• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

جمہوریت کے حوالے سے ایک حقیقت پیش نظر رکھنی چاہیے کہ یہ ایک ایسی انسانی اختراع ہے جس میں ہر وقت تغیر و تبدل کا امکان موجود رہتا ہے۔ کچھ ادوار ایسے ہوتے ہیں جن میں جمہوریت کمزور ترین شکل میں موجود ہوتی ہے جبکہ کچھ عرصہ کے بعد یہی جمہوریت اپنی پوری طاقت کے ساتھ جلوہ گر ہوتی ہے۔ تمام تر اختلافات کے باوجود یہی ایک حقیقت ہے کہ بدترین جمہوریت بھی بہترین آمریت سے بہتر ہے۔ جمہوریت کے حوالے سے ایک حقیقت یہ بھی ہے کہ یہ نظام سماجی ڈھانچے کے ساتھ منسلک ہے، اگر سماج میں ایک بنیادی تبدیلی رونما ہوتی ہے تو اس کے اثرات جمہوریت پر بھی پڑتے ہیں، جس زمانے میں انسانی سماج جاگیردارانہ تھا تب بڑے زمیندار جمہوری نظام کے ذریعے اقتدار کے مراکز تک پہنچے اور جب سماجی نظام نے کروٹ لیتے ہوئے زرعی معیشت سے سرمایہ دارانہ نظام کی طرف سفر شروع کیا تو اس نظام سے تعلق رکھنے والے افراد طاقت کے مراکز تک پہنچے۔ جمہوریت نے دونوں طبقات کو برابر مواقع مہیا کیے۔ 1776میں امریکہ آزاد ہوا، 1778اس نے اپنا آئین تشکیل دیا اور 1789میں انقلابِ فرانس کے نتیجے میں یورپ کے دوسرے ممالک میں بھی تبدیلیاں وقوع پذیر ہوئی اور کچھ ہی عرصہ میں کئی سلطنتیں ٹوٹیں اور متعدد نئی ریاستوں کا وجود عمل میں آیا۔ جمہوریت کے سفر کے دوران یورپی ممالک سے غلامی کے خاتمے سے لے کر عام عوام کو ووٹ کا حق دینے تک سفر کئی سو سال پر محیط ہے۔ یہاں تک کہ سترہویں صدی میں یورپی ممالک نے اپنی تجارتی سرگرمیاں دوسرے براعظم تک پھیلانے کے لیے نو آبادیاتی نظام قائم کیا۔ اِس نظام کے قیام میں فرانس، پرتگال اور برطانیہ کو نمایاں اہمیت حاصل رہی۔ 1757میں بنگال پر قبضے سے ہندوستان پر قبضے کا عمل شروع ہوا جو 1857میں دہلی کے لال قلعہ پر قبضہ کے ساتھ مکمل ہوا۔ برطانیہ نے ہندوستان میں اپنے مفادات کے تحفظ کے لیے ایک ایسا ڈھیلا ڈھالا جمہوری نظام بھی ترتیب دیا جس میں ایک طرف تو ہندوستانی عوام کی مناسب نمائندگی موجود تھی لیکن غلبہ ان لوگوں کا تھا جو انگریز سرکار سے وفاداری کا دم بھرتے تھے۔ ہندوستان نے آزادی کے بعد جلد ہی ان خرابیوں پر قابو پا لیا جو اس نظام کی وجہ سے پیدا ہوئی تھی لیکن پاکستان میں قائداعظم محمد علی جناح کے انتقال کے ساتھ ہی بانی جماعت ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو گئی جس کی وجہ سے وہ عناصر مزید طاقتور ہو کر اس نظام پر قابض ہو گئے۔ سیاست میں کارپوریٹ سیکٹر کے قبضے کا آغاز 1980کی دہائی میں ہوا جب برطانیہ میں کنزرویٹو پارٹی کی مارگریٹ تھیچر اور امریکا میں وہاں کی رپبلیکن پارٹی کے رونالڈ ریگن برسر اقتدار آئے۔ انہوں نے ایسی پالیسیاں ترتیب دیں کہ جس کے ساتھ بڑے سرمایہ دار اور کارپوریٹ سیکٹر کے مفادات کو توسیع دینے کا سلسلہ شروع ہوا اور دیکھتے ہی دیکھتے یہ اقدامات دوسری دنیا کے ممالک تک بھی پہنچنے لگے۔ برطانیہ کی لیبر پارٹی اور امریکہ کی ڈیموکریٹ پارٹی اپنے روایتی فلاحی ایجنڈے سے ہٹ کرکارپوریٹ سیکٹر کے قبضے میں چلی گئی جس کے اثرات پوری دنیا پر ظاہر ہونے لگے۔

1990 کے عشرے کے اوائل میں سوویت یونین کے ٹوٹنے کیساتھ امریکہ کے قائم کیے ہوئے سرمایہ دارانہ نظام نے ایک طرف تو اپنی فتح کا اعلان کیا، دوسری طرف دنیا کے تمام ممالک میں اپنے پنجے گاڑنے شروع کر دیے۔ جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ سرمایہ دار طبقے کا عمل دخل ماضی کی نسبت کہیں زیادہ بڑھ گیا اور عوامی سطح پر اسی رجحان کو فروغ دیا گیا کہ معاشی خوشحالی ہر چیز پر فوقیت رکھتی ہے۔ سیاسی عمل، بنیادی حقوق، شہری آزادیاں، آزاد صحافت اور وہ تمام حقوق جو جمہوریت کے ذریعے حاصل کئے جاتے تھے ان کی جگہ معاشی خوشحالی کے واحد ایجنڈا نے لے لی۔ اور چند ہی برسوں میں دنیا کے اکثر ممالک میں اس طرز سیاست کو فروغ حاصل ہوا جو کارپوریٹ سیکٹر کے مفادات سے زیادہ ہم آہنگ تھا۔ لہٰذا اس وقت دنیا میں جمہوری نظام کو لاحق خطرات میں سے سب سے بڑا خطرہ کارپوریٹ سیکٹر سے ہے جس نے اپنی معاشی طاقت کا استعمال کرتے ہوئے پوری دنیا کی حکومتوں کو اپنے قابو میں کر لیا ہے۔ کبھی آئل مافیا بش کو اقتدار میں لے آتا ہے تو کبھی اسلحہ ساز گروہ باراک اوباما کی پشت پناہی کرتا ہے۔ یہ مافیاز جب چاہتے ہیں تو ٹرمپ الیکشن ہار جاتا ہے۔ کسی اور مافیا کی منظم سے بائیڈن برسراقتدار آ جاتے ہیں۔ اِس وقت دنیا میں حقیقی حکمرانی تو وہ بڑی کمپنیاں کر رہی ہیں جو حقیقی طور پر پوری دنیا کی معیشت پر قابض ہیں۔ تمام جمہوری حکومتوں میں کوئی ایک حکومت بھی ایسی نہیں جو گوگل کی طاقت کو چیلنج کر سکے۔ جو فیس بک سے ٹکر لے سکے، جو ٹوئٹر کے مقالات پر ضرب لگا سکے۔ کارپوریٹ سیکٹر سے تعلق رکھنے والے یہ ادارے اتنے طاقتور ہو چکے ہیں کہ اب جمہوریت محض نام کی رہ گئی ہے۔ بعض فیصلوں سے تو یوں لگتا ہے کہ جیسے جمہوری حکومتیں کارپوریٹ سیکٹر کے سامنے کٹھ پتلیوں کی طرح حرکت کرتی ہیں۔ اگر آپ پاکستان کی بات کریں تو 1985کے بعد نو دولتیوں کا ایک گروہ سیاست پر یوں قابض ہوا کہ کئی سال سے سیاست کرنے والے خاندان قصۂ ماضی بن گئے۔ یہ دولت کا کرشمہ تھا کہ پاکستان میں سیاست جیسے معزز کام میں کاروبار کا عمل دخل بڑھ گیا۔ کاروبار حکومت ایسے چلایا گیا کہ جیسے لمیٹڈ کمپنی چلائی جاتی ہیں۔ دنیا کے دیگر ممالک میں بھی یہی صورت حال ہے اور جمہوریت کو سب سے زیادہ خطرہ اسی رویے سے ہے۔ معاشی ترقی کے نام پر مختلف مافیاز قابض ہو چکے ہیں، جن سے نکلنے کی بظاہر کوئی سبیل نظر نہیں آتی لیکن عوام کا جمہوری شعور مسلسل تبدیلیوں کو دیکھ رہا ہے اور وقت فیصلہ کرے گا کہ عوام جمہوری نظام کو لاحق خطرات کا مقابلہ کرتے ہیں یا پھر کارپوریٹ سیکٹر کا حصہ بن کر جمہوریت کا قلع قمع کرنے میں ممد و معاون ثابت ہوتے ہیں۔

تازہ ترین