• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

مرتّب: محمّد ہمایوں ظفر

بہت عرصہ پہلے کی بات ہے، میرے والد صاحب نے بہت سی بکریاں پال رکھی تھیں، میں کام کاج سے فارغ ہوکر انھیں چَرانے کے لیے کھیتوں کے اُس پار میدانی علاقے میں لے جاتا تھا اور یہ میرا روز کامعمول تھا۔ اُن دنوں شدید گرمی پڑرہی تھی۔ دھوپ اور تپش سے بے حال ہوکر میں اکثر اللہ تعالیٰ سے بارش کی دعائیں کرتا۔ بالآخر اللہ تعالیٰ نے میری دُعا قبول کی اور مینہ برسادیا۔ بادل اس قدر جم کر برسے کہ دیکھتے ہی دیکھتے پورا علاقہ ابرِرحمت سے جل تھل ہوگیا۔ 

بکریاں بھی خوشی سے چوکڑیاں بھرنے لگیں۔ بارش کا سلسلہ بہت دیر تک جاری رہا، جب اس کی شدّت میں اضافہ ہوتا چلا گیا، تومَیں تمام بکریوں کو اکٹھے کرکے گھر چلا آیا۔ دوسرے روز بھی ہلکی پھلکی بارش کا سلسلہ جاری رہا، جس کی وجہ سے موسم بڑا سہانا ہوگیا۔ چند روز اسی طرح ہم خوش گوار موسم کا لُطف لیتے رہے۔ ایک روز میں قبرستان کے ساتھ والی جگہ پر بکریاں چَرارہا تھا۔ 

بکریاں اِدھر سے ادھر بھاگ رہی تھیں، جنہیں اکٹھا کرنے کے لیے مجھے بھی ان کے پیچھے دوڑنا پڑ رہا تھاکہ اسی بھاگ دوڑ میں شدّت کی پیاس محسوس ہوئی، تو قبرستان کے پاس لگے نلکے سے پانی پینے کے لیے چل پڑا۔ وہاں جاتے ہوئے اچانک میری نظر ایک قبر پرپڑی، جو بارش کے پانی میں ڈوبی ہوئی تھی۔ پانی اندر داخل ہونے کی وجہ سے قبرکی دیواریں بھی قدرے بیٹھ چکی تھیں۔ قبر کا یہ حال دیکھ کرمجھے بہت افسوس ہوا، مَیں پانی پیے بغیر ہی واپس بکریوں کے پاس چلا آیا۔

شام کو گھر جاکر ساری صورتِ حال والد صاحب کو بتائی، تو انہوں نے مجھے تسلّی دی کہ صبح جاکر دیکھیں گے۔ دوسرے روز ہم قبرستان گئے، تو والد صاحب وہ قبر دیکھ کر چونک گئے اور مجھے بتایا کہ ’’یہ تو ہمارے ہی گائوں کے ایک آدمی کی ہے، جس کے خاندان کو مَیں اچھی طرح جانتا ہوں۔‘‘ خیر، وہاں سے ہم سیدھے اس آدمی کے گھر چلے گئے، اس کا بیٹا اور ماں گھر ہی میں تھے۔ والد نے بیٹے کو بتایا کہ ’’تمہارے والد کی قبر بارش کا پانی بھر جانے کی وجہ سے انتہائی خستہ ہوگئی ہے اور وہ کسی بھی وقت مکمل طور پر ڈھے سکتی ہے۔‘‘

یہ سن کر وہ افسردہ ہوگیا اور پوچھا کہ اب کیا کرنا چاہیے، تو میرےوالد نے مشورہ دیا کہ ’’ایک نئی قبر تیار کرکے اس میں دفن کردیتے ہیں، لیکن اس سے پہلے مفتی صاحب کی رائے معلوم کرلیتے ہیں، وہ جیسا کہیں گے، پھر ہم ویسا ہی کریں گے۔‘‘ لڑکے اور اس کی ماں کی آمادگی کے بعد، ہم سیدھے مفتی صاحب کے پاس پہنچ گئے اور سارا ماجراسنانے کے بعد ان سے دریافت کیا کہ ’’بارش کی وجہ سے قبر بیٹھ جائے، تو کیا قبر کھود کر، میّت باہر نکال کے اس کی اندرونی سطح کو درست کرکے میّت کو دوبارہ دفنانا درست عمل ہے؟‘‘ 

انہوں نے جواب دیا کہ ’’شرعِ متین کا اصول یہ ہے کہ میّت کی تدفین کے بعد بلا عُذر قبر کھولنا اور اس جگہ سے میّت نکالنا جائز نہیں، کیوں کہ جب میّت کو قبر میں رکھ دیا جاتا ہے، تو وہ جگہ اس کے لیے خاص ہوجاتی ہے۔ اگر قبر بیٹھ جائے، تو بہتر یہی ہے کہ کھولے بغیر اسے درست کرنے کا اہتمام کیا جائے، آپ مُردے کو نئی قبربنا کر دوبارہ دفن نہیں کرسکتے، ہاں، اگر ضرورت درپیش ہو یا ایسی مصلحت آڑے آجائے، جو علماء کے مطابق درست ہو، تو قبر کھولنا اور میّت نکالنا جائز ہے، مگر شرط یہ ہے کہ میّت باہر نکالتے وقت اس کا چہرہ نہ دیکھا جائے۔‘‘

مفتی صاحب سے فتویٰ لینے کے بعد اگلے ہی روز ہم دونوں باپ، بیٹا مرحوم شخص کے بیٹے کو لے کر قبرستان جاپہنچے اور گورکن کی مدد سے قبر کے سلیب ہٹا کر پانی وغیرہ نکال کے میّت تک پہنچے، تو دیکھا قبر کے اندر جس سائیڈ پر میّت رکھی تھی، حیرت انگیز طور پر وہ بالکل صحیح سلامت تھی۔ ہم مسلسل قرآنی آیات کا ورد کرتے ہوئے عقیدت سے میّت کو دیکھ رہے تھے کہ اچانک ہی بھینی بھینی خوش بُو آنے لگی۔ مَیں نے والد صاحب کی طرف دیکھا، توانہوں نے بھی میری بات کی تصدیق کردی۔ 

مزید حیرت ہمیں اس بات پر ہوئی کہ ایک سال قبل دفنانے اور بارش کا پانی اندر داخل ہوجانے کے باوجود کفن بالکل میلا نہیں ہوا تھا، بلکہ یوں لگ رہا تھا، جیسےچند روز قبل ہی تدفین کی گئی ہو۔ ہم نے میّت کو ہاتھ تک نہیں لگایا، بس گورکن کی مدد سے جس حد تک ممکن ہوسکتا تھا، اُسے بہتر کرکے گھر آگئے۔ بعد میں مرحوم کے حوالے سے معلوم ہوا کہ وہ انتہائی نیک، پرہیزگار،پنج وقتہ نمازی اور اخلاق و کردار کے حوالے سے بھی بہترین انسان تھے۔ (خالد یعقوب،پیر غنی روڈ، پاک پتن)

سنڈے میگزین سے مزید