• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

سردیوں کی چھٹیاں ختم ہوتے ہی اوورسیز پاکستانیوں کی واپسی شروع ہو گئی ہے اور سب بوجھل دلوں کیساتھ اپنے وطن کی حسین یادوں کو دل میں سما کر اپنی روٹین کی مشینی زندگی میں مصروف ہو گئے ہیں جبکہ طالب علم تندہی سے پڑھائی میں مشغول ہو گئے ہیں۔ چند اوورسیز پاکستانی جو اپنی دولت یا تعلقات کے بل بوتے پر پاکستان میں پروٹوکول انجوائے کرتے تھے اور اسلحہ بردار محافظوں کے ہمراہ متعدد گاڑیوں کے قافلوں میں سفر کرتے تھے، واپس جا کر خاموشی سے قطاروں میں لگ کر اپنے روز مرہ کے کام کرتے نظر آتے ہیں۔ بیرونِ ملک سے آنے والوں کی واپسی کیساتھ ہی شاپنگ سینٹرز، ڈیزائنر شاپس، ہوٹلز اور ریسٹورانٹس کی رونقیں ماند پڑھ گئی ہیں اور شادیوں کی تقریبات بھی اختتام پذیر ہو رہی ہیں۔

بیرونِ ملک سے آئے ایک پاکستانی نژاد امریکن بچے نے واپس جا کر چند سوالات کیے ہیں جن کا جواب دینا میرے لیے کافی مشکل ثابت ہوا ہے۔ بچے کا پہلا سوال تھا کہ ہماری قومی ایئر لائن بین الاقوامی روٹس پر آپریٹ کیوں نہیں کرتی اور مسافروں کو بیرونی فضائی کمپنیوں میں سفر کیوں کرنا پڑتا ہے؟ میرا جواب تھا کہ ماضی میں ہماری قومی ایئر لائن دنیا کی چند بہترین ایئر لائنز میں شمار ہوتی تھی جس کے جدید طیارے دنیا بھر کے ہوائی اڈوں پر اترتے تھے مگر پھر وسائل کی کمی، مالی مسائل، بدانتظامی اور بےتحاشہ سیاسی بھرتیوں نے ایک منافع بخش ادارے کو تباہی کے دہانے پر پہنچا دیا جس سے نہ صرف نئے طیاروں کی فضائی بیڑے میں شمولیت رک گئی بلکہ کئی فضائی روٹس اور اسٹیشنز بھی بند کرنا پڑے۔

بچے کا دوسرا سوال تھا کہ پاکستان کے تمام شہروں میں سڑکوں پر بےہنگم ٹریفک کیوں ہے، لوگ ٹریفک قوانین اور لینز کی پابندی کیوں نہیں کرتے اور ہر شخص چاہے وہ گاڑی پر ہو یا موٹر سائیکل پر، تیزی میں کہاں جا رہا ہوتا ہے اور دوسروں کو راستہ یا اسپیس کیوں نہیں دیتا؟ میں نے اعتراف کیا کہ ٹریفک قوانین کی پابندی کی ہماری قوم کو عادت نہیں ہے اور اس معاملے میں ہماری ٹریفک پولیس بھی بےبس نظر آتی ہے، کوئی ایمرجنسی نہ ہونے کے باوجود گاڑی یا بائیک کو تیز رفتاری سے چلانے کی توجیہہ پیش کرنے سے میں قاصر تھا۔ تعلیم اور اسکولوں کے حوالے سے اس کا سوال تھا کہ ترقی یافتہ ملکوں میں امیر غریب سب کے بچوں کیلئے سرکاری اسکول اور یکساں نصاب ہے تو پھر پاکستان میں پرائیویٹ اور سرکاری اسکول کے نصاب اور معیار تعلیم ایک جیسا کیوں نہیں؟ بچے کا مزید کہنا تھا تمام تر وسائل کے باوجود ہم اسکول بسوں میں آتے جاتے ہیں جبکہ پاکستان میں بچوں کو لینے کیلئے اسکولوں کے باہر گاڑیوں کی لمبی قطاریں لگی ہوتی ہیں۔ اس سوال کے جواب میں میرے پاس کچھ مضبوط دلائل نہیں تھے تاہم میں نے اسے بتایا کہ ہم یکساں نصابِ تعلیم لاگو کرنے کی طرف بڑھ رہے ہیں اور ہماری حکومت کی کوشش ہے کہ سرکاری اسکولوں کا معیار اور حالتِ زار بہتر ہو سکے مگر بدقسمتی سے ہم اس شعبہ میں تنزلی کا شکار ہیں۔ بچے نے اگلا سوال یہ داغا کہ ہم جس ملک میں رہتے ہیں وہاں بچوں کی صحت، جسمانی نشوونما اور تفریح کیلئے خصوصی انتظامات کئے جاتے ہیں، پڑھائی کیساتھ ساتھ کھیل کود پر خصوصی توجہ دی جاتی ہے، تمام اسکولوں، کالجوں اور رہائشی علاقوں میں کھیلوں کیلئے گراؤنڈز موجود ہیں اور بچوں کی حوصلہ افزائی کیلئے ٹیچرز کے علاوہ والدین بھی وہاں موجود ہوتے ہیں جبکہ پاکستان میں بچوں اور یوتھ کیلئے تفریحی مواقع ختم ہوتے جا رہے ہیں، کھیل کے میدان کمرشل ایریاز میں تبدیل ہو رہے ہیں اور بچے سڑکوں اور فٹ پاتھوں پر کھیلنے پر مجبور ہو گئے ہیں۔ اس بچے کا مشاہدہ بالکل درست تھا، ہم اپنی نئی نسل سے بتدریج دور ہوتے جا رہے ہیں اور ریاست بھی ان اہم معاملات سے لاتعلق ہوتی جا رہی ہے۔ نئی نسل مضبوط کنٹرول اور رہنمائی نہ ملنے کی وجہ سے غیرصحت مندانہ سرگرمیوں میں ملوث ہو رہی ہے اور ان میں فرسٹریشن، مایوسی، نا اُمیدی اور دوسرے مسائل بڑھ رہے ہیں۔

پاکستان میں چند روز گزار کر جانے والے اوورسیز پاکستانی بچے نے پاکستان کی حکومت، اکانومی، گورننس، لا اینڈ آرڈر، فارن پالیسی یا سیاست پر کوئی بات نہیں کی، اپنی عمر کے لحاظ سے اس نے جو دیکھا یا محسوس کیا، آسان الفاظ میں مجھ سے ان سوالات کے جوابات چاہے جو میں نے جیسے تیسے دیے مگر حقیقت یہ ہے کہ ان آسان سوالات کے جواب دینے کیلئے نہ ہی میرے پاس مناسب الفاظ تھے اور نہ مضبوط دلائل۔

(صاحب مضمون سابق وزیر اطلاعات پنجاب ہیں)

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین