’’ اندر کی پکّی اور سولہ آنے کنفرم خبر یہ ہے کہ مُلک میں تین ماہ کے لیے ایمرجینسی لگانے کا فیصلہ کرلیا گیا ہے۔اِس مقصد کے لیے صدرِ مملکت تک خصوصی دستاویز پہنچا دی گئی ہے، صرف دست خط کی دیر ہے۔اِن تین ماہ کے دَوران ایک عبوری حکومت قائم ہوگی، جو صدارتی نظام پر ریفرنڈم کروائے گی، جس کے بعد مُلک میں قومی اور صوبائی اسمبلیاں ختم کرکے صدارتی نظام نافذ کردیا جائے گا۔‘‘ ہر کچھ عرصے بعد اِس طرح کی ’’ اندورنی‘‘ اور’’ پکّی‘‘ خبریں سُننے کو ملتی ہیں، اب نہ جانے مخبر کی قوتِ سماعت کا کوئی مسئلہ ہے، یا خبر دینے والے اُس سے مخول کرتے ہیں کہ یہ خبر کبھی درست ثابت نہیں ہوتی۔
گزشتہ چند دنوں سے ایک بار پھر اِسی نوعیت کی خبریں گرم ہیں۔’’ صدارتی نظام لاؤ، ترقّی پاؤ‘‘ جیسے نعرے ٹوئیٹر پر ٹرینڈ کرتے رہے، تو سماجی رابطوں کی دیگر سائٹس پر بھی اِس نظام کے حق میں مہم چل رہی ہے۔ اِس بار ایک نئی بات یہ بھی دیکھنے میں آئی کہ صدارتی نظام کے حق میں ایک ٹی وی چینل پر تشہری مہم بھی چلائی گئی۔ اِس سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ اب قدرے سنجیدہ معاملہ بنتا جا رہا ہے، لہٰذا اِس کا مختلف پہلوؤں سے جائزہ لینا ضروری ہے۔
دنیا میں نظامِ حکومت
برطانیہ کی پارلیمانی جمہوریت کو دنیا میں ایک مثال کے طور پر پیش کیا جاتا ہے۔ گو کہ وہاں بادشاہی نظام بھی برقرار ہے، مگر وہ محض علامتی ہے۔ مُلکی معاملات میں ملکہ کا کوئی کردار نہیں،تمام اختیارات وزیرِ اعظم اور پارلیمان کے پاس ہیں، جن کا انتخاب عوام اپنے ووٹس کے ذریعے کرتے ہیں۔ دوسری جنگِ عظیم کے بعد برطانیہ سے آزادی پانے والی بیش تر نوآبادیات میں بھی اِسی طرز کا پارلیمانی نظام قائم کیا گیا، جیسے پاکستان اور بھارت۔امریکا ،صدارتی نظام کی ایک بڑی مثال ہے، جہاں تقریباً ڈھائی سو برس سے یہ طرزِ حکومت کام یابی سے چل رہا ہے۔
ہمارے پڑوس میں چین نے بھی صدارتی نظام اپنایا، مگر وہ اِس لحاظ سے مختلف ہے کہ وہاں صرف حکم ران جماعت، کمیونسٹ پارٹی آف چائنا ہی کو کام کرنے کی اجازت ہے، جب کہ باقی انتخابی عمل بھی دیگر ممالک کے صدارتی نظاموں سے یک سَر مختلف ہے۔روس اور شمالی کوریا میں بھی چین جیسا ماڈل کام کر رہا ہے۔ ایران میں 1979ء کے انقلاب کے بعد ولایتِ فقیہ کے مذہبی نظریے کے تحت ریاستی نظام تشکیل دیا گیا، جس میں صدر اور پارلیمنٹ تو موجود ہیں، لیکن اختیارات کا منبع رہبرِ اعلیٰ کی ذات ہے۔
سعودی عرب اور دیگر خلیجی ممالک میں بادشاہت قائم ہے، جہاں عوام کا حکومتی معاملات میں کوئی عمل دخل نہیں۔ یورپ میں ملا جُلا نظام ہے، کہیں فرانس کی طرح صدارتی طریقہ منتخب کیا گیا ہے، تو بہت سے ممالک نے برطانوی طرز پر اپنا نظام استوار کیا ہے۔ جرمنی نے صدارتی نظام جیسا طریقہ اختیار کیا، مگر وہ کچھ مختلف بھی ہے۔
دنیا کے کئی ممالک میں بادشاہت بھی برقرار ہے، تاہم ان میں سے بیش تر رسمی نوعیت کی ہیں، البتہ اسلامی ممالک میں اِس نظام کی جڑیں کافی گہری ہیں۔ اہم اسلامی مُلک، تُرکی چند سال پہلے طیّب اردوان کی قیادت میں پارلیمانی جمہوری نظام سے صدارتی نظام کی جانب منتقل ہوا ہے۔کئی ایسے ممالک بھی ہیں، جہاں فوجی حکومتیں قائم ہیں اور کئی فوجی آمروں نے اپنے اقتدار کو جائز بنانے کے لیے صدر کا چولا بھی پہنا ہوا ہے۔ اِس مختصر سے جائزے سے پتا چلتا ہے کہ ہر مُلک نے اپنے ماحول کے مطابق ریاستی نظام تشکیل دیا ہے۔
پارلیمانی جمہوری نظام
یہ دنیا کا سب سے پاپولر نظام ہے۔ اِس نظام کی بنیادیں قدیم یونان میں ملتی ہیں، جب کہ جدید دنیا میں برطانیہ کو اس کا موجد قرار دیا جاتا ہے۔اِس نظام میں عوام اپنے ووٹس سے نمایندے منتخب کرکے پارلیمان میں بھیجتے ہیں، پھر ان منتخب ارکان ہی میں سے کسی ایک کو مخصوص طریقۂ کار کے مطابق قائدِ ایوان منتخب کرلیا جاتا ہے، جو مُلک کا سربراہ، یعنی وزیرِ اعظم ہوتا ہے۔اِس نظامِ حکومت میں عام طور پر دو ایوان ہوتے ہیں۔ جیسے پاکستان میں ایوانِ بالا یعنی سینیٹ اور ایوانِ زیریں یعنی قومی اسمبلی ہے۔
صوبوں میں وزرائے اعلیٰ ہوتے ہیں، جن کا انتخاب عوام کے ووٹس سے منتخب ہونے والے ارکان صوبائی اسمبلی کرتے ہیں۔ وزیرِ اعظم اور وزراء حکومتی نظام چلانے کے لیے کابینہ تشکیل دیتے ہیں، جو ارکانِ پارلیمان اور غیر منتخب افراد پر مشتمل ہوتی ہے۔ وزیرِ اعظم بااختیار ہوتا ہے، مگر پارلیمان کی صُورت اُس پر چیک رہتا ہے، جب کہ قومی اسمبلی اور سینیٹ کی مختلف کمیٹیز بھی حکومتی اُمور پر نظر رکھتی ہیں۔
اگر وزیرِ اعظم قومی اسمبلی میں اکثریت کھو دے، تو عُہدے سے محروم ہو جاتا ہے۔ گویا اُس کی ساری طاقت عوام کے ووٹس سے منتخب ایوان کے رحم و کرم پر ہوتی ہے۔ اِس نظام میں صدرِ مملکت بھی ہوتا ہے، مگر وہ ایک نمائشی عُہدہ ہے۔ دنیا کے مختلف ممالک میں تھوڑی بہت تبدیلی اور اختیارات کی کمی بیشی کے ساتھ یہ نظام بہت کام یابی سے چل رہا ہے۔
صدارتی نظامِ حکومت
اِس نظام میں بھی عوام ووٹ کے ذریعے اپنے حکم ران کا انتخاب کرتے ہیں، مگر فرق یہ ہے کہ یہ انتخاب براہِ راست ہوتا ہے۔ مختلف امیدوار انتخابی معرکے میں اُترتے ہیں اور پورے مُلک کے ووٹرز اپنے پسند کے امیدوار کے حق میں ووٹ کاسٹ کرتے ہیں، جسے زیادہ( کم ازکم 51 فی صد) ووٹ ملیں، وہ مُلک کا صدر منتخب ہوجاتا ہے، جب کہ اُس کے ساتھ ارکانِ پارلیمان کا بھی انتخاب ہوتا ہے، جس کے طریقۂ کار میں اختلاف ہے۔صدر اپنی مرضی اور پسند سے کابینہ کا انتخاب کرتا ہے، جو ضروری نہیں کہ منتخب عوامی نمایندے ہی ہوں۔
تمام اختیارات صدر کی ذات میں مرتکز ہوتے ہیں۔کہیں کہیں اختیارات سے محروم ایک وزیرِ اعظم بھی ہوتا ہے۔ اِس نظام میں پارلیمنٹ کا زیادہ عمل دخل نہیں ہوتا۔ وہ صدر کا مواخذہ تو کرسکتی ہے، جس کی بنیاد پر اُسے ہٹایا بھی جاسکتا ہے، مگر یہ پارلیمانی جمہوری نظام کی طرح آسان نہیں ہوتا۔ بعض ممالک میں صدر کو بہت زیادہ اختیارات حاصل ہیں، جن میں اعلیٰ عدلیہ کے ججز کی تعیّناتی بھی شامل ہے۔ اِس نظام میں صوبائی اسمبلیاں وغیرہ نہیں ہوتیں، صدر کے مقرّر کردہ گورنرز صوبوں کا نظام چلاتے ہیں۔ البتہ، یہ بات پیشِ نظر رہے کہ پارلیمانی کی طرح یہ نظام بھی ساری دنیا میں یک ساں نہیں ہے، بلکہ مختلف ممالک نے اپنے ماحول اور ضروریات کے لحاظ سے اس میں تبدیلیاں کی ہیں۔
پاکستان میں مختلف نظاموں کے تجربات
حکومتی اور ریاستی اُمور چلانے کے لیے کون سا نظام بہتر ہے؟ پاکستان میں یہ ایک پرانی بحث ہے، جس کا قیامِ پاکستان کے فوراً بعد آغاز ہوگیا تھا اور اب تک کسی نہ کسی صُورت جاری ہے۔ البتہ، 1973ء کے متفّقہ آئین کے بعد اِس بحث میں ماضی کی نسبت زیادہ جان نہیں رہی۔ پاکستان قائم ہوا تو 1935ء کے انڈیا ایکٹ میں مناسب ترامیم کر کے نظامِ حکومت چلانے کا آغاز کیا گیا۔ پھر 1946ء کے انتخابات کی بنیاد پر ایک دستور(آئین) ساز اسمبلی تشکیل دی گئی، جس کا پہلا اجلاس 11 اگست 1947ء کو کراچی میں ہوا اور قائدِ اعظم، محمّد علی جناح اس اسمبلی کے صدر منتخب ہوئے۔
بعدازاں،14 اگست 1947ء کو قائدِ اعظم مُلک کے گورنر جنرل اور لیاقت علی خان وزیرِ اعظم بنے۔بظاہر یہ دو طرح کا نظام تھا، مگر عملاً پارلیمانی جمہوری نظام ہی تھا کہ قائدِ اعظمؒ جمہوری روایات کی پاس داری کرتے تھے۔ 11ستمبر 1948ء کو قائدِ اعظم نے وفات پائی، تو خواجہ ناظم الدّین گورنر جنرل مقرّر ہوئے،اِس دوران لیاقت علی خان جیسی قدآور شخصیت کے سبب پارلیمانی نظام مضبوط رہا۔1950ء میں خصوصی کمیٹی نے دو ایوانی نظام سے متعلق آئینی خاکہ پیش کیا، جس پر مشرقی پاکستان کی قیادت متفّق نہیں ہوئی۔16 اکتوبر 1951ء کو لیاقت علی خان راول پنڈی کے کمپنی باغ میں دورانِ خطاب گولی مار کر شہید کر دیے گئے، جس کے بعد اقتدار کا ایک ایسا کھیل شروع ہوا، جس میں سیاست دان بہت بے وقعت ہوئے۔
ایک بیورو کریٹ، غلام محمّد پاکستان کے تیسرے گورنر جنرل بن گئے اور گورنر جنرل، خواجہ ناظم الدّین کو وزیر اعظم بنا دیا گیا۔اِس دوران 1952ء میں دستور ساز اسمبلی کی خصوصی کمیٹی نے مجوّزہ ریاستی نظام سے متعلق دوسری رپورٹ پیش کی۔ اِس بار پنجاب نے اُس کی مخالفت کی، یوں یہ بیل بھی منڈھے نہ چڑھ سکی۔ تقریباً ڈیڑھ سال بعد 17 اپریل 1953ء کو خواجہ صاحب کی حکومت ختم کردی گئی اور امریکا میں پاکستان کے سفیر، محمّد علی بوگرہ نے آکر وزارتِ عظمیٰ سنبھال لی۔
نئی کابینہ میں کمانڈر انچیف جنرل ایوب خان کو وزیر دفاع مقرّر کیا گیا تھا، اِس لیے کہا جاتا ہے کہ اقتدار کی اِس تبدیلی میں فوج کی مدد حاصل تھی۔اس دورِ حکومت میں بھی مُلکی آئین کے لیے کچھ تجاویز سامنے آئیں، مگر ذاتی مفادات کی لڑائی کے سبب کوئی نتیجہ برآمد نہ ہوا اور پھر 24 اکتوبر 1954ء کو گورنر جنرل غلام محمد نے اچانک دستور ساز اسمبلی ہی توڑ دی۔اِس اقدام نے مُلک کے سیاسی حالات دگر گوں کردئیے، اِسی کھینچا تانی میں فوجی قیادت نے غلام محمدّ سے زبردستی استعفا لیا اور اسکندر مرزا کو اُن کی جگہ گورنر جنرل بنا دیا۔
نئی دستور ساز اسمبلی بنائی گئی، جس نے ایک بار پھر آئین کی تیاری کا آغاز کیا۔ تاہم، اسکندر مرزا نے کچھ ہی دنوں بعد وزیرِ اعظم، محمد علی بوگرہ کو گھر بھیج دیا اور اُن کی جگہ ایک اور بیورو کریٹ، چوہدری محمّد علی نے لے لی۔ اِس حکومت کا کارنامہ یہ ہے کہ اس نے مُلک کو پہلا آئین دیا۔29 فروری 1956ء کو دوسری دستور ساز اسمبلی نے آئین منظور کیا، جو 23 مارچ 1956ء کو نافذ کردیا گیا۔گو کہ اسے پارلیمانی طرز کا آئین کہا گیا، مگر عملاً یہ صدارتی آئین تھا۔ اس میں گورنر جنرل کی جگہ صدر کا عُہدہ متعارف کروایا گیا اور اُسے اختیارات سے لاد دیا گیا۔
مُلک مشرقی اور مغربی دو حصّوں میں تقسیم کیا گیا، جن کی قومی اسمبلی میں مساوی نمایندگی رکھی گئی۔ اسکندر مرزا مُلک کے پہلے صدرقرار پائے، جنھوں نے اپنے اختیارات استعمال کرتے ہوئے چھے ماہ بعد ہی چوہدری محمد علی کو رخصت کردیا۔بعدازاں، اگلے دو برسوں میں حسین شہید سہروری، ابراہیم اسماعیل چندریگر اور ملک فیروز خان نون کی حکومتیں قائم ہوئیں اور صدر صاحب کے اختیارات کا نشانہ بنیں۔7 اکتوبر 1958ء کو مُلک میں مارشل لاء لگا کر آئین لپیٹ دیا گیا۔
فوج کے کمانڈر انچیف، ایّوب خان پہلے چیف مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر بنے، پھر صدر اسکندر مرزا کو برطانیہ بھجوا کر 27اکتوبر 1958ء کو صدرِ مملکت کا عُہدہ سنبھال لیا۔ایوب خان نے 1959ء میں بنیادی جمہوریت کا نظام متعارف کروایا اور ان بلدیاتی نمایندوں نے 1960ء میں اُنھیں پانچ سال کے لیے صدر منتخب کرتے ہوئے نیا آئین بنانے کا اختیار دے دیا۔یکم مارچ 1962ء کو نیا آئین سامنے آیا، جس میں مُلک کا نظام صدارتی طے پایا اور تمام اختیارات صدر کے سپرد کردئیے گئے۔
اس نظام میں صدر، قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے ارکان کے انتخاب کا اختیار اُن 80 ہزار بلدیاتی ارکان کو دیا گیا، جو مشرقی اور مغربی پاکستان سے برابری کی بنیاد پر 40، 40ہزار تھے۔ یعنی پہلے عوام بلدیاتی نمایندے منتخب کرتے، پھر وہ نمایندے صدر اور اسمبلیوں کے ارکان کا انتخاب کرتے۔اِس آئین کے تحت 156ارکان پر مشتمل قومی اسمبلی تشکیل دی گئی، جن میں چھے نشستیں خواتین کے لیے مخصوص تھیں، باقی150نشستیں مشرقی اور مغربی پاکستان میں برابری کی بنیاد پر تقسیم کی گئیں۔ نیز، دونوں صوبائی اسمبلیاں150، 150 ارکان پر مشتمل تھیں۔ بعد ازاں، ایک آئینی ترمیم کے ذریعے اسمبلی کے ارکان کی تعداد 218 اور بلدیاتی ارکان80ہزار سے بڑھا کر ایک لاکھ،20 ہزار کر دیے گئے۔
صدر اسمبلی کے کسی بھی فیصلے کو ویٹو کرسکتا تھا،تاہم، اسمبلی توڑنے کی صُورت میں اُسے بھی گھر جانا پڑتا۔ گو کہ کئی ایک تجزیہ کاروں نے اِس آئین کی بہت سی خُوبیاں بیان کی ہیں، مگر یہ حقیقت بھی جھٹلانا ممکن نہیں کہ اس آئین کے بعد مُلک کے دونوں حصّوں میں دُوریاں بڑھیں، جو علیٰحدگی پر منتج ہوئیں۔اِس آئین کے تحت 2جنوری 1965ء کو صدارتی انتخابات ہوئے، جس میں کنونشن مسلم لیگ کی طرف سے ایوب خان، جب کہ اپوزیشن اتحاد کی جانب سے محترمہ فاطمہ جناح امیدوار تھیں۔ تاہم، ایوب خان فاتح قرار پائے۔ مارچ 1969ء میں ایوب خان اقتدار سے الگ ہوگئے اور (باقی صفحہ 17پر)
فوج کے کمانڈر انچیف جنرل یحییٰ خان نے 1962ء کا آئین منسوخ کر کے مُلک میں مارشل لاء نافذ کر دیا۔گو کہ وہ فوجی آمر تھے، مگر اُنھوں نے اپنے پیش رؤں کے برعکس اچھے انداز میں انتخابات کروائے۔خصوصی حکم نامے کے ذریعے مُلک میں پہلی بار ایک آدمی، ایک ووٹ کا اصول اپنایا گیا۔تمام سیاسی جماعتوں کو انتخابی عمل کا حصّہ بننے کی آزادی دی گئی۔ 300نشستوں پر مشتمل قومی اسمبلی( 162مشرقی پاکستان، 138مغربی پاکستان) اور اسی طرح صوبائی اسمبلیوں کی حلقہ بندی ہوئی۔ اِن انتخابات میں مشرقی پاکستان سے شیخ مجیب الرحمٰن کی عوامی لیگ اور مغربی پاکستان سے ذوالفقار علی بھٹّو کی پاکستان پیپلز پارٹی نے کام یابی حاصل کی۔
تاہم، اقتدار کی ہوس، خفیہ ہاتھوں کی کارستانی اور بھارتی دخل اندازی نے مُلک دو لخت کردیا۔ جنرل یحییٰ خان نے 20دسمبر 1971ء کو اقتدار پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین ذوالفقار علی بھٹو کے سپرد کر دیا۔1970ء کے انتخابات کی بنیاد پر 1972ء میں نئی قومی اسمبلی قائم ہوئی، جس نے 10 اپریل 1973 ء کو نئے آئین کی منظوری دی، جسے14 اگست 1973 ء کو نافذ کردیا گیا۔ مُلک میں اُس وقت سے اب تک وہی آئین نافذ ہے۔ یہ پارلیمانی طرز کا آئین ہے، جس میں پارلیمنٹ کو سینیٹ اور قومی اسمبلی میں تقسیم کیا گیا، وزیرِ اعظم کو بااختیار بنایا گیا، جب کہ اس میں عوام کے بنیادی حقوق کا بھی تحفّظ کیا گیا۔
5 جولائی 1977 کو جنرل محمد ضیاء الحق نے مُلک میں تیسرا مارشل لاء نافذ کرنے کے بعد اختیارات ایک بار پھر صدر کی طرف موڑ دیے، یوں عملاً صدارتی نظام نافذ ہوگیا۔وہ ’’عوامی ریفرنڈم‘‘ کے ذریعے بھی صدر’’ منتخب‘‘ ہوئے۔ بعدازاں، محمد خان جونیجو، محترمہ بے نظیر بھٹو اور میاں نواز شریف کی حکومتیں قائم ہوئیں، لیکن جنرل ضیاء کی آئینی ترامیم کے سبب وہ سب صدارتی اختیارات کا شکار ہوگئیں۔12 اکتوبر 1999ء کو جنرل پرویز مشرف نے وزیرِ اعظم، نواز شریف کو برطرف کرکے مُلک میں مارشل لاء لگادیا اور اختیارات اپنے ہاتھ میں لے لیے۔2002 ء میں ہونے والے ریفرنڈم میں عوام نے اُنھیں5 سال کے لیے صدر’’ منتخب‘‘ کیا۔
بعدازاں، 17 ویں آئینی ترمیم کے ذریعے قومی اسمبلی نے اُنھیں’’ باوردی صدر‘‘ بھی تسلیم کرلیا۔ نومبر 2007ء میں ایک بار پھر صدر منتخب ہوئے، مگر حالات اُن کے خلاف ہوتے چلے گئے اور اگلے برس 2008ء میں اُنھیں اقتدار سے رخصت ہونا پڑا۔اُن کے دورِ اقتدار میں ظفر اللہ جمالی، چوہدری شجاعت اور شوکت عزیز نے حکومتیں بنائیں، مگر طاقت کا مرکز صدر پرویز مشرف ہی رہے۔اُس کے بعد یوسف رضا گیلانی اور نواز شریف اقتدار میں آئے، مگر کوئی بھی اپنی آئینی مدّت پوری نہ کرسکا۔اگست 2018ء سے عمران خان پاکستان کے وزیرِ اعظم ہیں۔ اِس تفصیلی تجزیے سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ پاکستان اپنے قیام سے اب تک صدارتی، پارلیمانی، نیم صدارتی، نیم پارلیمانی اور خالصتاً فوجی حکومتوں کے تجربات کرتا رہا ہے۔
صدارتی نظام کی مہم کون چلا رہے ہیں؟
اگرچہ شاہ محمود قریشی اسے ایک لاحاصل بحث قرار دے چُکے ہیں، تاہم، سوشل میڈیا پر جاری مہم کا جائزہ لیں، تو اس کے پیچھے تحریکِ انصاف کے کارکنان ہی نظر آتے ہیں، جب کہ تحریک لبیک سمیت بعض مذہبی جماعتیں بھی اِس ضمن میں سرگرم ہیں، البتہ وہ اس کے ساتھ اسلامی کا اضافہ کرتی ہیں۔ یعنی اسلامی صدارتی نظام۔ماضی میں بھی وہی حلقے اِس نظام کے حق میں آواز بلند کرتے رہے ہیں، جنھیں اقتدار کی اصل طاقتوں کے قریب تصوّر کیا جاتا ہے۔
حامیوں، مخالفین کے دلائل
صدارتی نظام کے حامیوں کا کہنا ہے کہ مُلک میں جب بھی کسی بااختیار صدر نے اقتدار سنبھالا، ترقّی کا سفر شروع ہوگیا۔ وہ اِس ضمن میں ایّوب خان اور پرویز مشرف کی معاشی کام یابیوں کا خاص طور پر حوالہ دیتے ہیں۔ اُن کے مطابق، براہِ راست عوامی ووٹس سے منتخب ہونے والا حکم ران زیادہ بہتر طور پر کام کرسکتا ہے کہ اُسے ارکانِ اسمبلی یا سیاسی جماعتوں کی بلیک میلنگ کا سامنا نہیں کرنا پڑتا۔
پھر یہ کہ وہ مختلف انتخابی حلقوں سے روایتی طور پر منتخب ہونے والے جاگیر داروں، وڈیروں، سرمایہ داروں یا موروثی سیاست دانوں کا محتاج نہیں ہوتا اور باصلاحیت افراد پر مشتمل کابینہ کے چناؤ میں آزاد ہوتا ہے۔اُن کے خیال میں پارلیمانی نظام چند مخصوص خاندانوں اور بااثر افراد کے ہاتھوں یرغمال ہے، جس کے سبب عوام مشکلات سے دوچار ہیں۔دوسری طرف، صدارتی نظام کے ناقدین کا کہنا ہے کہ یہ نظام پاکستان جیسے مُلک میں مناسب نہیں، جہاں بہت سے قومیں بستی ہیں۔
براہِ راست انتخاب میں بڑے صوبے کا پلّہ بھاری رہے گا اور ہمیشہ وہیں سے صدر منتخب ہوگا، جس سے چھوٹے صوبوں میں احساسِ محرومی بڑھے گا، جس کا تلخ تجربہ ماضی میں بھی ہوچُکا ہے۔نیز، ایک ایسے مُلک میں جہاں پارلیمان کے سخت دباؤ کے باوجود حکم ران عوامی مطالبات کو پسِ پُشت ڈال دیتے ہوں اور منتخب نمایندے اُنھیں روک نہیں پاتے، ایسے ماحول میں اگر کسی فردِ واحد کو تمام اختیارات منتقل کردئیے جائیں، تو اُسے کیسے قانون کا پابند رکھا جاسکے گا؟جہاں تک چند خاندانوں یا بدعنوان عناصر کی بات ہے، تو صدارتی انتخابات میں بھی یہی لوگ آگے ہوں گے۔لہٰذا، نظام کوئی بھی ہو، لیکن اگر ووٹرز وہی، امیدوار بھی وہی اور ادارے بھی وہی ہوں، پھر محض نظام کے بدلنے سے کیا فرق پڑے گا؟
آئینی ماہرین کیا کہتے ہیں؟
صدارتی نظام کے حامیوں کا کہنا ہے کہ قومی اسمبلی میں دو تہائی حمایت یا عوامی ریفرنڈم کے ذریعے نظام میں تبدیلی لائی جاسکتی ہے، تاہم آئینی اور قانونی ماہرین اُن کی رائے سے متفّق نہیں۔ان ماہرین کا کہنا ہے کہ سپریم کورٹ آئین کے بنیادی ڈھانچے کے خدّ و خال طے کر چُکی ہےاور وفاقی پارلیمانی نظامِ حکومت اس ڈھانچے کا حصّہ ہے۔ سپریم کورٹ محمود خان اچکزئی مقدمے میں قرار دے چُکی ہے کہ وفاقی پارلیمانی نظام، آزاد عدلیہ اور اسلامی دفعات پر کوئی قدغن نہیں لگائی جا سکتی۔
بہتری کی بہت گنجائش ہے
دو طرح کے لوگ ہیں۔ ایک تو کسی مخصوص ایجنڈے کے تحت نظام کی تبدیلی کی مہم چلا رہے ہیں، مگر بہت سے ایسے لوگ بھی ہیں، جو واقعتاً موجودہ پارلیمانی نظام سے مایوس ہوچُکے ہیں یا ہوتے جا رہے ہیں۔ اس کا سبب وہ خرابیاں ہیں، جن کے باعث عوام اس نظام کے حقیقی ثمرات سے تاحال محروم ہیں۔سو، یہ کہنا بھی ٹھیک نہیں ہوگا کہ جیسا اور جس حال میں یہ نظام چل رہا ہے، اسے چلنے دیا جائے، ایک وقت آئے گا کہ خود بہتری آجائے گی۔ یہ بات کہنے میں خواہ کس قدر بھلی کیوں نہ لگتی ہو، مگر زمینی حقائق کچھ اور ہی کہتے ہیں۔
اس میں دو رائے نہیں کہ پاکستان میں ایک مخصوص منصوبے کے تحت سیاست دانوں کو بدنام کیا گیا، اُنھیں بدعنوان اور نااہل ثابت کرنے کی کوشش کی گئی، مگر یہ بھی سچ ہے کہ خود سیاست دانوں نے بھی ایسے افراد کو بھرپور مواقع فراہم کیے ہیں۔ جب وہ خود ایک دوسرے کی ٹانگیں کھینچتے ہوں، الزام تراشیاں کرتے، آپس میں دست وگریباں رہتے ہوں، تو پھر اُنھیں بدنام کرنے کے لیے کسی کو زیادہ کچھ کرنے کی ضرورت نہیں رہتی۔ اگر پارلیمانی جمہوری نظام کو بچانا ہے اور بچانا بھی چاہیے کہ مُلک کا مستقبل اس سے وابستہ ہے، تو سیاسی جماعتوں اور سیاست دانوں کو اپنے رویّوں پر نظرِثانی کرنی ہوگی تاکہ کوئی طالع آزما نظام کی تبدیلی کی آڑ میں سب کچھ ہی نہ لپیٹ دے۔
پھر ہمارا انتخابی نظام بھی عوام کو اِس نظام سے مایوس کرنے کا ایک بڑا سبب ہے۔ دھاندلی کی باتیں تو ایک طرف، اس میں بنیادی نوعیت کی تبدیلیوں کی بھی اشد ضرورت ہے۔ مثال کے طور پر کسی حلقے سے کوئی شخص 50 ہزار ووٹ لے کر کام یاب ٹھہرتا ہے، جب کہ دوسرے اور تیسرے نمبر پر آنے والے بالترتیب 40 ہزار اور 30 ہزار ووٹ لیتے ہیں، تو کام یاب قرار پانے والا امیدوار اس حلقے کے عوام کا نمایندہ کیسے ہوسکتا ہے؟
اِسی طرح کہیں سے آٹھ، دس ہزار ووٹ لینے والا اسمبلی کا رکن بن جاتا ہے، تو کسی کو ایک لاکھ سے زاید ووٹ پر یہ نشست ملتی ہے۔ پھر یہ کہ عام تعلیم یافتہ افراد اور کارکنان کے لیے اِس انتخابی نظام میں کوئی جگہ نہیں۔ حلقوں کی سیاست موروثیت کے گرد گھومتی ہے، جسے سیاسی جماعتیں طاقت فراہم کرتی ہیں۔یہی وجہ ہے کہ یہ طاقت وَر لوگ ایک سے دوسری جماعت کے چکر لگاتے رہتے ہیں۔ یہ مسئلہ اُس وقت تک حل نہیں ہوگا، جب تک سیاسی جماعتیں خود اپنے اندر جمہوری رویّے فروغ نہ دیں، عُہدے خاندانوں یا دولت کے انبار کی بجائے میرٹ پر دیے جائیں، تو سیاسی جماعتوں پر عوامی اعتماد میں اضافہ ہوگا۔
علاوہ ازیں، سیاسی قیادت کو اِس نکتے پر بھی معاہدہ کرنا چاہیے کہ اُن میں سے کوئی بھی اقتدار کے حصول، کسی کو حکومت سے بے دخل کرنے یا اقتدار برقرار رکھنے کے لیے غیر آئینی راستہ اختیار نہیں کرے گا اور ایسے مواقع پر محض عوام سے حاصل ہونے والی طاقت ہی پہ انحصار کیا جائے گا۔یہاں یہ بات بھی اہم ہے کہ محض اختیارات کا حصول ہی مسئلہ نہیں، بلکہ ذمّے داریوں کی ٹھیک ادائی بھی ایک بڑا ایشو ہے۔ یہ بات کس قدر حیرت انگیز ہے کہ آج تک عوام کا منتخب کردہ کوئی بھی وزیرِ اعظم اپنی آئینی مدّت پوری نہیں کرسکا۔
یقیناً اس کی ایک بڑی وجہ محلّاتی سازشیں اور غیر آئینی مداخلتیں بھی ہیں، مگر سیاست دانوں پر عاید کیے جانے والے تمام الزامات بھی یک سَر مسترد نہیں کیے جاسکتے۔ ہماری سیاسی قیادت اور تمام ریاستی و حکومتی اداروں کو اُن ممالک سے بہت کچھ سیکھنے کی ضرورت ہے، جہاں پارلیمانی نظام اپنے عوام میں خوشیاں بانٹ رہے ہیں۔اگر ہم کسی مہم سے گھبرائے بغیر اسے خود احتسابی کا موقع سمجھتے ہوئے اپنی کوتاہیوں سے جان چُھڑا لیں، تو پھر کوئی عوام کو کسی بھی نعرے کے پیچھے نہیں لگا پائے گا۔ خواہ وہ صدارتی نظام ہی کا جُھنجھنا کیوں نہ ہو …!!