• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پاکستان کا معاشی سقوط ہو چکا ہے۔ ملک پر مہنگائی، بےروزگاری، کرپشن اور بدترین حکمرانی کے گہرے سائے چھائے ہوئے یں۔ ملکی سیاست، پارلیمنٹ، دفاع اور پوری معیشت کو عالمی ساہوکاروں، عالمی بینکوں، آئی ایم ایف اور فنانشل ایکشن ٹاسک فورس نے اپنے شکنجے میں جکڑ لیا ہے۔ آج ملک کا ہر شہری مشکلات کا شکار ہے، ظالمانہ ٹیکسوں اور ظالمانہ مہنگائی کی وجہ سے تکلیف کا شکار ہے اور کسی انقلاب کا منتظر ہے۔

آمرانہ اور نام نہاد جمہوری حکومتوں کا عوام کے ساتھ ایک سا سلوک ہی رہا ہے۔ پرویز مشرف، مسلم لیگ ن، پیپلز پارٹی اور تحریکِ انصاف کی حکومتوں نے عوام پر مہنگائی اور بےروزگاری کے ایک ہی جیسے ڈونگرے برسائے ہیں۔ سب کا طرزِ حکمرانی اور طریقۂ واردات ایک سا رہا ہے۔ اپنی حکومتوں کو دوام دینے کے لیے انہوں نے ملکی اور عالمی طاقتوں کے ساتھ ساز باز کی۔ پرویز مشرف نے ’’سب سے پہلے پاکستان‘‘، پیپلز پارٹی نے ’’مساوات، روٹی کپڑا اور مکان‘‘، مسلم لیگ نے ’’اقدار اور ترقی‘‘ اور تحریک انصاف نے ’’احتساب اور انصاف‘‘ کے نام پر شہرت تو حاصل کی مگر مساوات آئی نہ اقدار اور نہ احتساب ہوا۔ پیپلز پارٹی اور ن لیگ کے بعد عمران خان کو نجات دہندہ بنا کرپیش کیا گیا لیکن انہوں نے اپنی حکومت مافیاز اور آئی ایم ایف کے حوالے کر دی۔

تحریک انصاف کے اب تک کے دورِ حکومت میں کئی بحران قوم کو لوٹ کر لے گئے۔ مہنگی ادویات کا اسکینڈل، چینی کا بحران، آٹے اور گندم کا بحران، بدترین گورننس کی وجہ سے پیٹرول کا بحران، توانائی کا بحران، ایل این جی اسکینڈل اور نہ جانے اِس جیسے کتنے اور اسکینڈل سامنے آئے لیکن کسی کے کان پر جوں تک نہیں رینگی۔ پانامہ اور پنڈورا پیپرز لیکس میں کئی وفاقی اور صوبائی وزراء سمیت بڑی سیاسی جماعتوں کے رہنماؤں اور اعلیٰ سابق سول اور فوجی افسروں کے نام آئے۔ یہاں تک کہ کووڈ کے فنڈ میں بھی 300ارب روپے کی کرپشن کی خبریں سامنے آئیں۔ لیکن عمران خان نے اِن مافیاز کے خلاف کارروائی کی، نہ بحرانوں کے ذمہ داروں کو قومی احتساب بیورو (نیب ) کے حوالے کیا۔ جو کیس نیب میں چلائے گئے، نیب نے کرپٹ لوگوں کے احتساب کے بجائے انتقام اور میڈیا ٹرائل کا سہارا لیا اور کسی ایک کیس کا فیصلہ تک نہ کر سکا۔

تحریک انصاف کی حکومت کے دورِ قتدار میں پیٹرول اور اشیائے خورونوش کی قیمتوں میں 110فیصد اضافہ ہوا جبکہ 13مرتبہ ادویات کی قیمتوں میں اضافہ ہوا۔ 2019میں پیٹرول کی فی لٹرقیمت 103.69روپے تھی جو اب بڑھ کر 150روپے فی لٹر تک پہنچ چکی ہے۔ ذخیرہ اندوزی اور اسمگلنگ کی وجہ سے کھاد کا بحران پیدا ہوا تو ایک بوری 9500روپے تک پہنچ گئی۔ اسٹیل مل، ریلویز اور پی آئی اے کا خسارہ 234ارب تک پہنچ گیا۔ روپے کی قدر افغانی کرنسی سے بھی کم ہو گئی۔ 2018میں 122.85 روپے کا ایک ڈالر تھا جو اب 177روپے کا ہو گیا ہے۔ قرض لینے کے بجائے خودکشی کو ترجیح دینے والے عمران خان حکومت میں مجموعی قومی قرضہ 56ہزار 350ارب روپے تک پہنچ چکا ہے۔ معاشی عدم استحکام کی وجہ سے اسی دورِ حکومت میں اسٹاک ایکسچینج کریش ہوئی تو حصہ داروںکے 3کھرب 32ارب روپے ڈوب گئے۔

2022کے مِنی بجٹ اور اسٹیٹ بینک کی خود مختاری کے بِل کو منظور ہونے سے روکا جا سکتا تھا مگر اپوزیشن کی بڑی جماعتوں نے عوام کے معاشی قتل اور ریاست کی نظریاتی اور معاشی آزادی کے خاتمے کے وقت حکومت کا ساتھ دیا۔ اُنہوں نے ایسا تعاون ایف اے ٹی ایف (FATF)کے دباؤ پر قانون سازی کے وقت بھی کیا تھا۔ اپوزیشن جماعتیں چاہتیں تو مِنی بجٹ میں سبسڈی اور ٹیکسوں پر چھوٹ کے خاتمے اور اشیائے خورونوش سمیت پیٹرول، بجلی، آٹا اور گھی کی قیمتوں میں اضافے کو روک کر عوام کا ساتھ دے سکتی تھی۔ وہ مہنگائی اور معاشی غلامی کے خلاف راست اقدام بھی اُٹھا سکتی تھی مگر اُس نے صرف سیاسی پوائنٹ اسکورنگ کی کیونکہ اپوزیشن جانتی تھی کہ موجودہ حکومت کے خاتمے کے بعد اُنہیں بھی آئی ایم ایف اور مقتدر قوتوں کی ڈکٹیشن پر ہی چلنا ہے۔

ملک کے اس معاشی سقوط پر ہر طرف سناٹا چھایا ہوا ہے تاہم پی ٹی آئی حکومت میں ایف بی آر کے سابق چیئرمین شبر زیدی نے سلطانی گواہی دی ہے کہ ملک معاشی دیوالیہ (Default)ہو چکا ہے جبکہ موجودہ گورنر پنجاب چوہدری محمد سرور نے برطانیہ جا کر انکشاف کیا کہ آئی ایم ایف کا قرض لینے کے لیے حکومت نے آئی ایم ایف کو سب کچھ لکھ کر دے دیا ہے یعنی ملک گروی رکھ دیا گیا ہے۔ اس خطرناک معاشی سقوط پر بھی بڑی سیاسی جماعتوں نے سیاسی نقار خانے میں آواز بلند نہیں کی۔ صرف جماعت اسلامی پاکستان نے مہنگائی اور آئی ایم ایف کی غلامی سے نجات کے لیے قومی سطح پر احتجاجی تحریک چلانے اور 101دھرنوں کا اعلان کیا اور وفاقی حکومت سے مطالبہ کیا کہ وہ مِنی بجٹ واپس لے۔ آٹا، گھی، پیٹرول اور بجلی کی قیمتوں میں فوری طور پر 50فصد کمی کرے۔ آئی ایم ایف اور ایف اے ٹی ایف کے دباؤ پر کی گئی قانون سازی منسوخ کرے اور سُودی معیشت کے خاتمے کا اعلان کرے۔

ملک کی معاشی آزادی، یکجہتی، سالمیت، خود مختاری اور دفاع کی خاطر اور بدترین مہنگائی اور بے روزگاری کے خلاف اس عوامی جدوجہد میں اگر بڑی سیاسی جماعتیں، نوجوان، خواتین، طلبہ و طالبات، دانشور، صحافی، اساتذہ، مزدور، صنعتکار، کارخانہ دار، کسان، دکاندار، ڈاکٹر، انجینئر اور تاجر بھی دل و جان سے شامل ہو گئے تو حکومت کو مطالبات منظور کرنے یا مستعفی ہونے میں سے کسی ایک کا انتخاب کرنا پڑے گا۔

تازہ ترین