• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

موت ایک حقیقت ہے، جس کا ہر ذی رُوح کو مزہ چکھنا ہے۔ مختلف مذاہب میں مُردوں کی آخری رسومات کے مختلف طریقے رائج ہیں، البتہ زیادہ تر مذاہب میں مُردے دفن کیے جاتے ہیں، جس کے لیے باقاعدہ قبرستان بنائے جاتے ہیں۔ بلوچستان میں بھی بہت سے شہرِ خموشاں ہیں، جن میں سے کئی ایک اپنی قدامت کے سبب تاریخی اہمیت کے حامل ہیں۔ کوئٹہ شہر میں120 سے زاید قبرستان ہیں، جب کہ تاریخ دانوں کے مطابق شہر کا قدیم ترین قبرستان، کاسی قبرستان ہے۔ نیز، شیخ عُمر، بروری روڈ، کلی ابراہیم زئی، سبزل روڈ، ترخہ، بلوباباکرانی، سریاب، رئیسانی، جان محمّد روڈ، کینٹ نوگزا بابا، چلتن مارکیٹ اور کچھ روڈ کے قبرستان بھی خاصے قدیم ہیں۔ اِسی طرح اندرونِ بلوچستان سنی شوران، جھل مگسی، ماشکیل، سبّی، پنج گور، لورالائی، بولان، سپیزنڈ، کتیر کچلاک اور مکران میں بھی برسوں پرانے قبرستان موجود ہیں۔

اگر کوئٹہ کے کاسی قبرستان کی بات کی جائے، تو بعض تاریخ دان اِس کی قدامت پانچ سو سال سے بھی زاید بتاتے ہیں۔ ابتدائی دَور میں خانہ بدوشوں یا تجارتی قافلوں میں جاں بحق ہونے والوں کو یہاں سُپردِ خاک کیا جاتا تھا۔مؤرخین کا کہنا ہے کہ 1810ء میں چند لوگ قندھار سے کوئٹہ آئے اور اُنہوں نے ایک نشانی کی مدد سے ایک قبر تلاش کرکے فاتحہ خوانی کی۔ اُنھوں نے بتایا کہ’’ یہ اُن کے والد کی قبر ہے، جو 1770ء میں قندھار سے شکارپور جاتے ہوئے وفات پاگئے تھے اور قافلے والوں نے اُنہیں یہاں دفن کردیا تھا۔‘‘ 1950ء کے ہفتہ روزہ’’ قندیلِ خیال‘‘ میں عبدالرحمٰن کا ایک سفرنامہ شایع ہوا، جس میں اُنہوں نے لکھا کہ’’ 1731ء میں سیّد عبدالحسین غازی، لعل محمّد اور عبدالرسول حج کے لیے دہلی سے روانہ ہوئے۔

سیّد عبدالحسین نے مشہد مقدّس میں امام رضا ؒ کے مزار کی زیارت پر اصرار کیا۔ ہم بولان سے جب شالکوٹ (کوئٹہ) کی طرف روانہ ہوئے، تو ہمیں آبادی نہ ملی۔ سفر کرنے کے بعد ایک جگہ قبریں نظر آئیں، جن سے ہم نے اندازہ لگایا کہ آبادی نزدیک ہے۔ پانی کی ندی کے ساتھ گائوں نظر آیا اور وہاں کے لوگوں نے ہمیی بہت عزّت دی، کھانا پیش کیا اور ہمارے گھوڑوں کو چارہ کھلایا۔‘‘ ماہرین کا خیال ہے کہ یہ کاسی قبرستان کا ذکر ہے۔

یہ قبرستان وسیع رقبے پر پھیلا ہوا ہے اور اس کا بڑا حصّہ کاسی قبیلے کے نواب، ارباب خدائیداد خان کاسی نے 1932ء میں وقف کیا تھا۔ اس کے علاوہ، درّانی قبائل نے بھی اِس قبرستان کے لیے زمین وقف کی۔نیز، ریکارڈ کے مطابق، ہندوئوں اور پارسیوں نے بھی کاسی قبرستان میں اپنے لیے اراضی مختص کی۔جب کہ مختلف قبائل، خاندانوں اور برادریوں نے بھی زمین خرید کر قبرستان کے لیے وقف کر رکھی ہے، تاہم اب یہ قدیم قبرستان مزید مُردوں کا بوجھ اُٹھانے سے قاصر ہے۔ یہاں راستوں پر بھی قبریں بنادی گئی ہیں۔

مختلف برادریوں کے لیے مختص حصّوں میں چار دیواری کے ساتھ گورکن، پانی اور روشنی کا انتظام ہے۔تاہم، ان مخصوص احاطوں کو چھوڑ کر باقی قبرستان اِس طرح کی سہولتوں سے محروم ہے۔ رات کو قبرستان تاریکی میں ڈوبا رہتا ہے، تو ہر طرف بے ترتیبی کا بھی راج ہے۔گورکن ایک قبر میں کئی کئی مُردے دفن کررہے ہیں اور سرکاری سطح پر کوئی باز پُرس کرنے والا نہیں۔ بچّے قبروں کے درمیان کرکٹ اور فُٹ بال کھیلتے ہیں، جس سے قبروں کی بے حرمتی بھی ہوتی ہے۔

ایرانی سرحد کے قریب واقع، ضلع واشک کی تحصیل، ماشکیل کے قبرستان تاریخی وَرثہ ہیں۔یہاں کے گنبد نُما قبرستان میں غاریں بھی ہیں، جو قدیم تہذیب و تمدّن کی عکّاسی کرتی ہیں۔افغانستان کی سرحد پر واقع، چمن شہر کے قدیم اور تاریخی قبرستانوں میں شہداء قبرستان، اسحاق زئی قبرستان، برات خان قبرستان، کلی ٹاکی قبرستان، مومنان قبرستان اور محمّد حسن قبرستان ایک صدی کی تاریخ رکھتے ہیں۔پسنی شہر کا قدیم قبرستان، دیگان پہاڑی کے دامن میں ایک پتھریلے ٹیلے پر ہے۔ یہ قبروں پر نقش ونگار کی وجہ سے ایک منفرد مقام کا حامل ہے۔ خیال کیا جاتا ہے کہ یہ مقبرے سولہویں صدی میں یہاں آباد قبائل کے ہیں۔حب شہر میں بھوانی کے قبرستان کا شمار صوبے کے قدیم قبرستانوں میں کیا جاتا ہے، جہاں114 ایسی قبریں موجود ہیں، جن پر کندہ نقوش اس قبرستان کے قدیم ہونے کا پتا دیتے ہیں۔ 

ان قبروں کی ریتیلے پتھروں سے آرائش کی گئی ہے، جب کہ قبروں پر نصب چھوٹے، بڑے پتھروں سے مَردوں، عورتوں اور بچّوں کی قبروں کی نشان دہی ہوتی ہے۔لورالائی میں بی بی زیارت، عیدگاہ اور مُلّاخدر قدیم قبرستان ہیں، جو اب بَھر چُکے ہیں اور مزید بوجھ نہیں اُٹھا سکتے۔جعفر آباد، حب، جھل مگسی، بولان، لسبیلہ، اوستہ محمّد، سونمیانی کے چوکنڈی قبرستان اور مقبرے خاصے قدیم ہیں۔ چوکنڈی قبرستان کا مطلب چار کونے رکھنے والا قبرستان ہے، جہاں اینٹوں پر خُوب صُورت نقش نگاری کی گئی ہے۔مَچھ، کان مہتر زئی، قلعہ سیف اللہ، قلعہ عبداللہ، پشین، ڈھاڈر، نوکنڈی، زیارت، دالبندین، نوشکی، قلّات، خضدار، ہرنائی، آواران، سوراب، ژوب، شیرانی، دکی اور سبّی میں بھی قدیم قبرستان موجود ہیں۔

تاریخ دانوں کے مطابق، 1900ء میں حکومتِ ہند نے قبرستانوں کے بارے میں ایک آرڈینینس جاری کیا تھا، جس میں قبروں کی بے حرمتی کو جرم قرار دیا گیا۔ نیز، میونسپل کمیٹی کا عملہ مقرّر کیا گیا، جو مرنے والے کے کوائف کا اندراج کرتا۔قیامِ پاکستان کے بعد بھی یہ سلسلہ جاری رہا۔ 1951ء میں ضلعی انتظامیہ کو یہ ذمّے داری سونپ دی گئی اور قبرستانوں کی حالت بہتر بنانے کے ساتھ ،تدفین کے لیے مناسب فیس بھی مقرّر کی گئی۔ 1999ء میں لوکل باڈیز آرڈینینس کے تحت قبرستانوں کا انتظام ڈی سی او( اب ڈپٹی کمشنرز) کے سپرد کیا گیا تاکہ تجاوزات اور قبرستانوں کا غیر قانونی استعمال روکا جائے، تاہم، انتظامیہ یہ ذمّے داری نبھانے میں ناکام رہی۔

گورکنوں کو کُھلی چُھوٹ ملی ہوئی ہے اور وہ قبروں پر قبریں بنائے جارہے ہیں۔کسی کے لیے قبر کھودی جائے، تو پہلے سے مدفون مُردوں کی ہڈیاں نکل آتی ہیں۔صوبائی دارالحکومت کوئٹہ کے عوامی و سماجی حلقوں کا کہنا ہے کہ قبرستانوں کی نگرانی کا خصوصی بندوبست کیا جائے، شہر میں نئے قبرستان بنائے جائیں اور پرانے قبرستانوں میں تدفین پر پابندی عاید کرکے ان قبرستانوں میں شجرکاری کی جائے اور چار دیواری کرکے قبروں کو بے حرمتی سے بچایا جائے۔ 

ممتاز عالمِ دین اور صوبائی خطیب، مولانا انوار الحق حقّانی کا اِس ضمن میں کہنا ہے کہ ’’ قبرستان آخرت کی یاد دِلاتے ہیں، اِس لیے شریعت نے قبریں سادہ رکھنے کی تلقین کی ہے۔ قبروں کے احترام میں یہ بھی شامل ہے کہ اُن پر پاؤں رکھا جائے اور نہ ہی قبروں پر بیٹھا جائے۔ اسلام مکمل نظامِ حیات ہے،لہٰذا جیسے کسی زندہ انسان کے احترام کا درس دیا گیا ہے، ویسے ہی مرنے والے کے لیے بھی ایک خاص احترام کا حکم ہے۔ اُسے غسل اور کفن دے کر سپردِ خاک کرنا مسلمانوں کی ایک اہم ذمّے داری قرار دی گئی ہے۔اِسی طرح اسلام میں قبروں کو عزّت دی گئی ہے۔اِس حوالے سے شریعت قبرستانوں میں اونچی آواز میں بات کرنے، قبروں کے اوپر سے گزرنے، قبروں پر بیٹھنے اور وہاں کھیل تماشوں سے منع کرتی ہے۔‘‘

غیرمسلموں کے قبرستان

جب انگریزوں نے کوئٹہ میں قلعے پر قبضہ کیا اور یہاں اپنی عمل داری قائم کی، تو پہلے پہل اپنے ہم قوم مُردوں کو زرغون روڈ پر قلعے کے سامنے’’ مم قبرستان‘‘ میں سپردِ خاک کیا کرتے تھے۔ بعدازاں، قلعے کے شمال مشرق میں ایک وسیع احاطہ قبرستان کے لیے مخصوص کیا گیا۔ عام شہری اُسے’’ گورا قبرستان‘‘ کہتے ہیں۔ پھر انگریز حکومت نے دیسی عیسائیوں کو بھی اس قبرستان میں دفن کرنے کی اجازت دے دی۔ ابتدا میں گورا قبرستان کا انتظام مقامی فوجی افسران کے پاس تھا۔ 1931ء میں کنٹونمنٹ بورڈ کو اس کا چارج دیا گیا۔ 1935ء میں زلزلے کے بعد ایک کمیٹی قائم کی گئی، جس کے سربراہ مقامی بشپ تھے۔ 

قبرستان کا انتظام سینٹ مریز چرچ کے پاس تھا۔ انگریزوں نے 1912ء میں زرغون روڈ پر قلعے کے بالمقابل بچّوں کا بھی قبرستان بنایا، جس کا نام’’ بے بی قبرستان‘‘ ہے۔ گورا قبرستان کا انتظام بہتر ہے، لیکن قیامِ پاکستان کے بعد وہاں دفن ہونے والوں کا ریکارڈ موجود نہیں ہے۔1876ء میں ہندوئوں کے کوئٹہ میں دو سو، جب کہ قلّات میں چار سو سے زاید گھرانے مقیم تھے۔ 1900ء سے قبل ہندو اپنے مُردوں کو قلّات لے جاتے، جہاں کالی مندر کے قریب اُنھیں جلاتے اور راکھ کالی مندر میں ڈال دیتے۔ 1935ء کے زلزلے سے قبل ہندوئوں نے اپناشمشان گھاٹ(مرگھٹ) بروری میں ندی کے قریب قائم کیا، جہاں مُردوں کو جلایا جاتا تھا۔

اُنھوں نے کولپور میں بھی شمشان گھاٹ بنایا۔ سِکھ عموماً مُردوں کو جلاتے ہیں، جب کہ کچھ دفن بھی کرتے ہیں۔ انگریزوں نے سِکھوں، ہندوئوں، مرہٹوں اور گورکھا فوجیوں کی آخری رسومات ادا کرنے کے لیے کچھ روڈ پر مرگھٹ تیار کیا تھا۔ بالمکیوں کا قبرستان بھی کچھ روڈ پر ہے۔ کوئٹہ کے سمنگلی روڈ پر پارسیوں، بہائیوں، آغا خانیوں، بوہریوں کے قبرستان ہیں۔ پارسیوں کا قبرستان 1889ء میں تعمیرا ہوا۔ پارسی بزرگوں کے مطابق1876ء سے قبل پارسی اپنے مُردے ریلوے اسٹیشن کے قریب دفن کرتے تھے، بعد میں سمنگلی روڈ قبرستان کی جگہ مخصوص کی گئی۔

ایک روایت یہ بھی ہے کہ مُلک کے دیگر شہروں، خصوصاً کراچی میں پارسی اپنے مُردے بڑے بڑے کنوئوں میں ڈال دیتے ہیں۔ پارسیوں کے قبرستان میں بہت زیادہ درخت اور سبزہ ہے، جب کہ چار دیواری، چوکیدار اور پانی کے لیے ٹیوب ویل بھی موجود ہے۔ بہائیوں کا قبرستان1960ء میں تعمیر کیا گیا، اس کی باقاعدہ چار دیواری ہے اور مُردوں کو ایک خاص ترتیب سے دفن کیا جاتا ہے۔ آغا خانیوں کا قبرستان بہت چھوٹا ہے اور اس کے قیام کے بارے میں صحیح سن کا اندازہ بھی نہیں، اُس میں جنازہ گاہ بھی موجود ہے۔ 

بوہری کمیونٹی 1901ء تک اپنے مُردے کاسی قبرستان میں سپردِ خاک کیا کرتی تھی، بعدازاں، الگ قبرستان کے لیے جگہ مختص کی گئی۔ بوہریوں کے قبرستان میں جنازہ گاہ موجود ہے، یہاں بھی سبزے، چار دیواری، چوکیدار اور پانی کا انتظام ہے، جب کہ قبریں بھی ترتیب سے بنائی جاتی ہیں۔ قادیانیوں کے قبرستان کی تعمیر 1953ء میں ہوئی۔ اس قبرستان کی چار دیواری موجود ہے، تاہم مال دار قادیانی مقرّرہ رقم ادا کرکے اپنے مُردے چناب نگر(ربوہ) لے جاتے ہیں۔