• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

لاہور کی بینکنگ کورٹ نے منی لانڈرنگ کیس کی سماعت کے دوران مسلم لیگ نون کے صدر، قومی اسمبلی میں قائدِ حزبِ اختلاف میاں شہباز شریف اور ان کے صاحبزادے پنجاب اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر حمزہ شہباز کو حاضری کے بعد واپس جانے کی اجازت دے دی جبکہ ان کے وکیل امجد پرویز نے دلائل دیے۔

جج سردار طاہر صابر نے ملزمان کی عبوری ضمانت کی درخواستوں پر سماعت کی۔

دورانِ سماعت شہباز شریف اور حمزہ شہباز نے عدالت میں پیش ہو کر حاضری مکمل کرائی۔

شہباز شریف نے استدعا کی کہ عدالت کی اجازت سے کچھ کہنا چاہتا ہوں۔

فاضل جج نے کہا کہ اجازت ہے، کیا کہنا ہے آپ نے؟

شہباز شریف نے کہا کہ ایف آئی اے نے چالان پیش کر دیا، مجھے یقین ہے کہ آپ نے چالان کا جائزہ لیا ہو گا۔

فاضل جج نے کہا کہ آپ لوگوں کی معاونت سے ہی عدالت آگے چلے گی۔

شہباز شریف نے کہا کہ میرےخلاف اس چالان میں کچھ نہیں ہے۔

فاضل جج نے شہباز شریف سے سوال کیا کہ آپ بحث کر رہے ہیں۔

شہباز شریف نے کہا کہ میں بحث نہیں کر رہا، بتا رہا ہوں۔

فاضل جج نے کہا کہ آپ کی بات بعد میں سن لیں گے۔

لاہور کی بینکنگ کورٹ نے شہباز شریف اور ان کے صاحبزادے حمزہ شہباز کو حاضری کے بعد واپس جانے کی اجازت دے دی۔

دورانِ سماعت شہباز شریف اور حمزہ شہباز کے وکیل امجد پرویز عدایت میں پیش نہ ہوئے۔

عطاء تارڑ نے عدالت سے استدعا کی کہ امجد پرویز احتساب عدالت میں مصروف ہیں، لہٰذا عدالت درخواستِ ضمانت میں تاریخ دے۔

عطاء تارڑ نے یہ بھی استدعا کی کہ عدالتی دائرہ اختیار پر بحث کے لیےعدالت آج کا کوئی وقت مقرر کر دے۔

فاضل جج نے سوال کیا کہ آپ کے وکیل کس وقت عدالت میں موجود ہوں گے، وقت بھی آپ ہی بتا دیں۔

عطاء تارڑ نے بتایا کہ شہباز شریف اور حمزہ شہباز کے وکیل 12 بجے تک عدالت پیش ہو جائیں گے۔

عدالت نے کیس کی سماعت دوپہر 12 بجے تک ملتوی کر دی۔

کیس کی سماعت دوبارہ شروع ہونے پر شہباز شریف بینکنگ کورٹ لاہور میں دوبارہ پیش ہو گئے، ان کے وکیل امجد پرویز ایڈووکیٹ اور پراسیکیوٹر معظم حبیب، نصیرالدین نیّر عدالت میں پیش ہوئے۔

عدالت نے شہباز شریف کے وکیل کو عدالتی دائرہ اختیار پر دلائل کے لیے طلب کیا تھا۔

امجد پرویز ایڈووکیٹ نے عدالت کو بتایا کہ درج مقدمے میں 9 اکاؤنٹ ہولڈرز کو نامزد کیا گیا، عبوری ضمانت منظور ہو چکی، 8 جنوری 2021ء کو ڈپٹی ڈائریکٹر لاء نے تفتیش مکمل کرنے کے لیے مہلت مانگی تھی، شہباز شریف کے شریک ملزمان کی عبوری ضمانت پر کوئی اعتراض نہ ہونے کا بھی بیان دیا تھا، ایف آئی اے نے 9 شریک ملزمان کی عبوری ضمانت کے حکم کو اعلیٰ عدلیہ میں چیلنج بھی نہیں کیا۔

شہباز شریف کے وکیل نے عدالت کو بتایا کہ اگست میں ایف آئی اے نے تسلیم کیا کہ اس کیس میں بینکنگ عدالت کا دائرہ اختیار بنتا ہے، شریک ملزمان اظہر محمود اور عاصم سوری کی عبوری ضمانت پر بھی ایف آئی اے نے اعتراض نہیں اٹھایا، 9 اکتوبر 2021ء کو ایف آئی اے نے شہباز شریف کی عبوری ضمانت پر اعتراض اٹھا دیا، عدالتی حکم پر ایف آئی اے نے مقدمے کا چالان اسپیشل جج سینٹرل کے پاس پیش کر دیا، بینکنگ جرائم عدالت میں پیش نہ کرنے پر ایف آئی اے حکام کو شوکاز نوٹس دیا گیا۔

شہباز شریف نے فاضل جج سے سوال کیا کہ سر کیا مجھے بیٹھنے کی اجازت ہے؟

جج سردار طاہر صابر نے کہا کہ جی آپ بیٹھ جائیں۔

امجد پرویز نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ کیس کو دوسری عدالت میں منتقل کرنے سے متعلق کوئی قانون موجود نہیں، مقدمات خصوصی عدالتوں سے دوسری عدالتوں میں منتقل کرنے کے اصول طے کیے ہیں، جب ایک عدالت فردِ جرم عائد کر دے اس کے بعد اس کے دائرہ اختیار پر بحث کی جا سکتی ہے، استغاثہ کی کوئی مرضی نہیں کہ وہ جس عدالت میں چاہے چالان جمع کروائے، پراسیکیوشن کو چالان جہاں مرضی جمع کروانے کا کوئی صوابدیدی اختیار نہیں ہے۔

شہباز شریف کے وکیل امجد پرویز ایڈووکیٹ نے کہا کہ 13 ماہ تک انویسٹی گیشن ایجنسی نے فائل اپنی بغل میں دبائے رکھی، عدالت نے ایف آئی اے کو زور دے کر چالان پیش کروایا، چالان ابھی نامکمل ہے، چالان کے شروع میں کہا گیا ہے کہ بینکرز کی حد تک تفتیش مکمل ہونا باقی ہے۔

عدالت نے کہا کہ جب تک 24 بینکرز کی تحقیقات مکمل نہیں ہو جاتیں، دائرہ اختیار پر فیصلہ نہیں ہو سکتا۔

عدالت نے ایف آئی اے کے وکیل سے استفسار کیا کہ آپ نے اب تک تحقیقات کیوں مکمل نہیں کی، 16 ماہ ہو گئے ابھی 24 بینکرز کا کردار تلاش کیا جا رہا ہے، بتائیے یہ کس طرح کی تحقیقات کر رہے ہیں۔

وکیل نے جواب دیا کہ ان کے خلاف کوئی ثبوت نہیں ملے۔

عدالت نے 10 روز میں مکمل رپورٹ پیش کرنے کا حکم دے دیا اور شہباز شریف اور حمزہ شہباز کی عبوری ضمانتوں میں 14 جنوری تک توسیع کر دی۔

شہباز شریف کے وکیل امجد پرویز نے بینکنگ کورٹ کے باہر میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ شہباز شریف اور حمزہ کے خلاف مبالغہ آرائی سے کام لیا جا رہا ہے، ایف آئی اے انکوائری کمیشن کی رپورٹ میں ابھی تک کسی دوسرے کے خلاف چالان نہیں ہوا، مقدمہ بدنیتی پر مبنی ہے۔

عطاء تارڑ نے کہا کہ شہزاد اکبر بہت جلد بے روزگار ہونے والے ہیں، آج عدالت میں ثابت ہو گیا کہ کوئی ثبوت موجود نہیں۔

قومی خبریں سے مزید