• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

افغانستان سے غیر ملکی افواج کے انخلا کے بعد جہاں امریکہ نے افغان حکومت کے بیرون ملک موجود اثاثے منجمد کئے ہیں وہیں دیگر عالمی اداروں نے بھی افغانستان کے لیے مالی امداد کا سلسلہ منقطع کر رکھا ہے۔ اس سے ایک طرف طالبان حکومت کو انتظامی معاملات چلانے میں مشکلات کا سامنا ہے تو دوسری طرف افغان شہری بھی شدید مالی مشکلات اور غذائی قلت کا شکار ہیں۔ سردی کے اس شدید موسم میں جب افغانستان میں درجہ حرارت نقطہ انجماد سے بھی نیچے چلا جاتا ہے یہ صورتحال اور بھی گھمبیر ہوتی جا رہی ہے۔ وزیر اعظم عمران خان نے انہی حالات کو دیکھتے ہوئے اسلام آباد میں اسلامی تعاون تنظیم کا اعلیٰ سطحی اجلاس منعقد کیا تاکہ افغانستان کو کسی بڑے انسانی المیے سے بچانے کے لیے فوری اقدامات کئے جا سکیں۔ اس اجلاس سے جہاں پاکستان کی عالمی سطح پر سفارتی تنہائی کے تاثر کی بھرپور نفی ہوئی وہیں وزیر اعظم عمران خان کے عالمی لیڈر ہونے پر بھی مہر تصدیق ثبت ہوئی ہے کہ انہوں نے اپنی جرأت مندانہ قیادت سے پوری مسلم دنیا کو افغان عوام کی عملی مدد کے لیے متحرک کر کے پاکستان کا سر فخر سے بلند کر دیا ہے۔

افغانستان میں عام شہریوں کو جو صورتحال درپیش ہے اس کا اندازہ بین الاقوامی امدادی تنظیم انٹرنیشنل کمیٹی فار دی ریڈ کراس کے ڈائریکٹر جنرل رابرٹ ماردینی کے اس بیان سے لگایا جا سکتا ہے کہ’’ افغانستان کی موجودہ صورتحال تباہی کی طرف جارہی ہے اور امدادی ادارے اپنے ساتھ بے شک اقوامِ متحدہ کے دیگر اداروں کو بھی ملا لیں تب بھی افغانستان میں جاری معاشی بحران پر قابو نہیں پایا جا سکتا اور نہ ہی ان کی معاشی ضروریات پوری کی جا سکتی ہیں‘‘۔ایسے میں انسانی بنیادوں پر افغانستان کو غذائی اشیاء کی فوری فراہمی کے ساتھ ساتھ پاکستان کی حکومت کو دوطرفہ تجارت کو بھی آسان سے آسان تر بنانےکی ضرورت ہے تاکہ افغان عوام کی مشکلات کو جلد از جلد کم کیا جا سکے۔ ایک عشرہ قبل تک پاک افغان تجارت کا حجم 3.3 ارب امریکی ڈالر تھا جو کم ہو تے ہوتے 2019 میں صرف 1.37 ارب ڈالر رہ گیا جبکہ2020 میں یہ تجارتی حجم مزید کم ہوکر 369 ملین ڈالرپر آ گیا تھا۔ماضی میں افغانستان پاکستانی مصنوعات خصوصاً کپڑے، خوردنی اشیاء، ادویات، مشروبات اور تعمیراتی سامان کا سب سے بڑا گاہک تھا۔ اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ افغانستان کے پڑوسی ممالک میں سے پاکستان واحد ملک ہے جہاں سے افغانستان تک زمینی راستے سے رسائی سب سے آسان ہے۔ تاہم گزشتہ کئی سال سے دونوں ممالک کی حکومتوں کے مابین موجود عدم اعتماد کی وجہ سےباہمی تجارت میں خاطر خوا ہ اضافہ نہیں ہو ا۔اس سے جہاں افغانستان میں اشیائے ضروریہ کی قیمتوں میں بے تحاشہ اضافہ ہوا ہے وہیں پاکستان میں بھی مختلف شعبوں خصوصاً مقامی مارکیٹ کے لیے کپڑا تیار کرنے والی ٹیکسٹائل انڈسٹری کو بھی شدید نقصان کا سامنا کرنا پڑا ہے۔

افغانستان میں طالبان کے حکومت میں آنے کے بعد سے پاکستانی مصنوعات کی طلب میں کئی گنا اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔اس وقت افغانستان میں سب سے زیادہ اضافہ اشیائے خورونوش کی طلب میں ہوا ہے۔اس کے باوجود دونوں ملکوں کے درمیان باہمی تجارت کا حجم صرف 1.2 ارب ڈالر تک محدود ہے۔ باہمی تجارت کو فروغ دینے کے لیے پاکستانی حکومت کی طرف سے افغانستان کے ساتھ تجارت مقامی کرنسی میں کرنے کی تجویز زیر غور ہے جس پر عملدرآمد سے صورتحال میں بہتری آنے کی امید ہے۔تاہم اس کے ساتھ ساتھ پاکستانی تاجروں کو افغان مارکیٹ دوبارہ حاصل کرنے کے لیے اپنے طور پر بھی اقداما ت کرنے کی ضرورت ہے کیونکہ گزشتہ چند سال میں آہستہ آہستہ پاکستانی مصنوعات کی جگہ انڈین مصنوعات نے لے لی ہے اور اب بھی بہت سی انڈین مصنوعات کی ایران کی چا بہار پورٹ کے راستے افغانستان کو برآمد کا سلسلہ جاری ہے۔ علاوہ ازیں پاک افغان سرحدی گزرگاہ طورخم میں بجلی، انٹرنیٹ اور جدید سکینر زکی سہولت بھی دستیاب نہیں جس کی وجہ سے افغانستان جانے والے برآمدی کنٹینرز کو کلیئرنس کے لیے کئی کئی دن سرحد پر انتظار کرنا پڑتا ہے۔اگر حکومت کی طرف سے ٹرکوں اور کنٹینرز کو اسکین کرنے والےا سکینرز کی تعداد بڑھادی جائے، زیرو پوائنٹ پر داخلی و خارجی دروازوں کو الگ الگ کر کے سیکورٹی معاملات دو تین الگ الگ اداروں کی بجائے کسی ایک ادارے کے ذمے لگادیئے جائیں تو اس سے بھی باہمی تجارت کو فروغ دینے میں کافی مدد ملے گی۔اس حوالے سے افغانستان کی موجودہ حکومت کو بھی فیصلہ سازی کا عمل بہتر بنانے کی ضرورت ہے کیونکہ پالیسی امور طے نہ ہونے کی وجہ سے بھی دونوں ممالک کی باہمی تجارت میں اضافہ نہیں ہو رہا۔ دونوں ممالک کی حکومتیں اگرپالیسی معاملات پر متفق ہو جائیں تو بہت سےمسائل چند دنوں میں حل ہو سکتے ہیں۔ ماضی میں پاکستان افغانستان کا سب سے بڑا تجارتی پارٹنر رہ چکا ہے۔ اس حوالے سے باہمی تعلقات بہتر بنا کر دونوں ممالک آنے والے وقت میں سیکورٹی اور اقتصادی میدان میں بھی مل کر آگے بڑھنے کی راہ تلاش کر سکتے ہیں۔ اس طرح افغانستان اور پاکستان کے درمیان پرامن اقتصادی تعاون سے جنوبی ایشیا کو وسطی ایشیا سے جوڑنے میں بھی مددمل سکتی ہے۔ اس سلسلے میں دونوں ممالک کی حکومتوں کو ادائیگیوں کے منظم تصفیے اور بہتر انشورنس میکانزم، بانڈڈ کیریئرز کے استعمال، ویزا جاری کرنے، تجارتی مالیات، ٹیکس وصولی، اور دستاویزات کے ذریعے تجارتی سہولت کو بہتر بنانے کی ضرورت ہے۔اگر پاکستان اور افغانستان کی حکومتیں دونوں ممالک کے مابین خوشگوار تعلقات کو فروغ دینا چاہتی ہیں تو اس کے لیے دوطرفہ تجارتی تعلقات کو مضبوط بنانا انتہائی ضروری ہے کیونکہ دونوں ملک قدرتی طور پر ایک دوسرے سے جڑے ہوئے ہیں۔ اس لیے اگر ان کے معاشی ودفاعی تعلقات اچھے ہوں گے تو اس کا فائدہ دونوں ممالک کے ساتھ ساتھ پورے خطے اور دنیا کو ہوگا۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین