شورش ملک
میں فخر سے کہہ سکتا ہوں کہ میں میرخلیل الرحمٰن اسکول آف جرنلزم کا ایسا گریجویٹ ہوں جس کی صحافتی تربیت اس مشفق استاد نے پروف ریڈر، مترجم، سب ایڈیٹر، فیچر رائٹر، نیوز ایڈیٹر اور ریذیڈنٹ ایڈیٹر تک تمام تر توجہ اور محنت سے کی۔ مجھے یہ بھی اعزاز حاصل ہے کہ ادارہ جنگ کی تاریخ میں غالباً میں پہلا ملازم ہوں جس کی حوصلہ افزائی کیلئے میر خلیل الرحمٰن نے چھ ماہ کی مدت ملازمت میں پورے ایک سال کا بونس دیا۔
تیس سال کی مدت ملازمت میں میرا اور ان کا تعلق ہمیشہ ایک استاد اور شاگرد کا رہا۔ میں نے ان سے اتنا کچھ سیکھا ہے کہ یہ کہوں کہ یہ میری عمر بھر کا سرمایہ ہے تو اس میں کوئی مبالغہ نہیں۔ قدرت نے انہیں ایک ’’بڑا آدمی‘‘ پیدا کیا۔ میرا خیال ہے کہ وہ جس بھی شعبہ زندگی میں قدم رکھتے، یقیناً اپنے ہم عصروں میں یکتا روزگار اور قدآور شخصیت ہوتے۔
محنت، اخلاص، لگن اور خوب سے خوب تر کی تلاش، ان کی زندگی کا مرکزی نقط تھا۔ ان کی ہمہ پہلو شخصیت کا احاطہ چند سطروں میں ممکن نہیں، اس کیلئے ایک کتاب کی ضرورت ہے اور زندگی نے وفا کی تو میں یہ فرض ضرور ادا کروں گا۔ میر صاحب ۔ہر کام کو درجہ کمال پر دیکھنا چاہتے ،وہ ایک کامل استاد تھے۔جن کی ایک ایک بات میں ایک درس پنہاں ہوتا ۔
یہی وجہ ہے کہ ہر وہ صحافی جس نے چند سال بھی ان کے زیرسایہ کام کیا، بازار میں اس کی قیمت لگ گئی۔ وہ اپنے کارکنوں میں احساس ذمہ داری، محنت کی عادت، ادارے سے وفاداری اور ٹیم اسپرٹ جیسی خوبیاں اس خوبصورتی سے پیدا کرتے کہ کارکنوں کے اندر یہ تبدیلیاں رونما بھی ہوجاتیں اور انہیں کوئی جھٹکا بھی نہیں لگتا۔ ان کی محبت، شفقت، دلجوئی اور دلداری موسموں کی تبدیلی کی طرح انسان کے اندر تبدیلیاں پیدا کردیتی۔
ایک لائق شاگرد کی طرح میں اور مجھ جیسے متعدد کارکنوں نے کئی چھوٹے بڑے مفادات کیلئے خوشامد، سفارش اور تعلق داری کے حربے آزمائے لیکن ہم سب اس میں بری طرح ناکام رہے۔ میر صاحب کے نزدیک ان باتوں کی کوئی اہمیت نہیں، ان کے نزدیک اس طرح کی تمام حرکتیں فضول تھیں۔
اُن میں ایک خوبی بدرجہ اتم موجود ہے کہ وہ مختلف عادات و اطوار، تصورات و نظریات، اہلیت و استعداد رکھنے والے کارکنوں میں سے ایسی ٹیم پیدا کرلیں گے جو کوئی دوسرا نہیں کرسکتا۔ ان کی محبت کا محور روزنامہ جنگ رہا۔ مجھے یاد ہے کہ جب 13؍نومبر 1959ء کو روزنامہ جنگ راولپنڈی شروع ہوا تو ہم ایک مختصر سی ٹیم تھے لیکن میر صاحب کی قائدانہ صلاحیتوں نے ہم میں ہم عصر اخبارات سے آگے نکلنے کا ایسا جذبہ بھر دیا کہ ہمارے لئے شب و روز بے معنی ہوگئے۔
صبح سات بجے سے لے کر رات دو بجے تک جناب میر صاحب ہمارے ساتھ رہتے اور ہمیں محنت کا ایسا عادی بنا دیا کہ ہماری زندگیاں بدل گئیں۔ تیس سال میں، میں نے انہیں اسی طرح کام کرتے دیکھا۔ ہم کارکن آرام کی ڈنڈی مار لیتے تھے لیکن وہ ہمہ وقت کام میں مصروف رہتے، کبھی خبریں بنا رہے ہوتے، کبھی رپورٹنگ ، کبھی فوٹوگرافی میں مشغول ، کبھی اشتہارات پر نظر تو کبھی اکائونٹ کے اعداد و شمار ،گراف بنائے بیٹھےنظر آتے۔
اسی زمانے میں ہم سب ساتھیوں کی ایک عادت بن گئی کہ سب تیسرے چوتھے روز جناب محمد احسن سے پیشگی تنخواہ لے لیتے اور یکم تاریخ کو اکثر ساٹھ ستر روپے رہ جاتے۔ پہلے تو یہ کام ملی بھگت سے چلتا رہا، کچھ عرصے کے بعد میر صاحب کو پتا چلا تو انہوں نے ہم سب کو نصیحت کی کہ اس طرح زندگی کیسے گزارو گے، زندگی توازن کا نام ہے اور اس میں باقاعدگی پیدا کرو۔ ہم سب چوری پکڑے جانے پر شرمندہ ہوئے لیکن باز نہ آئے۔ اگلی مرتبہ انہوں نے کہا کہ اچھا…! انہیں 15؍تاریخ کے بعد کچھ تنخواہ پیشگی دی جائے اور ساتھ ہی ہم سب کی تنخواہ میں اضافہ کردیا۔
تھوڑے عرصے کے بعد وہ ہمیں ’’پہلی کی پہلی‘‘ پر لے آئے اور جس دن ہم سب کارکنوں نے اکٹھی مہینے کی تنخواہ لی تو یوں محسوس ہوا جیسے ہم سب امیر ہوگئے ہیں۔ اسی طرح ایک شفیق بزرگ اور استاد کی حیثیت سے انہوں نے ہماری زندگیوں میں باقاعدگی پیدا کردی اور یکمشت تنخواہ کی رقم گھر لے جانے کے جو فوائد ہیں، وہ محتاج بیان نہیں۔
میر صاحب ہمیشہ کارکنوں کو اپنا سرمایہ سمجھتے ، ان کی بہبود، تربیت اور اندازکار پر کڑی نظر رکھتے اور باتوں باتوں میں اتنے سبق سکھا جاتے کہ اگر ان پر پوری توجہ دی جائے تو کوئی کارکن صحافت تو کیا کسی بھی شعبہ زندگی میں مار نہیں کھا سکتا۔
میر صاحب کو میں نے فیلڈ مارشل ایوب خان، یحییٰ خان، ذوالفقار علی بھٹو اور جنرل ضیاء الحق کے دور میں دیکھا کہ کیسے مشکل سے مشکل گھڑی میں بھی وہ حوصلے کی چٹان بنے رہے۔ انہوں نے کارکنوں کی حماقتوں کے باعث کئی دکھ اٹھائے لیکن کسی کارکن پر کوئی ضرب نہیں پڑنے دی۔ یہ بہت مشکل کام ہے، عام آدمی کے بس کی بات نہیں۔ یہ صرف کوئی بڑا آدمی ہی کرسکتا ہے اور اس لحاظ سے میر خلیل الرحمٰن اپنے ہم عصروں میں سب سے قدرآور نظر آتے ہیں۔ اس عہد میں، بڑے بڑے بہادروں کا پتا پانی ہوتے دیکھا ۔
کئی اداروں کے کارکن ’’حاکماں وقت‘‘ کی پسند و ناپسند کا شکار ہوئے لیکن جنگ واحد ادارہ ہے کہ میر صاحب نے زخم خود سہے اور پھول اپنے کارکنوں کو دیئے۔ غلطی ہماری ہوتی ، سزا انہیں ملتی لیکن وہ کمال حوصلے سے ہر وار کو سہہ کر ہمارے گرد حصار بنے رہے۔ یہ ان کی اعلیٰ ظرفی، وسیع القلبی اور انسان دوستی تھی کہ وہ کارکنوں کے مفادات کی خاطر اپنا فیصلہ بدل لیتے تھے اور نامعلوم اس سے انہیں کتنی ذہنی اور روحانی اذیت پہنچتی ہو گی۔
انہوں نے ادارے اور اپنی ذات کو کبھی گڈمڈ نہیں ہونا دیا۔ روزنامہ جنگ ان کا عشق، ان کی محبت اور ان کی کمزوری ہے۔ آپ ادارہ جنگ سے محبت کریں، ان کی محبت پکے ہوئے پھل کی طرح آپ کی گود میں آگرے گی لیکن اگر کارکنوں کے کام کے باعث جنگ میں کوئی کمی ہوگی تو پھر کسی روا داری کی توقع عبث ہے۔ اس سلسلے میں کوتاہی خواہ اولاد سے ہو یا کارکنوں سے، ان کی طبیعت پر بہت گراں گزرتی۔