• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
چند ہفتے قبل رمضان کے دن تھے۔ شعبہ تاریخ کے سابق استاد ابلاغ حسین تشریف لائے۔ پروفیسر صاحب عام طور سے بہت خوش مزاج واقع ہوئے ہیں۔ اس روز خلاف معمول کسی قدر دل گرفتہ نظر آئے ۔ احباب نے سبب دریافت کرنا چاہا تو فرمایا کہ میرے گھر کے پاس ہی گلشن اقبال واقع ہے۔ آج گھر سے نکلا تو گندے نالے اور اس تفریح گاہ کی دیوار کے درمیان چند گز کے ٹکڑے پر کئی سو اجنبی بچے دیکھے اور بلا مبالغہ یہ سب بچے ننگ دھڑنگ بلکہ الف ننگے تھے۔ معلوم ہوا کہ یہ ان خاندانوں کے چراغ ہیں جو رمضان کے مقدس مہینے میں اہل لاہور سے ان کی پرہیزگاری کا خراج لینے ملک کے کونے کونے سے وارد ہوئے ہیں۔ ان کے والدین تو دن بھر ”معاش“کی تلاش میں ادھر ادھر بھٹکتے ہیں اور ایک سے پانچ برس تک کی عمر کے ان نونہالوں نے گندے نالے کے کنارے ڈیرے ڈال رکھے ہیں۔ دن بھر یہ بچے رقیق غلاظت کی نہر کے کنارے دھول، کیچڑ، مچھروں اور مکھیوں کی رفاقت میں بھوکے پیاسے بیٹھے رہتے ہیں۔ اللہ اللہ ! ایک طرف شرف انسانی کا ایسا غلغلہ اور دوسری طرف انسانی احترام کی ایسی پامالی۔ قریب تھا کہ مجلس پروفیسر صاحب کی رقت قلب کو ان کے روزے سے منسوب کر کے آگے بڑھ جاتی لیکن انیق ظفر چمک اٹھے۔ اسلام آباد کے نوجوان دانشور ہیں ۔ صحافت میں بھی دخل رکھتے ہیں لیکن ان کا حقیقی میدان صحت عامہ بالخصوص ماؤں اور بچوں کی صحت کے مسائل ہیں ۔ گورنمنٹ کالج لاہور کے زمانہ طالب علمی میں خطابت سے بھی شغف رہا مگر شعلہ بیانی کے نہیں، دلیل کے آدمی ہیں۔ ابلاغ صاحب کی بات سن کر انیق ظفر نے جو گفتگو شروع کی ہے تو ایسے ایسے چشم کشا نکات سامنے آئے جنہیں جان کر اکبر زمیں میں غیرت قومی سے گڑ گیا۔
پاکستان اور جنوبی کوریا براعظم ایشیا کے دو اہم ممالک ہیں ۔1950ء میں پاکستان کی آبادی تین کروڑ تیس لاکھ تھی جبکہ جنوبی کوریا کی آبادی دو کروڑ تھی۔ 1997ء میں جنوبی کوریا کی آبادی چار کروڑ ساٹھ لاکھ ہو گئی جبکہ پاکستان کی آبادی بارہ کروڑ ستر لاکھ تک پہنچ گئی۔ 1950ء میں پاکستان میں آبادی میں اضافے کی شرح 1.8 فیصد اور جنوبی کوریا میں 3 فیصد تھی۔ 1997ء میں پاکستان میں افزائش آبادی کی شرح بڑھ کر 2.7 فیصد ہو چکی تھی جبکہ جنوبی کوریا آبادی میں اضافے کی شرح کو کم کر کے 0.6 فیصد پر لے آیا تھا۔ آبادی میں شرح اضافہ سے معیشت پر کیا اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ یہ سمجھنے کے لئے صرف یہ جان لیجئے کہ 1950ء میں پاکستان کی فی کس آمدنی 79 ڈالر اور جنوبی کوریا کی فی کس آمدنی 82 ڈالر تھی۔ 1997ء میں پاکستان کی فی کس آمدنی صرف 457 ڈالر تک پہنچ سکی جب کہ جنوبی کوریا میں فی کس آمدنی 9700 ڈالر ہو چکی تھی۔
پاکستان آبادی کے لحاظ سے دنیا کا چھٹا بڑا ملک ہے۔ تاہم اس امر پر غور کیجئے کہ ہر برس دنیا کی آبادی بڑھانے میں بھارت اور چین کے بعد پاکستان سب سے زیا دہ حصہ ڈالتا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ امریکہ، انڈونیشیا اور برازیل کی آبادی بھلے ہم سے زیادہ ہو، ان ممالک نے آبادی میں اضافے کو ایسا قابومیں رکھا ہے کہ ہر سال ان کے ہاں پیدا ہونے والے بچوں کی تعداد ہم سے کم ہے ۔ گویا ان ملکوں کو ہر برس ہمارے ملک کے مقابلے میں بچوں کی کم تعداد کے لئے صحت، تعلیم، رہائش اور روزگار جیسے وسائل کی فکر کرنا پڑتی ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ہم سے زیادہ آبادی والے پانچوں ممالک کا رقبہ ہم سے کم از کم دو گنا ہے۔ پاکستان کی آبادی میں منہ زور اضافے کے چار بنیادی اسباب ہیں۔ کم عمری میں شادی کے باعث بچے جلدی پیدا ہوتے ہیں ۔بچوں کی پیدائش میں وقفہ کم رکھا جاتا ہے۔ بچوں کی تعداد پر قابو رکھنے کی ثقافت موجود نہیں ہے اور والدین بڑی عمر کو پہنچنے کے بعد بھی بچے پیدا کرتے رہتے ہیں۔ پاکستان میں ہر بیس منٹ بعد ایک ماں زچگی سے پیدا ہونے والی پیچیدگیوں کے نتیجے میں جان سے ہاتھ دھو بیٹھتی ہے۔ ماؤں کی اموات کے تجزیے میں دس ہزار حاملہ عورتوں کو اکائی کے طور پر لیا جاتا ہے۔ 1990ء میں بھارت میں دس ہزار حاملہ عورتوں میں سے 600 عورتیں ہلاک ہو جاتی تھیں۔ اس وقت پاکستان میں یہ تعداد 380 تھی یعنی ہماری صورت حال بھارت سے بہتر تھی۔ بیس برس بعد بھارت میں یہ تعداد صرف 200رہ گئی جبکہ پاکستان میں اب بھی دس ہزار حاملہ عورتوں میں سے 260 موت کے منہ میں چلی جاتی ہیں۔ گویا ہم نے بیس برس میں 230 حاملہ عورتوں کی جان بچانے میں کامیابی حاصل کی ہے جبکہ ہمسایہ ملک نے اس دوران 400 جانیں بچانے کا ہدف حاصل کیا ہے۔
شیر خوار بچوں کی موت کسی معاشرے کے لئے محض ایک شخصی اور معاشرتی صدمہ نہیں بلکہ معاشی سطح پر بھی خوفناک نتائج رکھتی ہیں۔ اس ضمن میں پاکستان جنوبی ایشیا کے خطے میں صرف افغانستان سے آگے ہے۔ 1990ء میں زندہ پیدا ہونے والے ایک ہزار بچوں میں سے پاکستان میں 96بچے اپنی پہلی سالگرہ سے پہلے موت کے منہ میں چلے جاتے تھے۔ بیس برس بعد 2010ء میں صرف یہ بہتری آ سکی کہ اب ایک ہزار زندہ بچوں میں سے 70 کو اپنی سالگرہ منانا نصیب نہیں ہوتی۔ اس کے مقابلے میں 1990ء میں بھارت میں ایک ہزار زندہ بچوں میں سے 87بچے شیر خواری ہی میں وفات پا جاتے تھے۔ بیس برس بعد یہ تعداد صرف 48 رہ گئی۔ ماہرین کہتے ہیں کہ اگر دو بچوں کی پیدائش میں وقفے کی مدت دو برس سے کم ہو تو چھوٹے بچے کی موت کے امکانات ساٹھ فیصد بڑھ جاتے ہیں۔ پاکستان میں زچگی سے متعلقہ ہر تین اموات میں سے ایک موت پیدائش کے دوران مناسب وقفہ نہ ہونے کا نتیجہ ہوتی ہے۔ پاکستان میں پیدا ہونے والا ہر تیسرا بچہ والدین کی خواہش کے خلاف پیدا ہوتا ہے چنانچہ ہر سال غیر محفوظ اور غیر قانونی اسقاط حمل کے نو لاکھ واقعات پیش آتے ہیں۔ مانع حمل ذرائع تک رسائی کے ذریعے غیر ضروری حمل سے بچا جا سکتا ہے۔ پاکستان میں ہر چوتھی شادی شدہ عورت خواہش کے باوجود مانع حمل اشیاء تک رسائی سے محروم ہے۔ مانع حمل اشیاء سے محرومی کی یہ شرح جنوبی ایشیا کے سب ممالک سے اونچی ہے۔ اگر پیدائش میں تین برس کے وقفے کا ہدف حاصل کر لیا جائے تو شیر خوار بچوں کی اموات میں 24فیصد کمی لائی جا سکتی ہے جبکہ پانچ برس سے کم عمر بچوں کی اموات میں 35 فیصد کمی ہو سکتی ہے۔
غربت محض آمدنی کم ہونے یا بنیادی ضروریات سے محرومی کا نام نہیں۔ غربت انسانی وقار سے محرومی کا نام ہے۔ صحت اور علاج معالجے تک رسائی کے بغیر انسانی وقار کی کیا ضمانت دی جا سکتی ہے۔ پاکستان اپنی کل داخلی پیداوار کا صرف 0.7 فیصد صحت پر خرچ کرتا ہے جو حکومت کے کل بجٹ کا صرف 4 فیصد حصہ ہے۔ خاندانی منصوبہ بندی پر صحت کے اس معمولی بجٹ کا بھی صرف 2فیصد خرچ کیا جاتا ہے۔ آبادی پر قابو پانے کے لئے پاکستان میں بالائی سطح پر سیاسی عزم درکار ہے جبکہ عوام میں آگہی پیدا کرنے کے علاوہ فرسودہ اور ناقابل عمل اقدار کے خلاف سماجی مزاحمت کی ضرورت ہے۔ ماؤں اور بچوں کی صحت پر ترجیحی توجہ دئیے بغیر پاکستان میں انسانی ترقی کا خواب پورا نہیں ہو سکتا۔ 2001ء میں پاکستان دنیا بھر کے قریب 175 ممالک میں انسانی ترقی کے اعتبار سے 127 ویں درجے پر تھا۔ 2005ء میں ہم مزید پسماندگی کا شکار ہو کر 135ویں درجے پر آ گئے اور 2012ء میں ہم 146 ویں درجے تک گر گئے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ بارہ برس کے عرصے میں کم از کم بیس ملک انسانی ترقی کی دوڑ میں ہم سے آگے نکل گئے۔
تازہ ترین