وہ قیامت کی رات تھی ۔وہاں جانے والوں میں سے کسی کے وہم و گمان میں بھی نہیں ہوگا کہ وہ جہاں تفریح کے لیے آئے ہیں وہ جگہ جنگل سے بھی زیادہ خطرناک ثابت ہوگی اور متعلقہ سرکاری حکّام اور ادارے ایک شہری علاقے میں انہیں سڑک پر مرنے کے لیےچھوڑ دیں گے ۔لیکن ہوا ایسا ہی۔اور ایسا ہی ہونا تھاکیوں کہ تمام متعلقہ سرکاری اہل کاروں اور سیاسی زعما نے ’’بہت محنت‘‘ سے حادثے کے تمام عناصر وہاں جمع کردیے تھے۔
پانچ جنوری کو جب ایک بہت فاضل اور مطّلع وزیرِ با تدبیر کا مشام جاں سے مہکا ہوا ’’تاریخی ٹوئٹ ‘‘آیا کہ ایک لاکھ گاڑیاں مری پہنچ چکی ہیں تو یقینا ان کے سیاسی ساتھیوں اور خوشامدی سرکاری اہل کاروں نے انہیں مبارک باد دی ہوگی اور اسے ان کی جماعت کی حکومت کی بہت بڑی کام یابی قرار دیا ہوگا ،کیوں کہ وزیرِ موصوف نے جو ’’تاریخی ٹوئٹ ‘‘ کیا تھا اس میں انہوں نے فرمایا تھا: ’’مری میں ایک لاکھ کے قریب گاڑیاں داخل ہو چکی ہیں۔ ہوٹلوں اور اقامت گاہوں کے کرائے کئی گنا اوپر چلے گئے ہیں۔
سیّاحت میں یہ اضافہ عام آدمی کی خوش حالی اور آمدن میں اضافے کو ظاہر کرتا ہے۔اس سال سو بڑی کمپنیوں نے 929ارب روپے منافع کمایا۔تمام بڑے میڈیا گروپس 33 سے چالیس فی صد منافعے میں ہیں‘‘۔جب یہ سانحہ وقوع پذیر ہوگیا تو لوگوں نے سماجی رابطوں کی ویب سائٹس پر اسے شیئر کرکے مذکورہ وزیر کی شان میں خوب ’’قصیدے‘‘ پڑھے اور ان کی ’’حکمت، دانائی، دور رس فکر اور باخبری‘‘ کی ’’خوب خوب داد ‘‘ دی ۔ لیکن ایک شخص بہت بد تمیز نکلا اور ساتھ ہی خطرناک بھی ۔ اس نے سوشل میڈیا پر لکھا :’’ یہ بیان معصوم جانوں کے نقصان کی ایف آئی آر ہے‘‘۔
یہ ردّ ِ عمل پڑھ کر نواب محمد احمدخاں قصوری کے قتل پر درج کرائی جانے والی ایف آئی آر اور برسوں بعد اس کے نتیجے میں سامنے آنے والے افسوس ناک تاریخی واقعات یا آگئے۔ ممتاز صحافی حامد میر نے مذکورہ ٹوئٹ کو ری ٹوئٹ کرتے ہوئے لکھا کہ مری جانے والوں کی تعداد میں اضافے کو عام آدمی کی خوش حالی اور آمدن میں اضافے کی وجہ قرار دینے سے پہلے یہ سوچنا ضروری تھا کہ کیا مقامی انتظامیہ کسی آفت کی صورت میں سیاحوں کی مدد کرنے کے قابل ہے یا نہیں؟
ڈیٹا اور ڈرون
اس سانحے کا مرکزی نکتہ یہ ہی ہے کہ سب کچھ سامنے ہونے کے باوجود یوں محسوس ہوتا ہے کہ ذمّے داروں کے سامنے کچھ بھی نہیں تھا۔ جو افراد مری کے بارے میں تھوڑی سی بھی معلومات رکھتے ہیں وہ جانتے ہوں گے کہ وہ کتنی چھوٹی سی جگہ ہے ، وہاں جانے والے راستے کیسے ہیں اور اندرون ِ علاقہ کس قسم کا نظام یا بنیادی ڈھانچا موجود ہے۔ یہ ڈیٹا سائنس اور بِگ ڈیٹاکا زمانہ ہے۔ دو اقسام کا ڈیٹا یا معلومات یقینا متعلقہ لوگوں کے سامنےرہی ہوں گی ۔
اوّل ،ٹول پلازا سے کتنی گاڑیاں مری میں داخل ہوچکی ہیں(جب یہ ڈیٹا متعلقہ محکمے کا وفاقی وزیر نہ ہوتے ہوئے بھی ایک ’’باخبر‘‘ وزیر موصوف کے پاس تھاتو متعلقہ لوگوں کے پاس نہ ہونے کا تو کوئی جواز بنتا ہی نہیں ہے۔) دوم، مری کی انتظامیہ کیا،خود وہاں کے بہت سے رہایشی بھی یہ بات جانتے ہیں کہ مری میں محض دو تا چار ہزار گاڑیوں (مختلف اور محتاط اندازوں کے مطابق)کی پارکنگ کی گنجایش ہےاور یہ سیّاحتی مقام ایک وقت میں محض پچّیش ہزار(کم وبیش) افراد کے وہاں قیام کا بوجھ اٹھاسکتا ہے۔سوال یہ ہے کہ جب پانچ جنوری ہی کو مذکورہ ’’تاریخی ٹوئٹ‘‘ سامنے آگیا تھا تو متعلقہ لوگ کہاں سو رہے تھے اور سانحے کے روز تک کس طرح وہاں مزید گاڑیاں داخل ہورہی تھی؟
ایک روایتی طرز کا بہانہ یہ بنایا جارہا ہے کہ موسم کی خرابی، ٹریفک کا نظام درہم برہم ہونے اور اتنے بڑے اژدہام نے بہت سے امدادی اقدامات ناممکن بنا دیے۔ یہ بہت ہی پرانا اور نہایت پھٹیچر قسم کا بہانہ ہے جو وہاں جاں سے گزرجانے والوں کے ساتھ کسی بہت بھونڈے مذاق سے کم نہیں۔ آج کے دور میں صرف ایک یا دو ڈرون پورے علاقےکے بارے میں ہر طرح کی معلومات ’’بابو لوگوں‘‘ کو ان کے دفاتریا گھر تک پہنچا سکتے تھے۔
لیکن یہ اس وقت ہوتا جب’’ فروغِ سیّاحت کے سرکاری بیانیے‘‘میں زمینی حقایق بھی شامل ہوتے،ماضی کے حکم رانوں کے کسی اچھے کام یا روایت کا کم از کم جائزہ ہی لے لیا جاتا،ماضی میں مری میں سیّاحت کے موسم میں نافذ کیے جانے والے قواعد و ضوابط پر نظر ڈال لی جاتی۔ لیکن ہوا اس کے برعکس ۔مذکورہ’’تاریخی ٹوئٹ‘‘ کے بعد ایک ’’الزامی ٹوئٹ‘‘سامنے آئی ،جس میں اس سانحے کا الزام وہاں بڑی تعداد میں جانے والوں پر دھرتے ہوئے قوم کو بتایا گیا تھا کہ انتظامیہ اس کے لیے خاطر خواہ تیّار نہ تھی :’’ضلعی انتظامیہ خاطر خواہ تیارنہ تھی کہ غیر معمولی برف باری اور موسمی حالات کو ملحوظِ خاطر رکھے بغیر لوگوں کی بڑی تعداد میں آمدنے آلیا‘‘۔
در اصل مری کا سانحہ فروغِ سیّاحت کے سرکاری بیانیے کی بُری طرح سے عملی نفی ہے۔ ایک ’’تاریخی ٹوئٹ‘‘سے تیئس لاشوں تک کا سفراندرون اور بیرونِ ملک سب کوسب کچھ بتاگیا، دعووں اور بیانوں کے سفینے ڈوب گئے ۔اللہ رب العزّت کی تخلیق کردہ اس بے کراں کائنات میں کوئی ناگزیر نہیں ہوتا، لوگ آتے اور چلے جاتے ہیں، نظامِ ہستی چلتا رہتا ہے،لیکن ایسے سانحات تاریخ اورلوگ یاد رکھتے ہیں۔ غلطی، نااہلی، کوتاہی، مجرمانہ غفلت وغیرہ جیسے الفاظ اس نقصان کا ازالہ نہیں کرسکتے جو اس سانحے سے پاکستان کو پہنچا۔جہاں سب کچھ سامنے ہونےکےباوجودخطرناک موسمی حالات میں لوگوں کو مرنےکےلیے سڑک پر چھوڑ دیا جائے، وہاں کو ن سیّاحت کرنے آئے گا۔یہ تاثر دراصل پاکستان کوپہنچنے والا نقصان ہے۔
دس فیٹ برف ۔۔۔
سانحہ مری کے روز کتنی برف باری ہوئی تھی،اس بارے میں بھی ڈیٹا کا سہارا لینے کے بجائے سُنی سُنائی باتوں پر دھیان دیا گیا اور ایک ’’بلند پرواز معاون ‘‘نے تو مری میں واقع گورنر ہاوس میں دس فیٹ تک برف پڑنے اوراس میں اپنی ٹانگیں دھنس جانے تک کی ٹوئٹ فرمادی تھی۔ لیکن پھر ترجمان محکمہ موسمیات نے سانحہ مری کے روز وہاں ہونے والی برف باری کی تفصیلات جاری کردیں۔ محکمہ موسمیات کے مطابق سانحے کے وقت وہاں برف باری ڈیڑھ فیٹ سے بھی کم ہوئی اور مری میں 7جنوری کو زیادہ سے زیادہ برف باری17 انچ ہوئی۔ ترجمان محکمہ موسمیات کے مطابق مری میں چار جنوری کوچھ انچ پانچ جنوری کو 8.5 انچ برف باری ہوئی تھی۔
یہ درست ہے کہ محکمہ موسمیات کا کہنا تھا کہ برف باری گزشتہ چند سال کےمعمول سے زیادہ تھی، لیکن ایسا بھی نہیں ہےکہ اس روز کوئی انوکھا کام ہوگیا تھا۔ بعض اطلاعات کے مطابق محض دس اور بعض کے مطابق پندرہ برس قبل بھی اتنی ہی برف پڑی تھی۔ انوکھی بات یہ ہے کہ محکمہ موسمیات نے پانچ جنوری کو طوفان کی پیشگی اطلاع دی، تو انتظامیہ کیوں سوئی رہی؟ اطلاع کے باوجود سیاحوں کی اتنی بڑی تعداد کو مری میں داخل کیوں ہونے دیا گیا؟ محکمہ موسمیات نے شدید برف باری کا پہلا الرٹ 31 دسمبر2021 کو جاری کیا تھا۔
پانچ جنوری کو دوسرا الرٹ جاری کیاگیا۔ محکمہ موسمیات نے پہلے ہی وزیراعظم آفس کو برف باری سے متعلق آگاہ کر دیا تھا۔محکمہ موسمیات کی ایڈوائزری نے تمام متعلقہ اداروں کو محتاط رہنے کی ہدایات جاری کی تھیں۔چھ اور سات جنوری کے درمیان مری اور گلیات میں شدید برف باری کا الرٹ جاری کیا گیا تھا۔ چھ سے نو جنوری کے درمیان مری کی سڑکیں برف باری کی وجہ سےبند ہونے کی اطلاع دی گئی تھی، وزارت ہوابازی کوبھی مری میں شدید برف باری سے متعلق آگاہ کر دیا گیا تھا۔ چیئرمین این ڈی ایم اے ، پی ڈی ایم اے،ایس ڈی ایم اے کوبھی برف باری کے بارے میں خبر دی گئی تھی۔
یوں ڈیٹا نے یہ مشکل بھی حل کردی کہ مری میں اس مرتبہ ریکارڈ برف باری نہیں ہوئی۔ہا ںیہ کہا جاسکتاہے کہ تقریباَ ایک دہائی بعد اس کی شدت میں اضافہ ہوا ہے ۔ راول پنڈی کے قریب واقع ہونے اور اس شہر کو وادیٔ کشمیر سے ملانے والی شاہراہ پر واقعہ مری برطانوی دور ہی سے پنجاب کا مشہور ترین ہل اسٹیشن رہا ہے۔ 1980کی دہائی سے پاکستان کے دیگر شہروں کی طرح مری بھی بہت تیزی سے جدید ترین شہر میں تبدیل ہونا شروع ہوا۔ 1980کی دہائی سے قبل زیادہ تر لوگ موسم گرما میں اس شہر کا رُخ کیا کرتےتھے۔ نئے زمانے نے سردیوں میں ہونے والی برف باری کے مناظر سے لطف اندوز ہونے کی خواہش کو بھی اُکسانا شروع کیا۔
رواں صدی کے آغاز سے گرمی اور سردی کے ’’سیزن‘‘ کے مابین تفریق تقریبا ختم ہوچکی ہے۔ نئے تقاضوں کے مطابق مقامی انتظامیہ سوچ سمجھ کر تیارکیے گئےایس او پیز کے مطابق برف باری کے دوران بھی زندگی کو رواں رکھنے کی عادی ہوئی۔ مری اور اس کے داخلی اور خارجی راستوں کو کھلا رکھنے کے لیے برف باری سے قبل مختلف مقامات پر سڑکوں کو برف سے صاف رکھنے کی خصوصی گاڑیاں مختلف مراکز میں کھڑی کردی جاتی تھیں۔ اس کے علاوہ قدرتی نمک کے ڈھیر بھی کئی مقامات پر ذخیرہ کیے جاتے۔لیکن اب بہ تدریج یہ حقیقت عیاں ہو رہی ہے کہ حالیہ برف با ری کی ممکنہ شدت کو ذہن میں رکھتے ہوئے کئی برس قبل تیارکیے گئے ایس او پیز پر کماحقہ عمل نہیں ہواتھا جس کی وجہ سے یہ سانحہ رونما ہوا۔
پاکستان میں سیّاحت کا فروغ ، غیر ملکیوں کا سہارا اور تنقید نہ سننا
یہ اپریل 2019 کی بات ہے۔ سیّاحت کو فروغ دینے کے لیے اسلام آباد میں حکومت کی جانب سے منعقد کی گئی دو روزہ پاکستان ٹورازم سمٹ میں جب ایک بھی پاکستانی وی لاگر دیکھنے میں نہ آیا تو صارفین نے سوشل میڈیا پر شکوہ کیا۔ حکومتِ وقت سے ایک اور شکوہ یہ کیا گیا کہ اجلاس میں صرف غیر ملکی وی لاگرز کو کیوں بلایا گیا ہے ؟ ایوازوبیک، ٹریور جیمز، ایلیکس رینلڈز، روزی گبریئل، مارک وینز اور امل لملوم نامی غیر ملکی وی لاگر اس اجلاس کا حصہ بنے تھے۔
اس اجلاس پر کچھ حلقوں کی جانب سے پہلے ہی تنقید کی جا رہی تھی تاہم اس میں اضافہ اس وقت ہوا جب مدعو کی گئی ایک امریکی خاتون وی لاگر کو گفتگو کی اجازت نہ دی گئی۔پھرانسٹا گرام پر اکاؤنٹ چلانے والی امریکی وی لاگر ایلیکس رینلڈز نے فیس بُک پر ایک ویڈیو شیئر کی ہے جس میں انہوں نے سمٹ کی انتظامیہ پر الزام عاید کیا تھا کہ تمام غیر ملکی وی لاگرزمیں سے صرف انہیں سمٹ میں گفتگو کرنے سے اس لیے روکا گیا،کیوں کہ ان کی باتیں تنقید پر مبنی اور ایجنڈے سے ہٹ کر تھیں۔
وڈیو میں ان کا کہنا تھا کہ اگر لوگ سیاحت سے متعلق اجلاس میں آئیں گے تو اُنہیں پہلے ہی سے پتا ہو گا کہ پاکستان کافی زبردست جگہ ہے تو سورج کو چراغ دکھانے کا کیا فائدہ؟ اس کے برعکس میں نے تنقیدی رویہ اپنانے کا فیصلہ کیا اور آج کل سوشل میڈیا پر پاکستان کی جس طرح کوریج ہو رہی ہے اس کے مستقبل میں ملک کی سیاحت کےلیے خطرناک (ثابت) ہونے (کے موضوع ) پر تقریر تیار کی اور اس میں یہ نکتہ بھی شامل تھا کہ ہم اس بارے میں کیا کر سکتے ہیں۔
ایلیکس رینلڈز نے تقریباً پندرہ منٹ دورانیے کی اپنی اس وڈیو میں ان تمام مشکلات کا تفصیل سے تذکرہ کیا جو غیر ملکی سیاحوں کو پاکستان میں پیش آ سکتی ہیں جس میں پولیس کے رویے سے لے کر ملک کے مختلف علاقوں کی سیاحت کے لیے درکار سرکاری اجازت ناموں تک کا تذکرہ تھا۔ان کا کہنا تھا کہ وہ اجلاس میں اپنی گفتگو میں یہ سب باتیں بتانا چاہتی تھیں تاکہ ان مشکلات کے حل کے لیے حکومت اقدامات کرے تاہم ان کی تقریر کے مسودے کو دیکھ کر انتظامیہ نے ان کو بولنے کی اجازت ہی نہ دی۔
ایلیکس کو پاکستان ٹورازم سمٹ میں گفتگو کا موقع فراہم نہ کرنے کے بارے میں کے پی کے کے صوبائی وزیرِ سیاحت عاطف خان کا کہنا تھا کہ اس کانفرنس کی منتظم حکومت نہیں بلکہ ایک نجی کمپنی تھی۔ انتظامات بھی اُن کی طرف سے کیے گئے اور تقریب کا ایجنڈا بھی ان ہی کا تھا۔ ایلیکس کی طرف سے ایک تنقید یہ کی گئی تھی کہ پاکستان کے کچھ علاقوں میں سیاحت کے لیے اجازت نامے کی شرط ختم کرنے کے اعلان کے باوجود عمل درآمد ابھی تک نہیں ہو سکا ہے۔
ملک میں غیرملکی سیاحوں کو پیش آنے والے مسائل کے بارے میں عاطف خان کا کہنا تھا کہ چھوٹے موٹے مسائل تو ترقی یافتہ ممالک میں بھی ہوتے ہیں مگر مسائل آتے ہیں اور حل ہو جاتے ہیں اور اسی طرح یہ سلسلہ چلتا رہتا ہے۔ غیر ملکیوں کا سہارا لینے کے بارے میں عاطف خان کا کہنا تھا کہ اگر آپ بین الاقوامی سطح پر پاکستان کے بارے میں خیالات ٹھیک کرنا چاہتے ہیں تو آپ کو بین الاقوامی میڈیا اور بین الاقوامی میڈیم چاہیے ہوتا ہے۔
ایلیکس کی وڈیو کے جواب میں ٹوئٹر پر سنتھیا ڈی رچی نے کہاتھا کہ 'ایلیکس نے بہت اچھے نکات پیش کیے جن میں سے کچھ میں، کئی برسوں سے کہتی آئی ہوں۔ یہ سن کر مایوسی ہوئی کہ کچھ شکایات ایسی ہیں جو مجھے 2009 سے ہیں۔
کیا ریاست اپنے ہاتھ کھڑے کرسکتی ہے؟
سانحہ مری کے ضمن میں نو جنوری کو وفاقی وزیر داخلہ شیخ رشیدکا کہنا تھا کہ خیبرپختون خوا سے لوگوں کو مری آنے سے روک دیا جاتا تو یہ سانحہ نہ پیش آتا۔ ہمیں اندازہ نہیں تھا کہ اتنی بڑی تعداد میں لوگ مری کا رخ کریں گے۔ آئندہ کے لیے منصوبہ بندی کرنے کی ذمے داری حکومت کی ہے۔ اتنی بڑی تعداد میں لوگوں کو کوئی کنٹرول نہیں کرسکتا۔ جیو کے پروگرام ’’نیا پاکستان شہزاد اقبال کے ساتھ‘‘میں گفتگو کرتے ہوئے ان کا کہنا تھاکہ مری میں وفاقی حکومت کو مجبوراً رینجرز طلب کرنا پڑی۔ آج صبح بھی سیکڑوں گاڑیاں اور نوجوان مری جانے کےلیے تیار تھے،وہ کوئی بات سننے کے لیےتیار نہیں تھے بلکہ پولیس کے گلے پڑرہے تھے۔
لوگوں سے درخواست ہے کہ قومی ذمے داری کا ثبوت دیں۔ شیخ رشید کا کہنا تھا کہ وفاقی حکومت نے راول پنڈی، اسلام آباد بند کردیا تھا، لیکن بدقسمتی سے مجھے خیبرپختون خوا کا خیال نہ آیا۔ خیبرپختون خوا سے لوگوں کو مری آنے سے روک دیا جاتا تو یہ سانحہ نہ پیش آتا۔ گلڈنہ، باڑیاں، گلیات میں برف باری سے صورت حال مزید خراب ہوئی۔
شیخ رشید نے کہا کہ مری میں اتنی برف باری ہوئی کہ محکمہ موسمیات کی طرف کسی کی نظر ہی نہیں گئی۔ ہمیں اندازہ نہیں تھا کہ اتنی بڑی تعداد میں لوگ مری کا رخ کریں گے۔ آئندہ کے لیے منصوبہ بندی کرنے کی ذمہ داری حکومت کی ہے، حکومت کو مری کے علاوہ بھی سیاحت کے لیے جگہیں بنانا ہوں گی۔اتنی بڑی تعداد میں لوگوں کو کوئی کنٹرول نہیں کرسکتا۔
ہجوم کی نفسیات اور منتظم کی تلاش
شیخ رشید کی بعض باتوں سے اتفاق کیا جاسکتا ہے ،لیکن زیادہ ترسے نہیں۔یہ کہنا کہ اتنی بڑی تعداد میں لوگوں پر قابو پانا ناممکن ہے، بڑی عجیب و غریب بات ہے۔ایسے میں یہ سوال جنم لے سکتا ہے کہ کیا ریاست کسی معاملے میں اپنے ہاتھ کھڑے کرسکتی ہے؟یہ بہت خطرناک بات ہے۔
دوسری بات یہ کہ انتظام کاری بہ ذاتِ خود ایک سائنس ہے۔یہ سائنس ہمیں بتاتی ہے کہ کب ،کہاں اور کیسے کسی مسئلے پو قابو پایا جاسکتا ہے۔ ہجوم کی ایک مخصوص نفسیات ہوتی ہے، جسے موب سائیکی کہا جاتا ہے۔ اگر کسی ہجوم کو منتشر کرنے کے لیے اس کے درمیان میں گھس کر کارروائی کی جائے تو وہ عموما بہت تباہ کن اور ناکام ثابت ہوتی ہے۔ہماری انتظامیہ اور سیاست داں بھی ہجوموں سے وقتا فوقتا نمٹتے رہے ہیں۔چند ماہ قبل ہی پنجاب میں حکومت ایسے تجربات سے گزری ہے۔
اس دوران اس نے کئی مراحل پر مشتمل لائحہ عمل تشکیل دیا تھا۔یعنی کون کہاں سے چلے گا،کہاں کہاں سے گزرے گا،کسے کہاں روکنا آسان ہوگا،کہاں ہجوم کی طاقت کم ہوگی، وغیرہ وغیرہ۔ مری پہنچنے والے لاکھوں افراد کو بھی اسی طرح مرحلہ وار روکا جاسکتا تھا۔ یہ بات سمجھنے کے لیے ہمیں مری میں برف باری کے باعث پیدا ہونے والی صورت حال کی ابتدائی رپورٹ سامنے رکھنا ہوگی۔ رپورٹ کہتی ہے کہ تین یوم میں ایک لاکھ سے زاید گاڑیاں مری میں داخل ہوئیں۔ 12 ہزارگاڑیاں واپس آئیں باقی برف میں پھنس گئیں۔رپورٹ میں کہا گیاہے کہ محکمہ موسمیات نے غیر معمولی برف باری کا نہیں بتایا تھا۔پانچ فیٹ سے زاید برف باری ہوئی جس کی اطلاع نہیں تھی۔
وزیراعلیٰ پنجاب کو سانحےکے بارے میں پیش کی گئی ابتدائی رپورٹ میں بتایا گیا کہ چھ جنوری کی رات سے مری جانے کا راستہ بند کردیا گیا تھا۔ رش بڑھنے کے باعث لوگوں کو روکتے رہے۔ اخبارات میں اشتہارات بھی دیے،پھر بھی بڑی تعداد میں سیاح مری پہنچ گئے ۔ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ زیادہ بڑا حصہ خیبرپختون خوا کی سائیڈ کا متاثر ہوا ہے۔ سات جنوری کو مری میں 16 گھنٹے میںچار فیٹ برف پڑی۔ تین تا سات جنوری ایک لاکھ62ہزار گاڑیاں مری میں داخل ہوئیں ۔
سولہ مقامات پر درخت گرنے سے ٹریفک بلاک ہوئی، گاڑیوں میں بیٹھے بائیس افراد کاربن مونو آکسائیڈ سے جاں بہ حق ہوئے۔ مری جانے والی 21 ہزار گاڑیاں واپس بھجوائی گئیں۔ سولہ مقامات پردرخت گرے اور سڑکیں بلاک ہوئیں، بجلی نہ ہونے کے باعث سیاحوں نے ہوٹل چھوڑکرگاڑیوں میں رہنےکوترجیح دی لیکن مری میں پارکنگ پلازہ موجود نہیں جہاں گاڑیاں پارک کی جاسکیں۔ شدید برف باری کی وجہ سے 20 سے 25 بڑے درخت گرے۔
مری اورگردونواح میں سڑکوں کی دو سال سے جامع مرمت نہیں ہوئی۔رپورٹ میں یہ بھی انکشاف کیا گیا ہے کہ مری کےمرکزی خارجی راستے پر پھسلن کےباعث کوئی حکومتی مشینری موجودنہ تھی۔ صبح آٹھ بجےبرف باری تھمنے کے بعد انتظامیہ حرکت میں آئی ۔تاہم مری کےخارجی راستے سے برف ہٹانے کے لیے ہائی وے مشینری بھی نہ تھی۔
رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ رات گئےڈی سی ، سی پی اوکی مداخلت پرمری میں گاڑیوں کی آمد پر پابندی لگی، متعلقہ اسسٹنٹ کمشنراورڈی ایس پی ٹریفک روانی یقینی بنانے کے لیے موجود تھے اور سات جنوری کواکیس ہزار گاڑیوں کو مری سے نکالاگیا۔ گڑھوں میں پڑنے والی برف سخت ہونے سے بھی ٹریفک کی روانی میں رکاوٹ پیداہوئی۔ شاہ راہ پر ٹریفک جام سےبرف ہٹانے والی مشینری کے ڈرائیور بروقت نہ پہنچ سکے۔
رپورٹ واضح طورپر یہ بتاتی ہے کہ کئی سمتوں اور مرحلوں میں کام کرنے کی ضرورت تھی، لیکن ایسا نہیں ہوا تھا۔ ان کاموں پر نظر رکھنا اور ان کے نتائج کا جائزہ لیتے رہنا ہی انتظام کاری یا ایڈمنسٹریشن کہلاتی ہے۔ اور ظاہر ہے کہ یہ پوری مشینری چلانے والا بالآخر ایک شخص ہوتا ہے جسے منتظم کہا جاتا ہے۔ اس سانحے میں وہ ’’منتظم‘‘ نہیں مل رہااورشاید اسی وجہ سےاتنی تباہی ہوئی۔