• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ڈاکٹر آسی خرم جہا نگیری

خلیفۂ اول،امام الانبیاء، سیدالمرسلین، خاتم النبیین،حضرت محمد ﷺ کے رفیق سفر و حضر، حضرت ابوبکر صدیقؓ کا اسم گرامی عبداللہ اور والد کا نام عثمان بن ابی قحافہ ہے۔آپ کا سلسلۂ نسب رسول اکرمﷺ کے خاندان سے ساتویں پشت پر مل جاتا ہے۔آپ مردوں میں سب سے پہلے اسلام قبول کرنے والے ہیں۔ اسلام سے قبل بھی آپ کو خاندانی اعتبار سے عرب میں قابل احترام جانا جاتا تھا۔ 

آپؓ کے والد، والدہ، اولاد، پوتے، نواسے، سب نے سرکار دوعالم حضرت محمد ﷺکے دست ِاقدس پر اسلام قبول کیا، یوں آپ کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ آپ کی چار نسلیں مشرف بہ اسلام ہوئیں۔آپ ان خوش نصیب صحابۂ کرامؓ میں سے ہیں،جن کا شمار عشرۂ مبشرہؓ میں ہوتا ہے۔ یعنی ان دس صحابیوںؓ میں کہ جنہیں رسول اللہﷺ نے دنیا ہی میں جنت کی بشارت دی۔

آپؓ کا مقام یہ ہے کہ رسول اکرم ﷺ نے فرمایا:ابوبکرؓ، تم غار میں بھی میرے ساتھ رہے اور حوض کوثر پر بھی میرے ساتھ ہو گے۔ آپﷺ نے فرمایا:ابوبکرؓ کی ذات کے علاوہ کوئی ایسا فرد نہیں کہ جسے میں نے اسلام کی دعوت دی اور اس نے بلا تامل قبول کرلیا ہو۔ یہ شخصیت حضرت ابوبکر صدیقؓ کی تھی کہ جنہوں نے دعوتِ اسلام کو بلا چوں و چرا قبول کرلیا، بلکہ سرکار دو عالمﷺ کے جاں نثار کی حیثیت سے بلا خوف و خطر آپ ﷺ کے ساتھ رہے۔

سیدنا ابوبکر صدیقؓ کے بارے میں سرکار دوعالم ﷺکے ارشادات ِ گرامی کو اگر دیکھا جائے تو معلوم ہوگا کہ رسول اللہ ﷺکی نظرمیں آپ کا کیا مقام تھا۔ ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہؓ فرماتی ہیں کہ آپ ﷺاکثر معاملات اور امور صدیق اکبرؓ کی مشاورت سے طے فرماتے۔ حضرت عمرؓ کی روایت ہے کہ رسول اللہﷺ کو حضرت ابوبکرؓ کی راز داری اور خلوص پرکامل اعتماد تھا۔

شیرخدا حضرت علی المرتضیٰ ؓفرماتے ہیں کہ قرآن مجید کے سلسلے میں سب سے زیادہ اجروثواب ابو بکرؓ کو ملے گا، کیوںکہ سب سے پہلے قرآن کریم کتاب کی صورت میں آپ ہی نے جمع کیا۔حضرت ابن مسیبؒ فرماتے ہیں، حضرت ابو بکر صدیقؓ رسول کریمﷺ کے وزیر خاص تھے،چناںچہ حضوراکرمﷺ آپ سے تمام امور میں مشورہ فرمایا کرتے تھے۔ آپ اسلام میں ثانی،غار اور مدفن میں بھی حضور ﷺ کے رفیق ہیں ۔رسول کریم ﷺ نے آپ پر کسی کو فضیلت نہیں دی۔

امام شعبیؒ نے روایت کیا ہے کہ حضرت ابو بکر صدیقؓ کو ﷲتعالیٰ نے چند ایسی خصوصیات سے متصف فرمایا، جن سے کسی اور کو سرفراز نہیں فرمایا۔ اول:آپ کانام صدیق رکھا۔دوم:آپ غار ثور میں محبوب خدا ﷺ کے ساتھ رہے۔ سوم:آپ ہجرت میں حضور ﷺ کے رفیق سفر رہے۔چہارم:حضور ﷺ نے اپنی حیات مبارکہ میں ہی آپ کو صحابہؓ کی نمازوںکاامام بنا دیا ۔آپ کی ایک اور خصوصیت یہ ہے کہ آپ کی چارنسلوں نے صحابیؓ ہونے کا شرف پایا۔آپ صحابی رسولﷺ، والدابو قحا فہ صحابیؓ، بیٹا عبدالرحمن صحابیؓ اوران کے بیٹے ابو عتیق محمد بھی صحابیؓ تھے ۔

ارشاد ربانی ہے :’’آپ دو میں سے دوسرے تھے ،جب وہ دونوں (یعنی حضور ﷺ اور حضرت ابو بکرؓ )غار میں تھے۔ حضور ﷺ فرماتے تھے،غم نہ کرو،بے شک ﷲ ہمارے ساتھ ہے تو ﷲنے اس پر اپنی تسکین نازل فرمائی۔‘‘حضرت انسؓ سے روایت ہے کہ جب آیت نازل ہوئی تو حضرت ابو بکر صدیقؓ نے عرض کیا،یارسول ﷲﷺ! ﷲ تعالیٰ جو فضل وشرف بھی آپﷺ کو عطا فرماتا ہے، توہم نیاز مندوں کو بھی آپﷺ کے طفیل نوازتا ہے ۔

اسی وقت ﷲتعالیٰ نے سورۃ الاحزاب کی آیت نازل فرمائی: ’’وہی ہے کہ درود بھیجتا ہے، آپ پر وہ اور اس کے فرشتے کہ تمہیں اندھیریوں سے اُجالے کی طرف نکالے اور وہ مسلمانوں پر مہربان ہے۔‘‘

سورۃ الزمر میں ہے:’’اوروہ جو یہ سچ لے کر تشریف لائے اور وہ جنہوں نے ان کی تصدیق کی،یہی ڈروالے ہیں۔‘‘

بزار و ابن عساکرؒ نے آیت کے شان نزول کے متعلق روایت ذکرکی ہے کہ ایک مرتبہ حضرت علیؓ نے اس طرح ارشاد فرمایا:’’قسم ہے اُس رب کی جس نے حضرت محمد ﷺ کو رسول بنا کربھیجا اور حضرت ابوبکرؓ سے اس رسالت کی تصدیق کرائی۔‘‘(تاریخ الخلفاء)

حضرت علیؓ سے مروی ہے کہ حق لے کر آنے والے سے مرادرسول کریم ﷺاور تصدیق کرنے والے سے مراد حضرت ابوبکر صدیقؓ ہیں۔ حضرت ابو ہریرہؓ سے بھی یہی مروی ہے۔ (تفسیر کبیر ،مظہری)

حضرت ابوبکرؓ سب سے پہلے اسلام لائے اور آپ کے ہاتھ پر قریش کے معززین مسلمان ہوئے ،راہ خدا میں مال خرچ کرنے والوں میں بھی سب سے آگے ہیں۔کفار کے مصائب برداشت کرنے والوں میں بھی آپ سب سے پہلے ہیں۔(تفسیر مظہری)

ابن ابی حاتمؒ نے حضرت عروہؓ سے روایت کی ہے کہ حضرت ابو بکر صدیقؓ نے سات غلاموں کو اسلام کی خاطر آزاد کیا۔اس پر آیت نازل ہوئی۔(تفسیر مظہری،تفسیر روح المعانی )

حضرت ابوسعید خدریؒ سے روایت ہے کہ نبی کریمﷺ نے فرمایا:،بے شک اپنی محبت اور مال کے ساتھ سب لوگوں سے بڑھ کر مجھ پر احسان کرنے والے ابو بکرؓ ہیں، اگر میں اپنے رب کے سوا کسی کو خلیل بناتا تو ابوبکرؓ کو بناتا، لیکن اسلامی اخوت ومودت تو موجود ہے ۔آئندہ مسجدمیں ابو بکرؓ کے دروازے کے سوا کسی کا دروازہ کھلا نہ رکھا جائے۔ (بخاری، کتاب المناقب )

دوسری روایت میں یہ ہے کہ ابو بکرؓ کی کھڑکی کے علاوہ (مسجد کی طرف کھلنے والی) سب کھڑکیاں بند کردی جائیں۔ (صحیح مسلم)

حضرت عبد ﷲ بن مسعودؓ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: اگر میں کسی کو خلیل بناتا تو ابوبکرؓ کو خلیل بناتا، لیکن وہ میرے بھائی اور میرے ساتھی ہیں اور تمہا رے اِس صاحب کو ﷲتعالیٰ نے خلیل بنایا ہے۔(صحیح مسلم)

حضرت انس بن مالکؓ سے روایت ہے کہ سیدنا ابوبکرؓ نے فرمایا ،جس وقت ہم غار میں تھے ،میں نے اپنے سر کی جانب مشرکوں کے قدم دیکھے تو عرض کیا، یارسول ﷺ اگر ان میں سے کسی نے اپنے پیروں کی طرف دیکھا تو وہ ہمیں دیکھ لے گا۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا،اے ابوبکرؓ !تمہارا ان دو کے متعلق کیا خیال ہے جن میں کا تیسرا ﷲتعالیٰ ہے۔ (صحیح مسلم)

آپؓ8 جمادی الثانی 13ہجری کے بعد چند یوم علیل رہ کر 22 جمادی الثانی کو خالق حقیقی جاملے۔ زندگی میں جو اعزاز ومقام آپ کو ملا،موت کے بعد بھی آپ اسی اعزاز کے مستحق ٹھہرے۔ آپ کی لحد سرکار دوعالمﷺ کی بائیں جانب اس طرح بنائی گئی کہ آپؓ کا سر نبی اکرم ﷺ کے شانہ مبارک تک آتا ہے۔اسلام اور دین کی ترویج و اشاعت کے لیے آپ کی گراں قدر خدمات اسلامی تاریخ کا ایک روشن اور قابل فخر باب ہیں۔