ثمرین مسعود
چاچو کا فون مسلسل بج رہا تھا۔وہ واش رُوم سے نکل کر تیزی سے فون کی طرف لپکے ،جانے کیوں فون سُنتےہی ان کے چہرے کا رنگ اُڑ گیا ، منہ سے الفاظ نہیں نکل رہے تھے، بہتے آنسوؤں کے ساتھ وہ خود بھی نیچے بیٹھتے چلے گئے۔
دانین گُل یہ ساری صورتِ حال سمجھ پاتی، اس سے قبل سڑک سے چیخنے چلّانے کی آوازیں آنے لگیں، جنہیں سُن کر اس کا 4سالہ چھوٹا بھائی اور 6سالہ بہن خوف زدہ ہو کر اس سے لپٹ گئے۔ دانین گل نےڈرتے ڈرتے بمشکل گیٹ کھولا ، توسامنے جومنظر تھا،وہ کسی قیامت سے کم نہ تھاکہ اس کے بابا، جنہیں صبح مسکراتے چہرے کے ساتھ رخصت کیا تھا، لاش کی صورت چار کاندھوں پرسوار تھے ۔ یہی نہیں، اس کے بابا کے علاوہ محلّے کے دو اورلوگوں کی لاشیں بھی تھیں۔سوکھے پتّے کی طرح لرزتی دانین گُل یہ دیکھ کر جیسے سکتے میں آگئی …
اکتوبر 2021ء: سردیوں کی ایک خُوب صُورت دوپہر حیدرپورہ گورنمنٹ کالج کا لان زرد اور نارنجی پتّوں سے ڈھکا خزاں کا حسین عروج دکھا رہا تھا، چنار کے درختوں سے گِھرا یہ کالج کسی جنّت نظیر وادی سے کم دل کش نہ تھا۔ یہاں موسم کے بدلتے رنگ ہر سُو صاف دِکھائی دیتے تھے۔ دانین گُل چھوٹے چھوٹے قدم بڑھاتی مین گیٹ کی طرف بڑھ رہی تھی۔
اس کی عزیز سہیلی، گوہر جہاں آج بنا بتائے غائب تھی، تودانین کو اس طرح اکیلے گھرجاتے ہوئے سخت کوفت ہورہی تھی۔ وہ دل ہی دل میں اسےصلواتیں سُناتی ابھی مرکزی دروازے سے باہر نکلنے ہی لگی تھی کہ کوئی بڑی عجلت میں اندر داخل ہوا، جب دانین گُل نے نظر اٹھا کر دیکھا تو بھارتی پولیس کےیونی فارم میں ملبوس وہ شخص اُسی کی طرف دیکھ رہا تھا۔
نظر ملتے ہی دانین کو اِک جھرجھری سی آئی۔ پولیس والے کی گھناؤنی نظریں اور کرخت چہرہ اس کی طرف متوجّہ تھا۔ دانین نے تیزی سے اپنے قدم بڑھائے اور گیٹ سے باہر نکل گئی۔ وہ سڑک پر تیزی سے قدم بڑھاتی گھر کی جانب رواں تھی، 15 منٹ کی واک آج اسے صدیوں کا سفر لگ رہی تھی۔ ابھی چند قدم ہی آگے بڑھی تھی کہ اپنے پیچھے کوئی آتا محسوس ہوا۔ کن انکھیوں سے دیکھا تو وہی پولیس اہل کار تھا۔
دانین گُل کی تو جیسے جان حلق میں آگئی، ایک تو وہ آج ویسے ہی اکیلی تھی، اوپر سے یہ مصیبت… ’’دانین گُل رُکو!‘‘ پولیس والے کے منہ سے اپنا نام سُن کر تو جیسے اس کے رونگٹے کھڑے ہوگئے اور قدم وہیں جم گئے، پلٹ کے دیکھا تو اُس کا ایک رجسٹر اُس کے ہاتھ میں تھا، جو شاید عجلت میں گر گیا تھا۔ دانین نے ہاتھ بڑھا کر جلدی سے رجسٹر لیا اور بِنا پیچھے مُڑے کانپتے دل کے ساتھ قریباً دَوڑ لگا دی۔
اگلے دن دانین نے بغیر بتائے چُھٹی کرنے پر گوہر جہاں کی خوب کلاس لی اور پھر روتے روتے ساری کتھا کہہ سُنائی۔ گوہر جہاں بھی ان متاثرین میں سے ایک تھی، جن کے پیارے بھارتی ظلم و ستم کا شکار ہوئے تھے۔اُس کا جواں سال بھائی بھارتی ’’پولیس گردی‘‘ کا شکار ہوچُکا تھا، پیلٹ گن کے فائر سے اس کے بھائی کی کمر چھلنی کی گئی تھی اور ایک سال کا عرصہ گزرنے کے با وجود اُس کے زخم بھرنے کا نام نہیں لے رہے تھے۔
چُھٹی کے وقت دونوں سہیلیاں سہمے دل کے ساتھ گھر کی طرف چل پڑیں۔ ابھی کچھ فاصلہ ہی طے کیا تھا کہ ایک موڑ پر پولیس کی گاڑی کھڑی نظر آئی۔ یہاں یہ سب معمول کا حصّہ تھا، اس لیے وہ پولیس موبائل نظر انداز کرتی آگے بڑھ گئیں۔ اتنے میں وہی گھناؤنی نظروں والا پولیس اہل کار گاڑی کے پیچھے سے نکل کر اُن کے رستے میں آکھڑا ہوا۔
دانین گُل تو اسے دیکھتے ہی جیسے سناٹے میں آگئی اور گوہر کا ہاتھ مضبوطی سے تھام لیا۔ وہ دانین کی گھبراہٹ سے محظوظ ہوتا ہوابڑے قبیح انداز سے مُسکرایا اور یک دَم آگے بڑھ کر بولا ’’کیا ہوا دانین گُل… ڈر گئیں؟ڈرو نہیں، تم پر تو میرا دل آگیا ہے، کچھ نہیں کہوں گا تمہیں۔‘‘ دانین نے آگے بڑھنے کے لیے تیزی سے قدم بڑھائے، تواُس کمینے نے اس کا ہاتھ پکڑ لیا۔
اس حرکت پر دانین نے اپنا ہاتھ کھینچ کر چُھڑاتے ہوئے غصّے اور گھبراہٹ کی سی کیفیت میں اُس کے منہ پر ایک زور دار تھپّڑ جڑ دیا۔ جانے اُس سولہ، سترہ سالہ لڑکی میں اتنی ہمّت کہاں سے آگئی تھی کہ تھی تووہ کشمیری ناں۔ اور جرأت و بہادری تو کشمیریوں کی رگوں میں لہو بن کر دَوڑتی ہے۔ مگر…پولیس اہل کارنے گال پر ہاتھ رکھ کرنہایت نفرت انگیز لہجے میں کہا ’’تمہیں جلد اس تھپّڑ کا جواب مل جائے گا۔ آرام سے مان جاتیں، تو فائدے میں رہتیں۔‘‘ دانین گُل اور گوہر بھاگتی، لڑکھڑاتی اپنے گھروں کو پہنچیں۔دوسرے دن ان دونوں کی کالج جانے کی ہمّت نہ ہوئی۔
دانین نے اپنے بابا سے طبیعت کی خرابی کا بہانہ بنادیا اور بابا، جو ماں کے مرنے کے بعد اس کی کُل کائنات تھے، مُسکراتے ہوئے اس کے سر پہ شفقت سے ہاتھ پھیر کر کام پر جانے کے لیے نکل گئے۔ وہ بھی دن بھر گھر کے کاموں میں مصروف رہی اور اب رات کو بابا کی واپسی کی منتظر تھی کہ وہ منحوس ناگہانی گھڑی آن پہنچی…لوگ چیخ چِلّا رہے تھے ،بھارتی پولیس نے اِک بار پھر ظلم کا پہاڑ توڑا تھا۔ نہ صرف دانین کے والد بلکہ عینی شاہدین کو بھی شہید کر دیا گیا تھا۔ اور… دانین کے کانوں میں اُس شخص کی منحوس، کرخت آواز گونج رہی تھی ’’اس تھپّڑ کا جواب تمہیںجلد مل جائے گا‘‘۔
آج ساتواں دن تھا۔ دانین اور اس جیسے بہت سے مظلوم کشمیری میڈیا سیل کے سامنے خود پر ہونے والے ظلم کی داستانیں لیے دھرنا دئیے بیٹھے تھے۔ ان سب کے اپنے ’’انسدادِ دہشت گردی آپریشن ‘‘کے نام پر شہید کیے جا چُکے تھے۔ پیلٹ گنز کا آزادانہ استعمال جانے کتنے لوگوں، بشمول بچّوں کی بینائی چھین چُکا تھا، تو لاتعداد لوگ لاپتا تھے۔
اپنوں کی تصویریں اور پلے کارڈز اٹھائے یہ لوگ جانے کن شمشیروں کے زنگ اُتروانا چاہتے تھے، ان کے پُرجوش نعرے فضاؤں میں گونج رہے تھے، میڈیا کے آگے روتے بلکتے یہ کشمیری جانے کس جہاں کے لوگوں سے مخاطب تھے کہ او آئی سی اجلاسوں میں اونچے منصبوں پہ بیٹھے لوگوں تک تو ان کی آوازیں پہنچتی ہی نہیں۔
سالہا سال سے یہ جنّت نظیر وادی اپنے ہی باسیوں کے بہائے جانے والے خونِ ناحق کی گواہ ہے، پر کہیں کوئی سنوائی نہیں ہو رہی۔ دوسری جانب مسلّح بھارتی پولیس مظاہرین پر نگاہیں جمائے کھڑی تھی کہ کب آرڈر ملے اور وہ ان نہتّے لوگوں کو بھی دبوچ کر اُن کی اٹھتی آوازیں ہمیشہ کے لیے دبا دے۔