2022 ء کے آغاز کے ساتھ ہی یہ سوال بھی سامنے آیا کہ کیا عالمی قیادت نئے سال میں درپیش چیلنجز سے نمٹنے کی صلاحیت رکھتی ہے؟اِسی ضمن میں یہ بات بھی اہم ہے کہ آخر نئے سال کے چیلنجز کیا ہیں؟ اور اُن سے کیسے نمٹا جاسکتا ہے؟دراصل،رواں صدی میں یہ بات تو طے ہوگئی کہ عوام کی تمام تر توجّہ معیارِ زندگی کی بہتری پر ہے اور دوسرے ممالک پر غلبے کی خواہش پس منظر میں جا چُکی ہے۔وہ چاہتے ہیں کہ اُنہیں زیادہ سے زیادہ سہولتیں ملیں۔عوام کی یہ خواہش چین سے امریکا تک یک ساں ہے اور اس میں کسی نظام کی کوئی تفریق نہیں۔
اِسی لیے عوام ایسی قیادت منتخب کر رہے ہیں، جو یہ مقصد پورا کرسکے۔سادہ الفاظ میں یوں کہہ لیجیے کہ دنیا بھر کے لوگوں کا اپنی اپنی قیادت سے یہی مطالبہ ہے کہ وہ اپنے مُلک اور دنیا کے اقتصادی حالات بہتر سے بہتر کرتے چلے جائیں۔گزشتہ اور اِس صدی میں یہی سب سے بڑا اور اہم فرق ہے۔گزشتہ صدیوں میں فوجی برتری پر زور دیا جاتا تھا اور اس مقصد کے لیے مُلکوں پر قبضے اور نوآبادیات کا قیام عام بات تھی۔
سرد جنگ اور عالمی جنگیں اِسی برتری کے لیے ہوئیں۔جب کہ رواں صدی جنگوں کے خاتمے کی صدی ثابت ہو رہی ہے۔اب شاید ہی کسی قوم کو جنگ کی بات سے دل چسپی ہو۔عوام صرف اپنا معیارِ زندگی بہتر بنانا چاہتے ہیں اور بس۔سہولتوں کی فراہمی میں ٹیکنالوجی سب سے بڑا ذریعہ یا ٹُول ہے، اِسی لیے دنیا اس کے حصول پر توجّہ مرکوز کیے ہوئے ہے۔ دنیا میں جس رفتار اور وسیع پیمانے پر ٹیکنالوجی کا استعمال ہو رہا ہے، ہم جیسے مُمالک میں اس کا زیادہ شعور نہیں کہ ہم ابھی تک بیان بازی اور پسند، ناپسند کی سیاست ہی میں اُلجھے ہوئے ہیں، لیکن عالمی لیڈرشپ عوام کے اِس رجحان کے پیشِ نظر معیشت میں بہتری کو اپنا بنیادی اور اوّلین ہدف مقرّر کرچُکی ہے۔
گزشتہ برس کی عالمی اور علاقائی سیاست بھی اِسی نئی پالیسی کو نمایاں کرتی ہے۔ بڑی طاقتیں ایک دوسرے سے بات چیت کرتی رہیں، جن کا محور اقتصادی معاملات تھے اور وہ اِس مقصد کے لیے ہر قسم کے تعاون اور لچک پر آمادہ دِکھائی دیں۔ امریکا، چین، یورپ اور روس کے درمیان جس سطح پر رابطے ہوئے، اُن میں اِس معاشی پالیسی کی واضح جھلکیاں دیکھی جاسکتی ہیں۔ افغانستان کا معاملہ ہو یا تائیوان کا تنازع، فلسطین کا ایشو ہو یا ایران کی نیوکلیئر ڈیل یا یوکرین کا تنائو، ہر جگہ بات چیت ہی کو اوّلیت دی گئی۔
بڑے ممالک میں جس قسم کا تجارتی تعاون دیکھا گیا، ماضی میں اس کی مثال نہیں ملتی۔امریکا اور چین کے درمیان سرد جنگ کی باتیں ہوتی ہیں، لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ ان دونوں ممالک کی باہمی تجارت 700 بلین ڈالرز سے زاید ہوچُکی ہے۔ سوویت یونین اور امریکا کے درمیان سرد جنگ کے دَور میں اِس قسم کے تجارتی روابط کا فقدان تھا، اِسی لیے سوویت یونین کے بکھرنے سے کسی کو کوئی فرق نہیں پڑا۔
اب جب کہ چین اور امریکا معاشی میدان میں ایک دوسرے پر انحصار کر رہے ہیں، تو کیا پھر بھی اُن کے درمیان کوئی فوجی تصادم ہوسکتا ہے؟اِس سوال کے جواب کے لیے عالمی سیاست میں مہارت کی ضرورت نہیں۔عام شخص بھی اندازہ لگا سکتا ہے کہ ان دونوں قوّتوں کے مفادات کیا کہہ رہے ہیں۔ایسے حالات میں چھوٹے ممالک کو بھی سوچنا چاہیے کہ اب عالمی امور میں گروپس اور بلاکس کی سیاست تقریباً ختم ہوچُکی ہے اور اب تعلقات کی بنیاد صرف اور صرف اقتصادیات پر ہے، اِس لیے اب پرانے خیالات اور سازشی تھیوریز سے نکل کر حقیقی دنیا میں آجانا چاہیے، جہاں کا اصول مال اور سرمایہ ہے۔
امریکا، چین، روس، جرمنی، جاپان، کینیڈا اور آسٹریلیا کے حکم رانوں نے گزشتہ برس ایک دوسرے سے طویل ملاقاتیں کیں۔ایک طرف تو چین اور روس اِن دنوں امریکا اور اُس کے مغربی حلیفوں کے دشمن مانے جاتے ہیں، جب کہ دوسری طرف ان ممالک کی قیادت نے طویل ملاقاتیں بھی کیں۔نیز، سلامتی کاؤنسل کے پانچ مستقل ارکان کا، جو سب ایٹمی قوّت کے حامل ہیں،مشترکہ بیان کہ’’ ایٹمی جنگ ہوسکتی ہے اور نہ ہی اُسے ہونا چاہیے‘‘، تمام ممالک کی آنکھیں کھول دینے کے لیے کافی ہے۔عالمی لیڈرشپ کو کورونا سے متاثرہ معیشت بحال کرنی ہے، جو ان سب کے لیے سود مند پالیسی ہے۔
ان رہنماؤں کی ملاقاتوں میں اُن تنازعات پر بھی کُھل کر بات ہوئی، جو اُن کے درمیان تصادم کا سبب بن سکتے ہیں، لیکن ہر اجلاس اور ملاقات سے واضح ہوا کہ ان رہنماؤں نے وہ حدود مقرّر کر لی ہیں، جن سے کسی صورت آگے نہیں بڑھا جائے گا۔ روس اور امریکا کے درمیان بھی کافی کشیدگی دیکھی جا رہی ہے، لیکن یہ معاملہ بھی کسی مسلّح تصادم کی طرف نہیں جائے گا۔امریکا کے افغانستان سے جانے کے بعد وہاں روس نے فعال کردار ادا کرنے سے پرہیز کیا اور طالبان سے اُس کے بھی وہی مطالبات ہیں، جو امریکا کے ہیں۔جب کہ مودی، پیوٹن ملاقات سے یہ اشارہ بھی ملا کہ بھارت کی امریکا سے بڑھتی قربت پر بھی روس کو کوئی اعتراض نہیں۔
اِس تبدیلی کی وجہ یہ ہے کہ روس، امریکا اور مغربی طاقتوں کی اقتصادی پابندیوں کا متحمّل نہیں ہوسکتا۔واضح رہے، اب تیل کی قیمتوں میں کمی بیشی کا اختیار اوپیک اور روس کی بجائے امریکا کے پاس ہے، جو تیل پیدا کرنے والے بڑے مُلک کے طور پر سامنے آیا ہے۔شاید اِسی لیے امریکا میں چین کے سفیر کے ایک حالیہ بیان میں روس سے متعلق یہ ریمارکس سامنے آئے کہ روس، اب پرانا سوویت یونین نہیں۔
اس کے ساتھ اُنہوں نے امریکا اور چین کے وسیع تجارتی تعاون اور مشترکہ مفادات کا بھی ذکر کیا۔ اِس سے ثابت ہوا کہ کسی بھی مُلک کو کوئی بڑا فیصلہ کرنے سے پہلے اپنے اقتصادی مفادات سامنے رکھنے پڑیں گے۔اِس منظرنامے میں غریب ممالک کی قیادت کو بھی سوچنا چاہیے کہ دنیا بہت بدل چُکی ہے، جب کہ اُن کے عوام غربت، جہالت اور پس ماندگی سے نہیں نکل پارہے۔
درحقیقت، ان ممالک میں بھی ایسی لیڈرشپ کی ضرورت ہے، جو دنیا کے ساتھ قدم ملا کر چل سکے۔ جو ہر ایک کو منہ توڑ جواب دینے کی بڑھکوں کی بجائے ڈپلومیسی سے کام لے اور اُسے اپنے عوام کی خوش حالی کے لیے بروئے کار لائے۔وہ ایسی قیادت ہو، جو اپنی جھوٹی اَنا اور اکڑ میں اپنے عوام اور مُلک کا ستیاناس نہ کرے۔ سیدھی سی بات ہے کہ دنیا کے ساتھ چلنا سب کی مجبوری اور ضرورت ہے، یہ بات جتنی جلد سمجھ آجائے، اُتنا ہی بہتر ہے۔ دشمنیاں قصّۂ پارینہ ہو چُکی ہیں۔اب مختلف نظریات رکھنے والے ممالک ایسے طریقے اپنا رہے ہیں، جن کے ذریعے مخالفین سے بھی سود مند تعلقات قائم ہوسکیں۔
کورونا وبا بھی عالمی سیاست میں بہت سی تبدیلیوں کا سبب بنی ہے۔عالمی وبا سے نمٹنے کے لیے دنیا نے جس طرح ایک دوسرے سے تعاون کیا یا تعاون پر مجبور ہوئی، جو بھی ہو، مگر تعاون کی اِس فضا نے بھی مختلف ممالک کو یہ احساس دِلایا کہ اِس قسم کی قدرتی آفات آتی رہیں گی اور اُن سے اپنے عوام کو محفوظ رکھنے کا بنیادی طریقہ یہی ہے کہ ایک دوسرے کے لیے دروازے کُھلے رکھے جائیں، وگرنہ سب ہی تباہ و برباد ہوجائیں گے۔ ترقّی یافتہ اقوام کے مشترکہ محاذ نے جس تیزی سے کورونا کا زور توڑا، وہ انسانی تاریخ میں اپنی نوعیت کی واحد مثال ہے۔صرف سال بَھر میں ویکسین کی ایجاد اور اربوں انسانوں کی ویکسی نیشن کسی کارنامے سے کم نہیں۔یہ کام یابی اِس لیے ممکن ہوئی کہ پوری دنیا نظریات اور ریاستی نظاموں سے بالاتر ہوکر ایک دوسرے کے ساتھ کھڑی رہی۔
گو کہ اس معاملے میں ہمارا حصّہ صفر ہی رہا کہ ہماری قیادت بیانات داغتی رہی یا پھر کسی جانب سے ویکسین ملنے کی منتظر۔ تاہم،عالمی قیادت کی آج بھی اِس وبا پر بھرپور توجّہ ہے۔ میڈیکل سائنس اور ٹیکنالوجی کے ملاپ سے کوئی ایسا حل تلاش کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے، جس سے کورونا جیسی وباؤں سے نمٹنا آسان ہو جائے اور ویسا نقصان برداشت نہ کرنا پڑے، جو دنیا کو گزشتہ دو برسوں میں کرنا پڑا۔اِس مرحلے پر ہمیں بھی یہ سوچنا چاہیے کہ کیا ہمارے ہاتھ ہمیشہ لینے والے ہی ہوں گے؟
کیا کبھی کسی کو کچھ دینے کے بھی قابل ہوں گے؟بہرحال، گزشتہ سال کے تجربے نے عالمی لیڈرشپ کو باور کروا دیا کہ فی الحال اُن کی تمام تر توجّہ اقتصادی بحالی ہی پر رہنی چاہیے، اِسی لیے کوئی بھی عالمی تنازع زیادہ اہمیت اختیار نہ کرسکا اور نہ ہی رواں سال اختیار کرے گا، کیوں کہ تنازعات میں پڑ کر وقت کا زیاں عالمی لیڈرشپ کی ترجیحات میں ہے ہی نہیں۔نیز، کسی فوجی تصادم کا خطرہ بھی تقریباً نہ ہونے کے برابر ہے۔اِس لیے کسی بھی مُلک کو یہ توقّع نہیں رکھنی چاہیے کہ اگر اُس کا کوئی علاقائی تنازع ہے، تو عالمی قیادت اُس کے حل کی طرف توجّہ دے گی۔
اِن تنازعات پر کوئی غور کرے گا اور نہ ہی اُن پر خارجہ پالیسی کے نام پر وقت ضائع کرنے کی ضرورت ہے۔کشمیر، فلسطین، افغانستان، تائیوان، یوکرین سیاسی اُفق پر ڈوبتے، اُبھرتے رہیں گے، لیکن ہوگا کچھ نہیں۔تو پھر کسی بھی بلاک کی سیاست میں غیر معمولی فعال ہوکر کسی مُلک کو کیا حاصل ہو پائے گا؟افغانستان کا معاملہ سامنے ہے، جو اب امریکا، چین، روس اور یورپ کے لیے اہمیت کھو چُکا ہے۔یہ ایشو صرف ہماری اپیلز اور طالبان حکومت کی فریادوں تک محدود ہوکر رہ گیا ہے۔دنیا کی دل چسپی صرف اِتنی ہے کہ افغان سرزمین کسی قسم کی دہشت گردی کے لیے استعمال نہ ہونے پائے۔شاید ہی کوئی مسئلہ عالمی سیاست سے اِس قدر جلد اوجھل ہوا ہو، جیسے افغانستان غائب ہوا۔
عالمی سیاست میں ٹیکنالوجی کا دخل بہت بڑھ گیا ہے، جس کا عالمی قیادت کو پوری طرح احساس ہے۔اِسی لیے امریکا، یورپ، چین اور ترقّی پذیر ممالک میں یہ ٹُول عوامی مسائل کے حل کے لیے بڑے پیمانے پر استعمال کیا جارہا ہے۔اب براہِ راست امداد دینے کا پرانا طریقہ صرف پس ماندہ ممالک تک محدود ہوتا جارہا ہے۔اس کے برعکس، اب ٹیکنالوجی کی فراہمی اور اس سے فوائد سمیٹنے پر زور دیا جاتا ہے، کیوں کہ اس سے جہاں بنیادی ضرورت کی اشیاء کی فراہمی ممکن ہوتی ہے، وہیں روزگار کے مواقع بھی پیدا ہوتے ہیں۔
یہ کام گزشہ سال چین سے امریکا اور یورپ تک منہگائی کے باوجود ہوتا رہا، لیکن ہم جیسے ممالک میں منہگائی کا شور تو ہے، مگر اس کے تدارک کے وہ طریقے سامنے نہیں آئے، جو ترقّی یافتہ اور ترقّی پذیر ممالک میں بروئے کار لائے جا رہے ہیں۔دراصل، پس ماندہ ممالک کی لیڈرشپ میں اقتصادی ویژن کا فقدان ہے۔رہنماؤں کو اِس بات کا ادراک ہی نہیں کہ ان کے عوام کو معاشی سمت کے تعیّن اور بہتر گورنینس کی ضرورت ہے۔ہمیں دنیا کا حصّہ بن کر چلنا ہوگا، وگرنہ نت نئے فلسفوں اور تجربات سے عوام پِس کر رہ جائیں گے۔
عالمی لیڈرشپ مسلسل پیغام دے رہی ہے کہ تنازعات پسِ پُشت رکھ کر پہلے اپنے عوام کی معاشی بہتری پر توجّہ دی جائے۔ایسی لیڈرشپ سامنے لائی جائے، جو تنازعات میں اُلجھنے کی بجائے مفاہمت کی جانب بڑھے تاکہ قریبی ممالک اور علاقائی سطح پر اقتصادی تعاون ممکن ہو۔ یہ بات بھی ذہن میں رہے کہ عالمی طاقتیں چھوٹے اور غریب ممالک کی اب اُس طرح امداد نہیں کریں گی، جیسے پہلے کیا کرتی تھیں، چاہے وہ انسانی یا سیاسی المیوں کی کتنی ہی دُہائیاں دیتے رہیں۔
بڑے ممالک کا یہ پیغام ہے اور مطالبہ بھی کہ تمام ممالک اپنے وسائل استعمال کریں اور فائدہ مند شراکت داری کی بنیاد پر تعلقات استوار کریں۔یعنی اگر کوئی امداد دے گا، تو وہ غربت یا ہم دردی کی بنیاد پر نہیں ہوگی، بلکہ وہ پہلے اپنے منافعے کی بات کرے گا۔دوستوں اور حلیفوں کی اہمیت یہی ہوگی کہ وہ اس شراکت داری میں کتنا تعاون کرسکتے ہیں۔ٹرمپ نے نیٹو کو بار بار خبردار کیا تھا کہ اگر یورپی ممالک اس میں اپنا حصّہ نہیں ڈالیں گے، تو امریکا اُن کی پذیرائی نہیں کرے گا۔
اِسی طرح امریکا کسی شرمندگی کو خاطر میں لائے بغیر اچانک ایک رات افغانستان سے نکل گیا اور علاقہ چین، روس اور علاقائی ممالک کے حوالے کر گیا، جو ان کے لیے معاشی طور پر دردِ سر بنتا جارہا ہے۔جس’’ مفادات کی سیاست‘‘ کا ذکر عام تھا، وہ درحقیقت شروع ہوچُکی ہے، لیکن یہ مفادات اقتصادی نوعیت کے ہیں۔اس دوڑ میں جیت سے زیادہ فائدہ اُٹھانا بنیادی اہمیت کا حامل ہے، جس کے لیے عالمی لیڈرشپ تیار ہے۔