• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
وزیراعظم میاں نواز شریف نے گزشتہ منگل کے روز بالآخر قوم سے خطاب کرہی لیا جس کا پاکستانی عوام اور میڈیا کو70-60دنوں سے انتظار تھا بلکہ ماہ رمضان میں جب مشترکہ مفادات کی کونسل کے اجلاس کے بعد وزیر اعظم سیکرٹریٹ میں میاں نواز شریف کی قومی اخبارات اور ٹی وی چینلز کے مالکان اور ایڈیٹرز کے اجلاس میں پوچھا گیا تھا کہ وہ قوم سے کب خطاب کریں گے تو ملکی حالات کے حوالے سے خاصے فکر مند میاں نواز شریف نے اپنے مزاج کے برخلاف بڑے سنجیدہ انداز میں کہا تھا کہ ابھی اس کا وقت نہیں آیا۔ بہرحال اب ان کا14سال کے بعد قوم سے یہ پہلا خطاب تھا جس کے بارے میں سرکاری حلقوں میں اطمینان کا اظہار کیا جارہا ہے کہ بڑا اچھا خطاب تھا جبکہ عوامی حلقوں میں یہ کہا جارہا ہے کہ یہ تقریر تو ان کے پارٹی منشور کے اہم نکات کو دہرانے والی بات ہے جبکہ اقتصادی ماہرین کے مطابق وزیر اعظم کی تقریر کا ایک پہلو یہ ہے کہ اس میں لاہور سے کراچی موٹر وے سے لے کر بے روزگار نوجوانوں تک کے لئے نئی سکیم کے اجراء ،پاک چین راہداری کے منصوبے سے لے کر کم آمدنی والے افراد کے لئے نئے گھروں کی تعمیر کے کئی اقدامات بڑے قابل تعریف ہیں جو کہ سب کے سب اخراجات والے منصوبے ہیں، بہتر تھا کہ وزیر اعظم اس کے ساتھ ساتھ ان منصوبوں کے لئے وسائل کے بندوبست کی بات بھی کرتے۔ وہ قوم سے ایک ا یک روپیہ قومی ترقی کے لئے مختص کرنے اور ہر شخص کو بلا امتیاز ٹیکس دینے کی بات کرتے ہیں۔
اس وقت عملاً صورتحال یہ ہے کہ ہمارے ملک میں ایشو نئے منصوبوں کے آغاز کا نہیں ہے اصل ایشو ان کے لئے وسائل کے بندوبست کا ہے، جس کی قوم کو توقع تھی کہ وہ بتائیں گے کہ ہم یہ اخراجات کم کرکے اور اس اس طرح ٹیکسوں کی آمدن بڑھا کرترقی کے سفر پر گامزن ہوسکتے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ اگر ملکی دولت لوٹنے والوں کے خلاف موثر کارروائی کے لئے کوئی بڑا اعلان کرتے جس سے پارلیمنٹ سے لے کر عام آدمی سب کو سوچنا پڑتا کہ پاکستان میں اب رول آف لاء ا ٓنے والا ہے اور اب یہاں ملکی دولت لوٹنے والوں کے دن پورے ہوچکے ،اس سے سیاسی طور پر انہیں اسلام آباد کے ایک حالیہ مس ہینڈل ہونے والے واقعہ سے جو نقصان پہنچا تھا اس کی بجائے انہیں مثبت عوامی ردعمل مل سکتا تھا۔
اس وقت ہمارے ملک کے وسائل کا یہ عالم ہے کہ منصوبے تو بے پناہ بنے پڑے ہیں مگر ان کیلئے وسائل کا بندوبست نہ تو اندرون ملک سے ہورہا ہے اور نہ ہی بیرون ملک سے جلدی ہونے کی توقع ہے۔ یہ جو آئی ایم ایف سے 6ستمبر کو واشنگٹن ڈی سی میں6.6ارب ڈالر کے قرضہ کی منظوری حاصل ہونیوالی ہے وہ پہلی قسط کے طور پر ماہ نومبر دسمبر میں جو3ارب ڈالر ملیں گے وہ عملاً کاغذوں ہی میں آئی ایم ایف کی پرانے قرضہ کی مد میں چلے جائیں گے۔ ایسی صورتحال میں حالات کا تقاضا یہی ہے کہ قومی وسائل کے ضیاع کو روکنے اور وسائل میں اضافہ کیلئے ایک قومی ادارہ بنایا جائے جو ہر شخص کی آمدنی سے کچھ نہ کچھ حصہ لینے اور قومی خزانہ میں جمع کرانے کی ذمہ داری ہے۔ دوسرا صدر سے لے کر وزیر اعظم تک اور گورنر ز سے لے کر تمام وزرائے اعلیٰ کے اپنے اپنے ہوم ٹاؤن آنے اور جانے کے اخراجات انہیں ذاتی خرچ سے برداشت کرنے کی روایت ڈال دی جائے، پھر تمام وفاقی اور صوبوں کے وزراء کو بھی اس کا پابند کردیا جائے تو اس سے سالانہ2سے3ارب روپے کی بچت ہوسکتی ہے۔ اس کے علاوہ نوجوانوں کیلئے نئی اسکیم کے اجراء کیلئے نجی شعبہ کے بڑے گروپوں کو یہ ٹاسک دیا جائے وہ انہیں بے روزگاری الاؤنس کے ساتھ ساتھ عبوری تربیت کا بھی اہتمام کریں جبکہ ٹیکس چوری کو روکنے کیلئے مڈل کلاس کیلئے ایک جامع ایجنڈا سکیم لائی جائے جسکے تحت 10کروڑ سے 15کروڑ روپے تک مالیت کے اثاثے رکھنے والوں کو ٹیکس رجسٹریشن کیلئے خصوصی رعایتی سکیم کا اجراء کیا جائے۔ اسکے ساتھ ساتھ منصوبہ بندی کمیشن جہاں آج کل ویژن 2025ء کی تیاری ہورہی ہے یہ کام وہی احسن اقبال کررہے ہیں جنہوں نے2010ء کا پلان بنایا تھا پھر اسکے ساتھ کیا ہوا وہ سب جانتے ہیں۔ اب منصوبہ بندی کمیشن گو کہ وہ نہیں رہا جو ایک ز مانے میں ہوا کرتا تھاجب وہ وزارت خزانہ پر راج کرتا تھا اور پاکستان کنسورشیم کے پریس اجلاس میں منصوبہ بندی کمیشن کے ڈپٹی چیئرمین پاکستان وفد کی قیادت کیا کرتے تھے۔ اب بھی حالات اس کا تقاضا کررہے ہیں تو منصوبہ بندی کمیشن میں نئی جان ڈالی جائے ۔ویژن 2025ء کیلئے وفاقی وزیر منصوبہ بندی سول سوسائٹی کے تمام طبقوں سے مشاورت کریں، اس پس منظر میں ضرورت اس امر کی ہے کہ وزیراعظم کی اگلی تقریر ماضی اور حال کے واقعات پر مبنی نہ ہو بلکہ وہ مستقبل کے اقتصادی ترقی کے اس خاکے پر مبنی ہو جس سے پاکستان میں انرجی کے بحران سے لے کر سیکورٹی کی صورتحال اور معاشرے میں پھیلی ہوئی بددلی کے خاتمہ تک کے قابل عمل اقدامات ہوں۔ اس سے مسلم لیگ (ن)کی حکومت کی سیاسی ساکھ بہتر ہوسکتی ہے جس پر اب کچھ نامناسب وجوہ کی بناء پر کچھ دھبے لگتے نظر آرہے ہیں۔
تازہ ترین