• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

یہ 2011کی بات ہے۔ پاکستان کی ایک نسبتا نئی سیاسی جماعت کے بانی اراکین میں سے ایک ،اپنی جماعت کے سربر اہ سے درخواست کرتے ہیں کہ ان کی اطلاعات کے مطابق ان کی سیاسی جماعت نے نہ صرف بیرونِ ملک مقیم پاکستانیوں بلکہ غیر ملکیوں سے بھی فنڈز حاصل کیے، جو پاکستان میں رائج قانون کے برخلاف بات ہے۔

لہذا اس معاملے کی تحقیق کرائی جانی چاہیے۔ وقت گزرتا گیا،لیکن ان کی بات پر کوئی توجہ نہیں دی گئی ۔ پھر جب انہیں یہ یقین ہوگیا کہ اس بارے میں آئندہ بھی ان کی بات نقّار خانے میں طوطی کی آواز کے مصداق ثابت ہوگی تو انہوں نے اصولوں کی خاطریہ کام خود کرنے کا بیڑہ اٹھایا۔پھر انہوں نے جماعت کے سربراہ اور ساتھیوں کی مخالفت اور اپنے سیاسی مستقبل کی پروا کیے بغیر2014میں الیکشن کمیشن کا دروازہ کھٹکھٹانے کافیصلہ کیا۔

یہ فیصلہ اس لیے کیا گیا کہ سیاسی جماعتوں کے کردار اور افعال پر نظر رکھنے اور انہیں ملکی قوانین کا پابند بنانے کا کام اسی ادارے کے سپرد ہے۔جب انہوں نے یہ قدم اٹھایا تووہ جماعت جسے بنانے میں ان کی کوششیں بھی شامل تھیں،اسی جماعت نے اپنے دورازے ان پر بند کردیےاور ان کے ساتھیوں نے ان کے اس عمل پر ناگواری کا اظہار کیا۔مگر ان پرتو اصول کا بھوت سوار تھا،سو انہوں نے پیچھے مڑکر نہیں دیکھا۔

اصولی نکتہ

لیکن انہیں کیا معلوم تھاکہ ایک اصولی سوال اٹھانا جنگ کرنے کی مانند بنادیا جائے گا۔ ایک ایسی قانونی جنگ جس میں فریقِ مخالف نےبیش تروقت اصل نکتے کا جواب دینےکے بجائے فروعی سوالات اٹھانےمیں صرف کیا۔ مگر اس کے سامنے جو شخص کھڑا تھااس کا نام اکبر ایس بابر تھا۔

پی ٹی آئی کی بنیاد عمران خان نے دیگر ساتھیوں کی مدد سے 25 اپریل 1996 کو رکھی تھی۔ اس جماعت نے اپنے سفر میں کئی نشیب و فراز دیکھے۔ جہاں اس میں کئی بڑے نام شامل ہوئے وہاں بہت سے ابتدائی دنوں کے ساتھی اسے چھوڑ بھی گئے۔ پی ٹی آئی کے بانی اراکین میں سے ایک، اکبر ایس بابر بھی ایسے لوگوں میں شامل ہیں جنہوں نےاصولوں کی بنیاد پر پارٹی کے امور سے علیحدگی اختیار کرنا بہتر سمجھا۔ان کے مطابق :’’میرا اب بھی یہی جھگڑا ہے کہ اس پارٹی کو ویسا ہی بنایا جائے جس مقصد کے لیے یہ قائم ہوئی تھی۔ میں اسی کے لیے کوشش کر رہا ہوں‘‘۔

اکبر ایس بابر
اکبر ایس بابر

سات برس بعد اکبر ایس بابر کی جدوجہدکچھ رنگ تو لائی ہے،لیکن اسے حتمی نتیجہ نہیں کہا جاسکتا۔ الیکشن کمیشن کی تشکیل کردہ اسکروٹنی کمیٹی نےرواں ماہ کے پہلے ہفتے میں پی ٹی آئی کے حسابات کی جانچ پڑتال کے بعد اپنی رپورٹ الیکشن کمیشن میں جمع کرائی توحزبِ مخالف کی جماعتوں نے اسے خوب اچھالا۔

دوسری جانب پی ٹی آئی نے اسے اپنی فتح قرار دیا۔ پھر دونوں جانب سے اس پر خوب بحث مباحثہ ہوا،لیکن اسی دوران شاید پی ٹی آئی کو یہ خیال آگیا کہ اسکروٹنی کمیٹی کی رپورٹ کے بارے میں وہ جو بیانیہ لے کر چل رہی ہے اسے کاغذوں میں بھی ثابت کرنے کی ضرورت ہے،ورنہ آگے چل کر وہ پھنس سکتی ہے۔چنا ں چہ اٹھارہ جنوری کوالیکشن کمیشن میں سماعت کے موقعے پر پی ٹی آئی نے ممتاز قانون داں انور منصور خان کو اپنے نئے وکیل کے طورپر پیش کیا۔

وہاں انہوں نے یہ موقف اختیار کیا کہ اسکروٹنی کمیٹی کی رپورٹ میں کئی خامیاں ہیں، رپورٹ میں بہت سے اعداد و شمار سمجھ میں نہیں آرہے کہ کہاں سے آئے اورکئی اعداد و شمار کو دہرایا گیا ہے۔ انور منصور کا کہنا تھا الیکشن کمیشن میں کہنا تھا کہ دودن پہلے ہی اس کیس کے لیے ان کی خدمات حاصل کی گئی ہیں، انہوں نے رپورٹ پڑھی ہے، اس میں کچھ خامیاں ہیں، اس پرکام کرنے کی ضرورت ہے ، انہیں وقت چاہیے، اس میں کچھ چیزیں دیکھنا چاہوں گا ، ہماری کچھ غلطیاں ہیں تو ہم تسلیم کریں گے، اگر کمیٹی کی غلطیاں ہیں تو درست کی جائیں۔

الزام کیا ہے؟

اکبر ایس بابر کے مطابق امریکا اور برطانیہ میں جماعت کے لیے وہاں پر رہنے والے پاکستانیوں سے چندہ اکٹھا کرنے کی غرض سے لمیٹڈ لائبیلیٹیز کمپنیز بنائی گئی تھیں جن میں آنے والا فنڈ ممنوعہ ذرایع سے حاصل کیا گیا۔ آسٹریلیا اور دیگر ممالک سے بھی ممنوعہ ذرایع سے پارٹی کو فنڈز ملے اور یہ رقم پاکستان تحریکِ انصاف میں کام کرنے والے کارکنوں کے اکاؤنٹ میں منتقل کی گئی۔ مشرق وسطیٰ کے ممالک سے ہنڈی کے ذریعے پارٹی کے فنڈ میں رقم بھجوائی گئی۔ ان کا الیکشن کمیشن میں یہ درخواست لے کر جانے کا مقصد کسی جماعت پر پابندی لگوانا نہیں تھااور نہ ہی وہ کسی کی عزت اُچھالنا چاہتے ہیں ۔ان کے بہ قول ممنوعہ ذرایع سے حاصل ہونے والے فنڈز سے ملکی سلامتی پر سمجھوتا ہوتا ہے۔

اکبر ایس بابر کی درخواست میں دعویٰ کیا گیا تھا کہ تحریک انصاف نے سیاسی جماعتوں کے لیے موجود قانون پولیٹیکل پارٹیز آرڈر 2002کی خلاف ورزی کی ہےاس لیے پارٹی کے چیئرمین عمران خان اور خلاف ورزیوں کے مرتکب دیگر قائدین کے خلاف کارروائی کی جائے۔ تحریک انصاف سال نے 2007سے 2012 تک جو فنڈ بیرونِ ملک سے اکٹھا کیا ہے اس کی تفصیلات الیکشن کمیشن سے چھپائی گئی ہیں۔

درخواست کے مطابق قانون کے تحت ہر سیاسی جماعت کے لیے ہر سال حاصل کردہ فنڈ، اثاتے اور ان کی آڈٹ رپورٹ پیش کرنا لازمی ہوتا ہے۔ قانون کے مطابق کوئی بھی سیاسی جماعت کسی بھی غیر ملکی سے کوئی بھی فنڈحاصل نہیں کرسکتی۔ اسی طرح پاکستانی کمپنیوں، این جی او وغیرہ سے بھی فنڈ حاصل نہیں کیے جا سکتے۔

طویل جدوجہد کا آغاز

اپنے اصولی موقف کے تحت جب اکبر ایس بابرنے الیکشن کمیشن میں درخواست دی تو انہیں کیا معلوم تھا انہیں کہ انہیں اپنے سوال کا جواب پانے کے لیےکتنی طویل جدوجہدکرنی پڑے گی۔ انہوں نے جوں ہی درخواست دی تو اس پر کارروائی شروع ہونے سے پہلے ہی پاکستان تحریک انصاف کی قیادت کی طرف سے یہ معاملہ مختلف اوقات میں چھ مرتبہ اسلام آباد ہائی کورٹ میں لے جایا گیا اوریہ مؤقف اپنایا گیا کہ الیکشن کمیشن کے پاس کسی جماعت کےکھاتوں کی جانچ پڑتال کا اختیار نہیں ہے۔ 

ایک مرتبہ حکم امتناع ملنے کے بعد جب عدالت عالیہ نے مزید حکم امتناع دینے سے انکار کیا تو پھر اس معاملے کی تحقیقات کرنے والی ا سکروٹنی کمیٹی کے دائرہ اختیار اور مبینہ طور پر اسے کام کرنے سے روکنے کے لیے بھی حکم امتناع حاصل کیے گئے۔ اس بارے میں پاکستان تحریک انصاف سے تعلق رکھنے والے رکن قومی اسمبلی اور پارلیمانی سیکریٹری، فرخ حبیب کا کہنا ہے کہ کسی جماعت کو دست یاب قانونی راستے استعمال کرنے سے نہیں روکا جا سکتا۔

یاد رہے کہ سابق حکم راں جماعت پاکستان مسلم لیگ نواز کے رہنما حنیف عباسی نے جب موجودہ وزیر اعظم عمران خان کی اہلیت کو سپریم کورٹ میں چیلنج کیا تھا تو اس کے ساتھ ایک متفرق درخواست فارن فنڈنگز کے حوالے سے بھی دی گئی تھی جس پر سپریم کورٹ نے 2016 میں فیصلہ دیا تھا کہ سیاسی جماعتوں کی فنڈنگز کی تحقیقات کا اختیار الیکشن کمیشن کے پاس ہے۔عدالت عظمیٰ نے الیکشن کمشن کو 2009سے 2013کے دوران اس جماعت کو جتنے بھی فنڈز ملے اس کی جانچ پڑتال کا حکم دیا تھا۔2014 سے 2018 تک یہ معاملہ مختلف عدالتی فورمز پر زیر بحث رہا ۔

14نومبر 2014کو اکبر ایس بابر نے درخواست دائر کی جس کی ابتدائی سماعت کے بعد الیکشن کمیشن آف پاکستان نے اسے سماعت کے لیے منظور کر لیا تھا۔ ابتدائی سماعت کے بعد باقاعدہ سماعت ہوئی۔

یکم اپریل 2015 کو الیکشن کمیشن نے حکم جاری کیا کہ تحریک انصاف نے اپنی آڈٹ رپورٹ میں حاصل ہونے والے فنڈز اور ان کے ذرایع کی تمام تفصیلات ظاہر نہیں کیں۔ تحریک انصاف نے اس فیصلے کو الیکشن کمیشن کے سامنے ہی چیلنج کیا اور کہا کہ الیکشن کمیشن کے پاس یہ اختیار نہیں ہے کہ وہ تحریک انصاف کے اکاؤنٹ کا آڈٹ کرے۔

8 اکتوبر2015کو الیکشن کمیشن نے تحریک انصاف کی یہ درخواست خارج کردی۔

26 نومبر2015 کو تحریک انصاف نے اسلام ہائی کورٹ میں الیکشن کمیشن آف پاکستان کے دائرہ کار اور درخوست گزار اکبر ایس بابر کی حیثیت کو چیلنج کر دیا۔ یہ مقدمہ تقریباً ایک سال تک اسلام آباد ہائی کورٹ میں زیر سماعت رہا۔

17فروری 2017 کو یہ کیس دوبارہ الیکشن کمیشن کو اس حکم کے ساتھ بھجوا دیا گیا کہ وہ درخواست گزار اکبر ایس بابر کی حیثیت کی جانچ کریں۔الیکشن کمیشن نے دوبارہ سماعت کی اور اسے اکبر ایس بابر کو تحریک انصاف سے نکالے جانے کا کوئی ثبوت نہیں ملا۔

10 نومبر2015کو تحریک انصاف کے فنڈز کی اسکروٹنی ہونی تھی جس پر پارٹی نے دوبارہ عدالتوں سے رجوع کیا۔

26 نومبر 2015 کو عمران خان نے پٹیشن دائر کی کہ وہ فنڈز کی اسکروٹنی کے حوالے سے عام شہریوں کو جواب دہ نہیں ہیں۔

چیف الیکشن کمشنر،سکندر سلطان راجا
چیف الیکشن کمشنر،سکندر سلطان راجا

تحریک انصاف کی جانب سے مختلف اعلیٰ عدالتوں سے رجوع کرنے کے سبب الیکشن کمیشن میں سماعت عارضی طور پر رک گئی تھی۔پھر اعلیٰ عدالتوں سے حکم امتناع خارج ہونے کے بعد دوبارہ الیکشن کمیشن میں سماعت کا آغاز ہوااور مارچ 2018 میں فنڈز کی ا سکروٹنی کے لیے کمیٹی قائم کر دی گئی۔

تین جولائی 2018 کو الیکشن کمیشن نے قرار دیا کہ تحریک انصاف ضروری تفصیلات فراہم نہیں کر رہی ہے جس پرا سٹیٹ بینک آف پاکستان سے 2009 سے 2013 تک کے تحریک انصاف کے بینک اکاوئنٹس کی تفصیلات طلب کی گئیں۔ جس پر بینک کی جانب سے الیکشن کمیشن آف پاکستان کو تحریک انصاف کے 23 بینک اکاوئنٹس کی تفصیلات فراہم کی گئیں،جب کہ تحریک انصاف نے الیکشن کمیشن کو صرف آٹھ اکاوئنٹس کی تفصیلات فراہم کی تھیں۔

اکتوبر 2018 میں اسکروٹنی کمیٹی کا اجلاس منعقد ہوا جس میں کارروائی آگے نہ بڑھ سکی۔ایک آڈیٹر کی تبدیلی کے بعد دوسرا آڈیٹر نام زدکیا گیا۔

نئی ا سکروٹنی کمیٹی کا اجلاس مارچ 2019 میں ہوا جس میں تحریک انصاف سےدس مالیاتی دستاویزات طلب کی گئیں۔ مئی میں ایک اور اجلاس ہوا مگر کارروائی آگے نہ بڑھ سکی۔ اسی اجلاس کے دوران تحریک انصاف نے اسکروٹنی کمیٹی کے خلاف الیکشن کمیشن آف پاکستان میں درخواست دائر کی جس میں استدعا کی گئی تھی کہ اسکروٹنی کا عمل خفیہ رکھا جائے۔اس پر الیکشن کمیشن آف پاکستان نے 10 اکتوبر کو تحریک انصاف کو نوٹس لکھ کر تمام اعتراضات مسترد کرتے ہوئےا سکروٹنی کمیٹی کو کارروائی جاری رکھنے کا کہا تھا۔

29 اکتوبر 2019 کو کمیٹی کا اجلاس ہوا۔ تحریک انصاف کے اکاؤنٹنٹ تو پیش ہوئے مگر وکلا نے بائیکاٹ کردیا اور موقف اختیار کیا کہ ان کی ایک درخواست اسلام آباد ہائی کورٹ میں زیر سماعت ہے۔

نومبر 2019 میں بھی اجلاس کی کارروائی نہ چل سکی۔ تحریک انصاف کے وکیل کی جانب سے موقف پیش کیا گیا کہ اسلام آباد ہائی کورٹ میں سماعت جاری ہے۔

چار دسمبر 2019 کو اسلام آباد ہائی کورٹ نے فارن فنڈنگ کیس میں درخواست گزار اور تحریک انصاف کے سابق عہدے دار اکبر ایس بابر کو پی ٹی آئی کا رکن قرار دیتے ہوئے اس کیس کو مزید شنوائی کے لیے واپس الیکشن کمیشن آف پاکستان بھیجنے کا فیصلہ سنایا تھا۔

25 جنوری 2020کوعمران خان نے بہ حیثیت چیئرمین پاکستان تحریک انصاف فارن فنڈنگ کیس میں الیکشن کمیشن کے دائرہ اختیار اور تحریک انصاف کے سابق عہدے دار اکبر ایس بابر کی پارٹی کی رکنیت کے حوالے سے دیے گئے اسلام آباد ہائی کورٹ کے فیصلے کو سپریم کورٹ میں چیلنج کر دیا تھا۔

پھر دیگر قانونی مراحل طے ہوئے اور بالآخر اسکروٹنی کمیٹی نے اپنی رپورٹ پیش کردی۔ لیکن یہاں تک پہنچنے میں تقریبا سات برس لگے اور نومبر 2019تک پانچ برسوں میں اس مقدمے کی ستّر سے سے زاید سماعتیں ہوچکی تھیں۔ تحریکِ انصاف کی جانب سے جمع کرائی گئی کم از کم تیس درخواستِ التوا اور پانچ مختلف اعلی عدالتوں میں الیکشن کمیشن میں سماعت کے خلاف دائرکی گئیں درخواستیں اس کے علاوہ تھیں۔ اسی دوران الیکشن کمیشن کی جانب سے تحریکِ انصاف کو اکاونٹس کا ریکارڈ جمع کرانے کے لیے اکّیس نوٹسز دیے جاچکے تھے۔

بلاشبہ یہ ایک ہائی پروفائل کیس ہے جس کےقانونی کے علاوہ سیاسی پہلو بھی ہیں اور یہ معاملہ اب تک اتنی مختلف عدالتوں کے سامنے جا چکاہے اور اس میں ایسے ایسے موڑ آچکے ہیں کہ ان میں سے ہر ایک کی تفصیل یاد رکھنا بہت مشکل کام ہے،لیکن اکبر ایس بابر کی ہمّت کو داد دینے کو دل چاہتا ہے کہ انہوں نے اس پورے عرصے میں کبھی حوصلہ نہیں ہارا۔

کیا پیش کیا گیا

اکبر ایس بابر کے مطابق تحریک انصاف کے بیرونی ممالک میں موجود اکاوئنٹس اور کمپنیز کی تفصیلات کچھ یوں ہیں:

امریکا میں دو لمٹیڈ لائیبیلٹی کمپنیز (ایل ایل سی) نمبر 5957 اور ایل ایل سی نمبر 6160 عمران خان کے دست خط سے رجسڑڈ کرائی گئیں اور ان سے 1,998,700 ڈالرز اور 669,000 ڈالر ز پارٹی کو منتقل ہوئے۔

آسڑیلیا میں انصاف آسڑیلیا انکارپوریٹڈ کے نام سےکمپنی رجسڑ کرائی گئی جس کا بزنس نمبر 45838549859 ہے۔ آسڑیلیا، نیوزی لینڈ بینکنگ گروپ کے ذریعے35200آسڑیلین ڈالرز پاکستان منگوائے گئے تھے۔

برطانیہ میں تحریک انصاف یو کے کو رجسڑ کرایا گیا اور دو بینکوں میں اکاؤنٹ کھلوائے گے۔ وہاں سے بھی رقوم پاکستان منتقل ہوئیں۔

ڈنمارک سے 249669 کرونا منگوائے گئے۔

سعودی عرب سے 8370880روپے منگوائے گے۔ اسی طرح سعودی عرب سے سالانہ 25.6 ملین روپے آتے رہے۔

متحدہ عرب امارات سے سالانہ2242ملین روپے آتے رہے۔

کویت سے سالانہ 2.89 ملین روپے آئے۔

قطر سے سالانہ 0.80 ملین روپے آئے۔

بحرین سے سالانہ 930123 روپے آئے۔

اکبر ایس بابر کا دعوی تھا کہ ان سب اکاوئنٹس کی نقول درخواست کے ساتھ منسلک ہیں اور یہ ان رقوم کی تفصیل ہے جو بینکوں کے ذریعے آئیں۔ ان کا دعوی تھا کہ تحریکِ انصاف ہر سال باون ملین روپے ہنڈی کے ذریعے منگواتی تھی، اور اس کے ثبوت بھی انہوں نے فراہم کیے۔

تاہم تحریک انصاف کے راہ نماوں کا شروع دن سے موقف تھا کہ ان کی جماعت نے کوئی غیر قانونی کام نہیں کیا۔ جن ممالک میں کمپنیز رجسڑ کرائی گئیں وہ ان ممالک اور پاکستان کے قوانین کی پوری پاس داری کرتے ہوئے رجسڑڈ کرائی گئیں تھیں۔ ان کے مطابق جو فنڈز وہاں مقیم پاکستانیوں سے حاصل کیے گئے ان کی تمام تفصیل، خرچ اور ذرایع جماعت کی آڈٹ رپورٹ میں پابندی کے ساتھ الیکشن کمیشن کو فراہم کی جاتی رہی ہیں۔ اکبر ایس بابر نے اپنی درخواست کےساتھ جو ثبوت لگائے ہیں وہ صرف اور صرف فوٹو اسٹیٹ ہیں جن کی کوئی حیثیت نہیں۔

لیکن حال ہی میں الیکشن کمیشن کی ا سکروٹنی کمیٹی کی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ حکم راں جماعت نے انتخابی ادارے سے اِکتّیس کروڑروپے سے زاید کی رقم خفیہ رکھی۔ الیکشن کمیشن کے مطابق تحریک انصاف کی طرف سے درجنوں اکاؤنٹ ظاہر ہی نہیں کیے گئے۔

اب کیا ہوگا؟

اگر چہ ابھی یہ کیس ختم نہیں ہوا ہے اور الیکشن کمیشن سپریم کورٹ کے فیصلے کی روشنی میں مسلم لیگ نون ،پیپلز پارٹی اور دیگر جماعتوں کی بھی فارن فنڈنگ کی اسکروٹنی کرے گا۔ اٹھارہ جنوری کو پی ٹی آئی فارن فنڈنگ کیس کی سماعت کے موقعے پر چیف الیکشن کمشنر نے اسکروٹنی کمیٹی کی تشکیل نو کا کہہ دیا ہے اور کیس کی سماعت یکم فروری تک ملتوی کردی گئی ہے۔ ایسے میں یہ سوالات اٹھائے جا رہے ہیں کہ الیکشن کمیشن کا آئندہ کا لائحہ عمل کیا ہوگا اور پاکستان کی حکم راں جماعت کے لیے اس کے کیا نتائج ہو سکتے ہیں۔

اس ضمن میں ایک خطرناک بات قومی اسمبلی میں قائدِ حزبِ اختلاف شہباز شریف نے کی ہے۔ ان کے مطابق اسکروٹنی کمیٹی کی رپورٹ عمران خان کے خلاف سنگین فرد جرم ہے۔ لیکن کیا حقیقت میں ایسا ہی ہے؟

سیاسی جماعتوں اور انتخابی مراحل سے متعلق قوانین کے ماہرین کے مطابق اسکروٹنی کمیٹی کی طرف سے پاکستان تحریک انصاف کے بینک اکاؤنٹس اور غیر ملکی فنڈنگ کے بارے میں جو رپورٹ پیش کی گئی ہے اس پر اب الیکشن کمیشن عدالتی کارروائی شروع کرسکتا ہے۔

کیوں کہ 2017کے الیکشن ایکٹ کی شِق نمبر 204اس بارے میں بہت واضح ہے کہ کوئی بھی غیر ملکی ادارہ، تنظیم یا شخصیت پاکستان میں کسی سیاسی جماعت کو فنڈ فراہم نہیں کر سکتی۔ اسکروٹنی کمیٹی کی مذکورہ رپورٹ میں ان غیر ملکی اداروں اور ان شخصیات کی بھی نشان دہی کی گئی ہے جنہوں نے پاکستان تحریک انصاف کو فنڈ فراہم کیے۔

ماہرین کے مطابق الیکشن کمیشن کے پاس ہائی کورٹ کے جج جتنے اختیارات ہوتے ہیں اور الیکشن کمیشن اس پر عدالتی کارروائی کرنے کے بعد کروڑوں روپے کے ممنوعہ فنڈز، جس کی نشان دہی اسکروٹنی کمیٹی نے کی ہے، ضبط کرنے کا حکم دے سکتا ہے۔

اس سے تحریک انصاف کی بہ حیثیت سیاسی جماعت ساکھ کو شدید نقصان پہنچ سکتا ہے۔الیکشن ایکٹ کی شِق نمبر 215میں یہ واضح طور پر درج ہے کہ اگر کسی بھی سیاسی جماعت کی طرف سے کمیشن میں جمع کرائی گئی مالیاتی تفصیلات الیکشن ایکٹ کی شِق نمبر 210 سے مطابقت نہ رکھتی ہوں تو پھر الیکشن کمیشن اس جماعت کو الاٹ کیا گیا انتخابی نشان واپس لے سکتا ہے۔ ایسی صورت میں اس جماعت کی رجسٹریشن بھی منسوخ تصور ہوگی اور اس کے انتخابی نشان پر جیت کر آنے والے ارکان پارلیمان کی رکنیت پر بھی ایک بہت بڑا سوالیہ نشان لگ جائے گا۔

بعض ماہرین کے مطابق یہ مقدمہ پی ٹی آئی کے لیے بہت سنگین نتائج لاسکتا ہے لیکن بعض وفاقی وزرا نے وزیر اعظم عمران خان کو زمینی حقائق سے آگاہ کرنے کی بجائے الیکشن کمیشن کو تنقید کا نشانہ بنانے پر ہی اکتفا کررکھا ہے اور یہ تاثر دینے کی کوشش کی جارہی ہے جیسے الیکشن کمیشن حکم راں جماعت کا دشمن ہے۔ حالاں کہ اسکروٹنی کمیٹی کی رپورٹ بہت بڑا سنگ میل ہے اور مستقبل میں پاکستان کی سیاست پر اس کے اثرات مرتب ہوں گے ۔ 

بہ ظاہر ایسا دکھائی دے رہا ہے کہ اس رپورٹ کے بعد پی ٹی آئی کے لیے مشکلات پیدا ہوں گی۔ الیکشن کمیشن اس معاملے کو منطقی انجام تک پہنچانے میں پرعزم دکھائی دیتا ہے۔ جس طرح ڈسکہ میں ہونے والے ضمنی انتخاب کے معاملے میں الیکشن کمیشن کھل کر سامنے آیا اور ذمے داروں کا تعین کرنے کے بعد ان کے خلاف ضابطہ فوج داری کے تحت کارروائی کے لیے معاملہ متعلقہ کورٹس میں بھجوا دیا گیا ہے اسے دیکھتے ہوئے یہ کہا جاسکتا ہے کہ الیکشن کمیشن اس معاملے کو بھی جلد نمٹانا چاہتا ہے۔ کسی سیاسی جماعت پر ممنوعہ ذرایع سے فنڈحاصل کرنے کا الزام ثابت ہو جائے تو الیکشن کمیشن کے پاس اس جماعت کی رجسٹریشن منسوخ کرنے کا اختیار ہے۔تاہم وہ کسی سیاسی جماعت کو کالعدم نہیں قرار دے سکتا کہ یہ اختیار سپریم کورٹ کا ہے۔