اسے جس کا انتظار تھا ،جانےوہ اب تک کیوں نہیں آیاتھا؟ اُس کی آنکھیں بند اور کان قدموں کی آہٹ کے منتظر تھے۔ پپوٹوں کے بوجھ تلے دفن آنکھیں یوں ہی بند رہنا چاہتی تھیں۔ گھر والوں سے الگ تھلگ وہ اس کمرے میں قید تھا۔ کھڑکی کے شیشوں پہ گرد کی تہہ جمی ہوئی تھی اور ان شیشوں کے پار دُھند کے غبار میں چودھویں کا چاند تھکی تھکی چاندنی کی ناتواں کرنیں بکھیررہا تھا۔وہ اگر آنکھیں کھول کے دیکھتا ،تو اسے چاند بھی تھکا تھکا سا اُداس، بیمار محسوس ہوتا۔
وہ کھا نسا اورپھر ساتھ ہی کھانسی کا ایک نہ رکنے والا سلسلہ شروع ہو گیا۔کھانسی کی شدّت سےاس کی آنکھوں میں پانی بھر آیا ۔کھانسی کے ساتھ ساتھ سانس بھی دھونکنی کی طرح چل رہی تھی۔وہ شدید سردی میں بھی پسینے میں شرابور ہو گیا۔ اس کا جسم تپ رہا تھا۔بے چین ہو کر اس نے لحاف ایک طرف پھینک کر اُٹھنے کی کوشش کی، مگر توازن برقرار نہ رکھ سکا اور لڑکھڑا کر گر پڑا۔
پھر کچھ دیر تک بے حِس و حرکت زمین پر لیٹا رہا۔ سر سے لے کر پاؤں تک پورے جسم پہ کپکپی سی طاری تھی۔اُسے ٹھنڈ لگ رہی تھی اور سارا جسم بخار سے یوں تپ رہا تھا،جیسے بھٹّی میں رکھ کر دہکایا گیا ہو۔ اختر سوچ رہا تھا،اسماعیل کو اب تک ضرور پہنچ جانا چا ہیے تھا۔ایک لمحے محسوس ہوتا کہ کسی نے اُسےخبر ہی نہیں کی، پھر اگلے ہی لمحے محسوس ہوتا،’’ اسماعیل کو سب خبر ہے، لیکن وہ اب بدل گیا ہے۔‘‘
ٹرین ایک برف زار سے گزر رہی تھی۔پہاڑ کی ڈھلوان سے وادی میں اترتی ٹرین… دُور تک صاف کی ہوئی برف کے ڈھیر پٹری کے دونوں طرف اس طرح قطار میں پڑے تھے،جیسے کسی بادشاہِ کج کلاہ کا دربار ہو اور درباری دو طرفہ قطار باندھے ،سر جُھکائے شہنشاہِ معظّم کے استقبال کے منتظر کھڑے ہوں۔کسی عظیم الشّان سلطنت کی ملکہ کی سی شان سے بڑے جاہ و جلال کے ساتھ ،ان برف کے ڈھیروں کی سلامی قبول کرتے ٹرین چھکا چھک کرتی اپنی منزل کی طرف رواں دواں تھی۔
وہ کافی دیر تک سویا رہا،پھر اچانک آنکھ کُھلی، تو نگاہوں کے سامنے دُور تک برف ہی برف تھی۔برف کے سفید گالے آسمان کی بے کنار وسعتوں سے اس وادی کے تنگ دامن میں اُترتے چلے آ رہےتھے اور سر سبز و شاداب درختوں کو سفیدی کی چادر سے ڈھانپتے جارہے تھے۔ساتھ ہی اس کے چہرےکی اُداسی بھی بڑھتی چلی جا رہی تھی کہ اسے جلد از جلد اپنے بھائی کے پاس پہنچنا تھا۔ اُسے خبر ملی تھی کہ ایک ہزار کلو میٹر دُور موجود اس کا بھائی شدید بیمار ہے اوریہ سُنتے ہی وہ سخت بے چین ہوگیا تھا۔
وہ سوچ رہا تھا کہ وہ روزانہ بیسیوں بیمار آدمیوں کو دیکھتا ہے کہ کسی کا سانس دھونکنی کی طرح چل رہا ہے،کوئی کھانستے کھانستے بے حال ہو چُکا ہے،کسی کے سینے میں شدید درد ہے،کوئی خون تھوکتا پھر رہاہے۔کسی کی سانسوں کی ڈور ٹوٹنے کے قریب ہے…کبھی کبھی تو اسے محسوس ہوتا، جیسے اسپتال کے اس ماحول میں رہتے رہتے اُس کی روح مُردہ ہوچُکی ہے۔جس طرح ایک کلرک کسی دفتر میں بیٹھ کے بہت بےحِسی اور لاتعلقی کے ساتھ فائلز کی ورک گردانی کرتا ہے،ایسے ہی وہ اپنے مریضوں کا معائنہ کرتا تھا۔
کچھ رٹے رٹائے سوال ،جو اس نے اپنی ٹریننگ کے دوران یاد کیے تھے،جیسے کسی ٹی وی یا ریڈیو کا بٹن دبا دیا جائے، تو اس میں برقی رو کے دَوڑنے سے لوگ متحرک ہو جاتے ہیں اور بولنا شروع کر دیتے ہیں۔ ٹی وی کی ان متحرّک تصویروں ہی کی طرح، کسی برقی رو کے زیر اثر اس کے لب ہلنا شروع ہو جاتے اور جب اس کی پٹاری سے نکلنے والے رٹے رٹائے سوالات کا ذخیرہ ختم ہو جاتا، تو وہ خودبخود خاموش ہو جاتا، سر جُھکا کر کاغذوں کا پیٹ بھرنا شروع کر دیتا۔ لوگوں کی بیماریوں اور تکلیفوں کی تشخیص اور علاج اُس کے نزدیک روزمرّہ کے کام کاج کا حصّہ تھا، ایسے ہی ایسے جیسے کوئی درزی کپڑے سیتا ہے یا موچی جوتے گانٹھتا ہے۔
مگر…جب اُس نے اپنے بھائی کی جان لیوا بیماری کا سُنا،توبس پھروہ پلک جھپکتے اپنے بھائی کے پاس پہنچنا چاہتا تھا۔رات کا سناٹا ہر طرف پھیل چُکا تھا۔اس ٹھٹھرتے سنّاٹے میں ٹرین کے انجن کی آواز اور پہیّوں کی کھٹاکھٹ بھی کانپتی سی محسوس ہو رہی تھی۔ ڈبّے میں پُراسرار خاموشی کا راج تھا۔ لوگ ڈرےسہمے ایک دوسرے سے دُور گُم صُم بیٹھے تھے۔ چہروں پہ نقاب اور آنکھوں میں خوف کی تحریر تھی۔ چودھویں کا چاند، اس برف زار کے اوپر ایک اداسی کی کیفیت طاری کرتابادلوں کی سیاہی سے آنکھ مچولی کھیل رہا تھا۔اس کو اپنے سینے میں گھٹن کا احساس ہوا، جیسے کوئی اس کادل اپنی مُٹھی میں لے کر دبا رہا ہو۔
ٹھنڈ کے اس موسم میں بھی اس کی پیشانی پہ پسینے کے قطرے اُبھر آئے۔وہ کھڑکی کا شیشہ کھول کر کھڑکی کے قریب سرک گیا۔یخ بستہ ہو اکا جھونکا اس کے چہرے سے ٹکرایا۔چاندنی کے حصار سے نکل کر ٹرین ایک تنگ و تاریک پہاڑی سرنگ میں داخل ہو گئی۔ یکایک انجن کی آواز اور پہیّوں کی کھٹا کھٹ کی گونج میں اضافہ ہوا۔ کھڑکی کے اُس پار تاریکی کی دبیز چادر تن گئی۔ڈبّے میں جلتے پیلے بلب کی روشنی میں اس کے چہرے پہ گہری پریشانی کے تاثرات نمایاں تھے۔ سُرنگ کی تاریکی، کھڑکی کے راستے ڈبّے میں آتی اور اپنے وجود میں گُھستی محسوس ہوئی۔
اُسے اپنا دل ڈوبتا ہوا محسوس ہونے لگا، تواس نے آنکھیں بند کر لیں۔ اُسے اپنے وجود میں پھیلا اندھیرا اور بھی گہرا ہوتا محسوس ہوا، تو گھبرا کر آنکھیں کھول دیں۔ سرنگ ختم ہو چُکی تھی۔ اندھیرے کی جگہ کھڑکی کے باہر دودھیا چاندنی پھیل چُکی تھی۔ اس نے سوچا ،اندھیرے کا وجود مستقل نہیں ہوتا۔ہر تاریک سرنگ کے اختتام پر روشنی اپنی پوری آب وتاب کے ساتھ جلوہ فگن ہوتی ہے۔ٹرین اسٹیشن پہ جا رُکی۔ ڈاکٹر اسماعیل نے اپنا دستی بیگ اُٹھایا اور اسٹیشن پر اتر گیا۔
اسٹیشن ویران پڑا تھا۔اِکّا دکّا مسافر اس کے ساتھ اُترے۔بھائی اختر کی بیماری کی فکر نے ایک بار پھراسے گھیر لیا،اور ساتھ ہی بچپن کی سہانی یادیں آنکھوں کے سامنے گھومنے لگیں۔وہ گھر کے صحن میں سارا سارا دن دَوڑتے بھاگتے رہتے۔کبھی کرکٹ کھیلتے، تو کبھی فٹ بال۔پھر اچانک ہی کھیلتے کھیلتے ایک دوسرے سے لڑ پڑتے، لڑتے لڑتے پھر ایک دوسرے سے کھیلنا شروع کر دیتے۔بچپن کے وہ سہانے دن پر لگا کر اُڑ گئے۔ اختر علی اپنے آبائی شہر میں درس و تدریس کے شعبے سے وابستہ ہوگیا،جب کہ اسماعیل ڈاکٹری کے شعبے میں چلا گیا۔اب وہ اپنے آبائی شہرسے دُور، بہت دُور شہر کے ایک بڑے اسپتال میں کام کرتا تھا۔وہ دونوں بھائی ایک دوسرے سے سیکڑوں مِیل کے فاصلے پہ اپنی اپنی زندگیاں گزار رہے تھے،مگر ان کے دل ایک ساتھ دھڑکتے تھے۔روزانہ کئی کئی گھنٹے فون پہ باتیں کرتے۔
پچھلے دو سالوں سے ڈاکٹر اسماعیل کی زندگی بہت مصروف ہو گئی تھی کہ پوری دنیا کی طرح کورونا وائرس کی وبا نے اس کے شہر کو بھی بُری طرح متاثر کیا تھا۔ دو سال سے وہ اپنے بھائی سے مل پایا تھا، نہ گاؤں جا پایا تھا۔اسپتال میں طویل ڈیوٹی کی وجہ سے فون پہ بھی کبھی کبھار ہی بات کرنے کا موقع ملتا۔ لیکن اب، حالات کچھ قابو میں آرہے تھے۔ ویکسین کی آمد کے بعد وبا اب خاتمےکے قریب تھی، لاک ڈاؤن بھی ختم ہو گیا تھا، معمولاتِ زندگی بحال ہو رہے تھے۔
ڈاکٹر اسماعیل نے بھی چُھٹیوں کی درخواست دے دی اور سالِ نو بھائی اور اس کے بچّوں کے ساتھ منانے کا ارادہ کیا۔ وہ ایک ایک دن گن کر گزار رہا تھا کہ اچانک ہی ایک دن اسے فون کال موصول ہوئی کہ اس کے بھائی کی طبیعت بہت خراب ہے، اُس کا سانس اکھڑ رہا ہے۔ کھانسی شدید ہے اور بخار سے پورا جسم تپ رہا ہے۔اس کے ذہن میں خطرے کی گھنٹی بجنا شروع ہو گئی۔مختلف واہموں اور وسوسوں نے اسے گھیر لیا۔سوچوں کی ٹرین مایوسی کی اندھی سرنگ میں گُھستی ہی چلی گئی۔ اور پھر… جیسے سرنگ کے آخری سِرے پہ روشنی ایک نقطے کی طرح چمکتی، اور پھیلتی چلی جاتی ہے،تاریکی پسپا ہونا شروع ہو تی اور آخر ہر چیز بارِ نور بن جاتی ہے، ویسے ہی اسماعیل کے دل میں بھی اُمید کی ایک کرن جگمگائی اور وہ کورونا وائرس کی وہ نئی دوا، جو ابھی مارکیٹ میں آئی تھی،خریدنے چل پڑا۔ اُسے یقین تھا کہ یہ دوا ضرور کارآمد ثابت ہوگی۔جہاں اس بیماری نے انسانوں کے اردگرد خوف کا جال بُنا تھا، وہیں اُن کے ذہنوں میں جستجو کے نئے دریچے بھی وا ہوئے تھے۔بہت محنتوں اور دن رات کی کوششوں سے اس خطرناک وبا کے لیے ویکسین اور ادویہ کی ایجاد بذاتِ خودکسی نعمت سے کم نہ تھی۔
اسماعیل مطمئن نظروں سے دوا کی تھیلی کودیکھتاایک ٹیکسی میں بیٹھ کر بھائی کے گھر کی طرف چل پڑا۔ اُسے یقین تھا کہ دیگر مریضوں کی طرح کورونا کی دوا اختر پر بھی ضرور اثر کرے گی۔ اور وہ دن جلد آئے گا،جب دونوں بھائی پہلے ہی کی طرح مِل بیٹھ کر ڈھیروں باتیں کریں گے اورخوشی خوشی نئے سال کا استقبال کریں گے۔ اور، صد شکر ڈاکٹر اسماعیل کی اُمید بر آئی، دوا اختر پر تیزی سے اثر انداز ہوئی ۔ وہ روبۂ صحت تھا۔ گوکہ اسماعیل چھٹیوں پر تھا، لیکن اس نے کچھ دن گاؤں کے اسپتال ہی میں پریکٹس شروع کردی کہ کچھ تو اپنے لوگوں کے کام آسکے۔
آج اختر اسپتال سے ڈِس چارج ہو رہا تھا اور ڈاکٹر اسماعیل اسپتال میں بیٹھا سوچ رہا تھا کہ انسان کو کبھی نا اُمید نہیں ہونا چاہیے، آج اُس کے دل میں ایک عجیب سا اطمینان تھا کہ اِن شاء اللہ،سالِ نو وَبا کی شکست کا سال ہوگا۔چہروں کی رونقیں، شہروں کی زندگی، گہما گہمی لَوٹ آئے گی۔ اختر صحت یاب ہو کر گھر آچُکا تھا۔ سب بے حد خوش تھے، دونوں بھائی خوش گپّیوں میں مصروف اور پُر امید تھے کہ اِ ن شاء اللہ تعالیٰ نیا سال خوش حالی، خوش بختی اور خوش قسمتی کا سال ہوگا۔