• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

2021ء اقتصادی بحالی کا سال، ہوش رُبا مہنگائی نے مار ڈالا

عالمی وبا کورونا سے دنیا بھر میں جہاں دیگر شعبہ ہائے زندگی متاثر ہوئے، وہیں معیشت پر بھی گہرے اثرات مرتب ہوئے۔ عالمی معیشت کے حوالے سے 2021ء کو، پوسٹ کورونا دَور میں معیشت کی بحالی کا سال کہا جاسکتا ہے۔ اقتصادی ماہرین اور عالمی مالیاتی اداروں کے مطابق، معاشی بحالی کا یہ عمل 2022ء میں بھی جاری رہے گا۔ اہم بات یہ ہے کہ بحالی کا عمل عالمی وبا کی مختلف لہروں کے باوجود رکنے نہ پایا۔ اس بحالی میں تین اقدامات نے بنیادی کردار ادا کیا۔ اوّل، کورونا ویکسین کی دریافت اور اسے وسیع پیمانے پر دنیا بھر میں لگایا جانا۔ 

دوم، کھربوں ڈالر کے ریلیف پیکیجز، جن کی وجہ سے انسانی عزم و حوصلہ مایوسی سے بچارہا۔ اور سوم، بڑی معیشتوں اورمالیاتی اداروں کی جانب سے پیداواری، ٹیکنالوجی اور مالی سپورٹ۔ مزید برآں، عالمی اقتصادی بحران کے دوران مالیاتی اور اقتصادی اداروں کو وسیع تر مینجمنٹ کا جو تجربہ حاصل ہوا، اس نے بھی بحالی میں بڑا کردار ادا کیا، وگرنہ ماضی کی ایسی ہی وبائوں نے تو دنیا کو تباہی سے دوچار کردیا تھا۔ 

معاشی لحاظ سے مستحکم و مضبوط ممالک میں صفِ ماتم بچ گئی تھی، وہ دیوالیہ ہوگئے تھے۔ تاہم، موجودہ تناظر میں حوصلہ افزا بات یہ ہے کہ عالمی معیشت بڑی تیزی سے بحال ہورہی ہے، باوجود یہ کہ کورونا وبا کے اثرات اب بھی مختلف شکل میں ظاہر ہورہے ہیں، جن میں تیل کی قیمتوں کی بلند سطح اور اشیائے خورونوش کی قیمتوں میں غیر معمولی اضافہ شامل ہیں۔ ظاہر ہے، ان کے اثرات ہمارے ملک پر بھی مرتب ہوئے، لیکن ہمارے یہاں ان اقتصادی وجوہ کے علاوہ گورنینس اور سیاسی ہم آہنگی کے شدید مسائل بھی ہیں۔ 

اس کے برعکس اکثر ترقی یافتہ اور ترقی پزیر ممالک میں گڈ گورنینس اور مستقبل کی بہتر پلاننگ کی وجہ سے کوئی افراتفری پیدا نہیں ہوئی۔ اگرچہ افراطِ زر اور منہگائی ترقی یافتہ ممالک میں بھی ہے، لیکن ان ممالک میں لوگ اسے برداشت کرنے کے قابل ہیں اور ان میں قوتِ خرید بھی ہے۔ جب کہ گزشتہ سال کی صورتِ حال میں ہمارے یہاں پالیسی سازی کی مشکلات میں بہت اضافہ ہوا ہے اور ضروری ہوگیا ہے کہ مَن پسند افراد کی جگہ اُن ماہرین کو معیشت چلانے کی ذمّے داری دی جائے، جو ان چیلنجز سے نمٹنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔

گزشتہ برس عالمی معیشت، مختلف بیرونی اور اندرونی دبائو کے باوجود 5.9 فی صد کے حساب سے بڑھی، جو ماہرین کے حساب سے تسلّی بخش ہے اور اگر کوئی بڑا دھچکا نہیں لگا، تو یہ رفتار مزید تیز ہوسکتی ہے۔ تاہم، دبائو بڑھنے کی صورت میں یہ 2022ء میں 4.9 پر بھی آسکتی ہے۔ اس کی امیر اور غریب ممالک میں مختلف وجوہ ہیں۔ امیر ممالک میں اشیاء کی بڑھتی قیمتوں کادبائو، جب کہ غریب ممالک میں کورونا وبا کو سنجیدگی سے نہ لینا اہم وجوہ ہیں۔ کیوں کہ کورونا معیشت کے لیے اب بھی خطرہ بن کر منڈلارہا ہے۔

امیر ممالک نے کورونا عفریت کے دوران بڑے پیمانے پر لاک ڈائون کیے اور ریلیف دیا، ان ممالک میں ویکسین بھی وافر مقدار میں موجود ہے۔ برطانیہ نے تو کووِڈ۔19 کے علاج کے لیے ٹیبلیٹ کی شکل میں ادویہ منظور کرکے ان کا استعمال بھی شروع کردیا ہے۔ امید ہے کہ امریکا سمیت دیگر ممالک میں بھی ان ادویہ کا استعمال جلد شروع ہوجائے گا۔ تاہم، پس ماندہ اور ترقی پزیر چھوٹے ممالک اس معاملے میں تذبذب کا شکار ہیں۔ اس تناظر میں فیصلہ سازی اور ویکسین کی امداد کا انتظار ہے۔ 

یاد رہے کہ اس سال آئی ایم ایف نے پاکستان کو، کورونا سپورٹ فنڈ کی مد میں 2.43 ارب ڈالرز کی امداد دی، جب کہ مجموعی طور پر کووِڈ دَور میں ترقی کی رفتار میں کمی کی وجہ سے بے روزگاری میں اضافہ ہوا، جو بڑھتی آبادیوں کے لیے چیلنج بنا رہا۔ تاہم،اس کے برعکس ترقی یافتہ ممالک میں بہتری دیکھی گئی۔ ماہرین کا اندازہ ہے کہ اگلے سال بحالی کا عمل مکمل ہونے کے بعد عالمی معیشت معمول پر آنے لگے گی اور ایڈاونسڈ معیشتیں عالمی وبا کے بحالی کے پہلے دَور سے زیادہ تیزی سے بڑھیں گی۔ ورلڈ اکنامک آئوٹ لُک کے مطابق، امریکا کی معیشت پچھلے سال نہ صرف تیزی سے بڑھی، بلکہ اُس کی بحالی کا عمل بھی غیرمعمولی رہا۔

دنیا کی سب سے بڑی اور طاقت ور معیشت ہونے کی وجہ سے اس کا حجم بھی سب سے زیادہ ہے، اسی لیے اس کی ترقی کی رفتار تیز ہونے سے پوری دنیا پر اثر پڑتا ہے۔ خاص طور پر عالمی وبا کورونا کی بحالی کے دَور میں اس کی ترقی نے دنیا کی معیشتوں کو بہت سہارا دیا۔ چوں کہ پاکستان کی تجارت کا بڑا حصّہ امریکا سے وابستہ ہے، تو یہ پاکستان کے لیے اس سے فائدہ اٹھانے کا بہترین موقع ہے کہ اسے جی ایس پی پلس کی مراعات بھی حاصل ہیں۔ دنیا میں سب سے پہلے امریکی کمپنی فائزر نے ویکسین بنائی، اب وہاں کورونا کے علاج کی ادویہ بھی کام یابی سے استعمال ہورہی ہیں، جس کے باعث امریکا میں نہ صرف پیداواری صلاحیت میں اضافہ ہوا، بلکہ روزگار کی صورتِ حال بھی خاصی بہتر ہوئی۔

گزشتہ برس دنیا کی دوسری بڑی اقتصادی قوت، چین کی ترقی کی رفتار میں بھی تیزی دیکھی گئی، جس کے گروتھ کی شرح آٹھ فی صد رہی۔ اس سے آس پاس کے علاقوں کو بھی بڑا سہارا ملا۔ عالمی مالیاتی ادارے بھی اس عمل کو سراہتے رہے۔ لگ بھگ سال بھر لاک ڈائون میں رہنے کے بعد مغربی ممالک کی معیشتوں میں بحالی کا عمل انتہائی تسلّی بخش اور متواتر نظر آتا ہے۔ یورپی ممالک میں ترقی کی شرح 5 فی صد کے لگ بھگ رہی۔ مضبوط معیشتوں کے ممالک جرمنی اور فرانس کی کارکردگی بھی انتہائی تسلّی بخش رہی۔ 

فرانس کی جی ڈی پی 6.3، جرمنی 3.1، اور اسپین کی 5.7 رہی، جب کہ جاپان اور برطانیہ نے بھی بحالی میں تیزی دکھائی۔ برطانیہ کی ترقی کی رفتار 6.8 رہی۔ جب کہ کینیڈاکی 5.7 فی صد کے قریب رہی۔ اس کے برعکس ترقی پذیر ممالک کی معیشتوں میں پوسٹ کورونا بحالی کاعمل خاصا متاثر کُن رہا۔ چین نہ صرف خود معاشی طور پر آگے بڑھتا رہا، بلکہ علاقے کے دیگر ممالک کی معیشتوں کے لیے بھی موثر قوت اورقائد کا کردار اداکرتے ہوئے جی ڈی پی کی رفتار 8 فی صد قائم رکھنے میں کام یاب رہا۔

اِدھر بھارت کی جی ڈی پی کی رفتار بھی خاصی تیز رہی، وہ 9 سے زیادہ کی رفتار سے معاشی طور پر آگے بڑھا۔ گزشتہ کئی برسوں سے دبائو میں رہنے کے باوجود روس کا گروتھ ریٹ 4.7 کے قریب رہا، جب کہ مشرقِ وسطیٰ اور وسطی ایشیا کی رفتار 4فی صد کے لگ بھگ رہی۔ افریقا میں سب سے بہتر کارکردگی کا مظاہرہ جنوبی افریقا نے دکھایا، جو ترقی کی رفتار میں 5فی صد کے قریب رہا، لیکن سب سہارا کے علاقے میں 3 فی صد سے ذرا اوپر رہی۔

ترقی کی رفتار کے ان اعداد وشمار سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ دنیا نے کورونا جیسی خوف ناک عالمی وبا کا بخوبی مقابلہ کیا۔ اس دوران میڈیکل سائنس کی غیرمعمولی کارکردگی اور ڈاکٹرز کی بطور فرنٹ لائن خدمات کو خراجِ تحسین پیش نہ کرنا احسان فراموشی ہوگی۔ 

علاوہ ازیں، حکومتوں کو کورونا کے عالمی وبا کے سبب اموات اور انفیکشنز کی تعداد پر چاہے کتنا ہی تنقید کا نشانہ بنایا جائے، لیکن حقیقت یہ ہے کہ انہوں نے اس عالمی وبا کا نہ صرف مقابلہ کیا، بلکہ اپنی گڈگورنینس سے لوگوں کو سہارا دے کر علاج بھی دریافت کرنے میں دیر نہ کی۔ فاسٹ ٹریک پر جس طرح امریکا، برطانیہ اور پھر چین میں ویکسین آئی، اس نے عالمی معیشت کی بحالی میں بنیادی کردار ادا کیا، کیوں کہ اس سے معاشی سرگرمیوں کی انجام دہی اور دفاتر میں کام کرنے کی صلاحیت بحال ہوئی۔ 

ان تمام اعداد و شمارکی روشنی میں دیکھا جائے، تو پتا چلتا ہے کہ اس عالمی وبا نے انسانیت کو بہت کم نقصان پہنچایا۔ دوسری طرف عالمی لیڈرشپ نے بھی سُستی کا مظاہرہ نہیں کیا۔ انہوں نے فوری طور پر ایسے مالیاتی اقدامات اٹھائے، جس سے معیشتوں کی بحالی میں تاخیر نہیں ہوئی۔ اقتصادی ماہرین کے مطابق، اتنے بڑے بحران کے بعد زندگی معمول پر آنے کا عمل یقیناً غیر معمولی ہے۔ 

اس کے علاوہ ٹیکنالوجی، خاص طور پر انفارمیشن ٹیکنالوجی اور انٹرنیٹ نے بھی اس ضمن میں اہم کردار ادا کیا، جس برق رفتاری سے حکومتوں نے اپنے زیادہ ترنظام کو آن لائن شفٹ کیا، وہ بھی حیرت انگیز ہے۔ اگرچہ اس کا تجربہ تو پہلے بھی تھا، لیکن تمام تجارتی عمل، اشیاء کی فراہمی اور تعلیمی نظام کو آن لائن کرنا معیشتوں کے لیے بہت بڑا سہارا بنا۔

ترقی یافتہ ممالک میں طویل عرصے پر مشتمل لاک ڈائون اور کھربوں ڈالر کے ریلیف پیکیجز نے ایک ایسا منظرنامہ پیش کیا، جس کے متعلق کسی قسم کی پیش گوئی بھی مشکل ہوگئی۔ لیکن اس دوران ایک بات بہرحال واضح طور پر سامنے آئی کہ پوسٹ کورونا دَور میں ٹیکنالوجی کو برتری حاصل رہے گی۔ اس حوالے سے اب صاف نظر آرہا ہے کہ پوری دنیا میں دو ممالک امریکا اور چین ٹیکنالوجی کو بنیاد بنا کر تجارت پر چھا گئے۔ حالاں کہ پوسٹ کورونا دَور کی تجارت اس سے بالکل مختلف ہے، جس کی دو عشروں سے کاروباری ماہرین پیش گوئیاں کررہے تھے۔

آج ٹیکنالوجی کی حامل کمپنیز عالمی اسٹاک پر مکمل برتری حاصل کرچُکی ہیں، اُن ہی کے شیئرز آسمان سے باتیں کر رہے ہیں۔ دل چسپ بات یہ ہے کہ ان ٹیکنالوجیز کی 76 فی صد سے زائد کمپنیز کا تعلق امریکا اور چین سے ہے۔ امریکا دنیا کی سب سے طاقت ور اقتصادی قوت ہے، جب کہ چین دوسرے نمبر پر ہے۔ پہلے یہ تصوّر تھا کہ یورپ اور ابھرتی ہوئی معیشتیں اُن کے مقابل مساوی قوت بن کر سامنے آئیں گی، لیکن فی الحال یہ خیال دُھندلا چکا ہے۔ یوں لگتا ہے کہ کورونا نے اُن کے معاشی سفر کو بُری طرح متاثر کیا ہے۔ 

دنیا پر امریکا اور چین کی تجارتی برتری کا اندازہ اس امَر سے بھی بخوبی لگایا جاسکتا ہے کہ لگ بھگ ایک سو امیر ترین عالمی کمپنیز کا تعلق امریکا، چین اور اس کی ترقی کی شرح سے ہے۔ یورپ جو ایک زمانے میں اس میں 40 فی صد سے زیادہ حصّہ رکھتا تھا، اب 15 فی صد پر آگیا ہے۔ ظاہر ہے، اس کے بعد باقی دنیا کے متعلق تو کچھ کہنا ہی بے کار ہے۔ باقی ممالک، جن کی آبادی دنیا کا 77 فی صد ہے، اپنے وزن سے بہت کم حصّہ اس پلڑے میں ڈال سکیں گے۔ ایسے میں یہ دو بڑی طاقتیں بڑے بڑے منصوبوں کے ذریعے دنیا بھر کے ممالک میں سرمایہ کاری کریں گی اور اُنھیں احساس دلائیں گی کہ اُن کا خیال رکھا جارہا ہے اور دنیا میں اقتصادی توازن قائم رکھنے اور معاشی ناہم واری کو ختم کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ 

جب کہ چین اس میں پہل کرچکا ہے کہ بیلٹ اور روڈ منصوبہ، ایران میں اربوں ڈالرز کی طویل المدّت سرمایہ کاری اسی سلسلے کی کڑیاں ہیں۔ ایک زمانے میں ملٹی نیشنل کمپنیز کی برتری اوردنیا میں اُن کے اقتصادی کردارکا بڑا ذکر تھا۔ یہاں تک کہ انھیں دیو سے تشبیہ دی جاتی تھی کہ یہ جس ملک میں بھی جاتی ہیں، اپنے پنجے گاڑ لیتی ہیں۔ تاہم، گلوبلائزیشن سے اُن کے اثرات کم کرنے میں مدد ملی، کیوں کہ یہ نظریہ معاشی شراکت داری کا تھا، لیکن پھربھی چین نے اپنے عروج کے دَور میں بڑی بڑی کمپنیز پیدا کیں، جن میں علی بابا اور ہواوے عالمی معاشی اُفق پر آج بھرپور طریقے سے اثرانداز ہورہی ہیں کہ معیشت اور ٹیکنالوجی کا ملاپ ہی ان کمپنیز کی بنیاد ہے۔ انہوں نے بڑی بڑی مغربی کمپنیز کو لائن میں لگادیا ہے۔ 

ایک اور موازنہ توجّہ طلب ہے کہ گزشتہ پچیس برسوں میں وجود میں آنے والی ایک سو بلین ڈالرز سے زائد کی کمپنیز میں سے 9 امریکا اور 8چین میں ہیں، جب کہ یورپ میں ایک بھی نہیں، دوسرے ممالک کا تو ذکر ہی کیا۔ اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ امریکا، چین تجارتی جنگ کی تلخیوں کے باوجود یہ دونوں ممالک ایک دوسرے کے تعاون سے مسابقتی عمل میں بتدریج آگے بڑھتے رہے۔

سال کے وسط تک تیل کی قیمتیں عالمی مارکیٹ میں ریکارڈ قائم کرتے ہوئے 86 ڈالرفی بیرل تک پہنچ گئیں، لیکن سال کے آخر میں تیل پیدا کرنے والے ممالک اور عالمی طاقتوں کے اشتراک اور اقدامات کی وجہ سے قیمتوں میں کمی دیکھی جانے لگی۔ تاہم پاکستان میں تیل کی بڑھتی قیمتوں کے اثرات کے باعث عوام میں ہیجانی کیفیت طاری رہی۔ 

بعدازاں سعودی عرب کی موخر قیمتوں پر تیل کی فراہمی اور معاشی پورٹ میں چار ارب ڈالرز خزانے میں ڈیپازٹ کروانے کی وجہ سے صورتِ حال میں کچھ بہتری آئی۔ مختلف اشیاء کی قیمتوں میں اضافے نے دنیا بھر کے ممالک کو متاثر کیا، مثلاً پام آئل کی قیمت 600 ڈالر سے ایک ہزار ڈالر فی ٹن پر چلی گئی۔ ایل این جی، دس سے پچاس ڈالر، خام تیل 40 سے 85 ڈالر فی بیرل، جب کہ کوئلے کی قیمت 60 سے 250 ڈالر پر پہنچ گئی اور فی الحال ان قیمتوں میں فوری کمی کا کوئی امکان نہیں۔ اس کا مطلب ہے کہ دنیا کے دیگر ممالک کی طرح پاکستان کو بھی اسی منہگائی کے ساتھ کچھ عرصے تک جینا ہوگا۔ 

دوسری طرف لاک ڈائون کا جمود ٹوٹنے کی وجہ سے اقتصادی عمل میں تیزی آئی، تو روزگار کی طلب میں بھی اضافہ ہوا۔ ترقی یافتہ ممالک میں لوگ کھا، کما رہے ہیں، ان کے پاس خرچ کرنے کو پیسا اور روزگار کے مواقع بھی ہیں۔ نیز، اکثر ترقی یافتہ اور ترقی پزیر ممالک میں افراطِ زر کی شرح بھی انتہائی کم ہے، یعنی کہیں ایک، تو کہیں دو یا تین فی صد، اس میں ایک آدھ پوائنٹ کا اضافہ ان ممالک کے لیے بوجھ تو ہے، لیکن صورتِ حال ایسی نہیں کہ جسے کنٹرول نہ کرسکیں۔ تاہم، ہماری صورتِ حال ذرا مختلف ہے۔ ہماری معیشت قرضوں اور امداد کے سہارے چل رہی ہے، سیاسی گنجلک سی فضا میں حکم رانوں کے بیانات کی تو بہت بھرمار ہے، لیکن عمل بہت کم۔ 

حکومت کا دعویٰ ہے کہ افراطِ زر9 فی صد ہے، جب کہ آزاد ماہرین 12 سے زیادہ بتاتے ہیں۔ اسی طرح حکومت شرح نمو 4 فی صد، جب کہ ماہرین تین ساڑھے تین فی صد بتاتے ہیں۔ اگر اگلے برس اس میں ایک یا دو پوائنٹ کا اضافہ ہو بھی گیا، تب بھی خوش حالی کا خواب حقیقت نہیں بن سکتا، لہٰذا سب سے پہلے معیشت کی سمت درست کرنے کی ضرورت ہے۔ دنیا پوسٹ کورونا دَور میں ترقی کی چھلانگ لگانے کو تیار کھڑی ہے، ہمیں بھی اس کے ساتھ ساتھ قدم ملا کرچلنا چاہیے۔ 

بہرحال، اس ترقی یافتہ اور جدید دَور میں عالمی وبا کورونا کی وجہ سے جہاں معاشی تباہی ہوئی، وہیں ترقی پذیر اور ترقی یافتہ ممالک کے لیے بہت سے مواقع بھی پیدا ہوئے، اگر کوئی بڑا سانحہ رونمانہ ہوا، تو اقتصادی لحاظ سے 2022ء (اِن شاء اللہ) امیدوں کا سال ثابت ہوگا۔

سنڈے میگزین سے مزید