چلا کہ بچوں کی موٹر صلاحیتیں ان کے دماغ کے دو حصوں کو فروغ دینے میں اہم کردار ادا کرتی ہیں، جن کا تعلق زبان سیکھنے اور روانی کے ساتھ پڑھنے سے ہوتا ہے۔ تاہم محققین کو پوری تحقیق کے دوران کسی بھی مرحلے پر پٹھوں کی مضبوطی اور دماغی صلاحیتوں کے درمیان تعلق کے شواہد نہیں ملے۔

تحقیق کی مرکزی مصنّفہ یونیورسٹی آف گرینیڈا کی پوسٹ ڈاکٹورل ریسرچر آئرینے ایسٹبان کارنیجو ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ جسمانی فٹنس اور پھرتیلے پن سے بچوں کے دماغ کے بیرونی (کارٹیکل) اور نیم قشری (سب کارٹیکل) حصوں کی ادراکی صلاحیتیں بڑھنے کے واضح شواہد ملے ہیں۔ ڈاکٹر کارنیجو نے اپنی تحقیق میں ایک اور اہم بات کچھ اس طرح بیان کی ہے: ’’جسمانی فٹنس ایک ایسی خصوصیت ہے، جس میں جسمانی ورزش سے اضافہ کیا جاسکتا ہے۔ 

اگر جسمانی ورزش کے ساتھ بچوں کی ایروبک استعداد اور موٹر صلاحیتیں بڑھانے والی ورزشیں بھی شامل کی جائیں تو اس سے نہ صرف بچوں کی دماغی صلاحیتیں بہتر کرنے کی رفتار کو تیز کیا جاسکتا ہے بلکہ ان کی تعلیمی کارکردگی کو بھی بہتر بنایا جاسکتا ہے‘‘۔

بچوں میں بڑھتے وزن کا مسئلہ

زیادہ وزن اور موٹاپے کے شکار بچوں کی تعداد میں دنیا بھر میں اضافہ ہورہا ہے۔ 1990ء میں ایسے بچوں کی تعداد 3کروڑ 20لاکھ تھی، جو 2016ء تک بڑھ کر 4کروڑ 10تک جا پہنچی ہے۔ ترقی یافتہ ملکوں کے مقابلے میں، ترقی پذیر ملکوں میں بچوں میں موٹاپے کا مسئلہ زیادہ سنگین شکل میں سامنے آرہا ہے، وہاں ایسے بچوں کی تعداد میں زیادہ تیزی سے اضافہ ہورہا ہے۔ 

ماہرین کی مطابق، اس کی وجہ یہ ہے کہ ترقی پذیر ملکوں میں جس رفتار سے لوگوں کی آمدنی میں اضافہ ہورہا ہے، اس سے خاندانوں کا طرزِ زندگی اور کھانے پینے کے طور طریقے بدل رہے ہیں۔ یونیورسٹی آف گرینیڈا کے محققین نے پالیسی سازوں اور معلمین پر زور دیا ہے کہ وہ اس تحقیق کے نتائج کو اپنے تعلیمی اداروں میں عملی طور پر نافذ کریں اور فزیکل ایجوکیشن کو تعلیمی نصاب میں لازمی طور پر شامل کریں۔

والدین کیا کریں

تحقیق میں کہا گیا ہے کہ تعلیمی اداروں سے زیادہ بچوں کی جسمانی فٹنس کو بہتر بنانے میں والدین کا کرداراہم ہوتا ہے، کیونکہ اسکول میں قدم رکھنے سے پہلے کئی عادات بچوں کی شخصیت اور عادت کا حصہ بن چکی ہوتی ہیں، جس میں والدین کی تربیت کا عمل دخل ہوتا ہے۔ مثلاً: والدین نے اپنے بچوں میں جسمانی سرگرمیوں کو اپنانے کے لیے کس طرح کا ماحول فراہم کیا؟ کچھ والدین بچوں کے گِرنے اور چوٹ لگنے کے ڈر سے انھیں ہر وقت محتاط رہنے کی تاکید کرتے نظر آتے ہیں، جس کے باعث وہ بچے نہ صرف نازک مزاج ہوجاتے ہیں بلکہ اس سے ان کی جسمانی فٹنس بھی متاثر ہوتی ہے۔ 

مزید برآں، والدین ہی بچوں میں صحت مند غذائیں منتخب کرنے اور کھانے پینے کی عادتیں پروان چڑھاتے ہیں۔ اکثر والدین، بچوں سے پہلے ہی ہار مان لیتے ہیں کہ ان کے بچے جَنک فوڈ کے علاوہ کوئی بھی صحت مند چیز نہیں کھاتے۔ والدین کا ایسا رویہ بچوں کے اس رویے کی مزید حوصلہ افزائی کرتا ہے، جس کے تحت ان کا رجحان جَنک فوڈ کھانے کی طرف زیادہ اور صحت مند غذاؤں سے دور بھاگنے کی طرف ہوتا ہے۔

تازہ ترین